بے
وفا
بقلم
حریم
وہ
اپنے سامنے کچھ خالی صفحات اور ایک ہاتھ میں پینسل لئیے بیٹھی تھی"سب لوگ بے
وفائی کو لکھنے کے لئیے اپنا قلم اٹھاتے ہیں
میں وفا کو اپنا موضوع بناؤنگی" وہ نم ہوتی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی۔
" جس کا خود بے وفا سے پالا پڑا ہو وہ وفا پر لکھے گی؟ کیا تمہیں
کبھی کسی نے بتایا ہے بہت ہی اچھی حسِ مزاح رکھتی ہو تم " اسکی دوست نے
بلندوبانگ قہقہہ لگایا۔
"وہ بے وفا نہیں تھا" اُس نے زور سے اپنی آنکھیں میچ کر
احتجاج کیا۔
"اوو مہربانی کر کے گھسا پٹا ڈائلاگ مت کہنا کہ وہ مجبور تھا
ورنہ مجھے جواباً یہی کہنا پڑے گا کہ مرد
کبھی بھی مجبور نہیں ہوتا اُسکے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں ۔اور اگر ایسا ہی ہے
تو اتنے لمبے عرصے سے کدھر ہے وہ؟" اسکی دوست نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا جو
ابھی کچھ لکھ تو نہیں رہی تھی البتہ اسکے ہاتھ تیزی سے کچھ بنارہے تھے ۔ اسکی آنکھیں
نہایت غصبناک انداز میں اُس سفید صفحے کو دیکھ رہی تھیں جو اب کالا ہوتا جا رہا
تھا۔اور اُسکی زبان ایک ہی ورد کر رہی تھی "وہ بے وفا نہیں تھا" وہ شاید
اپنے دشمنِ جاں کو کاغذ پر اتار رہی تھی ۔
"نہیں تھا وہ بے وفا" وہ ہذیانی انداز میں اب چِلا رہی تھی۔
اتنے
چیخ و پکار کے بعد بھی اِس نے اُس تصویر میں موجود انسان کے ماتھے پر بڑا بڑا کر
کے لکھ دیا "بے وفا" اور پھر زور زور سے پاگلوں کی طرح ہنسنے لگی اتنا کے اُسکی آنکھ سے آنسو نکل کر سیدھا
اُس سکیچ کے بیچ و بیچ جا گرا اور آس پاس کا تھوڑا حصہ دھندلا ہو کر مٹ گیا۔
"دیکھو ! دیکھو! یہ ظالم اپنے ماتھے پر "بے وفا"
لکھوانے کے بعد بھی کتنا خوبصورت لگ رہا ہے ۔ لیکن یہ بھی تو دیکھو میرے آنسو نے
اسے کتنا بد نما کردیا" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔
"اُسے میرے آنسو نہیں پسند تھے، تم دیکھ رہی ہو نا ابھی بھی
اسکا چہرہ میرے آنسو کی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔ اُسے میرے آنسو نہیں اچھے لگتے تھے پھر
بھی وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے روتا اور
بلکتا ہوا چھوڑ کر چلا گیا ۔ وہ اس فانی دنیا سے چلا گیا ہے یار ! اُسے بے وفا مت
کہو ، مت کہو اُسے بے وفا " اُسکی دوست حیرت کا مجسمہ بنی کھڑی تھی اُسے اب
سمجھ آیا کہ وہ "تھا" کا لفظ کیوں استعمال کر رہی ہے ۔
"
No comments:
Post a Comment