Wednesday, 10 July 2019

Aashna By Mona Shehzad

Aashna Written By Mona Shehzad


☆☆"آشنا"☆☆

تحریر: مونا شہزاد ۔

کیلگری، کینیڈا ۔

آج پھر ماہا کو اپنا میاں،بچے، گھر سب زہر لگ رہے تھے. غصہ سے پھنکتے ہوئے اس نے سوچا :

"میری ساری زندگی یہی چولہا چوکی کرتے گزر جائے گی. اسی پانچ مرلے کے گھر میں میرا آخری سانس نکلے گا ۔اللہ کی پناہ اس آدمی میں ترقی کرنے کا کوئی جذبہ نہیں ہے. اوپر سے یہ بچوں کی لائن لگا دی ہے. "

وہ من ہی من میں کلس رہی تھی. 

وہ تو تین بچوں کے حق میں ہی نہیں تھی ،مگر اس کے میاں نے اسقاط حمل کروانے سے اسے سختی سے منع کردیا تھا. اس کو اللہ نے شکل صورت تو درمیانی ہی دی تھی مگر اس کا دماغ عرش پر رہتا۔

بچپن سے وہ شوقین مزاج تھی، پڑھائی سے تنگ ،ہر وقت سولہ سنگھار میں مصروف ۔میٹرک کر کے اس نے آگے پڑھنے سے انکار کیا اور گھر بیٹھ گئی۔ہر وقت ڈائجسٹ پڑھ کر اپنے آپ کو افسانے کی ہیروئین سمجھتی ، اس نے کبھی افسانوں میں چھپے سبق سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ وہ انتہائی سطحی سوچ کی مالک تھی ،سونے پر سہاگہ فلم بینی کا شوق تو جیسے اس کی گھٹی میں تھا ، یہی شوق اس کی طبیعت میں مزید بگاڑ کا باعث بنا تھا۔تعلیم تو ویسے ہی اس پر کوئی مثبت اثر مرتب کرنے میں ناکام رہی تھی،غرض کم علمی، شوقین مزاجی اور بری صحبت کا تڑکا کچھ ایسا زوداثر بنا کہ ماہا کا مزاج ساتویں آسمان پر رہنے لگا۔ ہر وقت فلموں کے ڈائیلاگز گھر میں بولتی رہتی ،گانے گنگناتی رہتی ،محلے کے ہر دل پھینک عاشق کو اپنا دل دے دیتی ۔اماں نے اسے دو دفعہ عمران پرچون والے سے تنہائی میں ملتے پایا تو اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر دہل گئیں ، کہیں کوئی چاند نہ چڑھ جائے اس ڈر سے فٹافٹ اس کے ہاتھ پیلے کردیے اور مطمئن ہوکر بیٹھ گئیں ۔

یوں ماہا بیاہ کر عزیر احمد کے چھوٹے سے گھر میں آگئی۔عزیر ایک سرکاری ملازم تھا،والدین اس کے گزر چکے تھے اور وراثت میں عزیر کے لئے پانچ مرلے کا یہ چھوٹا سا گھر چھوڑ گئے تھے ۔گھر میں دو کمرے،ایک ڈرائنگ روم، ایک کچن اور غسل خانہ تھا۔باہر چھوٹا سا صحن تھا،جس میں رنگ برنگے پھولوں سے لدے پودے لگے ہوئے تھے ۔اوپر چھت پر ایک برساتی بنی ہوئی تھی ۔ماہا نے جب شب عروسی میں عزیر کو دیکھا تو اس کے دلی جذبات ٹھٹھر سے گئے ۔سانولا سلونا پتلا دبلا سا درمیانی قامت کا شریف ،سادہ سا عزیر اسے بالکل پسند نہیں آیا۔اس نے دل ہی دل میں اپنی اماں کو کوسا ،جنھوں نے حور کی بغل میں لنگور بٹھا دیا تھا،ماہا کی نظر میں وہ خود کسی حور سے کم کہاں تھی ۔اس کے تصورات کی دنیا تو سلمان خان،ہرتیک روشن ، اکشے کمار جیسے ہیرو سے آباد تھی ، ایسے میں منحنی سا عزیر اس کے ناک پر کیسے چڑھتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے،سادہ مزاج عزیر سمجھا کہ شاید گھر والوں سے جدائی پر دلہن غم زدہ ہے۔

اس نے منہ دکھائی کی گولڈ چین دلہن کے گلے میں پہنائی تو ماہا کو کچھ حوصلہ ہوا۔شب زفاف گزر گئی۔عزیر ماہا کی اداوں سے گھائل ہوچکا تھا۔ماہا قبول صورت تھی مگر ناز و ادا کے ایسے جال اس نے فلموں سے سیکھے تھے کہ مردوں کو بسمل کرنا بخوبی جانتی تھی. پھر عزیر بیچارہ کس کھیت کی مولی تھا۔

وقت کا پہیہ گزرا ،ماہا تین بچوں کی ماں بن گئی۔ دو خوبصورت بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ ماہا کی بڑی بیٹی چھ سال کی تھی ،دوسری چار سال کی اور بیٹا دو سال کا ہوگیا تھا۔ عزیر اس سے بہت محبت کرتا، اسے کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں تھا۔ گھر میں صفائی ،برتن ،کپڑے دھونے ماسی آتی ،ماہا کا جب دل کرتا کھانا پکاتی ورنہ بازار سے کھانا منگوا لیتی ۔ بیوٹی پارلر پر جاکر خوب پیسے خرچ کرتی ۔ شام کو سہیلیوں کے ساتھ فلم دیکھنے چلی جاتی ۔جب دل کرتا بازار سے شاپنگ کر لاتی ،ہر موسم کے شروع پر دس خوبصورت اور مہنگے جوڑے تو ضرور بناتی ۔ عزیر اس کے خرچے پورے کرنے کے لئے دوسری نوکری بھی کرتا ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عزیر نے چھت پر دوسرا پورشن بنا کر کرائے پر اٹھا دیا تھا ،اس طرح ان کی گزر اوقات بہت اچھی ہورہی تھی ۔ مگر ماہا کی فرمائشیں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں ۔وہ اب اکثر عزیر سے لڑتی ،اسے بدصورتی کے طعنے دیتی 

وہ آئینے کے سامنے گھنٹوں کھڑی رہتی ۔ اس پر عجب سی بے کلی طاری رہتی ،وہ تصوراتی آنکھ سے چھ فٹ لمبا ،گورا چٹا ، نیلی آنکھوں والا امیر محبوب دیکھتی جو اس کو اڑن کھٹولے پر بٹھا کر انجان دیسوں کی سیر کرواتا پھرے ،جو اس کے پیروں میں پلکیں بچھائے ،جو آسمان سے تارے توڑ کر اس کی مانگ میں سجا سکے ،جو اسے دیوانہ وار چاہ سکے، اس کے حسن میں قلابے ملا سکے .وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنا چاہتی تھی. ریسٹورانٹ کے نت نئے کھانے کھانا چاہتی تھی.

بڑی بڑی زیورات کی دکانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے اکثر اس کا دل للچاتا اور عزیر بڑے رسان سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سمجھاتا :

"نیک بخت! ہم جیسے لوگ ایسے زیورات افورڈ نہیں کرسکتے. "

اس کا جی جل جاتا. 

وہ اپنی خواہشات کے جنگل میں برہنہ پا بگٹٹ بھاگتی جارہی تھی ۔اس کے اندر" ھل من مزید "کا وظیفہ جاری تھا۔ عزیر اس کی ایک خواہش پوری کرتا تو اس کی جگہ پر دس مزید خواہشات سر اٹھائے کھڑی ہوتیں۔اس کو گھر ،میاں ،بچے سب عذاب محسوس ہوتے۔

آج کل اس نے میاں سے ایک نئی ضد پکڑ رکھی تھی کہ اب اسے تین بچوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے اگر عزیر نے گاڑی نہ خریدی تو وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گی. عزیر اس کے پیار میں ہار کر آج اسے لے کر سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کے شوروم پر لے گیا. شوروم کا مالک سجاد ایک عیاش اور گھاگ انسان تھا.اس کے لئے عورت کھیلنے کا سامان تھی ،وہ خود شادی شدہ تھا ،مگر اسے دوستیاں اور گھر کو علیحدہ رکھنے کا فن بخوبی آتا تھا۔ ماہا اس کا چھ فٹ لمبا قد، گوری رنگت،نیلی آنکھیں دیکھ کر دیوانی ہوگئی۔اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے سپنوں کا شہزادہ مجسم ہوکر اس کے سامنے آگیا ہو۔سجاد نے ماہا کی آرزوئیں ، اس کی طلب بڑی آسانی سے محسوس کرلی اور اپنا جال بچھا دیا. اس نے ان کو گاڑی بڑی مناسب قیمت پر دے دی. نکلتے نکلتے ماہا کی طرف دیکھ کر مسکرایا ،اس کے گالوں پر بہت خوبصورت ڈمپل پڑھتے تھے۔بھاری آواز میں بولا :۔

"دوبارہ ضرور تشریف لائیے گا۔"

ماہا سجاد کے پر وجاہت سراپا کو دیکھ کر مچل گئی.اس کی تمام ناآسودہ خواہشات انگڑائی لے کر بیدار ہوگئیں ۔ وہ سمجھی کہ اس کے ناز و انداز نے کام دکھا دیا ہے. اگلے دن ہی وہ دوپہر کے وقت کشاں کشاں سجاد کے شوروم پہنچ گئی. سجاد اسے کھانا کھلانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹل لے گیا. کھانے کی میز سے کمرے تک کا سفر کیسے طے ہوا ،ماہا کو احساس ہی نہ ہوا۔ سجاد کی وارفتگیوں اور بے تابیوں نے ماہا کو ایک نئے جہان کی سیر کروا دی تھی۔اب تو ماہا کو اپنے میاں میں ہزاروں عیب نظر آنے لگے. سجاد کے دئیے ہوئے زیورات نے اس کی بینائی کو خیرہ کر دیا تھا. وہ گناہ، ثواب سے قطع نظر اس اندھی راہ پر بھاگی جارہی تھی. 

سجاد کا والہانہ پن اس کو پاگل کر رہا تھا.اب آسمان اس کے پیروں تلے بچھا ہوا تھا، وہ ایک خوش رنگ تتلی کی طرح آزاد فضاوں میں پرواز کرتی پھر رہی تھی۔

بادلوں کے سنگ یہ سفر بہت پرلطف تھا، اس کا انگ انگ کیف و نشاط کی مستی میں ڈوبا ہوا تھا ،سجاد کے سنگ مہنگے بوتیکوں سے شاپنگ کرتے،مہنگے ریسٹورانٹز میں کھانے کھاتے اس کو بالکل احساس نہیں ہورہا تھا کہ درحقیقت وہ کس گناہ و معصیت کی دلدل میں اتر گئی تھی۔ وہ اپنے سراپے پر مہنگا پرفیوم چھڑکتے ہوئے فخر سے گردن اکڑاتے ہوئے یہ یکسر بھول جاتی کہ اس کے جسم سے جو گناہ کی سڑاند آرہی ہے اب وہ کسی دنیا کی خوشبو سے جانے والی نہیں ہے۔اس کا عکس آئینے میں مقید سرد نگاہوں سے اسے گھورتا رہتا اور سر پٹختا رہتا،مہنگے میک اپ کی تہہ میں لپٹے اس کے نقوش مسخ سے ہوچکے تھے ،مگر اس کی آنکھ یہ سب دیکھنے سے محروم تھی ۔ وہ گناہ کی چمکتی دمکتی روشنی میں اپنی بینائی کھو بیٹھی تھی ،وہ اب سجاد کی باہوں میں مستقل رہنا چاہتی تھی اس لئے اس نے آخر کار عزیر سے خلع لے لیا. بچے اس نے دنیا دکھاوے کے لئے اس خیال سے رکھ لئے تھے کہ کچھ عرصہ کے بعد عزیر ان کو لے ہی جائے گا. اس نے عزیر کا گھر بہت نفرت سے چھوڑا اور اسے بتایا کہ اب وہ اپنے سپنوں کی دنیا میں سکونت اختیار کرئے گی۔اس نے جانے سے پہلے عزیر کو دل بھر کر ذلیل کیا ،اسے بتایا کہ وہ کس قدر ناکام شخص ہے کہ اپنی بیوی کی خواہشات کی تسکین ہی نہیں کرپایا۔ ماہا کے ضمیر نے ہولے سے اس کے کان میں سرگوشی کی:

ماہا ! بے وفا،بدکردار اور لالچی عورت تو تم ہو۔۔۔

کہیں مظلوم کی آہ نہ لگوا لینا۔"

ماہا نے اپنے ضمیر کی آواز کو فورا دبا دیا۔اب اس کی خواہشات اور اس کے بیچ اب کوئی نہیں آسکتا تھا ۔ماہا ایک کوٹھی کے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی چھوٹی سی جنت میں آگ لگا کر نکل گئی۔اسے پہلا دھچکا تب لگا جب سجاد نے اسے بہلاپھسلا کر وقتی طور پر اس کو ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لے دیا ۔

شروع شروع میں سجاد ہر رات آتا ، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سجاد کا رویہ تبدیل ہونے لگا . اب وہ ہفتہ ہفتہ اس کی طرف نہ آتا. ماہا اس کی بے التفاتی سے پریشان ہوگئی. آج جب بہت دنوں بعد سجاد آیا تو اس کی خاطر مدارت کے بعد ماہا نے بہت لگاوٹ سے سجاد سے شادی کا مطالبہ کیا تو وہ ہنس ہنس کر دوہرا ہوگیا اور پھر بولا :

"میرا دماغ تو خراب نہیں کہ میں تین بچوں کی ماں سے شادی کرلوں. "

ماہا یہ سن کر سناٹے میں آگئی۔وہ ہکلا کر بولی:

"تمھیں روز اول سے پتا تھا کہ میرے تین بچے ہیں ۔"

سجاد اٹھا اور گاڑی کی چابیاں پکڑ کر بولا:

"ماہا بیگم تم جیسی عورتیں صرف وقت گزاری کا سامان ہوتی ہیں، شریک سفر بننے کے لائق نہیں ۔تم عزیر کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کے اعتبار کو دھوکا دیتی رہی،میں تمھیں پاگل لگتا ہوں جو تم جیسی بدکردار عورت سے کوئی رشتہ رکھوں گا؟

میرا مشورہ ہے اب اس فلیٹ کا دروازہ اوروں کے لئے بھی کھول دو ،آخر میں کب تک اکیلا تمھارا کرایہ بھروں گا۔"

ماہا کو لگا جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈھیل دیا ہو اس پر دیوانگی سی طاری ہو گئی اس نے سجاد کا منہ اپنے لمبے ناخنوں سے چھیل دیا. سجاد نے اسے دو چار چانٹے رسید کیے اور اس کو دھکہ دے کر نکل گیا. 

ماہا کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی. اس کو اپنے بچے اپنی خوشیوں کے قاتل لگ رہے تھے. اس کی آنکھوں کے آگے سرخ چادر تن گئی تھی ۔کمرے کی ہر چیز اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔ہر چیز چیخ چیخ کر گردان کر رہی تھی:"یہ شادی شدہ تین بچوں کی ماں تھی،جو آشنائی میں پڑ گئی۔"

آوازوں کا ایک ہجوم تھا، پوری دنیا اس پر انگلیاں اٹھا اٹھا کر ہنس رہی تھی ۔اس نے ہر آواز کا گلہ گھونٹ دیا۔

جب اس کو ہوش آیا تو وہ پولیس کی حراست میں تھی اور پولیس والے اس سے بار بار ایک ہی سوال کررہے تھے۔

"بی بی تم نے اپنے بچوں کو کیوں مارا؟ "

اس پر جب یہ حقیقت واضع ہوئی کہ اس کے بچوں کی موت کی زمہ دار وہ خود ہے تو وہ ہوش و حواس سے عاری ہوگئی. 

لوگ اکثر اب جیل میں اس عورت کو دیکھ کر تاسف کا اظہار کرتے ہیں جو ہر وقت اپنے فرضی بچوں سے کھیلتی رہتی ہے. 

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں زنا کیوں فروغ پارہا ہے. اگر قرآن کو سمجھ کر پڑا جائے تو ہر حکم قرآن میں موجود ہے. 

يَآ اَيُّھا النَّبِىُّ اِذَا جَآءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓى اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّھِ شَيْئًا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَھنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُھتَانٍ يَّفْتَـرِيْنَھٝ بَيْنَ اَيْدِيْھنَّ وَاَرْجُلِھنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِىْ مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْھنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھنَّ اللّھَ ۖ اِنَّ اللّھَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ (12)

"اے نبی جب آپ کے پاس ایمان والی عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی اولاد لائیں گی جسے اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان (نطفہٴ شوہر سے جنی ہوئی) بنا لیں اور نہ کسی نیک بات میں آپ کی نافرمانی کریں گی تو ان کی بیعت قبول کر اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگ، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے."

اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن اور احادیث کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا کرے آمین.

No comments:

Post a Comment