Thursday, 9 January 2020

Be-wafa Written by Hareem Memon

بے وفا
بقلم حریم
وہ اپنے سامنے کچھ خالی صفحات اور ایک ہاتھ میں پینسل لئیے بیٹھی تھی"سب لوگ بے وفائی کو لکھنے کے لئیے اپنا قلم اٹھاتے  ہیں میں وفا کو اپنا موضوع بناؤنگی" وہ نم ہوتی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بولی۔
" جس کا خود بے وفا سے پالا پڑا ہو وہ وفا پر لکھے گی؟ کیا تمہیں کبھی کسی نے بتایا ہے بہت ہی اچھی حسِ مزاح رکھتی ہو تم " اسکی دوست نے بلندوبانگ قہقہہ لگایا۔
"وہ بے وفا نہیں تھا" اُس نے زور سے اپنی آنکھیں میچ کر احتجاج کیا۔
"اوو مہربانی کر کے گھسا پٹا ڈائلاگ مت کہنا کہ وہ مجبور تھا ورنہ  مجھے جواباً یہی کہنا پڑے گا کہ مرد کبھی بھی مجبور نہیں ہوتا اُسکے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں ۔اور اگر ایسا ہی ہے تو اتنے لمبے عرصے سے کدھر ہے وہ؟" اسکی دوست نے اسے دیکھتے ہوئے سوال کیا جو ابھی کچھ لکھ تو نہیں رہی تھی البتہ اسکے ہاتھ تیزی سے کچھ بنارہے تھے ۔ اسکی آنکھیں نہایت غصبناک انداز میں اُس سفید صفحے کو دیکھ رہی تھیں جو اب کالا ہوتا جا رہا تھا۔اور اُسکی زبان ایک ہی ورد کر رہی تھی "وہ بے وفا نہیں تھا" وہ شاید اپنے دشمنِ جاں کو کاغذ پر اتار رہی تھی ۔
"نہیں تھا وہ بے وفا" وہ ہذیانی انداز میں اب چِلا رہی تھی۔ 
اتنے چیخ و پکار کے بعد بھی اِس نے اُس تصویر میں موجود انسان کے ماتھے پر بڑا بڑا کر کے لکھ دیا "بے وفا" اور پھر زور زور سے پاگلوں کی طرح  ہنسنے لگی اتنا کے اُسکی آنکھ سے آنسو نکل کر سیدھا اُس سکیچ کے بیچ و بیچ جا گرا اور آس پاس کا تھوڑا حصہ دھندلا ہو کر مٹ گیا۔
"دیکھو ! دیکھو! یہ ظالم اپنے ماتھے پر "بے وفا" لکھوانے کے بعد بھی کتنا خوبصورت لگ رہا ہے ۔ لیکن یہ بھی تو دیکھو میرے آنسو نے اسے کتنا بد نما کردیا" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔

"اُسے میرے آنسو نہیں پسند تھے، تم دیکھ رہی ہو نا ابھی بھی اسکا چہرہ میرے آنسو کی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔ اُسے میرے آنسو نہیں اچھے لگتے تھے پھر بھی وہ مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے  روتا اور بلکتا ہوا چھوڑ کر چلا گیا ۔ وہ اس فانی دنیا سے چلا گیا ہے یار ! اُسے بے وفا مت کہو ، مت کہو اُسے بے وفا " اُسکی دوست حیرت کا مجسمہ بنی کھڑی تھی اُسے اب سمجھ آیا کہ وہ "تھا" کا لفظ کیوں استعمال کر رہی ہے ۔ "

Thursday, 5 September 2019

Fahash Nigar.....Manto By Zarak Mir

فحش نگار ....منٹو ........
زرک میر
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان آئے مہاجروں نے کچھ اچھا کام نہ کیا ....ہندوستانی مہاجر آئے انہوں نے سندھ دھرتی پر قبضہ کرلیا ....بلوچستان میں افغان مہاجرین نے منشیات اوراسلحہ کلچر کو متعارف کرایا........اورمنٹو نے فحش نگاری کاکلچر متعارف کرایا....منٹو شہری بننے سے پہلے مرگیا ....وہ مرنے کیلئے ہی لاہور آیا تھا ۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین لاہور آئے تو انہیں ٹرینوں کے دروازے بند کرکے اوراسٹیشنوں پر ڈنڈے لئے کھڑے پنجابی نوجوانوں نے پاکستان کا راستہ دکھایاا ورکہا کہ پاکستان آگے ہے کیونکہ یہ مہاجرین کام کے نہیں تھے ‘ان مہاجروں میں جون ایلیاءاوربھائی الطاف حسین کی پہچان کرنا مشکل تھا اس وقت ۔یہ ہندوستانی مہاجر کراچی آگئے بلکہ لائے گئے بسائے گئے خود جی ایم سید نے ان کیلئے اسٹیشنوں پر چاول کی پکی پکائی دیگیں لائے اوران کو کھانا کھلایا ۔ اب یہ کراچی حیدرباد سکھر اورمیر پورخاص جیسے علاقوں پراکثریتی کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔حقیقی پاکستان بنانے والے لوگ کہلاتے ہیں ۔ان علاقوں کو الگ بظاہر الگ جبکہ الگ وطن بنانا چاہتے ہیں ۔
بلوچستان میں سوویت یونین کی جہادکے بدلے افغانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں سرحدیں کھول کر حقیقی پاکستان میں داخل کیاگیا ۔کھانا کھلایاگیا اوربسایاگیا ۔بلوچستان میں روایتی اسلحہ تو ہر گھرمیں پہلے سے موجودتھا ‘چلم اورنسوار کا رواج بھی عام تھا لیکن ان افغانی ان دونوں صنعتوں کو ترقی دینے کا سبب بنے ۔گویا نیم جاگیردارنہ اورسردارانہ سماج میں صنعتی دورکاآغاز ہوگیا ۔مشین گنیں روایتی ڈھاڈری بندوق کا منہ چڑھانے لگیں ‘ نسواراورچلم چرس ہیروئن تریاق کے سامنے پانی پانی ہوگئے ۔اب کاروبار وسعت پاگیا ‘مہاجرین نے افغانستان سے سمگلنگ کے ذریعے بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کو اس کام میں ایسا ہنر مند بنایا کہ کیا سردار کیا شوہان ‘سب روایتی رشتے ‘پیداواری رشتے اورذرائع پیداوار سب کے سب بدل گئے ۔یہ افغانیوں کا کلچر تھا جو اپنے ساتھ لایا
پورا نام سعادت حسن منٹو تھا نسلی کشمیری تھے ....امرتسر یا لدھیا نہ 
میں رہتے تھے بعدمیں ممبئی چلے گئے ....کہانیاں لکھیں ‘افسانے لکھے 
....دوقومی نظریہ کے متاثرین میں وہ بھی شامل تھے کہ وہ لاہور آگئے ....یہاں کچھ ہی سال بیت گئے کہ مرگیا ....صفیہ منٹو(اہلیہ منٹو) نے کہا کہ پاکستان آنے کے بعدمنٹو بدل گیا ‘معاشی حالت خراب ہوگئی ‘شراب کانشہ بڑھ گیا ‘ممبئی میں بھی نشئی لوگ دوست تھے پران میں کام کے لوگ بھی تھے ....پاکستان میں کہانی الگ ہے ہر وقت بے کارلوگوں کیساتھ نشہ اورصرف نشہ ........ممبئی جانے کیلئے پاسپورٹ بنانے کیلئے دیا ....ٹیکنیکل غلطی ہوگئی تو پاسپورٹ نہ بن سکا ....کہا یا رسب کتابیں ممبئی میں ہیں جس دوست کے پاس ہیں وہ باربار خط بھیج رہاہے کہ مجھے مکان بدلنے پڑتے ہیں تمہاری کتابیں کہاں کہاں لئے پھروں گا....اورپھر کچھ پیسے بھی کہانیوں اورافسانوں کے رہتے ہیں وہ بھی لیتے آﺅنگا ........کبھی کبھی واپسی کا سوچتے تو صفیہ منع کرتی کہ پاکستان مسلمانوں کیلئے بنا ہے تو بس اب یہی رہنا ہے ....واپس نہ جاسکے منٹو ....لیکن ان کے قریبی دوست اسد نے لکھا ہے کہ منٹو کی امرتسر سے ممبئی جانے کا سفر اوروہاں کی زندگی اورلاہور آنے کی زندگیوں میں منٹو میں بڑا فرق پایاجاتاہے ........یہاں روز افسانے لکھنے بیٹھ جاتے کیونکہ روز پیسے ملنا ضروری تھا ورنہ شراب کہاں سے آ تا....کسی نے فرمائش کی کہ ناول لکھو تو منٹو کہنے لگے ........ناول کیلئے زیادہ وقت درکارہے جبکہ مجھے روز کے روز پیسے چاہیئے جو افسانوں سے ملنا ہی ممکن ہے ........
منٹو نے کھوٹے پر لکھا ....رنڈیوں کی حالت زار پر لکھا ....لوگ اس گند کو گند رہنے دینے پر اکتفاءکئے ہوئے تھے ....منٹو ذہنی عارضے کاشکارتھا کہ ....یہ گند ہے تو کیوں گند ہے اورگند میں وہ مہک ڈھونڈتا رہا ........اس نے اس تلاش میں فحش نگاری کو جنم دیا ........وہ مہک ڈھونڈنے کیلئے لکھتا ....لیکن معاشرے کے پارسا بلکہ مہا پارسا طبقوں کو یہ گند ....گند ہی لگا وہ منٹو کو فحش نگار کہنے لگے ............جتنی صفائی کروگے ....انتا ہی کچرہ نکلے گا ........ منٹو یہ دیکھتا رہا کہ یہ معاشرہ کچرے کا ٹوکرہ ہے جس کی جنتی صفائی کرو اتنا کچرہ نکلے گا ........وہ اس کا کھوج کررہے تھے لیکن پارسا لوگ اسے فحش سمجھتے رہے ........گویا مرد اورعورت لفظ استعمال کیاجائے تو اس میں اگر کوئی فحاشی ڈھونڈنا چاہئے تو ڈھونڈ سکتاہے کیونکہ عورت اورمرد دونوں فحش ہی تو ہیں ........ ان فحش افسانوں میں منٹو نے وہ کردار ڈھونڈا جس کی اسے تلاش تھی ........اوراسے فحش نگاری کا لقب دینے والے معاشرے کے اس بدبودار فعل میں برابر کے شریک تھے ....تب ہی تو انہیں اس سے گن آتی تھی کہ منٹو رنڈیوں پر کیوں لکھتا ہے ؟ایسا کیوں لکھتا ہے ؟ یہ بھی کوئی بلا موضوع ہوا لکھنے کیلئے ........لیکن اس ........ انتخاب.... نے منٹوکوفحش نگار کا خطاب دیدیا ........گرو رجنیش نے کہا کہ میں نے سینکڑوں موضوعات پر لیکچر دیئے لیکن میرے سیکس سے متعلق لیکچر کی کتابیں سب سے زیادہ متنازعہ رہیں ........اس سے اندازہ لگالیجئے کہ سیکس اس قدر اس معاشرے کا اہم مسئلہ ہے ........منٹو نے اس نظر اندازطبقے کی حالت زار کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ........مخالف فحش اوربس فحش کا ہی الزام لگاسکے ........
........منٹو پر آخری مقدمہ ”اوپر نیچے درمیان “فیچر پر چلا تھا۔یہ دلچسپ بات قابل ذکر ہے کہ ”اوپر نیچے دمیان “پہلے لاہور میں ”احسان “اخبار میں شائع ہوا تھا اسے ”پیام مشرق کراچی “ نے نقل کیا تھا اورمقدمہ کراچی ہی کی کچہری میں چلا....کچہری سے منٹو کو بڑی نفرت تھی ....ہزار بارکہتے تھے کہ کچہری سے زیادہ گھٹیا اورمہمل جگہ کوئی اورنہیں لیکن اس نفرت کے باوجود کچہری سے انہیں اکثر سابقہ پڑتارہتاتھا ۔کراچی سے ان کے نام وارنٹ آیا....انہوں نے ضمانت کروادی اورمحمد طفیل صاحب کے اصرار پر کراچی جانے کیلئے راضی ہوگئے........
منٹو نے کہا کہ میں جب کچہری میں پیش ہوا تو میں نے کافی پیا ہوا تھا.... میں نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ میرے مقدمہ کا جلد فیصلہ کردیاجائے کیونکہ میں لاہور سے آیاہوں اوربیمارہوں“
جب مجھے مجسڑیٹ نے اس قدر بے تاب دیکھا اورکہا ”آپ سعادت حسن منٹو ہیں نا؟آپ بیٹھئے “مجھے مجسٹریٹ کے حسن سلوک نے بڑاحیران کردیا میں مجرم تھا اورعدالت میں اپنے جرم کے باعث پہنچا تھا مگرمجسٹریٹ مجھے نہایت نرمی سے بیٹھنے کیلئے کہہ رہاتھا........بہرحال میں بیٹھ گیا اورمیں نے کہا جناب میں ”اوپر سے نیچے درمیان “فیچر کامصنفت ہوں مجھے یہاں ”فحش نگاری “ کے جرم میں حاضر ہوناپڑا ہے میں اقبال جرم کرتاہوں‘ابھی میرا فیصلہ کردیاجائے “
مجسٹریٹ نے کہا ”میں ابھی تو فیصلہ نہیں کرسکتاچونکہ میں آج اس فیچر کا مطالعہ کرونگا اورکل فیصلہ سناﺅں گا“
....خیر میں مان گیا........
دوسرے دن مجسٹریٹ نے پوچھا ”آپ کی مالی حالت کیسی ہے ؟ میں نے کہا ”بہت خراب “
مجسٹریٹ نے پوچھا ”آج تاریخ کیا ہے؟
کسی نے کہا ”25 تاریخ ہے آج “
مجسٹریٹ نے فیصلہ سنا دیا ”25 روپے جرمانہ “ 
سزا سنانے کے بعد مجسٹریٹ نے منٹو سے ملنے کی خواہش کا اظہارکیا دوسرے دن زیلن کافی ہاﺅس میں ملاقات ہوگئی“
مجسٹریٹ بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا........کہا منٹو میں نے روسی فرانسیسی اورانگریزی ادب کا بڑا مطالعہ کیا ہے لیکن ........فن افسانہ کے ”امام “ تم ہو....تم دوسری زبانوں کے عظیم ادیبوں سے بھی زیادہ عظیم ہو“
میں نے ان سے کہا ”آپ نے مجھے سزاکیوں دی ؟
مجسٹریٹ نے کہا کہ ”چونکہ وہ تحریر میری نظر میں ”فحش“ ہے ۔
میں نے کہا ”فحش کسے کہتے ہیں ‘فحش کی تعریف کیا ہے ؟
مجسٹریٹ نے کہا ”میں آ پ کو دوسال بعد بتلاﺅں گا ابھی نہیں “
میں نے ان سے وعدہ لے لیا ہے اوروہ شاہد دوسال بعد” ریٹائر ہونے کے بعد وجوہات بتلائے........
............چنانچہ فحش نگاری کی تعریف کئے بغیر لوگ منٹو کو فحش نگارکہتے رہے ........نہ تو وہ خود سمجھ سکے اورنہ ہی وہ جو انہیں فحش نگارکہتے تھے .... ایک بارعدالت میں فحش نگارثابت کرنے کیلئے منٹو کے خلاف ایک ہندو کو پیش کیاگیا........جس نے کہا منٹو فحش نگار ہے ....جواباً پوچھاگیا کیسے ؟ وہ کہنے لگے فحش کا لفظ فحش ہے ‘جذبات ابھارتا ہے ....مجھے تو ہمارے ہاں آج کا مستعمل قومی اصطلاح قومی مفاد ” رنڈی “ سے زیادہ فحش لگتا ہے ....رنڈی سے زیادہ ایمان دار بیوپار نہیں دیکھاگیا جو خالص عزت بیچتا ہے جس میں بے ایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .... رنڈی نہ تو اللہ کی قسم کھاتی ہے نہ واللہ خیر رازقین کا بورڈ لگاتی ہے ....نہ کوٹے پر ماشاءاللہ لکھواتی ہے نہ ہی مرد کے سامنے لیٹنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی ہے .... نہ تو ثواب کمانے کا ڈھونگ رچاتی ہے نہ بچوں اوربھوک کا واسطہ دے کر خیرات لیتی ہے اورنہ ہی ثواب دارین حاصل کرنے کا نعرہ لگا کر چندہ اکٹھاکرتی ہے ........مولوی کی منطق کے تناظر میں اگر دیکھاجائے تو عین حلال رز ق کماتی ہے رنڈی ....اور بقول ملا جس پر اللہ مہربان ہوتا ہے وہی حلال رزق کماسکتا ہے........منٹو پر فحش نگاری کا ٹھپہ ایسا تھاجس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوئی . ........قومی مفاد نامی اصطلاح ........جس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوسکی ........ جیسا کہ ہمیں آج تک یہ نہیں بتایاگیا کہ ریاست اورآئین کی موجودگی کے باوجود مفتیوں اورمولویوں کے فتوﺅں کی حیثیت کیا ہے ؟یہاں مخلوط طرز تعلیم پراعتراض کی وجوہات کیا ہیں ؟یہاں عورتوں کے باہر نکلنے اوربغیر برقہ کے نکلنے کے نقصانات کیا ہیں ؟ غیرت کے نام پر قتل کیا ہے؟بچوں اوربچیوں کو سیکس کی تعلیم سے دوررکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟ ریاست کے اداروں کی موجودگی میں خارجہ پالیسی پر لمبی لمبی داڑھیوں والے غیر منتخب اورغیر معقول باتیں کرنے والے مولویوں کے اثر ورسوخ کی وجوہات کیا ہیں؟ آبادی پر کنٹرول اورپولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کا راز کیا ہے ؟ معاشرے کی بے راہ روی اوربے حسی سماجی ناہموریوں کے سبب ‘کوٹوں پر بیٹھنے والی رنڈیوں کا اصل پس منظر کیا ہے ؟........اگریہ معاشرہ کوٹوں پر جانے والے بے غیرت اورشہوانیت سے بھرے لوگ پیدا کرسکتاہے تو اس معاشرے سے ....رنڈی پیدا کرنے پرحیرانگی کیوں ہوتی ہے؟........ جب تک خریدار موجود ہونگے بازار میں مال آتا رہے گا چاہے جس قدر اس پر پابندی ہو........دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منشیات اوراسلحہ کے کاروبار پر بھی پابندی ہے ........لیکن افغان مہاجرین اورریاست کی پالیسیوں سے اس پروان چڑھتے کاروبار پر تو فحش نگاری پر معترض داڑھی بردار لوگوں کوکوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کے مدارس ان اسلحہ کے ذخیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن انہیں منٹو جیسا کمزورجسم کا شخص فحش نگار نظر آتاہے ........ منٹو نے دہکتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا........اس افسانوں سے معاشرے کا گند ایسا باہر آرہاتھا جیسا کہ بند گٹر شہر بھر کی گندیوں کو سڑکوں پر آشکار کرتا ہے ........بلکہ یہ گند تو گٹر کے گند سے بھی زیادہ بدبودار ہے جس کو منٹو نے اپنے الفاظ سے سامنے لایا ........وہ ان رنڈیوں کے احساسات سے معاشرے کو آگاہ کرنا چاہا کہ یہ انسانوں کو وہ طبقہ ہے جو پیار کرنا جانتا ہے ........وفا کرنا جانتا ہے ........احساس کرنا جانتاہے ........دلیر ہے اور مضبوط ہے ........درحقیقت اس بات سے جنت کے رکھوالوں کو چڑھ تھی کہ یہ طبقہ جو مہا برائیوں میں غرق ہے وہ کیسے پیارکرنے والا وفادار ....حساس اوردلیر ہوسکتاہے ........اگر منٹو ان معنوں میں فحش نگار تھے تو ........آج مجھے مولانا طارق جمیل میں سب سے بڑا فحش نگار نظر آتاہے ........فرق یہ ہے کہ منٹو رنڈیوں کی رانوں گالوں ‘ٹمکو اور رقص کا ذکر کرکے ان کی حالت زار بیان کرنا چاہتاتھا ....ان کو معاشرے کا دھتکارے لوگ ظاہر کرتا تھا جس سے جنسی جذبات ابھارنے کی بجائے احساس اجاگر ہوتا ........لیکن طارق جمیل تو مکاری اورعیاری سے ........حوروں کی بات کرکے فحاشی پھیلا رہاہے ....حوروں کی رانوں اورپستانوں کے درمیانی فاصلوں کو انچ اورگزوں سے ناپنے کا ذکر کرتا ہے ........لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر مزے لیتے ہیں ........یقین جانیئے طارق جمیل کے سامعین کی وضوبھی بار بار ضعیف ہوتی ہوگی ........طارق جمیل کے بیان سے تو بس حور ہی حور جڑ تے ہیں .... ....وہ ان حوروں کی بے بسی کا ذکر نہیں کررہاہوتا بلکہ ان کو ........مومن کے ........انعام ........ کے طورپر پیش کرتا ہے ....اب انعام کے طورپر حوروں کی حوالگی کو کیا نام دیاجائے ........یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتاہوں ........

................آج جی بھرکے منٹو یاد آیا ................

Gilla By Asif Majeed

افسانچہ : گلہ
ازقلم:       آصف مجید

شام کے منظر سے بھی گہری اُداسی آنکھوں میں لئیے وہ اپنی حویلی کی کُشادہ چھت پر بیٹھا بظاہر تو سب دیکھ رہا تھا مگر ,  سمندر کے پہلو میں ڈوبتے سورج کا منظر ، چہچہاتے پرندوں کا اپنے آشیانوں میں لوٹنا، آسمان پر بادلوں کا زردی مائل ھونا، تازہ اور دلفریب ھواؤں کے جھونکے سب مل کر بھی اسے مانوس کرنے میں ناکام تھے..
وہ اس قدر گہری سوچ میں گم تھا کہ ہاتھ میں سُلگتا سگریٹ بنا کش لگائے ہی ختم ھونے کو تھا...
حالات بھی بے قابو گھوڑے کی مانند ہوتے ہیں بعض اوقات تو یہ ایسے سر پٹ دوڑتے ہیں کہ انسانی سوچ ان کی گرد کو کبھی نہیں پہنچ سکتی...
بلکل اسی طرح سے وہ بھی شدتِ جنون کے ہاتھوں اپنی شکستہ محبت میں کیے گئے شکؤں اور فیصلوں کو سوچتے ھوئے بظاہر خاموش مگر خود کلامی کی جنگ میں مصروف تھا.. 
ھاں...
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میرا ہر گلہ ہی بے اثر  کیوں ہے
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میں ھوں اس قدر بے قرار کیوں مگر
کسی غیر سے تو گلہ ھوتا نہیں پھر کیوں گلہ ہے اپنی ذات سے جبکہ میرا رشتہ نہیں ہے خود سے کوئی.....
چلو میں تجھ سے کرتا ھوں گلہ کیونکہ تُو ہی تو میرا اپنا ہے ..
مجھے گلہ ہے تیری مجبوریوں سے..
کہ تیری ساری مجبوریاں مِل کر بھی میرے انتظار کی وحشت کو کم نہیں کر پاتی....!!!
مجھے گلہ ہے اُس جنون سے جو تیری سوچ سے غافل نہیں ہونے دیتا ...
مجھے گلہ ہے ایسی رات سے جس میں نیند نہیں تیری یاد ہو اور مجھے گلہ اُس نیند سے بھی جس میں کہ تیرا خواب نہ ہو...
مجھے گلہ ہے اُن فاصلوں سے جو حائل ہے تیرے اور میرے درمیان اور مجھے گلہ ہے ہر اُس شخص سے بھی " میسر جنہیں تیرا ساتھ ہے.... 
مجھے گلہ ہے کہانی کہ اس کردار سے جو تجھے بہت پسند ہے مجھے گلہ ہے تیری ہر اُس بات سے جس میں نہ میری بات ہے... 
مجھے گلہ ہے اُن گِلوں سے بھی جو تجھے نہ کبھی پگھلا سکے

سورج سمندر میں ڈوب کر بجھ گیا، بادلوں کی زردی سیاہی میں بدل گئی پرندوں نے بھی خاموشی اوڑھ لی....
ھوا کے زور سے سیڑھیوں کا دروازہ اچانک بند ھوا کھٹک کی آواز قوت سماع سے ٹکرائی تو اس کے خود کلامیوں کے لمحات کا ہجوم ٹوٹا.. اور وہ ماضی کی وحشت سے نکل کر حال کے کرب میں آگرا....

 بےترتیب دل کی دھڑکنیں لیئے اپنے تاریک کمرے کی قید میں لوٹ گیا....