Dhoka Written By Shahnaz Awan
#دھوکہ.
#از_قلم_شہناز_اعوان.
دھوکہ سنے میں بہت ہی چھوٹا لفظ ہے لکین اس سے ملنےوالا درد انسان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دیتا ہے. آج کل ہم معاشرے میں اکثر لوگوں کو کہتے سنتے ہیں اس نے مجھےدھوکہ دیا اس نے اچھا نہیں کیا مجھے دھوکہ دے کہ لیکن بعض دفعہ انسان خود کو بھی دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اس بات کا احساس اسے تب ہوتا ہے جب وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے کڑوی یادیں دے کر کبھی نہ لوٹ نے کے لئیے تب انسان کے پاس خود کو کوس نے اور پچھتاوۓ کےعلاوہ کچھ نہیں ہوتا.شایدآپ کو پڑھ نے میں یہ کہانی لگے, لیکن کہانیاں معاشرے کے حالات پر لکھی جاتی ہے. یہ کہانی آنیا اور ابل کی ہے. ابل اور آنیا دونوں ہم جماعت ہونے کے ساتھ اچھی دوست بھی تھی. دونوں دوستوں کا تعلق غریب طبقہ سے تھا. "آنیا کے والد جنرل اسٹور پر کام کرتے تھے تنخواہ زیادہ نہ تھی پر اللہ کے کرم سے وقت اچھا گزر ہو رہا تھا "ابل کے والد فیکٹری میں مزدور تھے اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنے والے انسان تھے" آنیا دل لگا کر پڑھتی اور ہمیشہ کلاس میں اول آتی, ابل کبھی پاس ہوجاتی کبھی ایک پیپر میں فیل ہو جاتی. آنیا اسے روز سمجھاتی ابل ہمارے والد صبح سے رات دیر تک ہمارے اچھے مستقبل کے لئیے محنت کرتے وہ چاہتے ہے جو انھیں نہیں ملا وہ ہمیں ملے, کل کو ہمیں ان کے جیسے حالات سے نہ گزرنا پڑے ابل ایک کان سے سنتی دوسرے کان سے نکال دیتی.ابل آنیا کی روز روز کی نصحیت سے تنگ آگئی تھی جب دیکھو مجھے سمجھاتی رہتی ہو میں بچی نہیں ہو جو مجھے کچھ پتہ نہیں ہے اور تم مجھے سمجھا رہی ہو ابل غصہ سے کہتی ہوئی کنٹین چلی جاتی ہے. ابرج جو پیچھے کھڑی یہ سب سن رہی تھی ابل کو کنٹین جاتی دیکھ اس کے پیچھے پیچھے کنٹین چلنے لگتی ہیں."ابرج بگڑے ہوئے باپ کی بگڑی ہوئی اولاد تھی" ابرج ڈرگس لینے کی عادی تھی اور یہ اس کے لئیے کوئی بڑی بات نہ تھی یونیورسٹی میں کئی لڑکیوں کو اسنے ڈرگس کا عادی بنا دیا تھا اس کی اِس عادت کی وجہ سے کوئی بھی اس سے دوستی کرنا پسند نہیں کرتا تھا. ایسے ابل اور آنیا کی دوستی بلکل پسند نہ تھی ابرج ہمیشہ انکی دوستی ختم کرنا چاہتی تھی. ابل غصہ میں میز پر بیٹھتی خود سے باتیں کر رہی ہوتی سمجھتی کیا یے خود کو بلکل ٹھیک کہا تم نے کیا سمجھتی ہے خود کو (ہروالدین اپنے بچوں کے لیے محنت کرتے ہیں میرے والد بھی ہمارے لئے محنت کرتے ہیں اس میں کوئی احسان والی بات نہیں جلتی آگ پر تیل ڈالتے ہوئے ) ابرج اس کے پاس کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی. آپ کی تعریف ابرج کو پاس بیٹھتی دیکھ ابل نے پوچھا. تعریف بھی بتا دوگی پہلے بتاؤں کیا لو گی ابرج نے ابل کو دیکھتے ہوئے پوچھا.کچھ بھی نہیں ابل پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے کہا, کوئی بات نہیں میں ہی آڈر کر دیتی ہو اپنے لیے بھی اور تمھارے لئیے بھی ابرج مسکراتے ہوئے ابل سے کہا اس وقت تمھارا دماغ جو گاڑی کے انجن کی طرح گرم ہو رہا ہے اس ٹھنڈے کی ضرورت ہے میں تمھارے لئیے ٹھنڈا ٹھنڈا فالسے کا جوس لاتی ہوں,ابرج کہتی ہوئی آڈر لینے جاتی ہے.... یہ لو تمھارا ٹھنڈا ٹھنڈا جوس ابل کے سامنے میز پر جوس رکھتے ہوئے ابرج نے مسکراتے ہوئے کہا,اس کی ضرورت نہیں, میں دماغ ٹھنڈا ہی ہے ابل نے ابرج کو دیکھتے ہوئے کہا, اب پیے بھی لو یار ابل ابرج نے ابل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا. اوکے.... یہ جوس ہماری دوستی کے نام ابرج نے ابل کی دیکھتے ہوئے کہا ابل نے مسکرانے پر اتفاق کیا. اوکے ابل کل ملتے ہیں میرا ڈرائیور آگیا ہے بائے. ابل کب سے ڈھونڈ رہی ہو تمھیں اور تم یہاں بیٹھی ہو ٹیکس ہی کر دیتی تم یہاں ہو چلو اب دیر ہو رہی ہے آج سی این جی بھی بند ہے اور پھر چنکی بھی دیر سے ملے گی آنیا کے پاس بیٹھتی کہا ہاں چلو ابل نے کہا. آدھے راستے تک خاموشی نے دونوں کے درمیان باتیں کی, آنیا نے خاموشی توڑتے ہوئے ابل سے پوچھا ابرج کیا کہہ رہی تھی تم جانتی ہو نہ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے اس کی باتوں میں مت آنا. اگلے مہینے سالانہ امتحانات ہے کیسیتیاری ہے ابل کو خاموش دیکھ آنیا نے سوال کیا ؟ اچھی ہے تیاری ابل نے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا. شام میں ملتے ہیں اللہ حافظ کہتے ہوئے دونوں نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی. بستر پر لیٹی پنکھے کو غور سے دیکھ رہی تھیں آج برائےنام چل رہا تھا مجھے تو اس میں کوئی بھی برائی نظر نہیں اتنی اچھی تو ہے وہ,اسکی طرف ابرج نے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا تو اس لئیے مجھے بھی کہہ رہی میں اس سے دور رہو ابل نے خود سے ہم کلامی کرت ہوئے سونے کے لئے کروٹ تبدیل کی. ہائے کیا کر رہی ہو تم یہاں ابرج اس کے پاس آتے ہوئے بولی کچھ نہیں کل سے پیپر شروع ہے نہ اسی کی تیاری کررہی ہو تمھیں کوئی کام ہے کیا ابل نے مسکراتے ہوئے پوچھا نہیں چلو کنٹین چلتے ہے کچھ کھاتے ہیں ابرج نے ابل کا کھچنتے ہوئے کہا. کیا لو گی تم جو تم لو گی کیا بات ہے آج تو وہآج تو وہ لے گی جو میں لو گی اچھا لگا سن کے ابل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی. یہ لو چائے میں تو یہ پیتی ہو ابرج نے ابل کو چائے کا کپ دیتے ہوئے کہا. ( میں نے ہمیشہ بزرگوں کو کہتے سنا ہے خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے) ابل پر بھی ابرج کا رنگ چڑھ چکا تھا وہ بھی ابرج کے ساتھ ڈرگس کی عادی ہوتی جارہی تھی کلاس سے غائب رہنا اسکی روزانہ کی عادت بن چکی تھیں. ابل کو اکثر کلاس سے غائب دیکھ کر آنیا کو ابل پہ شک ہونے لگا. تم کلاس لینےکیوں نہیں آتی آنیا نے ابل درخت کے نیچے بیٹھے دیکھ سوال کیا. ؟آنیا کلاس میں ٹیچر ویسے بھی سیسلبس روپیٹ کروا رہے تو میں لائبریری میں بیٹھ کر پڑھ لو تو وہاں ہی بیٹھ کر پر رہی تھی. اچھا کیسی تیاری ہے تمھاری اچھی ہے ابل نے مسکراتے ہوئے کہا. ایک بات پوچھ نی تھی ابل اگر تمھیں بری نہ لگے آنیا نے ابل کے زرد چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا. ہاں پوچھو تم ڈرگس لیتی ہوں نہ مجھے ابرج کی دوست نے بتایا اور اس دن میں نے تمہیں ان کے ساتھ دیکھا بھی. نہ.... نہ..... نہ...... نہیں نہیں کسی جھوٹ کہا ہے تم سے وہ تو میں ویسے ہی بیٹھی تھی ابل نے جلدی سے بات کو گول کرتے ہوئے کہا. ابل من من خوش تھی وہ آنیا کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئی ہے. اچھا چلو گھر کل کے پیپر کی تیاری بھی کرنی ہے ہاں چلو.... ڈرگس نہ ملنے کی وجہ سے ابل سے پیپر کی ٹھیک سے تیاری نہیں کر پائی. ایک پیپر بھی دس پیپر کے برابر ہوتا ہے آنیا نے ابل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پھر نہ جانے کب ملاقات ہوگی. صحیح کہہ رہی ہوں تم آنیا. تم نے اچھے سے تیاری کی ہے نہ ابل اگر اب کی بار فیل ہوگئ تو پورا سال ضائع ہو جائے گا اور اس بڑھتی مہنگائی میں انکل تمھیں سال دوبارہ نہ ہڑھ سکے سمجھ رہی ہو نہ ہاں ہاں سمجھ رہی ہو میں ابل نے تنگ آکر کہا چلو کمرہ امتحان آ گیا پیپر کے بعد ملتے ہیں آنیا نے کہا. کیسا ہوا پیپر ابل میرا تو بہت اچھا پیپر ہوا ہے. میرا بھی اچھا ہوا ہے ابل نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا.
آنیا تم رکو میں آتی ہو کل میری ایک کتاب ابرج کے پاس رہ گئی تھی وہ لے کے آتی ہو اچھا جلدی آنا میں یہاں ہی انتظار کر رہی ہوں ابل کو جاتے دیکھ آنیا نے کہا. ابرج ابرج کہا ہو کل سے فون کر رہی ہو تمھیں فون کیوں نہیں اٹھا رہی تم ابرج کو دیکھتے ہی ابل نے ایک ہی سانس میں سب پوچھا لیا ادر ہی ہو مجھے کہا جانا ہے ابرج نے مسکراتے ہوئے کہا پلیز یار ایک انجکشن دے دو پلیز پورا جسم دکھ رہا پڑھ بھی نہیں پائی کل رات پلیز . میں نے کیا میڈیکل اسٹور کھول رکھا ہے کیا جو انجکشن دے دو تمھیں ابراج نے ہسی روکتے ہوئے کہا تم چھوٹے لوگوں کوانگلی پکرا دو تم لوگ تو سر پر چڑھ کر ناچنے لگتے ہو ابرج نے اپنے ہاتھ سے ابل کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا. یہ لو پتہ یہاں سے جاکہ لے لینا ابرج نے ابل کے ہاتھ پر کاعز رکھتے ہوئے کہا. کہا رہ گئی تھی تم کتاب لے لی ابرج سے نہیں وہ لانا بھول گئی ہے کہ رہی تھی ڈرائیور کے ہاتھ گھر بجوا دوگی ابل نے آنسو روکتے ہوئے کہا. شکر ہے اللہ تعالیٰ آج چنچی جلدی مل گئ آنیا نے چنچی میں بیٹھتے ہوئے کہا.
کیاکرنا ہے آگئے ابل کو گم سم بیٹھی دیکھ آنیا نے سوال کیا ؟ کچھ سوچا نہیں ابھی ابل نے جواب دیتے ہوئے پوچھا اور تم میں نے بھی کچھ سوچا نہیں. چلو ٹھیک ہے شام میں ملتے ہیں.. اللہ حافظ...
گھر آتے ہی ابل نے خود کو کمرے میں بند کر دیا ڈرگس نہ ملنے کی وجہ سے اس کا بدن دردر کر رہا تھا... درد سے آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے ابل کو آنیا کی باتیں یاد آرہی تھی کتنا سمجھایا تھا تم نے مجھے آنیا میں نے تمھاری بات نہیں مانی... کتنی بیوقوف تھی میں ہمیشہ خود کو دھوکہ دے کر یہ سمجھتی رہی میں تمھیں دھوکہ دے رہی ہوں...
No comments:
Post a Comment