Wednesday, 24 July 2019

Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode3 Part2

Naqs-e-kafy-e-payee yaar Written by HaaDi khan

#نقشِ_کفِ_پائے_یار
#بقلم_ہادی_خان
#قسط_نمبر_تین
(حصہ دو)
#آخری_قسط
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
اسی رات جب عابد صاحب عشاء کی نماز پڑھ کر گھر آئے...ان کا چہرا تاریکی میں بھی تابندہ تھا...حقیقی طور پر ان کے چہرے کی چمک کا تعلق ان کی مسکراہٹ اور خوشگوار مزاج سے تھا...کھانا کھانے کا طریقہ روایتی اور حسبِ معمول تھا... ہاجرہ نے پہلے باپ کو کھانا دیتی اور جب وہ کھا چکتے پھر وہ بسم اللہ کرتی...
یہ بھی ایک اچھی روایت ہے...
اسی پر گزرے وقتوں میں کسی لکھاری نے کیا خوب لکھا ہے میں نے اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کھانا نہیں کھایا اس وجہ سے کہ کھانا کھاتے وقت کسی مقام پر کوئی ایسا نوالہ نہ ہو جو میری ماں کو کھانے کی حسرت ہو اور وہ میرے لئے وقف کر دے...
"آج آپ خوش لگ رہیں ہیں ابو....کوئی خوشی کی بات ہے کیا..." باپ کی مسکراتے چہرے کی سلامتی اور ہمیشگی کی ہاجرہ نے دل میں دعا کرتے ہوئے پوچھا...
"خوش تو میں ہوں اور تم بھی سن کر خوش ہوجاؤ گی بات ہی ایسی ہے..." انھوں نے وضاحت دی...
"ایسی بات ہے تو پھر بتائیں جلدی سے..." ہاجرہ نے دلچسپی ظاہر کی...
"دو ہفتوں بعد سمیر بیٹا آرہا ہے...." مسکراتے ہوئے انھوں نے خبر اس کے کانوں کے حوالے کی...
ہاجرہ کا من مچل گیا...
پھر سے اضطرابی کیفیت ہاجرہ پر چھانے لگی...
بے اختیار ہاجرہ کی سانسوں کی روانی نے تیزی پکڑلی...
بخار کی وجہ سے ہاجرہ کی گرم آہیں وجود کو مزید حرارت بخشنے لگیں...
ہاجرہ سے وہاں کھڑا نہ ہوا گیا وہ کمرے میں چلی گئی....
عابد صاحب جانتے تھے کہ ایسی باتیں سننے سے لڑکیاں شرما جاتی ہیں اسی لئے زیادہ توجہ نہ دی...
اس رات ہاجرہ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا...
وہ ساری رات پہلو بدلتی رہی...
کبھی اٹھ بیٹھتی تو کبھی لیٹے لیٹے ہی کھلی آنکھوں سے خوابوں میں کھو جاتی...
اس کے جسم پر کمزوری غالب آنے لگی....
مگر اسے اب کوئی پرواہ نہیں تھی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
تم لاؤ ایسی بھی کوئی تعبیر شہزادے
جس خواب میں ہم دو,دو دو بول کہیں
لگیں پکی مہریں اور دستخط جس پے
چار معزز لوگوں میں ہم دو انمول لگیں
گواہی سوہنڑے رب کے حضور دیں...
اس انداز سے ایک دوجے کو قبول کریں...
قرآن کے سائے تلے میں رخصت ہوں...
مبارک بادیں تمہیں مسجد سے معقول ملیں...
(شاعر : ہادی خان)
"دو مہینوں بعد"
سارے گاؤں میں اس کے آنے سے خوشبوئیں چھا گئیں تھیں...
شادمانی کا سا ماحول گاؤں اور قصبے یکجہتی سے مناتے ہیں....
وہ ایک گھر کا فرد نہیں گاؤں کا بیٹا تھا اور ایک طویل عرصے بعد واپس آرہا تھا..م
ناجانے اس کے جاتے وقت کون کون موجود تھا جو اب دنیا سے جاچکا ہو...
کتنے لڑکے تھے جو اب نو عمری سے نکل کر جوانی میں داخل ہوگئے تھے اور چند نے تو بیاہ کر لیا تھا...
گاؤں کا نظم ضبط ہی مانو جیسے بدل گیا ہو...
جہاں تحصیل ناظم کا کبھی دفتر ہوا کرتا تھا جس کے مقابل چھلیوں کی ڑیڑھی چاچا امان اللہ لگاتے تھے... اب وہ ادھوری سی ڑیڑھی اسی مقام پر رکی ہوئی ہے... سنے کو ملا تھا امان اللہ چاچا پچھلے برس چل بسے...
ان کی وہ زنگ زدہ سی ڑیڑھی ابھی بھی اپنی جگہ پر دن بھر سورج کے شدید حرارتی جبر کے سامنے ڈٹے کھڑی رہتی ہے...
اس کے حوصلے تو صدیوں یوں کھڑے رہنے کے ہیں مگر اس کی سیخ زدہ ابتر حالت بتاتی ہے کہ اس حیات فقط چند روز جتنی باقی ہے...
بینڈ والوں نے صبح ہی سےوقتاً فوقتاً ڈھولک پیٹنا جاری رکھا تھا...
چوہان صاحب کی آج کے دن خوشی کی کوئی حد سرحد نہیں تھی...
اس قدر بلاکی بے سکونی میں مبتلا تھے کہ کہیں دو ساعت بیٹھے نہیں تھے...
بڑے بڑے تاجروں اورصنعت کاروں سے اہم ملاقاتوں ،لاکھوں روپے کے معاہدوں پر بھی وہ اس طرح کبھی بے چین نہیں ہوئے...
فطرتاً وہ ایک جامد اور پختہ اعصاب کے مالک تھے مگر آج بہت مدت کے بعد اپنے بیٹے کے آنے کی خوشی میں وہ پہلو بدل بدل کر ہی تھک چکے تھے...
ان سب کی یہ حالت تھی اور ہاجرہ وہ تو صبح سے کبھی اندر تو کبھی دروازے تک کے چکر لگا رہی تھی...
ہوا کی آمدورفت سے بھی اس کا جی گھبرانے لگتا...
حشرات کی بولیاں ، چڑیوں کی تسبیحات اور گاؤں کا سکوت ہاجرہ کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ کررہا تھا...
خالی گھر میں اس سے دیواریں کلام کرنے لگیں تھیں...
"وہ سب سے پہلے اپنی ہاجرہ سے ملنے آئے گا..." ہاجرہ کو یوں محسوس ہوا پاس آویزاں پراندے نے ہاجرہ سے کہا ہو...
ہاجرہ کو اس پراندے پر بے حد پیار آیا...
اس دل لبھانے والی بات پر ہاجرہ نے پراندے کو اپنی گھنی زلفوں میں بڑے لاڈ پیار سے پیوست کیا.... یہ شاید اس بات کا انعام تھا...
دور سے بجتی ڈھولک کی آواز سے اس کا دل مچل اٹھا...
وہ بھاگی اور دروازے کو تھوڑا سا کھول کر دیکھا....
گاؤں کو آنے والی واحد کچی سی سڑک پر تایا ابو کی گاڑی چلی آرہی تھی جس کا گھیراؤ گاؤں والوں نے کیا ہوا تھا۔۔۔۔
ساتھ ہی ڈھولک والا بھی آگے آگے چلے آرہے تھے....
ہاجرہ کو اپنی بھوک میں شدت محسوس ہوئی مگر اس نے اب سمیر سے ملنے کے بعد ہی کچھ کھانے کی ٹھان لی تھی....
"صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے" اس بات کے پورا ہونے میں بس کچھ لمحے کا انتظار تھا...
ہاجرہ اندر کو چلی گئی اور اپنی چارپائی پر لیٹتے ہی اپنی تیز دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی...کب اس کی آنکھ لگی وہ نہیں جانتی تھی...
رات بھر جاگنے کے بعد اسے کہاں ہوش رہنا تھا...
کچھ پل میں وہ نیند کی دلدل میں ڈوبتی گئی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
سائیکل کی آواز پر ہاجرہ اٹھی...
اس نے باہر آکر دیکھا تو عابد صاحب کام سے واپس آچکے تھے...
یہ ان کے روز کے آنے کا معمول نہ تھا...
ہاجرہ نے سلام کیا اور دعائیں لی...
کچھ دیر کے بعد وہ ظہر پڑھنے کو نکل گئے...
واپسی پر ہاجرہ نے معمول کے مطابق ان کے لئے چائے بنا رکھی تھی....
"آج پوچھو گی نہیں کہ اتنی جلدی کیسے آگیا میں...." عابد صاحب کو ہاجرہ کی خاموشی کا ادراک ہو گیا...
"ہاں آج تو آپ واقعی جلدی آگئے ہیں..." وہ جھٹکا کھا کر بولی...
"سمیر بیٹے کی کال آئی تھی بلایا تھا اس نے اور ابھی ملا تھا آج مسجد میں احمد بھائی کے ساتھ آیا ہوا تھا...." انھوں نے بلا تمہید بات شروع کر دی...
ہاجرہ نے خود پر بھرپور قابو رکھا...
"شام کو یہاں آئے گا.... تم ایک کام کرنا آمنہ کے گھر ہو آنا...آس پڑوس کے لوگ باتیں کریں گے..." انھوں نے ہدایت دیتے ہوئے کہا...
"جی ابو بہتر...." وہ جھکے سر سے یہی بول سکی...
"چلو اب تم تیار ہوجاؤ میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں..." انھوں نے بسکٹ کھاتے ہوئے تنبیہ کی...
"جی ابھی آئی..." آمنہ کا گھر احمد صاحب کے گھر سے کچھ قریب تھا...
عابد صاحب اسے وہاں چھوڑ آئے...
آمنہ نے ہاجرہ کو بہت دیر تک گلے لگائے رکھا...
"ہاجرہ یاد ہے تمہیں جب چاچا عابد تمہیں تایا کے گھر سے لے آئے تھے...." آمنہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی...
"ہاں یاد ہے اس کا کیا؟..." وہ سمجھی نہیں...
"اور تم بہت زیادہ پریشان رہتی تھیں...پھر تم نے بتایا تھا کہ ابا بتا رہے تھے کہ وہ صرف تمہارے رہنے پر بحث تھی...." آمنہ نے بناوٹی سی مسکراہٹ دی...
"ہاں اس کا ذکر ابا نے کیا تھا..." ہاجرہ کو وہ بات اتنی خاص نہ لگی...
"مگر اب...." آمنہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی...
"زیادہ مت سوچو یہ کام نہیں تمہارا..." ہاجرہ نے اس کا مذاق اڑایا...
سارا وقت آمنہ چپ چپ رہی...
آج آمنہ کا بھی ناجانے کیوں منہ لٹکا ہوا تھا...
شام ہونے کو تھی عابد صاحب ہاجرہ کو لینے نہ آئے ہاجرہ نے خود ہی گھر جانے کا سوچ لیا اور چادر اپنے گرد لپیٹے وہ باہر نکلی...
ایک بچہ انگریزی پتلون اور ننگے بازوں والی آدھی سی شرٹ پہنے بھاگتا ہوا ہاجرہ سے جالگا...
ہاجرہ کے لئے اس کا چہرا بالکل ناآشانا تھا...
ہاجرہ نے اس کے گال کو تھپ تھپایا...
گلابی گالوں والا بہت خوبصورت اور تیکھے نقوش کا مالک وہ بچہ اپنی مثال آپ تھا...
اس سے پہلے ہاجرہ نے اس طرح کی خدوخال کا بچہ نہیں دیکھا تھا...
بہت منفرد اور الگ تھلگ سا...
اس کے پیچھے ہی آمنہ کا بھائی حمزہ بھاگتے ہوئے ہاجرہ کے پاس سے گزرا...
"حمزہ سنو..."ہاجرہ نے اسے بلایا...
"یہ بچہ کس کا ہے؟ کون ہے؟.." ہاجرہ نے اپنی معلومات کے لئے پوچھنا چاہا... 
"یہ....یہ سمیر بھائی کا..." اس نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کی...
ہاجرہ کو اپنے اندر آتش فشاں اُبلتا محسوس ہوا...
"کو...کوننن سمیر...." ہاجرہ کا دل پھٹنے لگا تھا...
وہ بخوبی جانتی تھی کہ گاؤں میں اس نام کا اور کوئی لڑکا نہیں ہے جس کی عمر شادی کی ہو...
مگر پھر بھی وہ حمزہ کو اپنی بات پر نظرِثانی کر کے جواب کی تصدیق کرنا چاہتی تھی...
"سمیر بھائی احمد تایا کے بیٹے جو باہر سے آئیں ہیں...." حمزہ اتنا کہہ کر چلا گیا...
ہاجرہ سے چلنے کی سکت چھین لی کسی نے...
اس کے پاؤں جم گئے تھے یا وہ پتھر بن گئی تھی....
اسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا....
ہاجرہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی...اس کی آنکھیں بنا آنسو بہے لال ہونے لگیں...
راہ سے کچھ نامحرم گزرے, اس نے اپنے پاؤں کو جنبش دی...
گھر کے کچھ فاصلے پر ہی ایک بار پھر وہ سنگ کا مجسمہ بن کر رہ گئی...
وہ سمیر تھا....اونچا لمبا قد کسرتی جسامت کا خوبر نوجوان...سالوں بعد بھی وہ اسے پہلی نظر میں پہچان گئی تھی....کسی غیر ملکی لڑکی کے ساتھ... اس لڑکی نے لباس بہت عجیب سا پہنا تھا جس میں اس عورت کا ستر تک بھی نہ چھپا تھا...
"چاچا پھر آئیں گے ہاجرہ سے ملنے..." سمیر نے آخری بار ان سے اجازت چاہی...
اس لڑکی کے کھلے بال شانوں پر پڑے تھے اور بےباک سے وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلے آرہے تھے...سمیر ہاجرہ کے پاس سے گزر گیا اور مڑ کر تک نہ دیکھا...
ہاجرہ اس کچی پگپنڈی سے چلتی خستہ حال راستے پر چل پڑی...
اسے نہیں معلوم تھا وہ کہاں جارہی ہے...
مگر وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی...
"میرا سمیر شہر میں کہیں کھو گیا ہے میں اسے ڈھونڈنے جارہی ہوں... وہ میرا منتظر ہوگا..." وہ اس جملے کو دھراتی ہوئی بہت دور نکل گئی تھی....
وہ کسی بڑے سے انجان شہر میں کھو گئی..
شام کی سیاہیاں چاروں اور پھیلنے لگیں...
تاریکی نے کُل جہاں پر چادر اُڑھا دی...
ساری رات سمیر اور عابد صاحب ہاجرہ کی تلاش میں دربدر پھرتے رہے...
مگر اس کا کوئی نقش نہیں ملا...
انھوں نے پولیس میں شکایت درج کی... احمد صاحب اپنے پوتے اور بہو کو تسلیم کرچکے تھے اس لئے ہاجرہ کے جھنجٹ میں پڑنے سے معذرت کر چکے تھے...
سمیر ہر شام ہاجرہ کو ڈھونڈنے نکلتا تھا...
مگر ہر شام اس کی تلاش اور انتظار کو صرف خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا تھا...
تمام عمر ہاجرہ نے انتظار کیا اب سمیر کر رہا تھا اسے یقین تھا وہ ایک دن ضرور آئے گی... جب ہی وہ ہر ہر شام بے چین ہوجایا کرتا تھا...
اسے کچے رستوں پر ہاجرہ کے پاؤں کے نشان نظر آتے تھے...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
((ختم شد))

Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode3 Part1

Naqs e kafy-e-paaye yaar Written by Haadi khan

#نقشِ_کفِ_پائےِ_یار

#قسط_نمبر_تین

(پہلا حصہ)

#ہادی_خان

🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟

🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟

شام کو عابد صاحب نے گھر آکر ہاجرہ کی ضرورت کا سامان دے دیا...

یہ اتنا سب کچھ ہاجرہ نے نہیں لکھوایا تھا...

اس نے صرف رسوئی گھر کے سامان کی پرچی تیار کر کے دی تھی یہاں خلافِ مخیل ہی سب ہوا...

عابد صاحب کے دونوں ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز تھے اور باقی کے سائیکل کے ہینڈل سے آویزاں تھے...

وہ اس کے لئے حسبِ توفیق ہر آسائش لے آئے تھے...

کچھ نئے برتن بھی...جن میں چائے کا مگ جو اس دور میں بالکل نیا اور الگ تھلگ تھا...

کھانے کو مزے مزے کے لوازمات سے بھرا شاپر اور مکس پھلوں کی بنی ٹوکری سائیکل کے کیرئیر میں جکڑی ہوئی تھے...

وہ ناجانے اپنی خواہشات کو آج پورا کر رہے تھے یا اس کے حصے کی رکھی رقم کو آج اس پر خرچ کرنے کا موقع ملا تھا...

وہ بچی بلند بختوں کی مالک تھی اگر ایک دو حاسدوں کو فراموش کریں تو باقی سارا گاؤں ہی اس کو بیٹی تسلیم کرتا تھا...

"ہاجرہ بیٹا یہ تم پہننا...." عابد صاحب سامان سے ایک سوٹ نکال کر اس کے سامنے پیش کرنے والے انداز میں لیئے جھکے تھے...

ہاجرہ کی آنکھیں چمک اٹھی اس کے الفاظ مفلوج ہو چکے تھے.....

وہ اس بڑی حویلی سے نکلنے کے بعد پہلا دن تھا...

اپنے باپ کی بے لوث محبت دیکھ کر ہاجرہ نے حسرت کی کے کاش وہ پہلے ادھر آئی ہوتی...

خیر جو اللہ کو منظور ہو...مگر وہ وہاں آکر بہت اطیمنان محسوس کر رہی تھی...

اپنائیت کا احساس واقعے اپنوں کے ساتھ ہوتا ہے...

جہاں دل مائل وہاں من لگ جاتا ہے...

🌟🌟🌟🌟🌟

🌟🌟🌟🌟🌟

چند دنوں بعد جب احمد صاحب کو ہاجرہ مسلسل غیر حاظر لگنے لگی.....

"سنو ہاجرہ بٹیا کہا ہے...." ایک دن انھوں نے عروسہ بیگم سے پوچھ لیا...

"وہ اپنے کمرے میں ہوگی...." عروسہ نے منہ چڑا کر جواب دیا....

"آج کل کی لڑکیوں کے پاؤں زمین پر کہاں لگتے ہیں..."

"بس بس زیادہ مت بولو ہماری بیٹی ایسی نہیں ہے...." احمد صاحب نے فوراً ان کی تردید کی...

عروسہ بیگم اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئی...

انھوں نے ایک رات کو جلدی آکر خود سے دیکھا وہ واقع انھیں اپنے کمرے میں کیا گھر پر ہی نہیں ملی...

عروسہ بیگم سے روز پوچھتے تو وہ ٹال دیتیں آج انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا...

"وہ نہ ہی صبح فجر کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے... نہ وہ رات کو ہوتی ہے... اتنی انمول ہوگئی ہے کہ آنکھ میں سرمہ ڈالنے کے برابر بھی نہیں نظر آتی....جاؤ اسے بلا کر لاؤ..." 

جب عروسہ بیگم چپ رہی تو وہ چلائے،،،،

"بتاؤ ہاجرہ کہاں ہے کیا کیا ہے تم نے میری بیٹی کے ساتھ..." احمد صاحب چیخے تھے...

"وہ اپنے باپ کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی ہے...." عروسہ بیگم نے ڈر ڈر کر جواب دیا...

اسی شام کو احمد صاحب اکیلے ہی ہاجرہ کے گھر آئے...

"بیٹا آنے سے پہلے انسان اطلاع دے دیتا ہے میں بہت دنوں سے پریشان تھا....." انھوں نے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا...

مگر ہاجرہ کے جواب دینے سے پہلے عابد صاحب نے ان کو روک کر اپنی مداخلت کرنا ضروری سمجھا.. پھر بہت دیر تک گھر کے واحد مٹی کے کمرے میں دونوں نے خود کو بند کر لیا...

اس محفل میں کوئی زن شامل نہ تھی جس کے بارے بات ہو رہی تھی "ہاجرہ" وہ تک بھی نہیں...

کہتے ہیں جس محفل میں عورت کو بڑا بنا کر بیٹھا دیا جائے یا ایک فریق کی سربراہ عورت ہو تو وہ جرگہ نہیں مچھلی بزار بن جاتا ہے...

اس کی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مرد جو فیصلہ کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کہیں ایک جھک جاتا ہے تو کہیں دوسرا مگر عورت اپنی من مانی کرتی ہے...

اس سارے دورانیے میں ہاجرہ باہر صحن میں چکر کاٹ رہی تھی....

ہاجرہ کا من بوجھل ہونے لگا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آیا یہ رشتہ باقی رہے گا یا نہیں...

یہ چند لمحوں کی مدت سے بند دروازہ ہاجرہ پر مجنوں کی دیوانگی میں سنگلاخ تپتی زمین پر ننگے پاؤں چلنے کے برابر دِقت طلب کہیں تو غلط نہ ہوگا..وہ اسی بات کو سوچ کر لرز رہی تھی کہیں سب ختم ہی نہ ہو جائے...یہ نہ ہو اس کا خود کو سمیر کا مان لینا اب عامیانہ لگے...رشتوں کی کسی کڑی کی نوعیت بدل نہ دی جائے...بڑوں کے فیصلے جہاں خوشنودی کا سبب بنتے ہیں وہی انا اور غصے میں لیے گئے فیصلے بہت زیادہ نظرِثانی کے مستحق ہوتے ہیں...ہاجرہ کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں وہ اپنے دردِ سر میں کسی بھی پہلو پر سکون نہیں پارہی تھی...

مگر کچھ دیر بعد دروازہ کھلا...

دونوں بھائیوں کے منہ پر خفگی سی چھائی تھی...

ناجانے کیا فیصلہ ہوا ہوگا...

وہ تھوڑی سی آگے بڑھی...

ہاجرہ نے تایا کے پاس کھڑے ہوکر ان سےنظروں ہی نظروں میں بہت سارے سوالات پوچھ لئے تھے...

احمد صاحب سرنگوں و شرمسار کھڑے رہے...

وہ فقط ہاجرہ کے سر پر ہاتھ ہی رکھ سکے...

ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسوں کی قطاریں بہنے لگیں...

بالکل ایسے جیسے کسی قیود کا دورازہ کھلا رہ جائے تو قیدی زنجیریں تڑوا کر نکل اٹھتے ہیں...

وہ نہیں جانتی تھی کس سے کیا جواب مانگے...

مجذوب تو خاموشیوں کی ہی گہری باتیں سمجھتے ہیں...

مگر ادھر کون کس بات کو کیا سمجھتا...

سلا منہ لئے احمد صاحب لکڑی کے اس مٹیالے دروازے سےخالی ہاتھ ہی دہلیز پار کر گئے...

کچے فرش پر آنسو گرتے ہی جذب ہو رہے تھے.. مٹی کے بنے پٹ پر بیٹھی ہاجرہ انھی دقیق سوچوں میں غوطہ زن تھی...

دروازے پر ایک مانوس سی دستک ہوئی ہاجرہ سمجھ گئی تھی کون آیا ہوگا....کیونکہ اس طوفانی دستک کا ایک ہی انس سے تعلق ہے اور وہ اس کی واحد سہیلی آمنہ تھی..

آمنہ اور ہاجرہ کا میل جول کا سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع ہوا تھا...

پہلے پہل تو عید تہوار غم خوشی پر ملاقات ہوجاتی تھی...

شادمانیوں میں ہاجرہ شرکت نہیں کرتی تھی...

وہ ان مقامات پر اپنی محرومیوں کو شوخ اور واضح پاتی....

جب ہی آمنہ کبھی کبھی آجایا کرتی مہینے میں دو سے تین چکر لگا لیتی تھی مگر اس کم آمدورفت کے سلسلے کے باوجود بھی ہاجرہ اس دستک سے خوب شناسائی رکھتی...

جب سے ہاجرہ نے احمد صاحب کا گھر چھوڑا تھا آمنہ ہی اس کی، شدتِ محبت ،انتظار، اور اس سے ملے جلے سب جذبوں کی اکیلی رازدار تھی...

"تمہیں پتا ہے...." دروازے کے کھلنے کی دیر تھی نہ سلام نہ دعا نہ حال احوال پوچھا اور اس کی باتوں کی چکی چل پڑی...

"کیا....سلام تو کرلیا...." بات ہاجرہ کے منہ میں ہی رہ گئی...

"اندر چلو کوئی سن لے گا...." آمنہ ہاجرہ کا ہاتھ اس انداز سے پکڑ کے اندر کی جانب لے جارہی تھی جیسے کوئی گوالا اپنی کسی بھولی گائے کی رسی پکڑے اپنے پیچھے پیچھے لے کرجاتا ہے ہاجرہ بھی اپنے بازو کی سمت پر چلنے پر جبراً مجبور ہوئی...

"کیا بتا رہی ہو رکو بھی...." ہاجرہ نے عین کمرے کے پیچو بیچ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا دیا....

"کان کرو..."آمنہ نے اپنی تسلی کو آس پاس کمرے میں ایک نظر دوڑائی..

"ہاں بولو..." ہاجرہ دھیمی آواز میں بولی...

"اڑتی اڑتی خبر ملی ہے....وہ...آرہا ہے...."ہاجرہ کو ایک ایک لفظ اپنے اندر اترتا محسوس ہوا....

گرمی میں جو کام یخ لسی کا گلاس خلق سے اندر اتراتے ہوئے کرتا ہے جو ٹھنڈی تاثیر بخشتا ہے وہی کام ان الفاظ نے ہاجرہ کے وجود کے لیے کیا تھا....

منہ پر گرتے برسات کے پہلے قطرے سے ہی بادلوں کے ارادوں کا اندیشہ ہوجاتا ہے یہ خبر بھی یہاں اس ہی پہلے قطرے کی سی ثابت ہوئی..

ہاجرہ کا من مچل گیا...

ہاجرہ پر اس بات کا سحر طاری ہوگیا...

اس کا سراپا لرزش میں مبتلا ہونے لگا...

کانپتے ہونٹ پھڑکتی دائی آنکھ میں اب حیا کا عنصر تپنے لگا...

ہاجرہ مارے شرم کے اس ٹیپوں سے جڑے دڑاڑ شدہ شیشے کے دائیں جانب لگے پردے میں منہ دے کر شرمائی...

آمنہ کو یہ بات کہنے میں اتنی ہی حیا آئی کہ اس نے ہاجرہ کے ڈوپٹے میں منہ چھپا لیا...

ان دونوں نے کافی ثانیے نظریں نہ ملائیں..

ان کچے گھروں میں لاج رکھنے کو ہی سہی مگر شرم جیسا قیمتی نگینہ ہر خاص و عام بڑے چھوٹے کے پاس پایا جاتا ہے...

بڑی دیر تک شرم کے مارے وہ دونوں ایک دوسرے سے منہ اپنے اپنے ڈوپٹے میں چھپاتی رہیں..

پھر دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر عین ان خاموش قسم کے پاگلوں کی طرح بے معنی مسکراتی رہیں....

سمیر کا نام سنتے ہی اس کا روم روم دھمال ڈالنے لگتا..

کسی ملنگ سا حال تھا ہاجرہ کا سمیر کا نام اس کے لئے ڈھولک کے تھاپ کی مانند تھا...

جب جوش چڑھنے لگے تو انسان کے پاؤں اٹھنے لگتے ہیں بھلے وہ روٹھے یار کو منانے کو اٹھیں یا مرشد کو منانے میں...

"اس انتظار کو برسوں گزر چکے ہیں سمیر...وہ جھولا ،وہ شامیں ،درخت کی شاخیں وہ سب جگہیں مجھ سے تمہارے آنے کا پوچھتی ہیں میں اور بہانے نہیں بنا سکتی آجاؤ...اب لوٹ آؤ ہاجرہ شدت سے منتظر ہے اب اگر اور انتظار کروایا تو شاید اب تمہارا انتظار کرتے کرتے میں منتفی ہوجاؤں..." ہاجرہ کہیں کھو گئی تھی ناجانے جاگتے ہوئے خوابوں میں یا خیالوں کے کسی بے نام شہر میں....

آمنہ اس کا منہ تکتی رہی اور پھر کچھ دیر بعد ہاجرہ سے جواب نہ ملنے پر وہ واپس چلی گئی..آمنہ جانتی تھی جھلی رنگو دھیا ہے اسے کوئی اور رنگ کہاں نظر آتا ہے جب سمیر نظروں کے سامنے آیا ہو...

پیاسے کی پیاس کو تڑکا تب لگتا ہے جب وہ اپنے سامنے پانی کو دیکھ لیتا ہے ہاجرہ کے انتظار کا مشکل ترین مرحلہ اب شروع ہوا تھا....

Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode2

Naqs E Kafy Paaye yaar Written by Haadi Khan

#نقشِ_کفِ_پائے_یار
#ہادی_خان
#قسط_نمبر_دو
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
"بھائی صاحب یہ باتیں اب کون سوچتا ہے آج کل کے دور میں...آپ بس ہاں کریں..." انھوں نے حتمی بات کی...
عابدصاحب کسی طور ماننے کو تیار نہ تھے...
"کون بھلا اپنی تین ماہ کی بچی کا رشتہ دے دے ہم بہت عجلت برت رہے ہیں اور یہ حق بچوں کا ہے ہم ان کی مرضی کو مار نہیں سکتے اس سے بغاوتیں اٹھتی ہیں...."انھوں نے غیر مطمئن انداز میں کہا...
"آج سے پہلے بھی تو ہوا ہے ایسا ہم کسی نئی روایت کی بنیاد تھوڑی رکھ رہے ہیں بھائی آپ کی اور خوش بخت بھابھی کی بھی تو بچپن سے ہی نسبت طے ہو چکی تھی...." نوشین احمد رشتے میں عابد صاحب کی بھابھی تھیں اور اس وقت ان کو قائل کرنے کی کوشش میں جٹی ہوئی تھیں....ان کے بڑے بھائی احمد چوہاں کی اہلیہ تھیں...
ہاجرہ کی پیدائش کے ساتھ اس کی ماں خوش بخت عابد کی وفات ہوگئی...
"میں اس کو اپنے گھر لے جاتی ہوں میں اس کی ماں کی طرح ہوں...." نوشین نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا...
"یہ جذباتی فیصلے ہیں میں جانتا ہوں آپ کو میرے ساتھ ہمدردی ہے مگر یہ سب بہت عجلت میں ہو رہا ہے... " عابد صاحب نے انکار کرنا چاہا...
"بھائی صاحب یہ آپ اب غلط بیانی کر رہے ہیں خوش بخت میری بہنوں کی طرح تھی اور ہماری تو اس بارے میں طویل بات ہوچکی ہے اور آپ ہمیں ہمدردی کا طنز کر رہے ہیں....یہ میرا حق ہے میں خوش بخت کی آخری خواہش پوری کروں میں آپ سے اپنے سمیر کے لیئے آپ کی ہاجرہ مانگنے آئی ہوں...آپ کو ہماری نیت میں کھوٹ نظر آرہا ہے..." وہ ترکی بہ ترکی بولی....
وہ کہہ کر اٹھنے لگی...
"یہ بات نہ کہیں بھابھی یہ میرے لئے تکلیف دہ ہے میں نے کبھی آپ کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا...میرا رب جانتا ہے آپ لوگوں نے اس غریب سے کتنا تعاون کیا ہے...." عابد صاحب پُرنم آنکھوں سے بولے...
"یہ لے لیں اس پر آپ کا بھی حق ہے ایک باپ کے جذبات سمجھتے ہوئے میری غلط بیانی پر مجھے معاف کردیں...." انھوں نے ننھی سی ہاجرہ کو ان کے آگے پیش کرنے والے انداز میں ندامت سے کہا...
"معافی نہیں چاہیے بس یہ جو احسان آپ نے کر دیا ہے خوش بخت کی روح کو سکون پہنچے گا...." نوشین اور احمد صاحب کے چہرے درخشاں ہوئے...
وہ خوشی خوشی ہاجرہ کو بیٹی بنا کر لے گئے ان وعدوں ان قسموں کی تکمیل کے لئے بائیس سال گزرنے تھے...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
چھوٹی ہاجرہ قلیل وقت میں ہی نوشین اور احمد صاحب کی نہایت ہی چہیتی ہوگئی تھی...
یوں مانوں جیسے وہ سمیر کے نہیں ہاجرہ کے اصل والدین ہوں...
ہاجرہ محدود رہنے والی خواہشات کو خود کے اندار دبا دینے والی لڑکی ثابت ہوئی....
اس میں شرم و حیا کی عادات مرحومہ خوش بخت کے جیسی تھیں...
وہ اتنی چھوٹی ہونے کے باوجود کھلونوں سے نہیں بہلتی تھی....
کوئی کہتا کہ یہ بول نہیں سکتی کوئی کہتا سن نہیں سکتی کبھی کوئی سایہ ہونے کا انکشاف کر دیتا....
اسی بات کی فکر لیے لوگوں کی باتوں میں آکر احمد صاحب کافی بار اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے....
مگر پھر وہ دھیرے دھیرے بولنے لگی تھی...
جب ہاجرہ 7 اور سمیر 8 سال کا تھا تو نوشین احمد ایک رات ایسی ابدی نیند سوئیں کہ پھر کبھی نہ اٹھیں...
وہ دونوں اس بات سے بہت متاثر ہوئے...
سمیر پہلے دو دن تو رویا ہی نہیں مگر پھر اس کے بعد پورا مہینہ ہاجرہ کی گود میں سر رکھ کے بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا رہا...
بچوں کے لئے اس کارِ فانی میں ماں وہ ہستی ہے جس کا اس گلشنِ ہستی میں کوئی نعم البدل نہیں ملتا....
ہاجرہ اور سمیر ایک ہی اسکول میں جانے لگے...
احمد صاحب نے ایک سال تک دونوں بچوں کو سنبھالا جب کہ اس دوران کاروبار کو فراموش کردیا....
جس سے فیکٹری کو بہت نقصان اٹھانا پڑا...
یہ گھاٹے کا سودا وہ اگر کچھ وقت اور کرتے تو شاید پھر ساری عمر بچوں کو ہی سنبھالنا پڑتا...
کچھ قریبی خیر خواہوں نے مشورہ دیا کہ دوسری شادی کرلو...
جس پر بہت ہی جلد عمل درامد کرنا پڑا...
بہت جلد اور سادگی سے سب کچھ ہوگیا تھا...
وقت کا پیہہ بہت تیز رفتاری سے ڈھلوان کی جانب چلا کہ وقت جو سالوں کی مسافت کا تھا وہ مہینوں میں کٹتا نظر آیا...
ہاجرہ نے اب نویں جماعت کے پرچے دیئے اور اس کے برعکس سمیر نے دسویں جماعت کے اور دونوں ہی نتائج کے منتظر تھے.... 
سمیر کی دوسری ماں عروسہ چوہاں اب گھر کی اصل مالکن بن چکی تھیں...
وہ ہاجرہ جو نازوں میں پلی تھی اب نوکرانیوں کی طرح گھر کے برتن مانجھنے اور جھاڑو لگانے لگی....
فیکٹری کی مسروفیت میں احمد صاحب گھر کے اندرونی معاملات سے بےخبر رہنے لگے تھے...
ان کے آنے سے پہلے ہاجرہ سو چکی ہوتی اور جاتے وقت بھی وہ فجر پڑھ رہی ہوتی یا تلاوت کرنے میں مشغول ہوتی...
مگر کچھ دنوں بعد ہی سمیر کو احمد صاحب نے باہر بیجھنے کا فیصلہ کر لیا...
فیکڑی کی طرف سے ایک اچھی آفر آئی تھی اور احمد صاحب یوں بھی سمیر کو احمد ٹیکسٹائل کا مالک بنانا چاہتے تھے...
جس کے لیئے بیرونِ ملک کی تعلیم ضروری تھی...
سمیر کو اس طرح اچانک سے جانے پر بہت حیرت ہوئی...
اس نے انکار کردیا وہ خود ابھی اتنی بھی عقل و فہم نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس عمر میں بیرونِ ملک چلا جائے...
اس کی بات کو رد کرتے ہوئے احمد صاحب نے اسے سختی سے تنبیہ کی...
اس زور زبردستی پر سمیر نے احتجاجاً کھانا پینا چھوڑدیا...
"یہ کیا ضد ہے تم کیوں نہیں جاؤگے..." وہ برہم ہوئے..
وہ خاموش تھا...
"دیکھو بیٹا میں نے اتنا بڑا جو یہ کاروبار بنایا ہے میں نہیں چاہتا کہ یہ سلسلہ یہی رک جائے کہ تم بھی ایک فیکٹری کے مالک بنتے ہوئے مرجاؤ اپنی پوری عمر کوئی کام نہیں کرو جیسے ایک فیکڑی دادا باپ اور پھر پوتے پر منتقل ہوتی ہے اس طرح محنت کو بھی اگلے درجے پر منتقل کرنا چاہئے میں نے اپنی عمر میں ایک فیکٹری لگائی تم محنت کرو اس کو ڈبل کرو تمہاری اولادیں اس کو مزید بڑھائیں اس کی مخلتف برانچز کا جال پورے ملک میں بنے بلکہ ملک ہی کیا عالمی منڈیوں تک اس کی رسائی ہو...." وہ نرمی سے گویا ہوئے...
سمیر تب تو صرف سرہلا کر چلا گیا تھا...
مگر اس پر ان باتوں کا زرا بھی اثر نہ ہوا وہ بھینس کے آگے بین بجانے والی کہاوت یہاں سچ ثابت ہوئی تھی...
اس کے اندر کچھ اور ہی تھا...
اس بار تو وہ گھر سے فرار ہوگیا...
صبح سے شام ہوگئی مگر اس کا کوئی پتا نہیں چلا... ڈھونڈتے ڈھونڈتے سب کی حالت خراب ہو گئی مگر اس کا کوئی نام و نشان نہیں تھا...
مگر افسوس کے اس کی اپنے دوست کے گھر تک ہی رسائی ہوئی تھی...
شام ہوتے ہی اس دوست کے والد نے احمد صاحب کو فون ملادیا کہ "سب خیر یت تو ہے نا بچہ صبح سے یہاں پر ہے...."
"ہاں جی سب کرم ہے وہ سمیر نے مجھے کہا تھا آتے ہوئے اسے بھی ساتھ لے آؤں مگر میں کام میں مصروف تھا... آرہا ہوں...." انھوں نے معذرت خوانہ انداز میں کہا...
وہ اسے پھر گھر واپس لے آئے...
"سمیر تم آخر میری بات کیوں نہیں سنتے...." احمد صاحب نے اسے ایک زور دار تھپڑ مارا..
وہ غصے سے باہر چل دیئے...
شاید وہاں رکتے تو اپنے اوپر قابو نہ پاکر اسے مزید مارتے . .
ہاجرہ کو جب یہ پتا لگا وہ دوڑی چلی آئی...
سمیر کے چہرے پر انگلیوں کے نشانات کی نیلاہٹ اب تک موجود تھی...
ہاجرہ کو اس کی ابتر حالت دیکھ کر بہت رونا آیا...
ہاجرہ کو چپ کرواتے سمیر کسی معصوم بچے کی طرح بلک بلک کر رونے لگا جیسے ایک بار پہلے وہ نوشین کی وفات پر رویا تھا....
جب تک اس کے اندر کا سارا پانی بہہ نہ گیا وہ بچپن کے سمیر کی طرح ہاجرہ کی گود میں سر رکھ کر ہچکیوں سے روتا رہا....
ہاجرہ نے اس کے بالوں میں انگلیاں گھمانا شروع کردیں...ناجانے سکون پاتے سمیر کی کب آنکھ لگی وہ نیند کی وادیوں میں کھوگیا...
جب اٹھا تو اس نے ہاجرہ کو اپنے سرہانے کھڑا پایا...
ہاجرہ نے اسے کھانا کھلا کر سمجھا بجھا کر آخرکار پردیس جانے کے لیئے منا ہی لیا...
احمد صاحب جانتے تھے وہ لڑکا ہاجرہ کی بہت سنتا ہے جب ہی انھوں نے ہاجرہ کی مدد لے کر سمیر سے حامی بھروائی... وہ وقت آگیا کہ سمیر پردیس جانے لگا...
وہ سب سے ملا مگر اس کو ہاجرہ کہیں نظر نہ آئی...
ہاجرہ کو عروسہ بیگم نے کسی کام سے پاس مٹھائی کی دکان پر بھیج دیا تھا اور اس کے آنے سے پہلے پہلے سمیر احمد صاحب کے ساتھ گاڑی میں ہوائی اڈے کی طرف چل دیا...
وہ حسرت لیئے ہی رہ گئی...
اب جانے کب اس سے ملاقات ہو ...آخری بار سمیر کا دیکھا ہوا چہرا ہاجرہ کے مقابل اس خیال کے ساتھ نمودار ہوا مگر وہ سراب تھا فقط سراب وہ جانتی تھی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
حسبِ معمول عابد صاحب بیٹی سے ملنے آئے...
وہ ہر مہینے دو بار ضرور چکر لگایا کرتے... انھوں نے دیکھا ہاجرہ وہاں زمین پر بیٹھی پوچھا لگا رہی ہے اور عروسہ بیگم اس پر حکم چلا رہی ہیں...
ان سے سہا نہ گیا...
وہ ہاجرہ کو خالی ہاتھ ہی ایک لمحے کی دیر کیے بغیر وہاں سے لے آئے...
ہاجرہ واقع پہلے سے کمزور ہوچکی تھی....
"ہاجرہ بیٹا تم سے وہ لوگ اس طرح کام کرواتے ہیں مجھے اگر علم ہوتا میں تمہیں وہاں ایک پل کے لئے نہ رہنے دیتا...." وہ زخمی نظروں سے اسے دیکھنے لگے...
"نہیں ابو تایا ابو بہت اچھے ہیں تائی امی بھی بہت اچھی ہیں ،،،،ابو انسان حق ان پر جتاتا ہے نہ جن سے کوئی امید ہو جن کو اپنا سمجھا جائے...." ہاجرہ نے ان کے شکوک کی تردید کر دی...
"بیٹا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اب مزید میں اس پر کس کی گواہی کا انتظار کرتا....اور اب تم اپنے گھر رہوگی وہاں جانے کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری ضرورت کا سامان مجھے لکھوادو میں لے آتا ہوں...میں عصر پڑھ کر آتا ہوں...." وہ بے بسی اور خفت کے عالم میں گھر سے باہر نکل گئے...
انھوں نے ہاجرہ کو اس محل سے نکال کر جس میں ہر فرد کا اپنا کمرا تھا ایسے گھر میں لا کھڑا کیا جس میں فقط ایک ہی کمرہ تھا...
وہ کچھ پل اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہیں کھوسی گئی....
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
وہ جھولا باہر عابد صاحب نے باندھا تھا سمیر اور ہاجرہ ہر شام یہی کھیلنے آتے تھے...
سمیر اور ہاجرہ عابد صاحب کی تنہائی کو دور کرنے شام ان کے گھر چائے پی لیتے تھے...
"ابو آپ چائے بہت اچھی بناتے ہیں..." ہاجرہ نے توصیفی انداز میں کہا...
وہ اندر سے ایک خاکی لفافہ لائے اور ایک ایک کر کے ان کے ہاتھ میں کریم رول تھما دیئے...
"سمیر بیٹا یہ لو یہ تمہارے لیئے یہ ہاجرہ بٹیا کے لئے..."
"آپ بہت اچھے ہیں آپ میرے لئے روز لے کر آتے ہیں اور کبھی نہیں بھولتے...." نو عمر سمیر نے ستائیشی انداز میں کہا...
وہ لوگ ہر شام عابد صاحب کے گھر چائے کے ساتھ کریم والے رول کھاتے تھے...
بچوں کے کھیلنے تک وہ لکڑیاں جلا کر چائے بنا لیتےتھے...
لکڑیوں پر پکی چائے میں دھوئیں کی میٹھی لذت کا کوئی مول نہیں یہ واقع ہی ایک منفرد اور دل موہ لینے والا ذائقہ پیش کرتی ہے...
ہاجرہ کو سب یاد آتے ہی اس کی آنکھ بھر آئی...وہ اکیلی بیٹھی تھی، ادھوری، نامکمل اس کا باقی آدھا ادھورا دھڑ اس کے تن سے جدا ہو چکا تھا...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟