Thursday, 5 September 2019

Gilla By Asif Majeed

افسانچہ : گلہ
ازقلم:       آصف مجید

شام کے منظر سے بھی گہری اُداسی آنکھوں میں لئیے وہ اپنی حویلی کی کُشادہ چھت پر بیٹھا بظاہر تو سب دیکھ رہا تھا مگر ,  سمندر کے پہلو میں ڈوبتے سورج کا منظر ، چہچہاتے پرندوں کا اپنے آشیانوں میں لوٹنا، آسمان پر بادلوں کا زردی مائل ھونا، تازہ اور دلفریب ھواؤں کے جھونکے سب مل کر بھی اسے مانوس کرنے میں ناکام تھے..
وہ اس قدر گہری سوچ میں گم تھا کہ ہاتھ میں سُلگتا سگریٹ بنا کش لگائے ہی ختم ھونے کو تھا...
حالات بھی بے قابو گھوڑے کی مانند ہوتے ہیں بعض اوقات تو یہ ایسے سر پٹ دوڑتے ہیں کہ انسانی سوچ ان کی گرد کو کبھی نہیں پہنچ سکتی...
بلکل اسی طرح سے وہ بھی شدتِ جنون کے ہاتھوں اپنی شکستہ محبت میں کیے گئے شکؤں اور فیصلوں کو سوچتے ھوئے بظاہر خاموش مگر خود کلامی کی جنگ میں مصروف تھا.. 
ھاں...
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میرا ہر گلہ ہی بے اثر  کیوں ہے
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میں ھوں اس قدر بے قرار کیوں مگر
کسی غیر سے تو گلہ ھوتا نہیں پھر کیوں گلہ ہے اپنی ذات سے جبکہ میرا رشتہ نہیں ہے خود سے کوئی.....
چلو میں تجھ سے کرتا ھوں گلہ کیونکہ تُو ہی تو میرا اپنا ہے ..
مجھے گلہ ہے تیری مجبوریوں سے..
کہ تیری ساری مجبوریاں مِل کر بھی میرے انتظار کی وحشت کو کم نہیں کر پاتی....!!!
مجھے گلہ ہے اُس جنون سے جو تیری سوچ سے غافل نہیں ہونے دیتا ...
مجھے گلہ ہے ایسی رات سے جس میں نیند نہیں تیری یاد ہو اور مجھے گلہ اُس نیند سے بھی جس میں کہ تیرا خواب نہ ہو...
مجھے گلہ ہے اُن فاصلوں سے جو حائل ہے تیرے اور میرے درمیان اور مجھے گلہ ہے ہر اُس شخص سے بھی " میسر جنہیں تیرا ساتھ ہے.... 
مجھے گلہ ہے کہانی کہ اس کردار سے جو تجھے بہت پسند ہے مجھے گلہ ہے تیری ہر اُس بات سے جس میں نہ میری بات ہے... 
مجھے گلہ ہے اُن گِلوں سے بھی جو تجھے نہ کبھی پگھلا سکے

سورج سمندر میں ڈوب کر بجھ گیا، بادلوں کی زردی سیاہی میں بدل گئی پرندوں نے بھی خاموشی اوڑھ لی....
ھوا کے زور سے سیڑھیوں کا دروازہ اچانک بند ھوا کھٹک کی آواز قوت سماع سے ٹکرائی تو اس کے خود کلامیوں کے لمحات کا ہجوم ٹوٹا.. اور وہ ماضی کی وحشت سے نکل کر حال کے کرب میں آگرا....

 بےترتیب دل کی دھڑکنیں لیئے اپنے تاریک کمرے کی قید میں لوٹ گیا....

No comments:

Post a Comment