زرک میر
ذرائع کے مطابق ڈاکٹرمالک بلوچ اچانک اپنے آبائی علاقے تربت میں منظر عام پر آگئے ہیں ان کی بازیابی کی تصدیق ان کے اہلخانہ اورپارٹی کے ان کارکنوں نے کردی ہے جن سے وہ ڈھائی سال سے نہیں ملے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بازیابی کے فورا بعد ان کا ایک بیان سامنے آیا ہے جو انہوں نے اپنے ڈھائی سال پہلے لاپتہ ہونے سے کچھ روز قبل دیا تھا کہ
"افغان مہاجرین بلوچ قومی زیست وموت کا مسئلہ ہیں اور ہم ان کی موجودگی میں مردم شماری نہیں ہونے دینگے "جس کی پاداش میں انہیں غائب کردیاگیا تھا تاہم ان کی دوبارہ بازیابی اور اپنے ڈھائی سال پہلے کے موقف کا اعادہ اس بات کا اشارہ ہے کہ موصوف اپنے قومی موقف پر تاحال ڈھٹے ہوئے ہیں ذرائع کے مطابق "موصوف نے اپنی بازیابی کے بعد ڈھائی سا ل کا احوال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان ڈھائی سالوں میں ان کو ایک بنگلے میں رکھاگیا تھا جس میں انہیں طرح طرح کی آسائشیں دی گئی تھیں،انہیں سیر کے لئے باہربھی لے جایاجاتا جب کبھی انہیں باہر لے جایاجاتا تو گاڑیوں کی طویل قطاروں میں لے جایاجاتا اور مکمل سیکورٹی دی جاتی ،اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کوئی نہ پہچانے کے اس قافلے میں عام لوگوں کیساتھ گل مل کر رہنے والے اورچائے پینے والے مارکس وادی کامریڈ لاپتہ ڈاکٹرمالک کو لے جایاجارہا ہے لہذا جس گاڑی میں انہیں بٹھا کر باہر لے جایاجاتا۔ڈاکٹرمالک نے بتایا کہ اس گاڑی کے شیشے بھی کالے تھے اس لئے میں سب کو دیکھ سکتا تھااور کوئی مجھے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔۔ایک دفعہ سریاب روڈ سے مجھے لے جایارہاتھا تو مجھے راستے میں "ڈاکٹر حئی " نظر آئے میں نے ہاتھ ہلانے کی کوشش کی تو میرے ساتھ بیٹھے قلم کاپی تھامے سیکرٹری نما شخص نے مجھے روک دیا اور کہا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے سیکورٹی ریزن ہے ،ڈاکٹر حئی بھی مجھے نہ دیکھ سکے،اور قافلہ دھول اڑاتا آگے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ آگے بڑھے تو مجھے سریاب کے وہ لوگ بھی نظر آئے جن کے ساتھ میں نے نوروز اسٹیڈیم میں کئی جلسے منعقد کئے تھے جب ہم گزررہے تھے ان کو چوک پر روک دیاگیاتھا اور وہ سائیکلوں موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں بیھٹے کالے شیشے والی گاڑی کو غور سے دیکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ہرکوئی اس کوشش میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کالے شیشوں کے پار دیکھنے کی کوشش کررہا تھا کہ گاڑی میں کون بیٹھا ہے جبکہ میں انہیں صاف صاف دیکھ سکتا تھا اور انہیں پہچان پارہاتھا لیکن میں کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا ان میں کہیں نیشنل پارٹی کے کامریڈ تھے میں رک کران سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں تھی میں کیسے ایسا کرسکتا تھا لیکن مجھے ان کو دیکھ کر خوشی ہورہی تھی کہ وہ زندہ سلامت تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یوں تو مجھے کوئٹہ میں رکھا گیا لیکن ہر ہفتہ اور دس دنوں میں اسلام آباد بھی لے جایاجاتارہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئٹہ اور اسلام آباد میں مجھے پشتون رہنماءمحمود خان اچکزئی کیساتھ بھی ملاقاتیں کرائی جاتی رہیں ،وہ بھی میری طرح تھے، ہم ایک دوسرے سے مطلب کی نہیں کرسکتے تھے بس ایک ساتھ ہمیں رکھاگیاتھا تو مجھے کہاں کہاں رہنا ہے کیا کھانا ہے کیا پینا ہے اور محمود خان کو کیا کھانا ہے کیا پینا ہے اس معاملے پر میں اور محمودخان ایک دوسرے سے بات کرسکتے تھے سو ہم اس دوران جب بھی ملے کھانے پینے کے معاملات پر بات ہوتی رہی کیونکہ اس سے زیادہ پر بات کرنے کے لئے ہمیں اجازت نہیں دی گئی تھی ہمیشہ کوئی تیسرا ساتھ ہوتاحالانکہ بہت دل چاہا کہ ان سے بلوچ پشتون معاملے پر بات کروں انہیں بتائوں کہ بلوچ افغان مہاجرین کو قطعی بلوچستان میں تسلیم نہیں کرینگے اور محمود خان کو یہ بھی بتائوں کہ سریاب اور چاغی کی نشستیں بلوچوں کی ہیں افغانوں کی قطعی نہیں اور وہ مزید افغان مہاجرین کو کوئٹہ میں آباد نہیں کرسکتا اور یہ کہ کوئٹہ میں میئر بلوچ ہوگا ،بیوروکریسی میں بلوچ اکثریت میں ہونگے ، لیکن بسیار کوششوں کے میں یہ نہیں کہہ پایا کیونکہ قید تنہائی میں یہی محمودخان ہی تو ایسے ہم سفرتھے جو کبھی کبھی لطیفے سنا کر مجھ جیسے غمزدہ شخص کو ہسنتاتے رہتے تھے ،لطیفے کیا تھے بس محمود خان اپنا پٹو جھاڑ تھے تب بھی میں خوب ہسنتاتھا اور محمود خان کہتے کہ یارا مالک مت ہنسو ، جس طرح مشرف کے لئے اس کی وردی کھال تھی میرے لئے میرا یہ پٹو میری کھال ہے اور میں اس کو پشتونستان بننے تک کبھی نہیں اتاورں گا۔تب میری اور ہنسی نکلتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام آباد میں مجھے نواز شریف سے بھی ملاقات کرائی جاتی رہی اور میں ان سے بھی زیادہ بات نہیں کرسکتا تھا اور زیادہ تر خاموش ہی رہتا ، وہ میری اس خاموشی پر مجھے ہمیشہ "شاباشی" دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ مجھ سے بہت خوش ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ میں مزید ان کے ساتھ رہوں اور ملاقاتیں کرتا رہوں مجھے حیرانگی تھی کہ وہ میری خاموشی سے کیوں خوش ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ کچھ اور بھی نیشنل پارٹی کے ساتھی رکھے گئے تھے ان میں خالد لانگو اور اسلم بزنجو بھی شامل تھے میں ان کا ہرطرح سے خیال رکھتا وہاں میں ہی ان کا بڑا تھا ڈاکٹرحئی تو ویسے ہی باہر تھے انہیں پیراں سالی کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں لایاگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی سننے میں آتا تھا کہ ڈاکٹر حئی مجھ پر بھی تنقید کررہا ہے کہ میں کیوں جو چاہتاہوں وہ نہیں کرپارہاہوں اور جو بولنا چاہتاہوں وہ بول نہیں پارہا ۔جس پر میں سرد آہ بھر کر انتا ہی کہہ پاتا کہ ڈاکٹر حئی پر کبھی ایسا وقت نہیں گزرا ،وہ جیل میں تو رہے ہیں لیکن ایسی قیدانہیں میسر نہیں رہی ہے جس میں میں ہوں اس وقت لہذا یہ سوچ کر میں ان کی باتوں کو نظرانداز کرتا اور زیادہ ٹینشن نہیں لیتا ۔۔۔۔۔۔۔وہاں نیشنل پارٹیوں کا سربراہ میں ہی تھا تو اچھا برتائو کرنے پر خالد لانگو کی آنکھوں میں ایک دن آنسو آگئے اور کہا کہ ڈاکٹرمالک فرشتہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور مجھے زمین پر فرشتہ قراردے کرانہوں نے اپنے آنسو پونچھ لئے جس پر میں ان کو دلاسہ دیتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں ہرطرح کی آسائش تھیں بس بولنے پر پابندی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ بات تو میں نوازشریف اور محمود خان کو ڈھائی سال کے دوران ہونے والے ملاقاتوں میں بھی بتاسکتاتھا کہ افغان مہاجرین بلوچوں کی زیست اور موت کا مسئلہ ہیں لیکن وہاں میں نہیں بول پایا کیوں کہ ایسی صورتحال کا اخترمینگل سے پوچھا جائے کہ وہاں بندہ سب کچھ سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں بول پاتا خود اخترمینگل نے چاغی کے ایٹمی دھماکوں پر وہاں جاکر نوازشریف کی ڈرائیونگ کی اور تالیاں بجائیں لیکن یہ نہ بول سکے کہ مجھے ان دھماکوں پر اعتراض ہے لیکن جونہی 18ماہ بعد رہائی ملی تو اس دن سے لے کرآج تک 28مئی کو یوم سیاہ مناتا ہے ،خداایسی صورتحال کسی دشمن پربھی نہ لائے جو سب کچھ ہونے کے باوجود بول نہ پائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں اخبار پڑھنے کے لئے دیا جاتا تھا اخبارات پڑھ کرکچھ سکون محسوس ہوتا تھا کہ کچھ غلط نہیں ہورہا، سب ٹھیک اور اچھا چل رہا ہے لیکن کبھی کبھی اڑتی اڑتی افوائیں اس بنگلے میں بھی پہنچ جاتی تھیں کہ گوادر میں پانی کی قلت ہے لوگ دربدر ٹھوکریں کھا کررہے ہیں ،نوشکی میں خشک سالی ہے ، این ٹی ایس میں بے قاعدگیاں ہورہی ہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہتشتگردوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں جو بلوچ علاقوں سے ہورہی ہیں یہ تشویشناک امر تھا کہ جب میں باہر تھا تب تو بلوچ علاقوں میں کوئی دہشتگردموجود نہیں تھا اب یہ دہشتگرد کہاں سے آگئے البتہ ان کی گرفتاریوں کی خبروں پر کچھ سکون ملتا کہ بلوچ علاقوں سے دہشتگردوں کا صفایاہورہاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک رات میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا کہ دھماکے کی آواز سنی اورپھر صبح افواہ ملی کہ بم دھماکہ ایک بس کے چھت پرہواتھا جس میں 15لوگ مارے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ادھر سے پتہ کیا کہ معاملا کیا ہے تو پتہ چلا کہ 15لوگ مارے گئے ہیں رات کے وقت شہر سے اپنا کام ختم کرکے سریاب کے نواحی علاقے کو لوگ واپس گھروں کو جارہے تھے کہ بس کی چھت پر دھماکہ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن نہ کھانا کھا سکا نہ چائے پینے کو دل کررہاتھا اسی صبح مجھے بم دھماکہ کی جگہ لے جایاگیا تومیں دل ہی دل میں سوچا کہ چلو اس بہانے غریب نوجوانواں اوریونیورسٹی کے طلباء کے گھر تعزیت کے لئے جائوں گا لیکن مجھے جانے کی اجازت نہیں دی گئی مجھے دھماکے کی جگہ بھی اس وقت لے جایاگیا جب وہاں چاروں طرف تمام راستے بند کردیئے گئے تھے وہاں میں کسی کو بھی نہیں دیکھ پایا اور نہ ہی وہاں مرے ہوئے لوگوں کے چھتڑے دیکھ سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد مجھے گوادر میں پانی کی قلت کی افواہ سن کر بھی بہت افسوس ہوا،لیکن ان افواہوں کی تصدیق بھی نہیں ہوپارہی تھی تصدیق کرتا بھی تو کون کرتامیں اپنوں سے تو دورتھا تب میں ان افواہوں کو اپنے تئیں کھبی غلط قیاس کرکے بھی سکون پالیاتھا لیکن اس افواہ کے کچھ دنوں بعد محمود خان اور فضل الرحمن سے یہ سن کر بڑا ہی افسوس ہوا اور کلیجہ میرے منہ کو آگیا کہ گوادر میں پانی کی قلت سے ہٹ کر گوادر سے چین تک راستہ بنایاجارہاہے اور اس کو اقتصادی راہداری کہتے ہیں ،محمود خان مجھے اقتصادی راہداری کا بتاتے بتاتے اپنے پٹو کو باربارجھاڑ رہا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے منہ سے تو جھاگ بھی نکل رہا تھا تومیں نے ان کو بٹھایااور کہا بھائی تسلی سے مجھے بتائو کہ معاملہ کیا ہے اور آپ لوگ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو ؟ گوادر تو بلوچوں کا ہے آپ لوگ کیوں پریشان ہورہے ہو اور اگر وہاں سے شاہراہ گزاری جارہی ہے تو اس میں آپ لوگ کیوں گبھرارہے ہو یہ تو اچھی بات ہے شاہراہ گزرے گی تو اس سے پہلے گوادر کا پانی تو ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان دونوں پشتون ماموں کا گبھراہٹ والا چہرہ دیکھ کر کچھ شک ہوا میں نے کہا مجھے اپنی گبھراہٹ بتائو ،آج تک آپ لوگوں نے گوادر کا نام تک اپنی زبان پر نہیں لایا آخر اچانک یہ کیا ہوا کہ آپ لوگ گلستان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے زیادہ گوادر کا نام لے رہے ہو ،مجھے کچھ تو بتائو ،تب ان دونوں نے جلد بازی میں پشتوزبان میں اور بہ یک زبان بولنا شروع کیا تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیاتب دونوں لڑپڑے کہ ان میں سے پہلے کون بات کرے۔۔۔۔۔ تب میرا شک یقین میں بدل گیا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے کہ یہ دونوں گوادر سے متعلق بات کرتے ہوئے کیوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں تب میں نے مولانا فضل الرحمن کو بات کرنے کا کہا تو محمود خان نے اپنا پٹو نیچے بچھا کر اس کے اوپر چارزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور مولانافضل الرحمن نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ ، 1973کے آئین کے تناظر میں گوادرپورٹ کو چین سےملانے کے لئے گوادرپورٹ کو چین کی مدد سے فعال بنایاجارہا ہے تو میں نے فورا مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ تو مجھے پتہ ہے اور ہم گوادر پورٹ کے ہی خلاف ہیں اور ہم نے کہا تھا کہ ہمارے تحفظات دورہونے تک یہ چلنے نہیں دینگے ہم تو مولانا فضل الرحمن نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ یارا یہ تو گزرے زمانے کی باتیں ہیں اب گوادر ہم سب کا ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ گوادر کو چین سے ملانے والی اقتصادی راہداری ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے گزاری جائے جس میں تمام پشتون علاقے آنے چاہیئے جبکہ نوازشریف نے بھی ہمیں یقین دہائی کرائی تھی کہ شاہراہ گزرے گی ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکن ابھی پتہ چلا ہے کہ احسن اقبال اسے حسن ابدال اور پنجاب کے دیگرعلاقوں سے گزارنا چاہتا ہے، محمود خان نے بھی فضل الرحمن کی تائید میں سرہلایاتو میں نے کہا اچھاتو گوادرپورٹ بن گئی اور کیا گوادر کے لوگوں کاپانی مل گیا جو شاہراہ بن رہی ہے ؟ تومیرے اس استفسارپر دونوں پشتونوں نے اس بات کی پراہ کئے بغیر کہنے لگے کہ یہ شاہراہ ہرصورت پشتون علاقوں سے گزرے گی ، میں نے پھر ادھر ادھر دیکھ کر آہستہ سے کہا کہ گوادر کو پہلے پانی دینا ہوگا تب شاہراہ کی بات کی جائے ،تو مولانا نے زوردارآواز میں کہا یارا پانی کی بات کرتا ہے یہاں ہمارے علاقے سے شاہراہ نہیں گزررہی اور تم پانی کی بات کرتے ہو؟ شاہراہ بڑا ہے کہ پانی، جب شاہراہ بنے گی تو ہم کوئٹہ سے گوادر کے لئے پانی لے جائیں گے دیکھتے نہیں ہو کوئٹہ کو کیسے ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کرتے ہیں ہمارے پشتون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب میں سمجھا کہ گوادر تو گوادر یہ دونوں پشتون تو پانی کا ٹھیکہ بھی لینے کے خواہش مند ہیں تب میں خاموش ہوگیا اورفیصلہ کیا کہ یہاں سےنکلتے ہی میں ان پشتونوں کو خوب جواب دونگا جو وہاں بیٹھ کر پانی سے محروم گوادر سے اپنے مستقبل کی ترقی کے کیسے اندازے لگارہے ہیں وہاں میں نے ان دونوں پشتون مشران سے مخالفانہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور یہ فیصلہ کیا کہ جب باہر نکلوں گا تب ان کو جواب دونگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر کار ایک دن دیکھا کہ ثناء اللہ زہری اورمحمود خان اچکزئی ساتھ گپ شپ کررہے ہیں اور محمود خان اچکزئی انہیں اچھے باپ کی اولاد قراردے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہمارے لئے آپ بہت مقدم ہیں اور نواب زہری ہاتھوں کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا کررہے تھے کیونکہ نواب زہری کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب میں سمجھا کہ میری اب یہاں ضرورت نہیں رہی ہے اور میں نے خالد لانگو اسلم بزنجو اور رحمت بلوچ کو بلا کر ان سے آخری ملاقات کی اور کو ثناء اللہ زہری اور محمود خان کے پاس چھوڑ دیا، یہ سن کر بڑا افسوس ہوا خالد لانگو فورا نواب زہری کے پاس جاکر براہوئی میں کہنے لگا "نواب صاحب نی تو بلو فرشتہ سے اس " اتنی براہوئی میں سمجھ پایا لیکن وہ دونوں اور باتیں بھی کررہے تھے تب مجھے براہوئی نہ سیکھنے کی پشیمانی ہوئی کہ جو شخص مجھے فرشتہ کہہ رہا تھا وہ ایک دم سے نواب زہری کو بھی فرشتہ اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہا تھا کاش کے میں خالد کی باقی باتیں بھی سمجھ پاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج جب میں ڈھائی سال بعد باہر نکلا ہوں توسب سے پہلے مجھے وہ پشتون مشران یاد آگئے جو وہاں میری معصومیت اور خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مجھے کھری کھری سناتے تھے اورمیں خاموش رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بازیابی کے بعد سب سے پہلا میرا پیغام ان پشتونوں کے لئے ہے جو یہاں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کرانا چاہتے ہیں جس کی میں ہرگزاجازت نہیں دونگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment