Wednesday, 10 July 2019

Rahzan By Mona Shehzad

Rahzan Written by Mona Shehzad

اس دوشیزہ کی کہانی جس نے ایک راہزن کو اپنا آپ سونپ دیا۔کیا آج کل کی "محبت" محبت کہلانے کی حق دار بھی ہے؟ ایک راہزن لوٹے ہوئے مال کے ساتھ جو کرتا ہے وہی اس دوشیزہ کا مقدر بنا۔ تمام بچیوں کے لیے ایک آنکھیں کھولنے والی کہانی ۔
☆☆"رہزن"☆☆
تحریر: مونا شہزاد، کیلگری ۔
سرخ لہنگے میں سجی دھجی وہ واقعی کوئی الپسرا لگ رہی تھی. اپنا عکس آئینے میں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے وہ حیران ہی ھوگئ. ایسا جوبن اس پر دلہن کے روپ میں آئے گا اس نے تو سوچا بھی نہ تھا. اچانک اس کو اپنے ماں، باپ اور دیگر گھر والے یاد آگئے، ایک لمحے کے لئے اس کی آنکھیں نم ہوئی مگر ساتھ ہی اس نے خود کو جھڑکا، جب انہوں نے میری پسند کو قبول نہیں کیا تو میں اور کیا کرتی.آج رامیز کے دوست کے گھر ان کا نکاح تھا . اس کے فورا بعد ان کی دبئی کی فلائٹ تھی. وہ آج رات ہی تو خاموشی سے گھر سے بھاگ کر رامیز کے دوست کے گھر پہنچی تھی ،اس نے سوچا گھر والے کچھ دن پریشان ہو نگے اور جب میں واپس آکر رامیز کو اپنے مجازی خدا کے طور پر متعرف کراونگی تو امی اور ابی مجبورا مان ہی جائنگے. رامیز کے گھر سے بھی اس نکاح میں کوئی شریک نہیں تھا کیونکہ وہ لوگ برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے تھے. رامیز نے اس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک دفعہ ان کی شادی ہو جائے اس کے بعد اس کے گھر والوں کو وہ منا لے گا.
نکاح کی تقریب کے دوران نور کی آنکھیں بھرتی رہئیں مگر حسین کی بیوی کے ڈانٹنے پر وہ مجتمع رہی. 
نکاح کے بعد رامیز کے سارے دوست انھیں ائرپورٹ چھوڑنے آئے. دبئی پہنچ کر تو نور سارے اندیشے بھول کر نئی زندگی کے مزے لوٹنے میں مصروف ہوگئی. کبھی ماں باپ کا یا بہن کا خیال آتا تو سر جھٹک دیتی اور خشونت سے سوچتی؛ 
"یہ سارا کیا دھرا امی کا ہے. کیا ہے اگر رامیز اپنے گھر والوں کو رشتے کے لئے ہمارے گھر نہیں لاسکتا تھا؟ میرے گھر والوں کو میری خوشی کے لیے مان جانا چاہیئے تھا مگر انھوں نے تو قسم کھالی تھی کہ جب تک رامیز اپنے گھر والوں کو ساتھ نہیں لائے گا وہ شادی نہیں کرینگی. "
نور نے آئینے میں اپنا سجادھجا سراپا دیکھ کر کہا "مگر شادی تو میں نے کرلی اور رامیز تو میرا دیوانہ ہے. "
یوں ہی خوشیوں کی پینگ پر جھولتے تین مہینے گزر گئے. ایک دن اچانک رامیز کے گھر سے اس کے ابا کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر آئی. رامیز کو ہنگامی طور پر پاکستان جانا پڑا. نور کو مجبورا اکیلے رہنا پڑا. پاکستان پہنچ کر رامیز سے اس کی صرف ایک دفعہ بات ہوئی اس کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ رامیز غالب ہوگیا ہے. کچھ دنوں بعد نور کو رامیز کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ پاکستان جاکر رامیز کو ڈھونڈنے کی کوشش کرئے. 
نور کو بھی اور کوئی راستہ نظر نہ آیا اور ایک سہ پہر وہ پاکستان پہنچ گئ. مجبور ہو کر اس نے اپنے والدین کے گھر کا رخ کیا. تین مہینے میں اس کے والدین برسوں کے مریض لگ رہے تھے. نور کو دیکھ کر انھوں نے نہ صرف اسے گلے لگا لیا بلکہ اپنے داماد کو اپنانے پر بھی رضامند ہوگئے. 
نور کے ابا اور ماموں کی کوشش کے بعد ایک دن رامیز اور اس کے گھر والے ان کے گھر آنے.پتا چلا کہ رامیز کے ابا بیمار نہیں تھے بلکہ انھیں کسی طرح رامیز کی خفیہ شادی کی خبر مل گئی تھی اس لئے انھوں نے فورا بہانہ کرکے بیٹے کو واپس بلوا لیا ،اب رامیز کراچی ہی میں نوکری کر رہا تھا۔نور حیرانگی سے رامیز کو تکتی رہی مگر رامیز نظریں چار کرنے سے کتراتا رہا، نور حیران تھی کہ یہ وہ رامیز تو نہیں تھا جو اس سے پیار کا دعویدار تھا ،جو اس کے نہ ملنے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا ، وہ رامیز جو اس کی مانگ میں ستارے سجانے کے وعدے کرتا تھا،یسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے آگے بےبس ہے.نور کا دل ڈوبنے لگا ، کیا بھنورا پھول کا رس چوس کر اڑ چکا ہے ؟ کیا کلی کو پھول بنا کر اب بھنورے کا اشتیاق ختم ہوچکا ہے؟ رامیز کے والدین کی طرف سے بھی کافی سردمہری دیکھنے میں آئی. باتوں باتوں میں انھوں نے یہ باور کروادیا کہ ماں باپ کی دی گئی آزادی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج کل کی لڑکیاں بھولے بھالے لڑکے "پٹا "لیتی ہیں. رامیز کی امی نے طنزیہ انداز میں نور کی امی سے کہا:
بھئی ماوں کو تو بیٹیوں کے چلنے کے انداز سے آنے والے وقت کی آہٹ ہوجاتی ہے ،لگتا ہے آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہیں اور آپ کی بیٹی آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بھاگ گئی۔آخر کار آپ کو نوکری سے فرصت ہوتی تو اپنی بیٹیوں کی طرف دھیان دیتیں ۔"
نور کی والدہ ایک آفس میں ڈائریکٹر کی پوسٹ پر کام کرتی تھیں۔
نور کے والدین کا سر جھکا ہوا تھا، اس کی امی کا چہرہ سفید پڑھ چکا تھا، ان کی بیٹی کے ایک جذباتی قدم نے ان کو اور خود اس کو سر بازار رسوا کردیا تھا، اب ہر ایک کے ہاتھوں میں سنگ تھا اور منہ میں زہر سے بجھی ہوئی زہریلے سانپوں کی طرح پھنکارتی زبانیں ۔
کچھ مہینے دونوں پارٹیوں کا آنا جانا لگا رہا، مصالحت کی کوششیں ہوتی رہیں ، نور کے والدین اس کو عزت سے رخصت کرنا چاہتے تھے مگر رامیز کے گھر والوں کے تیور درست نظر نہیں آتے تھے. نور آس و نراش کے بیچ ڈول رہی تھی، تمام پڑوسی، رشتہ دار اس کو اور اس کے والدین کو حقارت کی نظر سے دیکھتے، عورتیں کانوں کو ہاتھ لگا لگا کر کہتیں:
"ایسی بدکردار اولاد کا تو گلہ ہی گھونٹ دینا چاہیے ۔"
کوئی دوسری چہک کر لقمہ دیتی :
"بھئی یہ رعنا صاحب اور نوشابہ بیگم کے گناہوں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انھیں اولاد کے ہاتھوں رسوا کیا ہے۔"
نور اپنے کان بند کرلینا چاہتی تھی، مگر لوگ ہر موقعے پر اس کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ، دنیا واقعی کسی کے "گناہ " نہیں بھولتی ،گھر سے بھاگ کر کیا ہوا نکاح اس کے لیے "گالی" بن گیا تھا۔ اس کے والدین زمہ دار نہ ہوتے ہوئے بھی زمہ دار ٹھہرانے جارہے تھے، اس کی چھوٹی بہن کا مستقبل تباہ ہوگیا تھا، گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کی چھوٹی بہن سے کون شادی کرئے گا؟
نور اب دن رات سجدے میں پڑی یہ دعائیں کررہی تھی کہ رامیز اور اس کے گھر والے اسے قبول کرلیں۔مگر سیاہ بختی نے نور کا پیچھا نہیں چھوڑا،ایک روز دروازے پر دستک ہوئی، نور نے دروازہ کھولا تو اپنے نام رجسٹرڈ ڈاک پائی.
کھولنے پر پتا چلا کہ وہ اس کا طلاق نامہ تھا. وھ تیورا کے فرش پر گر کر ہوش وہواس سے ماورا ہوگئ. جس محبت کے پیچھے اس نے اپنے رشتوں کو رسوا کیا تھا. آج وہ اس کو رسوا کرکے اکیلا چھوڑ گیا تھا. جس کو اس نے ہمسفر سمجھ کر اپنا آپ سونپ دیا تھا، وہ تو" راہزن" نکلا تھا.وہ سیاہ رات جس رات اس نے گھر کی دہلیز پار کی تھی ایک ناگ بن کر اس کو ڈس چکی تھی ،اس کے نصیب پر سیاہی پوتی جاچکی تھی، بھگانے والا رامیز دنیا کی نظر میں محفوظ تھا، کیونکہ وہ مرد تھا، افسوس ہے ان بچیوں پر جو ان راہزنوں کی چکنی چوپڑی باتوں میں آکر اپنا آپ خس و خاشاک کرلیتی ہیں.

No comments:

Post a Comment