Shaheed Ki Hayyat Written by Mona Shehzad
"شہید کی حیات "
تحریر: مونا شہزاد، کیلگری ،کینیڈا ۔
ادا نے کمرے میں جھانکا تو زریاب ابھی تک بے خبر پڑا سو رہا تھا. اس کو شرارت سوجھی اور بے اختیار ہی اس نے تهوڑا سا پانی زریاب کی طرف اچھال دیا. زریاب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور ادا کے پیچھے بھاگا.
ارے ٹہرئے! آپ یہ کسی ٹین ایج کپل کی پریم کہانی نہیں پڑھ رہے. یہ کرنل زریاب علی اور ادا علی کی پریم کتها ہے. سولہ سال پہلے ادا جعفری نے زریاب علی کی بیگم بن کر ادا علی کا نہ صرف نام اختیار کیا بلکہ وہ اس "آشیانہ ہاوس " کے ہر مکین کے دل میں بھی گهر کر گئیں. اللہ نے ان کو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت بھی عطا کیا تھا. وہ اپنے سسرال کی آنکھوں کا تارا تھیں. اللہ نے ان کو سولہ سال میں تین بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا. وہ آج بھی روز اول کی طرح خوبصورت اور نازک اندام تھیں. ان کی شادی عمر کی بیسویں سیڑھی پر ہوگئی تھی. اس لئے سولہ سالوں نے ان کو نکهارا ہی تھا. پھر چاہے جانے کا احساس ایسا نشہ ہے جو انسان کو خوبصورت ہی رکهتا ہے.
ابھی ادا نے ناشتے کی ٹیبل لگائی ہی تھی تمام گهر والے زریاب کا انتظار ہی کر رہے تھے. اچانک زریاب وردی پہنے ہوئے ڈائننگ روم میں داخل ہوئے. ادا نے بے اختیار ہی پوچھا :
خیریت ! آپ کل ہی تو آئے تھے؟
زریاب ہنس کر بولا :
"بیگم صاحبہ آپ فوجی کی بیوی ہیں اور جانتی ہیں کہ ہمارا فرض ہماری زندگی سے بڑھ کر ہے."
سب نے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا. ناشتےکے بعد زریاب نے اماں ،ابا اور بچوں سے اجازت لی.
بڑے پندرہ سالہ بیٹے کو چند نصیحتیں کیں. ادا بوجھل دل سے اپنے کمرے میں چلی آئی. زریاب نے اس کے پیچھے آکر نرمی سے اس کو خدا حافظ کہا. ادا نے بے اختیار ہی کہا :
"ہماری پرسوں شادی کی سالگرہ ہے. میں نے آپ کی اور اپنی بہنوں کو دعوت پر بلا بھی لیا تھا کہ اب آپ اچانک چل پڑے ہیں ۔"
اس نے خفگی سے منہ موڑ لیا ،زریاب نے پیار سے اسے اپنی طرف گھمایا اور ہنس کر کہا :
"پگلی! پرسوں تک تو میں تمہارے پاس ہونگا. "
زریاب بلوچستان کے مشن پر نکل گئے، ادا کے دن اینورسری کی تیاریوں میں مصروفیت میں گزرے ، آج ان کی شادی کی اینورسری کی دعوت تھی. ادا صبح سے دعوت کے انتظامات میں مصروف تھی. سارے رشتے دار آچکے تھے. اب اس کی نندوں نے پیچھے پڑ کر اس کو بھی اچھا سا تیار کردیا تھا. کیک آچکا تھا.
چانک پورچ میں گاڑیاں رکنے کی آواز آئی. ادا بے اختیار بهاگ کر باہر آئی. اس نے بے یقینی سے دیکھا، انہونی ہوچکی تھی. پورچ آرمی والوں سے بهرا ہوا تھا اور ایک گاڑی سے ایک لکڑی کا تابوت جس پر پرچم لپٹا ہوا تھا اور اس پر پڑی ٹوپی کو تو وہ آنکھیں بند کرکے بھی پہچانتی تھی. کب وہ زمین پر گر پڑی اور کب ہوش و حواس سے عاری ہوگئی.اسے کچھ یاد نہیں ۔بس اسے یہ احساس تھا کہ وہ بے سائبان ہوگئی تھی، اس کا سائیں اب زندہ نہیں تھا،اس کے سر سے چادر کھچ گئی تھی ۔
جب اسے تین دن بعد ہوش آیا تو اس کی دنیا لٹ چکی تھی. بلوچستان کے آپریشن میں اس کے جانباز میاں نے نہ صرف دہشت گردوں سے معصوم جانوں کو بچایا تھا بلکہ اپنی یونٹ کے جوان کی جان بچاتے ہوئے چھاتی پر چار گولیاں کها کر جام شہادت نوش کیا تھا۔ادا کو یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اس کا ہمسفر اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔وہ اکثر سوچتی:
"زریاب ! آپ تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتے تھے ۔۔۔۔اس دفعہ آپ نے مجھ سے جھوٹا وعدہ کیوں کیا تھا؟"۔
آج پورے چالیس دن گزر گئے تھے. اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ایک ریگستان میں بے سائبان کهڑی ہے. پورا رمضان کیسے گزرا اس کو پتا ہی نہ چلا.اب کل عید تھی. اس نے بے اختیار آنکھیں بند کی اور زیر لب بڑبڑائی.
عید کی ہے پهر آمد آمد
شور ہے ہر طرف سلامت سلامت...
میں اپنی سونی کلائیوں کو حسرت سے تکتی ہوں۔۔۔
پهر اپنی حنا سے عاری ہتھیلیوں کو سونگھتی ہوں۔۔۔
اچانک دو موتی میری ہتھیلی پر ٹپک جاتے ہیں،
میرا وه کنگن اور حنا لانے والا جیالا پاسبان ،
تو دور افق میں اب بستا ہے ۔
پهر مسکرا کر سوچتی ہوں،
شہید کی بیوه روتی نہیں ہے.
آج میری بانہیں اور ہتھیلیاں سونی ہیں تو کیا؟
مگر بہت سی بہنوں کے سہاگ ہیں سلامت۔
بہت سے بچوں کے ہیں خواب سلامت ۔
بس یہ سوچ کر نیر خشک کرلیتی ہوں.
یہ جو شہید کی موت ہے۔۔۔
یہی تو قوم کی حیات ہے.
یہ سوچ کر اس نے ایک عزم سے اپنی آنکھیں خشک کیں.اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بھی اس وطن کا پاسبان بنانا تھا. وہ اپنے سسر کے کمرے کے پاس سے گزری تو اس کے کانوں میں ان کی تلاوت کی آواز سنائی دی.
“وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ۔” (البقرة:۱۵۴)
ترجمہ:… “اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کردئیے جائیں ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم کو احساس نہیں۔”
بے شک اللہ نے اس کو اشارہ دے دیا تها.
وہ ایک نئے اور محکم ارادے سے اٹھ کهڑی ہوئی.
No comments:
Post a Comment