Akhri Sipahi Written By HaaDi khan
#افسانہ
#آخری_سپاہی
#بقلم_ہادی_خان
*******
*******
*******
وہ دسمبر کی ٹھٹھرتی ٹھنڈ تھی،،
ٹھنڈ کراچی کی نہ تھی نہ ہی لاہور کی تھی بلکہ بلتستان کی تھی جہاں ہر منظر دھند کی
شدید لپیٹ میں ہوتا تھا....موسم ہر دم سرد اور خون جما دینے والا ہوتا تھا...زین اپنے
چار ساتھیوں کے ہمراہ یہاں آیا تھا...پہاڑ پر چڑھتے وہ ہنسی مزاق کرتے رہے تاکہ کوئی
اکتا نہ جائے اور باتوں باتوں میں سخت راستے اور شدید موسم کا پتا نہ چلے....فہیم جیسے
ملنگ ہی گھر سے میلوں دور اس ویرانے میں ماحول بنائے رکھتے ہیں اور اپنی دلچسپ گفتگو
سے اپنی پہچان آپ ہوتے ہیں...یہی وہ خوش گپیاں ہیں جو دل بہلائے رکھتی ہیں جن سے گھر
کی یاد کچھ دیر کو دل سے نکل سی جاتی ہے....فہیم نے سگریٹ جلایا ایک وہی تھا جس نے
یہ شوق پالا ہوا تھا..وہ خود بھی اس ناسور کے خلاف تھا اور ایسی ایسی دل موہ لینے والی
باتیں کرتا اور سیگرٹ کے نقصانات بتانے لگے تو یوں معلوم ہوتا کہ اس جتنا پرہیزگار
تو کوئی نہیں مگر عادت سے مجبور ہونے کے باعث اسے سگریٹ کی لت لگ چکی تھی...جو نقصان
سگریٹ کے اسے سب کے لیئے نظر آتے تھے وہ شائد خود کے لیئے نہیں دکھائی دیتے تھے...شائد
نہیں یقیناً اس کے کان خود کی آواز سننے سے کان قاصر ہوں گے تب ہی اسے اپنے لیئے سگریٹ
نقصان دہ نہ لگتی تھی..بقول اس کے سگریٹ ٹھنڈ کو مات دیتا ہے....اور وہ مجبوری کے تحت
پیتا ہے...زین اپنے تسمے باندھنے کو نیچے جھکا...سیاچن سطح سمندر سے قریب اٹھارہ سو
اسی فٹ بلند و بالا پہاڑی سلسلہ میں واقع ہے....کسی نے اپنے بچوں کی گمشدگی کا بتایا
تو وہ اس طرف چل پڑے...
عام معمول کے خلاف وہ گشت کرتے
ہوئے اس مقام کی جانب گامزن تھے.... اس شخص کے مطابق وہاں کچھ غیر ضروری نقل و حرکت
دیکھی گئی تھی جس کے سبب انہوں نے ان سے گزارش کی مگر جب یہ پانچ فوجی وہاں پہنچے تو
برف کی سفیدی اور دھند کے سوائے وہاں کچھ بھی نہیں تھا...وہ اس متعجب سے برفیلے منظر
کے استقبال کے لیئے پہلے سے تیار تھے...تین لوگ جیسے ہی پہاڑ پر ظاہر ہوئے تھے کہ برف
میں موجود نامعلوم افراد نے فائرنگ کردی....فائرنگ تین اطراف سے کی گئی وہ اس حملے
کیلئے بالکل تیار نہیں تھے جس کے نتیجے میں تین جانیں قربان ہوگئیں تھیں...شہادت کا
لہو برف پر سرخ ٹوٹے ہوئے پھول کی پتیوں کی مانند بکھر سا گیا تھا..ان تینوں کے عین
عقب میں طلحہ تھا اسے بھی گولیاں لگی تھیں...وہ دونوں ایک بڑے تودے کے پیچھے آکر چھپ
گئے تھے جب کہ باقی کے تین وہیں گولیاں لگنے سے شہادت کے رتبے پر فائز ہوچکے تھے...اب
بس دو ہی سپاہی باقی رہے تھے...حملہ آوروں نے شلوار قمیض کے اوپر خاص قسم کی جیکٹس
پہن رکھی تھیں جو انہیں ٹھنڈ سے آسانی سے بچا سکتی تھی...ان کے پاس نئے دور کے اے-کے
47 ہونے کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنا مشکل تھا طلحہ کو بمشکل زین نے سنبھالا کیونکہ
ایک گولی اس کے بائیں بازو میں لگی تھی زین نے اسے سہارا دیا اور تھوڑا آگے لے جاکر
بڑے سے تودے کے پیچھے ٹیک لگوادی اور خود کو اسکے ساتھ برف پر گھسیٹتے ہوئے جیسے تیسے
نیچے اترتا گیا...
"تم یہاں سنبھالو میں پیچھے
سے فائر کروں گا اور وہ اس طرف کو بھاگیں گے تم ان کو نشانہ بنانا..."زین نے سارا
لائحہ عمل ایک منٹ میں ترتیب دیا...
"لیکن وہ کتنے ہیں...."طلحہ
درد کی وجہ سے بمشکل بولا..
"میرے خیال میں وہ پانچ افراد
ہیں..."زین اسکے زخمی ہاتھ پر اپنا رومال باندھ رہا تھا...
"اگر زیادہ ہوئے تو..."طلحہ
نے تشویش کا اظہار کیا..
"زین تو واپس چلا جا اور بیک
اپ کے ساتھ آنا تب تک میں سنبھالتا ہوں..."
"نہیں یار میں بدلہ لیئے بغیر
واپس نہیں جاسکتا...میرا ضمیر اجازت نہیں دیتا یہاں شہید ہوجاؤں گا لیکن میں واپس بھاگنے
والا نہیں..."زین کے حوصلے پختہ تھے...
"میں بھاگنے کو نہیں کہہ رہا
بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ تم جذباتی فیصلہ نہ لو عقل استعمال کرو اور اپنے ساتھ اور جوانوں
کو بھی ساتھ لاؤ..."طلحہ نے درد میں متفکر ہوکر کہا...
"نہیں ہم دونوں ہی کافی ہیں
ان کے لئیے..."زین نے اسے یقین دلایا...
"اگر تمہیں بھی کچھ ہوگیا
یا وہ افراد زیادہ تعداد میں ہوئے تو..."اس نے پھر اپنا خدشہ ظاہر کیا...
اس ساری گفتگو کے دوران زین نے
طلحہ کے ہاتھ پر کس کے رومال باندھ دیا تھا...
"ہمارے سر پر تو ہمیشہ سے
کفن بندھا رہتا ہے اور مایوسی آرمی میں ہوتی نہیں...."زین شوخ لہجے میں گویا ہوا...
"میں مایوسی کی بات نہیں کررہا..."طلحہ
نے شکست خوردہ ہوکر کہا...
"تو بس اللہ پر بھروسہ رکھو
جو رات قبر میں گزارنی ہوئی وہ رات ہم باہر نہیں گزار سکتے..."زین نے مسکرا کر
کہا اور نیچے اتر کر پورے پہاڑ کا چکر لگانے لگا اور اس ٹھنڈ میں چھائی خنکی میں راستہ
تلاش کرنے لگا....
زین کو خصوصی طور پر ایسے حالات
کے پیشِ نظر ٹرین کیا گیا تھا نہ جانے کیسی محبت ہے جو خون جما دینے والی برف میں بھی
انسان کو قناعت گزیں بنا دیتی ہے....
کیسے ایک سپاہی اپنی جان قربان
کردیتا ہے اس محبت کے جذبے کو دشمن کیا جانے....
وہ تقریباً گھوم کر دوسری طرف پہنچ
گیا تھا، برف میں اسکے سفید کپڑے کسی تودے کا سا منظر پیش کر رہے تھے....
اس نے وہیں بےحس و حرکت ہو کر انکی
باتوں پر کان دھرے...
"ابھی دو باقی ہیں چلو ان
کا بھی کام تمام کردیں..." ایک نے اپنی بندوق ہوا میں لہرا کر کہا...
وہ پانچوں اٹھ کر باہر چلے گئے،
اس سرنگ میں روشنی لگی تھی...
زین کو اندر جانے کا تجسس ہوا...وہ
بنا خوف کے اندر بڑھا جہاں سرنگ میں آگے تین راستے بنے ہوئے تھے....
ایک میں روشنی سی محسوس ہوئی جس
کے ذریعے اسے وہاں ۳ چارپائیاں پڑی نظر آئیں ،وہاں ایک چارپائی پر کچھ نقشے اور پسٹل
پڑا تھا....
اس نے پسٹل اٹھا کر اپنی پینٹ کی
بیلٹ میں اڑیس لیا اور دوسری سرنگ کی طرف بڑھا جہاں کھانے پینے کا سامان تھا وہ سب
دیکھ کر اسے بھوک سی محسوس ہوئی تو اس نے کچھ سامان اپنی جیب میں ڈالا....
اب اس کا رخ تیسری سرنگ کی جانب
تھا جہاں وہ ڈر کر قدم بڑھا رہا تھا....
جب وہ اندر داخل ہوا تو دو بچے
ایک ہی رسی کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ان کے منہ بھی بےدردی سے کپڑے سے بندھے تھے...اس
جان لیوا ٹھنڈ میں بھی ان کے جسموں پر صرف روائیتی کشمیری لباس تھا جس پر کوئی سوئیٹر
اور کوئی شال وغیرہ کچھ بھی نہ تھا...زین نے فورا سے پہلے اپنی بندوق رکھی اور دونوں
کو اس کَسی ہوئی رسی کی قید سے آزاد کیا جو انکی رگوں کے خون کو جمائے ہوئے تھی...وہ
بچہ اور بچی جو ٹوٹے ہوئے پتوں کی مانند زرد پڑے تھے مگر زمین کی مٹی نے دونوں کا سفید
چہرہ بھورا کیا ہوا تھا دونوں ہی سہمے ہوئے تھے۔۔۔آنسوں نے ان گرد آلودہ چہروں پر ایک
عجب سا نقش بنا دیا...
"دیکھو میں آرمی والا ہوں
اور تم دونوں کو تمہارے گھر لے جاؤں گا..."زین نے ان دونوں کو تسلی دی اور ان
کو لے کر وہاں سے باہر نکلا....
باہر وہ ہی دھند سی چھائی تھی اور
اندر کے مقابل باہر کی ٹھنڈی ہوائیں کچھ زیادہ سرد تھی...پھر زین کو اچانک یاد آیا
کہ وہ پیچھے طلحہ کو چھوڑ کر آیا ہے تو وہ پہاڑ کے اوپر چڑھا دونوں بچے اس کے پیچھے
پیچھے چلنے لگے...اس نے چھپ کر دیکھا تو ان میں سے دو طلحہ کو کھینچ کر لارہے تھے...
"یہ تو پہلے ہی مر گیا ہے
آغا جان... "ان میں سے ایک نے بڑے گھنے بالوں اور بڑی بڑی مونچھوں والے ایک شخص
کو مخاطب کیا....اس ایک کا ان سب میں سے ایک کو مخاطب کرنے سے معلوم پڑتا ہے کہ وہ
ان سب کا سربراہ تھا...
"ڈرپوک بزدل یہ کریں گے مقابلہ
ہمارا؟" اس آغا نامی شخص نے تنفر سے کہہ کر طلحہ کے جسد خاکی پر تھوکا...زین کو
بے اختیار طلحہ سے وہ آخری ملاقات یاد آئی تو اس کی آنکھوں کی نمی اس کے گال تک کا
سفر کرنے لگی...
وہ نمی آنسو کی شکل نہ تھی بلکہ
سیلاب کی مانند لہردرلہر بہہ رہی تھی...ٹھنڈ سے کانپتی بچی جو کہ برف پر لیٹی لیٹی
ٹھنڈی ہورہی تھی چھینک اٹھی...ان پانچوں نے بیک وقت ایک ساتھ اس طرف دیکھا... زین نے
دونوں بچوں کو اٹھایا اور اپنی بغلوں میں دبا کر بھاگا...
"پکڑو اس خبیث کے بچے کو..."
وہ سب اس کی جانب ٹوٹ کر لپکے....
زین کے سامنے کوئی درخت کوئی جھاڑی
یا پناہ گاہ نہ تھی اسے اپنے پیچھے موت آتی نظر آرہی تھی اگر وہ دونوں بچے نہ ہوتے
تو وہ ان پانچ میں سے دو کو مار کر کم از کم اپنے ساتھیوں کا بدلہ وہیں کے وہیں ضرور
لیتا،وہ کسی فلم کا ہیرو نہیں تھا کہ ایک ہی گن سے سب کی گردنیں اڑا دے اور کسی کی
گولی اس کو چھو کر بھی نہ گزرے...زین نے ان نازک حالات میں بھی انتہائی سمجھداری سے
کام لیا اور بھاگتا بھاگتا پہاڑ کے دامن میں بنے تنگ سے کھڈے میں جا بیٹھا...وہ سرنگ
نہیں تھی اگر وہاں ان کا سر چھپا ہوا تھا تو پاؤں بامشکل ہی اس میں آرہے تھے...بچے
سردی سے کانپ رہے تھے زین نے اپنے اوپر پہنا بڑا سا کوٹ اتار کر اس بچی کو پہنادیا
اور اس کے نیچے پہنی آرمی کی مخصوص جیکٹ بھی اتاری اور اس آٹھ یا نو سال کے بچے کو
پہنا دی....گھٹنوں کو سمیٹ کر دونوں بچے اس طرح بیٹھے تھے کہ زین کی شرٹ اور کوٹ ان
کے ٹخنوں تک پورا پورا تھا...خود وہ ایک ہائی نیک اور آرمی کی ٹی شرٹ میں رہ گیا تھا،
اب سردی سے اس کے دانت بجنے لگے...
فریج میں منفی ۱ ڈگری سینٹی گریڈ
پر برف جمتی ہے منفی ۲ ڈگری سینٹی گریڈ پر انسانی خون جمنا شروع ہوجاتا ہے لیکن سیاہ
چن کا درجہ حرارت منفی ۱۳ ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے...
"سب ادھر ادھر ڈھونڈو کہیں
بھاگ نہ جائے...." اس نے آغا کی آواز سن کر دونوں بچوں کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا...تھوڑی
دیر بعد سناٹا ہوا تو اسے یاد آیا کہ اس نے اپنی جیب میں کچھ کھانے پینے کا سامان ڈالا
تھا...اس نے ہاتھ ڈال کر پینٹ کی جیب سے بن اور کچھ پیکٹ پکوان نکالے جو سب کچھ بری
طرح پس چکنے کے ساتھ برف کی مانند ٹھنڈے پڑے تھے مگر بھوک مٹانے کو غنیمت ہی تھے...
اس نے وہ کھانا ان دونوں کو دے
دیا...
"تم دونوں یہیں بیٹھو میں
آتا ہوں کچھ دیر تک اور باہر سے میں اسے برف سے ڈھک دوں گا.. یہاں سے باہر تب تک مت
نکلنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤ، اگر میں بہت دیر تک نہ آیا تو میرا انتظار کرنے کی
بجاۓ تم رات کو اپنے گاؤں کی طرف نکل
جانا..."زین نے اچھی طرح بچوں کو تمام ہدایات دیں وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتے
رہے...
وہ سرنگ کے باہر نکل گیا، وہ اب
سرنگ کے داخلی راستے میں برف اٹھا اٹھا کر اس طرح سے پھینکنے لگا کہ یہاں سرنگ کی موجودگی
کے کوئی آثار ہی نہ رہیں اور ایسا لگے جیسے وہ برف آسمان سے ایسے ہی گری تھی...
زین کو یاد آیا اس نے ایک پسٹل
بھی وہاں سے اٹھائی تھی..اس نے اپنے سر پر پہنی وہ موٹی سی گرم ٹوپی اترا کر اس میں
چاکو سے چھوٹا سا سوراخ کیا اور اسے پسٹل پرچڑھا دیا...
بس اسکی نالی کو سامنے سے ظاہر
کیا تھا...
ایک طرف سے پاؤں کی چاپ سنائے
دی برف پر بڑے بوٹوں کی چاپ ہی بالکل الگ تھلگ سی ہوتی ہے...زین فوراً برف پر لیٹ گیا
اور اپنے اوپر برف اڑادی...
وہ شخص اکیلا تھا اور اس نے ہاتھ
میں اے-کے 47 پکڑی ہوئی تھی اگر وہ زین کو دیکھ لیتا تو اس کے پاس ایک لمحہ بھی نہ
رہتا جوابی حملہ کرنے کا یا بھاگنے کا کیونکہ یہ ممکن ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک
ساتھ تیس کی تیس گولیوں سے بچ پائے وہ بھی مسلسل چلنے والی...
اسے یہ بھی پتا تھا کہ وہ بچے اس
قدر سہمے ہوئے ہیں کہ اگر وہ واپس نہ گیا تو وہیں برف میں دبے دبے مر جائیں گے مگر
باہر نہیں نکلیں گے...اس نے پوری قوت سے اس شخص کے پیروں کو پیچھے کی جانب کھینچا،
وہ چونکہ اس اچانک حملے کیلئے تیار نہیں تھا تو جھٹکا کھا کر منہ کے بل زمین پر جا
گرا...
زین نے اپنی پسٹل اس کے دل کے مقام
پر رکھی اور اندر کی جانب زور سے دبانے لگا جب کہ دوسرے ہاتھ سے اس کے منہ اور ناک
کو دبایا ہوا تھا....اس کا بندوق والا ہاتھ زین نے اپنے گُھٹنے کے نیچے دبا دیا...دونوں
جگہ برابر کا زور لگنے سے اس میں اتنی سکت نہ بچی تھی کے وہ جوابی کاروائی کر پاتا
وہ بس اپنے پاؤں کو ہلائے جارہا تھا...زین نے کسی قسم کی تاخیر کیے بنا گولی چلا دی
اس کے منہ سے خون ابال کھاتا فوارے کی طرح نکلا مگر زین کے ہاتھ کے دباؤ نے اس کے منہ
سے نکلنے والی کراہوں کے ساتھ خون کی رفتار کا بھی دم توڑ دیا...
زین نے بِنا وقت ضائع کیے اس لاش
کو وہیں برف میں چھپایا اور خون کے اوپر بھی بہت ساری برف ڈال دی تاکہ کسی کو کوئی
شک نہ گزرے...برف میں چھپے رہنے سے اس کے اپنے جسم کا درجہ حرارت کافی بڑھا ہوا تھا
جس کے نتیجے میں برف پگھل کر پانی ہوگئی اور اور اس کا جسم پانی سے شرابور اور کپڑے
گیلے ہوچکے تھے...اب صرف چار لوگ بچے تھے...اس کے بوٹ اسی طرح کے برفانی علاقوں کیلئے
بنے تھے وہ احتیاط سے چلتا ہوا دوبارہ اسی جگہ جانے لگا جہاں بچوں کو چھوڑا تھا...
برف اب کافی مقدار میں برس رہی تھی وہ بالکل بھی نہیں پہچان سکا تھا کہ اس نے کہاں
ان بچوں کو رکھا تھا، پھر ایک جانب اس نے اپنے بوٹوں کے ہلکے ہلکے نشان پائے...اس کا
جسم کانپ رہا تھا پھر اسے یاد آیا کہ اوپر جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جارہا تھا تو
فہیم نے سیگریٹ جلایا تھا جب وہ تسمے باندھنے بیٹھا تو اسے فہیم کا لائٹر ملا تب وہ
لائٹر اس نے فہیم کو واپس دینے کیلئے اٹھایا تھا...
"و..وہ لائٹر..."اس نے
بے اختیار کہا
پینٹ کی جیبوں کو ٹٹولنے پر پچھلی
جانب کی جیب سے برآمد ہوا تو اس کی آنکھیں چمک سی گئیں...
"آگ جلا لوں..."وہ خود
سے کہنے لگا
"مگر اس کا دھواں...نہیں نہیں
میں یہ بیوقوفی نہیں کر سکتا..."
وہ اپنے ساتھیوں کا بدلہ لیئے بنا
اور ان دشمنوں کو جہنم واصل کئے بنا نہیں جاسکتا تھا مگر وہ بچے جن کی حفاظت اب اس
کا فرض تھا وہ اس فرض کو بھی فراموش نہیں کر سکتا تھا...اس کا زندہ رہنا بےحد ضروری
تھا... اسے ایک ایک قدم بہت مشکل سے اور پھونک پھونک کر اٹھانے تھے..
"تم دونوں کہاں سے ہو بیٹا..."زین
نے ان سے پوچھا جو ایک دوسرے سے جڑ کر کونے میں بیٹھے تھے...کچھ دیر دونوں ایک دوسرے
کو تکتے رہے...
"ہمارا نام حمزہ ہے اور یہ
ہمارا چھوٹا بہن عائشہ ہے..." وہ بچہ محفوظ سا ہو کر پر اعتمادی سے بولا...
"تم دونوں یہاں کیسے آئے..."وہ
تفتیش کرنے کے انداز میں بولا...
"لاله زموږ لپاره پکانڑے راوړو..."وہ
بچی بولی...
"پکانڑے؟ یہ کیا ہوتا ہے؟؟؟"
زین سوچ میں پڑ گیا...
"اڑنے والا غبارہ..."حمزہ
نے اسے پشتو کے لفظ کا اردو میں مطلب سمچھایا...
"تم پٹھان ہو...؟" زین
نے بے اختیار کہا..
"ہاں ام پٹھان ہیں اور یہاں
پاس گاؤں میں رہتا ہے..."حمزہ نے تصدیق کی...
"پھر یہاں کیسے آیا..."
اس کے بات کرنے کے انداز سے زین کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تو وہ بھی اسی کے انداز
میں جواباً بولا...
"وہ میرا بہن کا ہاتھ سے وہ
غبارہ چھوٹ گیا یہ رونے لگ گئی تو میں اس کو پکڑنے اس کے پیچھے گیا تو وہاں ام دونوں
کو پکڑ کر ان پستول والا نے رسی کے ساتھ باندھ دیا..."وہ سہما سہما اپنی آپ بیتی
سنا رہا تھا...
"ڈرو نہیں اب میں خود تم دونوں
کو واپس چھوڑ کر آؤں گا..."زین نے ان کو حوصلہ دیتے خود سے عزم باندھا...
وہ کچھ دیر بعد وہی ہدایات پھر
سے ان کو دے کر باہر نکلا اور برف اڑانے لگا کہ کسی دشمن کو یہاں کسی ذی روح کی موجودگی
کی بھنک بھی نہ پڑے...سرنگ کو پہلے کی طرح بند کر کے وہ پہاڑ کے اوپر کی جانب جانے
لگا جہاں سے دو لوگ آرہے تھے اس نے جلدی سے اندر کو دھنسی تھوڑی سے جگہ میں خود کو
چھپادیا...
پہاڑ کی گولائی اور ترچھے زاویے
کی وجہ ان دونوں کی نظر زین پر نہ پڑ سکی...ان کے قدم اب نیچے کی جانب اٹھنے لگے تو
وہ ٹھٹھک گیا کہیں بچوں تک رسائی نہ حاصل کرلیں، وہ بچتا بچاتا ان کے پیچھے پیچھےنیچے
جارہا تھا..دونوں بچے سرنگ سے باہر نکل آئےاور ان دونوں مسلح افراد نے اپنی بندوقیں
بچوں پر تانی ہوئی تھیں..زین کا ہاتھ بے اختیار اپنی گن پر مضبوط ہوا اور پیچھے سے
ان پر فائرنگ کردی، حمزہ اور عائشہ نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے...دونوں دہشت گرد
پلٹتے پلٹتے زمین پر ڈھیر ہوگئے تھے مگر جو آواز زین کی بندوق سے نکلی وہ گونجتی ہوئی
باقی کے دونوں نے سن لی...
پہاڑ کی چوٹی سے آخری دو افراد
نے اندھادھند فائرنگ کردی...زین نے جوابی فائرنگ کرنے کی بجائے دونوں بچوں کا سوچا
اور ان کو بازوؤں میں اٹھایا اور بھاگنا شروع کردیا سامنے موٹے تنے والا درخت تھا...وہ
کچھ لمحے سانس بحال کرنے کو وہاں رکا اور وہیں بیٹھتا گیا وہ گولیوں کی رینج سے بچ
نکلا تھا اور اب اس نے بچوں کو ان کے گاؤں کی طرف بڑھا دیا تھا....
وہ برف جس پر زین ٹیک لگا کر بیٹھا
تھا وہ لال ہو چکی تھی کیونکہ بھاگتے ہوئے اسے کافی زیادہ گولیاں کمر پر لگ چکی تھیں...ٹھنڈ
کی شدت کی وجہ سے زیادہ خون نہ بہا تھا.. وہ ٹھنڈ کوئی عام ٹھنڈ نہ تھی بلکہ خون جمانے
والی ٹھنڈ تھی..
اس نے ایک طرف چہرہ نکال کر دیکھا
تو وہ دونوں پہاڑ سے اتر رہے تھے، اس نے اندھادھند ان پر فائرنگ شروع کردی جس سے ایک
تو وہیں گر کر مردار ہوگیا مگر ایک سردار باقی رہا جو ادھر تودے کے پیچھے چھپ گیا...وہ
دہشت گرد وہاں سے وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا رہا اور زین یہاں سے کرتا رہا اور ساتھ
ساتھ اس کی نظر پہاڑ سے نیچے جاتے بچوں پر بھی تھی...دونوں بچے اپنے گاؤں تک پہنچ گئے...
"زین نے اس آخری دہشت گرد
کو مارا تھا کہ نہیں...؟"
"ہاں وہ آخری دہشت گرد بھی
مر گیا تھا اور ام لوگ جب وہاں آرمی والوں کے ساتھ گئے تو زین شہید ہوچکا تھا..."حمزہ
نے کہا...
"آپ کی کہانی میں کتنی سچائی
ہے..."مائیک پھر اس جانب ہوا تھا...
"بی بی اس کہانی کی سچائی
آپ کے سامنے بیٹھی ہے..."حمزہ نے مسکرا کر کہا
"ہم دعا کرتے ہیں بطورِ آرمی
کپٹین آپکی یہ پہلی کتاب ہے...یہ کتاب سب لوگ پڑھیں..." انٹرویو لینے والی لڑکی
نے انٹرویو کے بعد اختتامی رسمی چند جملے بولے اور کیمرہ بند کروادیا...
حمزہ اٹھا اور اس نے ایک کتاب انٹرویو
والی لڑکی کو بھی تھمائی جس پر لکھا تھا "جب تک آخری سپاہی بھی اس ملک کے دفاع
کے لئیے زندہ ہے تب تک یہ ملک کبھی کوئی نہیں لے سکتا وہاں پہاڑوں میں ہونے والی جنگیں
ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتیں ہر شخص اس ملک کا آخری سپاہی ہے اس سلسلے کو رکنے نہ
دینا"
آٹو گراف میں لکھا گیا یہ میسج
اخبار میں بھی شائع ہوا جس کے نیچے "کپٹین حمزہ خان" کے دستخط تھے...
*******
*******
*******
(ختم شد)