Wednesday, 24 July 2019
Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode3 Part1
Naqs e kafy-e-paaye yaar Written by Haadi khan
#نقشِ_کفِ_پائےِ_یار
#قسط_نمبر_تین
(پہلا حصہ)
#ہادی_خان
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
شام کو عابد صاحب نے گھر آکر ہاجرہ کی ضرورت کا سامان دے دیا...
یہ اتنا سب کچھ ہاجرہ نے نہیں لکھوایا تھا...
اس نے صرف رسوئی گھر کے سامان کی پرچی تیار کر کے دی تھی یہاں خلافِ مخیل ہی سب ہوا...
عابد صاحب کے دونوں ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز تھے اور باقی کے سائیکل کے ہینڈل سے آویزاں تھے...
وہ اس کے لئے حسبِ توفیق ہر آسائش لے آئے تھے...
کچھ نئے برتن بھی...جن میں چائے کا مگ جو اس دور میں بالکل نیا اور الگ تھلگ تھا...
کھانے کو مزے مزے کے لوازمات سے بھرا شاپر اور مکس پھلوں کی بنی ٹوکری سائیکل کے کیرئیر میں جکڑی ہوئی تھے...
وہ ناجانے اپنی خواہشات کو آج پورا کر رہے تھے یا اس کے حصے کی رکھی رقم کو آج اس پر خرچ کرنے کا موقع ملا تھا...
وہ بچی بلند بختوں کی مالک تھی اگر ایک دو حاسدوں کو فراموش کریں تو باقی سارا گاؤں ہی اس کو بیٹی تسلیم کرتا تھا...
"ہاجرہ بیٹا یہ تم پہننا...." عابد صاحب سامان سے ایک سوٹ نکال کر اس کے سامنے پیش کرنے والے انداز میں لیئے جھکے تھے...
ہاجرہ کی آنکھیں چمک اٹھی اس کے الفاظ مفلوج ہو چکے تھے.....
وہ اس بڑی حویلی سے نکلنے کے بعد پہلا دن تھا...
اپنے باپ کی بے لوث محبت دیکھ کر ہاجرہ نے حسرت کی کے کاش وہ پہلے ادھر آئی ہوتی...
خیر جو اللہ کو منظور ہو...مگر وہ وہاں آکر بہت اطیمنان محسوس کر رہی تھی...
اپنائیت کا احساس واقعے اپنوں کے ساتھ ہوتا ہے...
جہاں دل مائل وہاں من لگ جاتا ہے...
🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟
چند دنوں بعد جب احمد صاحب کو ہاجرہ مسلسل غیر حاظر لگنے لگی.....
"سنو ہاجرہ بٹیا کہا ہے...." ایک دن انھوں نے عروسہ بیگم سے پوچھ لیا...
"وہ اپنے کمرے میں ہوگی...." عروسہ نے منہ چڑا کر جواب دیا....
"آج کل کی لڑکیوں کے پاؤں زمین پر کہاں لگتے ہیں..."
"بس بس زیادہ مت بولو ہماری بیٹی ایسی نہیں ہے...." احمد صاحب نے فوراً ان کی تردید کی...
عروسہ بیگم اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئی...
انھوں نے ایک رات کو جلدی آکر خود سے دیکھا وہ واقع انھیں اپنے کمرے میں کیا گھر پر ہی نہیں ملی...
عروسہ بیگم سے روز پوچھتے تو وہ ٹال دیتیں آج انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا...
"وہ نہ ہی صبح فجر کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے... نہ وہ رات کو ہوتی ہے... اتنی انمول ہوگئی ہے کہ آنکھ میں سرمہ ڈالنے کے برابر بھی نہیں نظر آتی....جاؤ اسے بلا کر لاؤ..."
جب عروسہ بیگم چپ رہی تو وہ چلائے،،،،
"بتاؤ ہاجرہ کہاں ہے کیا کیا ہے تم نے میری بیٹی کے ساتھ..." احمد صاحب چیخے تھے...
"وہ اپنے باپ کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی ہے...." عروسہ بیگم نے ڈر ڈر کر جواب دیا...
اسی شام کو احمد صاحب اکیلے ہی ہاجرہ کے گھر آئے...
"بیٹا آنے سے پہلے انسان اطلاع دے دیتا ہے میں بہت دنوں سے پریشان تھا....." انھوں نے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا...
مگر ہاجرہ کے جواب دینے سے پہلے عابد صاحب نے ان کو روک کر اپنی مداخلت کرنا ضروری سمجھا.. پھر بہت دیر تک گھر کے واحد مٹی کے کمرے میں دونوں نے خود کو بند کر لیا...
اس محفل میں کوئی زن شامل نہ تھی جس کے بارے بات ہو رہی تھی "ہاجرہ" وہ تک بھی نہیں...
کہتے ہیں جس محفل میں عورت کو بڑا بنا کر بیٹھا دیا جائے یا ایک فریق کی سربراہ عورت ہو تو وہ جرگہ نہیں مچھلی بزار بن جاتا ہے...
اس کی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مرد جو فیصلہ کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کہیں ایک جھک جاتا ہے تو کہیں دوسرا مگر عورت اپنی من مانی کرتی ہے...
اس سارے دورانیے میں ہاجرہ باہر صحن میں چکر کاٹ رہی تھی....
ہاجرہ کا من بوجھل ہونے لگا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آیا یہ رشتہ باقی رہے گا یا نہیں...
یہ چند لمحوں کی مدت سے بند دروازہ ہاجرہ پر مجنوں کی دیوانگی میں سنگلاخ تپتی زمین پر ننگے پاؤں چلنے کے برابر دِقت طلب کہیں تو غلط نہ ہوگا..وہ اسی بات کو سوچ کر لرز رہی تھی کہیں سب ختم ہی نہ ہو جائے...یہ نہ ہو اس کا خود کو سمیر کا مان لینا اب عامیانہ لگے...رشتوں کی کسی کڑی کی نوعیت بدل نہ دی جائے...بڑوں کے فیصلے جہاں خوشنودی کا سبب بنتے ہیں وہی انا اور غصے میں لیے گئے فیصلے بہت زیادہ نظرِثانی کے مستحق ہوتے ہیں...ہاجرہ کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں وہ اپنے دردِ سر میں کسی بھی پہلو پر سکون نہیں پارہی تھی...
مگر کچھ دیر بعد دروازہ کھلا...
دونوں بھائیوں کے منہ پر خفگی سی چھائی تھی...
ناجانے کیا فیصلہ ہوا ہوگا...
وہ تھوڑی سی آگے بڑھی...
ہاجرہ نے تایا کے پاس کھڑے ہوکر ان سےنظروں ہی نظروں میں بہت سارے سوالات پوچھ لئے تھے...
احمد صاحب سرنگوں و شرمسار کھڑے رہے...
وہ فقط ہاجرہ کے سر پر ہاتھ ہی رکھ سکے...
ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسوں کی قطاریں بہنے لگیں...
بالکل ایسے جیسے کسی قیود کا دورازہ کھلا رہ جائے تو قیدی زنجیریں تڑوا کر نکل اٹھتے ہیں...
وہ نہیں جانتی تھی کس سے کیا جواب مانگے...
مجذوب تو خاموشیوں کی ہی گہری باتیں سمجھتے ہیں...
مگر ادھر کون کس بات کو کیا سمجھتا...
سلا منہ لئے احمد صاحب لکڑی کے اس مٹیالے دروازے سےخالی ہاتھ ہی دہلیز پار کر گئے...
کچے فرش پر آنسو گرتے ہی جذب ہو رہے تھے.. مٹی کے بنے پٹ پر بیٹھی ہاجرہ انھی دقیق سوچوں میں غوطہ زن تھی...
دروازے پر ایک مانوس سی دستک ہوئی ہاجرہ سمجھ گئی تھی کون آیا ہوگا....کیونکہ اس طوفانی دستک کا ایک ہی انس سے تعلق ہے اور وہ اس کی واحد سہیلی آمنہ تھی..
آمنہ اور ہاجرہ کا میل جول کا سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع ہوا تھا...
پہلے پہل تو عید تہوار غم خوشی پر ملاقات ہوجاتی تھی...
شادمانیوں میں ہاجرہ شرکت نہیں کرتی تھی...
وہ ان مقامات پر اپنی محرومیوں کو شوخ اور واضح پاتی....
جب ہی آمنہ کبھی کبھی آجایا کرتی مہینے میں دو سے تین چکر لگا لیتی تھی مگر اس کم آمدورفت کے سلسلے کے باوجود بھی ہاجرہ اس دستک سے خوب شناسائی رکھتی...
جب سے ہاجرہ نے احمد صاحب کا گھر چھوڑا تھا آمنہ ہی اس کی، شدتِ محبت ،انتظار، اور اس سے ملے جلے سب جذبوں کی اکیلی رازدار تھی...
"تمہیں پتا ہے...." دروازے کے کھلنے کی دیر تھی نہ سلام نہ دعا نہ حال احوال پوچھا اور اس کی باتوں کی چکی چل پڑی...
"کیا....سلام تو کرلیا...." بات ہاجرہ کے منہ میں ہی رہ گئی...
"اندر چلو کوئی سن لے گا...." آمنہ ہاجرہ کا ہاتھ اس انداز سے پکڑ کے اندر کی جانب لے جارہی تھی جیسے کوئی گوالا اپنی کسی بھولی گائے کی رسی پکڑے اپنے پیچھے پیچھے لے کرجاتا ہے ہاجرہ بھی اپنے بازو کی سمت پر چلنے پر جبراً مجبور ہوئی...
"کیا بتا رہی ہو رکو بھی...." ہاجرہ نے عین کمرے کے پیچو بیچ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا دیا....
"کان کرو..."آمنہ نے اپنی تسلی کو آس پاس کمرے میں ایک نظر دوڑائی..
"ہاں بولو..." ہاجرہ دھیمی آواز میں بولی...
"اڑتی اڑتی خبر ملی ہے....وہ...آرہا ہے...."ہاجرہ کو ایک ایک لفظ اپنے اندر اترتا محسوس ہوا....
گرمی میں جو کام یخ لسی کا گلاس خلق سے اندر اتراتے ہوئے کرتا ہے جو ٹھنڈی تاثیر بخشتا ہے وہی کام ان الفاظ نے ہاجرہ کے وجود کے لیے کیا تھا....
منہ پر گرتے برسات کے پہلے قطرے سے ہی بادلوں کے ارادوں کا اندیشہ ہوجاتا ہے یہ خبر بھی یہاں اس ہی پہلے قطرے کی سی ثابت ہوئی..
ہاجرہ کا من مچل گیا...
ہاجرہ پر اس بات کا سحر طاری ہوگیا...
اس کا سراپا لرزش میں مبتلا ہونے لگا...
کانپتے ہونٹ پھڑکتی دائی آنکھ میں اب حیا کا عنصر تپنے لگا...
ہاجرہ مارے شرم کے اس ٹیپوں سے جڑے دڑاڑ شدہ شیشے کے دائیں جانب لگے پردے میں منہ دے کر شرمائی...
آمنہ کو یہ بات کہنے میں اتنی ہی حیا آئی کہ اس نے ہاجرہ کے ڈوپٹے میں منہ چھپا لیا...
ان دونوں نے کافی ثانیے نظریں نہ ملائیں..
ان کچے گھروں میں لاج رکھنے کو ہی سہی مگر شرم جیسا قیمتی نگینہ ہر خاص و عام بڑے چھوٹے کے پاس پایا جاتا ہے...
بڑی دیر تک شرم کے مارے وہ دونوں ایک دوسرے سے منہ اپنے اپنے ڈوپٹے میں چھپاتی رہیں..
پھر دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر عین ان خاموش قسم کے پاگلوں کی طرح بے معنی مسکراتی رہیں....
سمیر کا نام سنتے ہی اس کا روم روم دھمال ڈالنے لگتا..
کسی ملنگ سا حال تھا ہاجرہ کا سمیر کا نام اس کے لئے ڈھولک کے تھاپ کی مانند تھا...
جب جوش چڑھنے لگے تو انسان کے پاؤں اٹھنے لگتے ہیں بھلے وہ روٹھے یار کو منانے کو اٹھیں یا مرشد کو منانے میں...
"اس انتظار کو برسوں گزر چکے ہیں سمیر...وہ جھولا ،وہ شامیں ،درخت کی شاخیں وہ سب جگہیں مجھ سے تمہارے آنے کا پوچھتی ہیں میں اور بہانے نہیں بنا سکتی آجاؤ...اب لوٹ آؤ ہاجرہ شدت سے منتظر ہے اب اگر اور انتظار کروایا تو شاید اب تمہارا انتظار کرتے کرتے میں منتفی ہوجاؤں..." ہاجرہ کہیں کھو گئی تھی ناجانے جاگتے ہوئے خوابوں میں یا خیالوں کے کسی بے نام شہر میں....
آمنہ اس کا منہ تکتی رہی اور پھر کچھ دیر بعد ہاجرہ سے جواب نہ ملنے پر وہ واپس چلی گئی..آمنہ جانتی تھی جھلی رنگو دھیا ہے اسے کوئی اور رنگ کہاں نظر آتا ہے جب سمیر نظروں کے سامنے آیا ہو...
پیاسے کی پیاس کو تڑکا تب لگتا ہے جب وہ اپنے سامنے پانی کو دیکھ لیتا ہے ہاجرہ کے انتظار کا مشکل ترین مرحلہ اب شروع ہوا تھا....
Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode2
Naqs E Kafy Paaye yaar Written by Haadi Khan
#نقشِ_کفِ_پائے_یار
#ہادی_خان
#قسط_نمبر_دو
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
"بھائی صاحب یہ باتیں اب کون سوچتا ہے آج کل کے دور میں...آپ بس ہاں کریں..." انھوں نے حتمی بات کی...
عابدصاحب کسی طور ماننے کو تیار نہ تھے...
"کون بھلا اپنی تین ماہ کی بچی کا رشتہ دے دے ہم بہت عجلت برت رہے ہیں اور یہ حق بچوں کا ہے ہم ان کی مرضی کو مار نہیں سکتے اس سے بغاوتیں اٹھتی ہیں...."انھوں نے غیر مطمئن انداز میں کہا...
"آج سے پہلے بھی تو ہوا ہے ایسا ہم کسی نئی روایت کی بنیاد تھوڑی رکھ رہے ہیں بھائی آپ کی اور خوش بخت بھابھی کی بھی تو بچپن سے ہی نسبت طے ہو چکی تھی...." نوشین احمد رشتے میں عابد صاحب کی بھابھی تھیں اور اس وقت ان کو قائل کرنے کی کوشش میں جٹی ہوئی تھیں....ان کے بڑے بھائی احمد چوہاں کی اہلیہ تھیں...
ہاجرہ کی پیدائش کے ساتھ اس کی ماں خوش بخت عابد کی وفات ہوگئی...
"میں اس کو اپنے گھر لے جاتی ہوں میں اس کی ماں کی طرح ہوں...." نوشین نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا...
"یہ جذباتی فیصلے ہیں میں جانتا ہوں آپ کو میرے ساتھ ہمدردی ہے مگر یہ سب بہت عجلت میں ہو رہا ہے... " عابد صاحب نے انکار کرنا چاہا...
"بھائی صاحب یہ آپ اب غلط بیانی کر رہے ہیں خوش بخت میری بہنوں کی طرح تھی اور ہماری تو اس بارے میں طویل بات ہوچکی ہے اور آپ ہمیں ہمدردی کا طنز کر رہے ہیں....یہ میرا حق ہے میں خوش بخت کی آخری خواہش پوری کروں میں آپ سے اپنے سمیر کے لیئے آپ کی ہاجرہ مانگنے آئی ہوں...آپ کو ہماری نیت میں کھوٹ نظر آرہا ہے..." وہ ترکی بہ ترکی بولی....
وہ کہہ کر اٹھنے لگی...
"یہ بات نہ کہیں بھابھی یہ میرے لئے تکلیف دہ ہے میں نے کبھی آپ کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا...میرا رب جانتا ہے آپ لوگوں نے اس غریب سے کتنا تعاون کیا ہے...." عابد صاحب پُرنم آنکھوں سے بولے...
"یہ لے لیں اس پر آپ کا بھی حق ہے ایک باپ کے جذبات سمجھتے ہوئے میری غلط بیانی پر مجھے معاف کردیں...." انھوں نے ننھی سی ہاجرہ کو ان کے آگے پیش کرنے والے انداز میں ندامت سے کہا...
"معافی نہیں چاہیے بس یہ جو احسان آپ نے کر دیا ہے خوش بخت کی روح کو سکون پہنچے گا...." نوشین اور احمد صاحب کے چہرے درخشاں ہوئے...
وہ خوشی خوشی ہاجرہ کو بیٹی بنا کر لے گئے ان وعدوں ان قسموں کی تکمیل کے لئے بائیس سال گزرنے تھے...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
چھوٹی ہاجرہ قلیل وقت میں ہی نوشین اور احمد صاحب کی نہایت ہی چہیتی ہوگئی تھی...
یوں مانوں جیسے وہ سمیر کے نہیں ہاجرہ کے اصل والدین ہوں...
ہاجرہ محدود رہنے والی خواہشات کو خود کے اندار دبا دینے والی لڑکی ثابت ہوئی....
اس میں شرم و حیا کی عادات مرحومہ خوش بخت کے جیسی تھیں...
وہ اتنی چھوٹی ہونے کے باوجود کھلونوں سے نہیں بہلتی تھی....
کوئی کہتا کہ یہ بول نہیں سکتی کوئی کہتا سن نہیں سکتی کبھی کوئی سایہ ہونے کا انکشاف کر دیتا....
اسی بات کی فکر لیے لوگوں کی باتوں میں آکر احمد صاحب کافی بار اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے....
مگر پھر وہ دھیرے دھیرے بولنے لگی تھی...
جب ہاجرہ 7 اور سمیر 8 سال کا تھا تو نوشین احمد ایک رات ایسی ابدی نیند سوئیں کہ پھر کبھی نہ اٹھیں...
وہ دونوں اس بات سے بہت متاثر ہوئے...
سمیر پہلے دو دن تو رویا ہی نہیں مگر پھر اس کے بعد پورا مہینہ ہاجرہ کی گود میں سر رکھ کے بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا رہا...
بچوں کے لئے اس کارِ فانی میں ماں وہ ہستی ہے جس کا اس گلشنِ ہستی میں کوئی نعم البدل نہیں ملتا....
ہاجرہ اور سمیر ایک ہی اسکول میں جانے لگے...
احمد صاحب نے ایک سال تک دونوں بچوں کو سنبھالا جب کہ اس دوران کاروبار کو فراموش کردیا....
جس سے فیکٹری کو بہت نقصان اٹھانا پڑا...
یہ گھاٹے کا سودا وہ اگر کچھ وقت اور کرتے تو شاید پھر ساری عمر بچوں کو ہی سنبھالنا پڑتا...
کچھ قریبی خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ دوسری شادی کرلو...
جس پر بہت ہی جلد عمل درامد کرنا پڑا...
بہت جلد اور سادگی سے سب کچھ ہوگیا تھا...
وقت کا پیہہ بہت تیز رفتاری سے ڈھلوان کی جانب چلا کہ وقت جو سالوں کی مسافت کا تھا وہ مہینوں میں کٹتا نظر آیا...
ہاجرہ نے اب نویں جماعت کے پرچے دیئے اور اس کے برعکس سمیر نے دسویں جماعت کے اور دونوں ہی نتائج کے منتظر تھے....
سمیر کی دوسری ماں عروسہ چوہاں اب گھر کی اصل مالکن بن چکی تھیں...
وہ ہاجرہ جو نازوں میں پلی تھی اب نوکرانیوں کی طرح گھر کے برتن مانجھنے اور جھاڑو لگانے لگی....
فیکٹری کی مسروفیت میں احمد صاحب گھر کے اندرونی معاملات سے بےخبر رہنے لگے تھے...
ان کے آنے سے پہلے ہاجرہ سو چکی ہوتی اور جاتے وقت بھی وہ فجر پڑھ رہی ہوتی یا تلاوت کرنے میں مشغول ہوتی...
مگر کچھ دنوں بعد ہی سمیر کو احمد صاحب نے باہر بیجھنے کا فیصلہ کر لیا...
فیکڑی کی طرف سے ایک اچھی آفر آئی تھی اور احمد صاحب یوں بھی سمیر کو احمد ٹیکسٹائل کا مالک بنانا چاہتے تھے...
جس کے لیئے بیرونِ ملک کی تعلیم ضروری تھی...
سمیر کو اس طرح اچانک سے جانے پر بہت حیرت ہوئی...
اس نے انکار کردیا وہ خود ابھی اتنی بھی عقل و فہم نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس عمر میں بیرونِ ملک چلا جائے...
اس کی بات کو رد کرتے ہوئے احمد صاحب نے اسے سختی سے تنبیہ کی...
اس زور زبردستی پر سمیر نے احتجاجاً کھانا پینا چھوڑدیا...
"یہ کیا ضد ہے تم کیوں نہیں جاؤگے..." وہ برہم ہوئے..
وہ خاموش تھا...
"دیکھو بیٹا میں نے اتنا بڑا جو یہ کاروبار بنایا ہے میں نہیں چاہتا کہ یہ سلسلہ یہی رک جائے کہ تم بھی ایک فیکٹری کے مالک بنتے ہوئے مرجاؤ اپنی پوری عمر کوئی کام نہیں کرو جیسے ایک فیکڑی دادا باپ اور پھر پوتے پر منتقل ہوتی ہے اس طرح محنت کو بھی اگلے درجے پر منتقل کرنا چاہئے میں نے اپنی عمر میں ایک فیکٹری لگائی تم محنت کرو اس کو ڈبل کرو تمہاری اولادیں اس کو مزید بڑھائیں اس کی مخلتف برانچز کا جال پورے ملک میں بنے بلکہ ملک ہی کیا عالمی منڈیوں تک اس کی رسائی ہو...." وہ نرمی سے گویا ہوئے...
سمیر تب تو صرف سرہلا کر چلا گیا تھا...
مگر اس پر ان باتوں کا زرا بھی اثر نہ ہوا وہ بھینس کے آگے بین بجانے والی کہاوت یہاں سچ ثابت ہوئی تھی...
اس کے اندر کچھ اور ہی تھا...
اس بار تو وہ گھر سے فرار ہوگیا...
صبح سے شام ہوگئی مگر اس کا کوئی پتا نہیں چلا... ڈھونڈتے ڈھونڈتے سب کی حالت خراب ہو گئی مگر اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا...
مگر افسوس کے اس کی اپنے دوست کے گھر تک ہی رسائی ہوئی تھی...
شام ہوتے ہی اس دوست کے والد نے احمد صاحب کو فون ملادیا کہ "سب خیر یت تو ہے نا بچہ صبح سے یہاں پر ہے...."
"ہاں جی سب کرم ہے وہ سمیر نے مجھے کہا تھا آتے ہوئے اسے بھی ساتھ لے آؤں مگر میں کام میں مصروف تھا... آرہا ہوں...." انھوں نے معذرت خوانہ انداز میں کہا...
وہ اسے پھر گھر واپس لے آئے...
"سمیر تم آخر میری بات کیوں نہیں سنتے...." احمد صاحب نے اسے ایک زور دار تھپڑ مارا..
وہ غصے سے باہر چل دیئے...
شاید وہاں رکتے تو اپنے اوپر قابو نہ پاکر اسے مزید مارتے . .
ہاجرہ کو جب یہ پتا لگا وہ دوڑی چلی آئی...
سمیر کے چہرے پر انگلیوں کے نشانات کی نیلاہٹ اب تک موجود تھی...
ہاجرہ کو اس کی ابتر حالت دیکھ کر بہت رونا آیا...
ہاجرہ کو چپ کرواتے سمیر کسی معصوم بچے کی طرح بلک بلک کر رونے لگا جیسے ایک بار پہلے وہ نوشین کی وفات پر رویا تھا....
جب تک اس کے اندر کا سارا پانی بہہ نہ گیا وہ بچپن کے سمیر کی طرح ہاجرہ کی گود میں سر رکھ کر ہچکیوں سے روتا رہا....
ہاجرہ نے اس کے بالوں میں انگلیاں گھمانا شروع کردیں...ناجانے سکون پاتے سمیر کی کب آنکھ لگی وہ نیند کی وادیوں میں کھوگیا...
جب اٹھا تو اس نے ہاجرہ کو اپنے سرہانے کھڑا پایا...
ہاجرہ نے اسے کھانا کھلا کر سمجھا بجھا کر آخرکار پردیس جانے کے لیئے منا ہی لیا...
احمد صاحب جانتے تھے وہ لڑکا ہاجرہ کی بہت سنتا ہے جب ہی انھوں نے ہاجرہ کی مدد لے کر سمیر سے حامی بھروائی... وہ وقت آگیا کہ سمیر پردیس جانے لگا...
وہ سب سے ملا مگر اس کو ہاجرہ کہیں نظر نہ آئی...
ہاجرہ کو عروسہ بیگم نے کسی کام سے پاس مٹھائی کی دکان پر بھیج دیا تھا اور اس کے آنے سے پہلے پہلے سمیر احمد صاحب کے ساتھ گاڑی میں ہوائی اڈے کی طرف چل دیا...
وہ حسرت لیئے ہی رہ گئی...
اب جانے کب اس سے ملاقات ہو ...آخری بار سمیر کا دیکھا ہوا چہرا ہاجرہ کے مقابل اس خیال کے ساتھ نمودار ہوا مگر وہ سراب تھا فقط سراب وہ جانتی تھی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
حسبِ معمول عابد صاحب بیٹی سے ملنے آئے...
وہ ہر مہینے دو بار ضرور چکر لگایا کرتے... انھوں نے دیکھا ہاجرہ وہاں زمین پر بیٹھی پوچھا لگا رہی ہے اور عروسہ بیگم اس پر حکم چلا رہی ہیں...
ان سے سہا نہ گیا...
وہ ہاجرہ کو خالی ہاتھ ہی ایک لمحے کی دیر کیے بغیر وہاں سے لے آئے...
ہاجرہ واقع پہلے سے کمزور ہوچکی تھی....
"ہاجرہ بیٹا تم سے وہ لوگ اس طرح کام کرواتے ہیں مجھے اگر علم ہوتا میں تمہیں وہاں ایک پل کے لئے نہ رہنے دیتا...." وہ زخمی نظروں سے اسے دیکھنے لگے...
"نہیں ابو تایا ابو بہت اچھے ہیں تائی امی بھی بہت اچھی ہیں ،،،،ابو انسان حق ان پر جتاتا ہے نہ جن سے کوئی امید ہو جن کو اپنا سمجھا جائے...." ہاجرہ نے ان کے شکوک کی تردید کر دی...
"بیٹا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اب مزید میں اس پر کس کی گواہی کا انتظار کرتا....اور اب تم اپنے گھر رہوگی وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری ضرورت کا سامان مجھے لکھوادو میں لے آتا ہوں...میں عصر پڑھ کر آتا ہوں...." وہ بے بسی اور خفت کے عالم میں گھر سے باہر نکل گئے...
انھوں نے ہاجرہ کو اس محل سے نکال کر جس میں ہر فرد کا اپنا کمرا تھا ایسے گھر میں لا کھڑا کیا جس میں فقط ایک ہی کمرہ تھا...
وہ کچھ پل اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہیں کھوسی گئی....
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
وہ جھولا باہر عابد صاحب نے باندھا تھا سمیر اور ہاجرہ ہر شام یہی کھیلنے آتے تھے...
سمیر اور ہاجرہ عابد صاحب کی تنہائی کو دور کرنے شام ان کے گھر چائے پی لیتے تھے...
"ابو آپ چائے بہت اچھی بناتے ہیں..." ہاجرہ نے توصیفی انداز میں کہا...
وہ اندر سے ایک خاکی لفافہ لائے اور ایک ایک کر کے ان کے ہاتھ میں کریم رول تھما دیئے...
"سمیر بیٹا یہ لو یہ تمہارے لیئے یہ ہاجرہ بٹیا کے لئے..."
"آپ بہت اچھے ہیں آپ میرے لئے روز لے کر آتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے...." نو عمر سمیر نے ستائیشی انداز میں کہا...
وہ لوگ ہر شام عابد صاحب کے گھر چائے کے ساتھ کریم والے رول کھاتے تھے...
بچوں کے کھیلنے تک وہ لکڑیاں جلا کر چائے بنا لیتےتھے...
لکڑیوں پر پکی چائے میں دھوئیں کی میٹھی لذت کا کوئی مول نہیں یہ واقع ہی ایک منفرد اور دل موہ لینے والا ذائقہ پیش کرتی ہے...
ہاجرہ کو سب یاد آتے ہی اس کی آنکھ بھر آئی...وہ اکیلی بیٹھی تھی، ادھوری، نامکمل اس کا باقی آدھا ادھورا دھڑ اس کے تن سے جدا ہو چکا تھا...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
Subscribe to:
Posts (Atom)