Wednesday, 24 July 2019

Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode3 Part2

Naqs-e-kafy-e-payee yaar Written by HaaDi khan

#نقشِ_کفِ_پائے_یار
#بقلم_ہادی_خان
#قسط_نمبر_تین
(حصہ دو)
#آخری_قسط
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
اسی رات جب عابد صاحب عشاء کی نماز پڑھ کر گھر آئے...ان کا چہرا تاریکی میں بھی تابندہ تھا...حقیقی طور پر ان کے چہرے کی چمک کا تعلق ان کی مسکراہٹ اور خوشگوار مزاج سے تھا...کھانا کھانے کا طریقہ روایتی اور حسبِ معمول تھا... ہاجرہ نے پہلے باپ کو کھانا دیتی اور جب وہ کھا چکتے پھر وہ بسم اللہ کرتی...
یہ بھی ایک اچھی روایت ہے...
اسی پر گزرے وقتوں میں کسی لکھاری نے کیا خوب لکھا ہے میں نے اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کھانا نہیں کھایا اس وجہ سے کہ کھانا کھاتے وقت کسی مقام پر کوئی ایسا نوالہ نہ ہو جو میری ماں کو کھانے کی حسرت ہو اور وہ میرے لئے وقف کر دے...
"آج آپ خوش لگ رہیں ہیں ابو....کوئی خوشی کی بات ہے کیا..." باپ کی مسکراتے چہرے کی سلامتی اور ہمیشگی کی ہاجرہ نے دل میں دعا کرتے ہوئے پوچھا...
"خوش تو میں ہوں اور تم بھی سن کر خوش ہوجاؤ گی بات ہی ایسی ہے..." انھوں نے وضاحت دی...
"ایسی بات ہے تو پھر بتائیں جلدی سے..." ہاجرہ نے دلچسپی ظاہر کی...
"دو ہفتوں بعد سمیر بیٹا آرہا ہے...." مسکراتے ہوئے انھوں نے خبر اس کے کانوں کے حوالے کی...
ہاجرہ کا من مچل گیا...
پھر سے اضطرابی کیفیت ہاجرہ پر چھانے لگی...
بے اختیار ہاجرہ کی سانسوں کی روانی نے تیزی پکڑلی...
بخار کی وجہ سے ہاجرہ کی گرم آہیں وجود کو مزید حرارت بخشنے لگیں...
ہاجرہ سے وہاں کھڑا نہ ہوا گیا وہ کمرے میں چلی گئی....
عابد صاحب جانتے تھے کہ ایسی باتیں سننے سے لڑکیاں شرما جاتی ہیں اسی لئے زیادہ توجہ نہ دی...
اس رات ہاجرہ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا...
وہ ساری رات پہلو بدلتی رہی...
کبھی اٹھ بیٹھتی تو کبھی لیٹے لیٹے ہی کھلی آنکھوں سے خوابوں میں کھو جاتی...
اس کے جسم پر کمزوری غالب آنے لگی....
مگر اسے اب کوئی پرواہ نہیں تھی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
تم لاؤ ایسی بھی کوئی تعبیر شہزادے
جس خواب میں ہم دو,دو دو بول کہیں
لگیں پکی مہریں اور دستخط جس پے
چار معزز لوگوں میں ہم دو انمول لگیں
گواہی سوہنڑے رب کے حضور دیں...
اس انداز سے ایک دوجے کو قبول کریں...
قرآن کے سائے تلے میں رخصت ہوں...
مبارک بادیں تمہیں مسجد سے معقول ملیں...
(شاعر : ہادی خان)
"دو مہینوں بعد"
سارے گاؤں میں اس کے آنے سے خوشبوئیں چھا گئیں تھیں...
شادمانی کا سا ماحول گاؤں اور قصبے یکجہتی سے مناتے ہیں....
وہ ایک گھر کا فرد نہیں گاؤں کا بیٹا تھا اور ایک طویل عرصے بعد واپس آرہا تھا..م
ناجانے اس کے جاتے وقت کون کون موجود تھا جو اب دنیا سے جاچکا ہو...
کتنے لڑکے تھے جو اب نو عمری سے نکل کر جوانی میں داخل ہوگئے تھے اور چند نے تو بیاہ کر لیا تھا...
گاؤں کا نظم ضبط ہی مانو جیسے بدل گیا ہو...
جہاں تحصیل ناظم کا کبھی دفتر ہوا کرتا تھا جس کے مقابل چھلیوں کی ڑیڑھی چاچا امان اللہ لگاتے تھے... اب وہ ادھوری سی ڑیڑھی اسی مقام پر رکی ہوئی ہے... سنے کو ملا تھا امان اللہ چاچا پچھلے برس چل بسے...
ان کی وہ زنگ زدہ سی ڑیڑھی ابھی بھی اپنی جگہ پر دن بھر سورج کے شدید حرارتی جبر کے سامنے ڈٹے کھڑی رہتی ہے...
اس کے حوصلے تو صدیوں یوں کھڑے رہنے کے ہیں مگر اس کی سیخ زدہ ابتر حالت بتاتی ہے کہ اس حیات فقط چند روز جتنی باقی ہے...
بینڈ والوں نے صبح ہی سےوقتاً فوقتاً ڈھولک پیٹنا جاری رکھا تھا...
چوہان صاحب کی آج کے دن خوشی کی کوئی حد سرحد نہیں تھی...
اس قدر بلاکی بے سکونی میں مبتلا تھے کہ کہیں دو ساعت بیٹھے نہیں تھے...
بڑے بڑے تاجروں اورصنعت کاروں سے اہم ملاقاتوں ،لاکھوں روپے کے معاہدوں پر بھی وہ اس طرح کبھی بے چین نہیں ہوئے...
فطرتاً وہ ایک جامد اور پختہ اعصاب کے مالک تھے مگر آج بہت مدت کے بعد اپنے بیٹے کے آنے کی خوشی میں وہ پہلو بدل بدل کر ہی تھک چکے تھے...
ان سب کی یہ حالت تھی اور ہاجرہ وہ تو صبح سے کبھی اندر تو کبھی دروازے تک کے چکر لگا رہی تھی...
ہوا کی آمدورفت سے بھی اس کا جی گھبرانے لگتا...
حشرات کی بولیاں ، چڑیوں کی تسبیحات اور گاؤں کا سکوت ہاجرہ کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ کررہا تھا...
خالی گھر میں اس سے دیواریں کلام کرنے لگیں تھیں...
"وہ سب سے پہلے اپنی ہاجرہ سے ملنے آئے گا..." ہاجرہ کو یوں محسوس ہوا پاس آویزاں پراندے نے ہاجرہ سے کہا ہو...
ہاجرہ کو اس پراندے پر بے حد پیار آیا...
اس دل لبھانے والی بات پر ہاجرہ نے پراندے کو اپنی گھنی زلفوں میں بڑے لاڈ پیار سے پیوست کیا.... یہ شاید اس بات کا انعام تھا...
دور سے بجتی ڈھولک کی آواز سے اس کا دل مچل اٹھا...
وہ بھاگی اور دروازے کو تھوڑا سا کھول کر دیکھا....
گاؤں کو آنے والی واحد کچی سی سڑک پر تایا ابو کی گاڑی چلی آرہی تھی جس کا گھیراؤ گاؤں والوں نے کیا ہوا تھا۔۔۔۔
ساتھ ہی ڈھولک والا بھی آگے آگے چلے آرہے تھے....
ہاجرہ کو اپنی بھوک میں شدت محسوس ہوئی مگر اس نے اب سمیر سے ملنے کے بعد ہی کچھ کھانے کی ٹھان لی تھی....
"صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے" اس بات کے پورا ہونے میں بس کچھ لمحے کا انتظار تھا...
ہاجرہ اندر کو چلی گئی اور اپنی چارپائی پر لیٹتے ہی اپنی تیز دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی...کب اس کی آنکھ لگی وہ نہیں جانتی تھی...
رات بھر جاگنے کے بعد اسے کہاں ہوش رہنا تھا...
کچھ پل میں وہ نیند کی دلدل میں ڈوبتی گئی...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
سائیکل کی آواز پر ہاجرہ اٹھی...
اس نے باہر آکر دیکھا تو عابد صاحب کام سے واپس آچکے تھے...
یہ ان کے روز کے آنے کا معمول نہ تھا...
ہاجرہ نے سلام کیا اور دعائیں لی...
کچھ دیر کے بعد وہ ظہر پڑھنے کو نکل گئے...
واپسی پر ہاجرہ نے معمول کے مطابق ان کے لئے چائے بنا رکھی تھی....
"آج پوچھو گی نہیں کہ اتنی جلدی کیسے آگیا میں...." عابد صاحب کو ہاجرہ کی خاموشی کا ادراک ہو گیا...
"ہاں آج تو آپ واقعی جلدی آگئے ہیں..." وہ جھٹکا کھا کر بولی...
"سمیر بیٹے کی کال آئی تھی بلایا تھا اس نے اور ابھی ملا تھا آج مسجد میں احمد بھائی کے ساتھ آیا ہوا تھا...." انھوں نے بلا تمہید بات شروع کر دی...
ہاجرہ نے خود پر بھرپور قابو رکھا...
"شام کو یہاں آئے گا.... تم ایک کام کرنا آمنہ کے گھر ہو آنا...آس پڑوس کے لوگ باتیں کریں گے..." انھوں نے ہدایت دیتے ہوئے کہا...
"جی ابو بہتر...." وہ جھکے سر سے یہی بول سکی...
"چلو اب تم تیار ہوجاؤ میں تمہیں چھوڑ آتا ہوں..." انھوں نے بسکٹ کھاتے ہوئے تنبیہ کی...
"جی ابھی آئی..." آمنہ کا گھر احمد صاحب کے گھر سے کچھ قریب تھا...
عابد صاحب اسے وہاں چھوڑ آئے...
آمنہ نے ہاجرہ کو بہت دیر تک گلے لگائے رکھا...
"ہاجرہ یاد ہے تمہیں جب چاچا عابد تمہیں تایا کے گھر سے لے آئے تھے...." آمنہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی...
"ہاں یاد ہے اس کا کیا؟..." وہ سمجھی نہیں...
"اور تم بہت زیادہ پریشان رہتی تھیں...پھر تم نے بتایا تھا کہ ابا بتا رہے تھے کہ وہ صرف تمہارے رہنے پر بحث تھی...." آمنہ نے بناوٹی سی مسکراہٹ دی...
"ہاں اس کا ذکر ابا نے کیا تھا..." ہاجرہ کو وہ بات اتنی خاص نہ لگی...
"مگر اب...." آمنہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی...
"زیادہ مت سوچو یہ کام نہیں تمہارا..." ہاجرہ نے اس کا مذاق اڑایا...
سارا وقت آمنہ چپ چپ رہی...
آج آمنہ کا بھی ناجانے کیوں منہ لٹکا ہوا تھا...
شام ہونے کو تھی عابد صاحب ہاجرہ کو لینے نہ آئے ہاجرہ نے خود ہی گھر جانے کا سوچ لیا اور چادر اپنے گرد لپیٹے وہ باہر نکلی...
ایک بچہ انگریزی پتلون اور ننگے بازوں والی آدھی سی شرٹ پہنے بھاگتا ہوا ہاجرہ سے جالگا...
ہاجرہ کے لئے اس کا چہرا بالکل ناآشانا تھا...
ہاجرہ نے اس کے گال کو تھپ تھپایا...
گلابی گالوں والا بہت خوبصورت اور تیکھے نقوش کا مالک وہ بچہ اپنی مثال آپ تھا...
اس سے پہلے ہاجرہ نے اس طرح کی خدوخال کا بچہ نہیں دیکھا تھا...
بہت منفرد اور الگ تھلگ سا...
اس کے پیچھے ہی آمنہ کا بھائی حمزہ بھاگتے ہوئے ہاجرہ کے پاس سے گزرا...
"حمزہ سنو..."ہاجرہ نے اسے بلایا...
"یہ بچہ کس کا ہے؟ کون ہے؟.." ہاجرہ نے اپنی معلومات کے لئے پوچھنا چاہا... 
"یہ....یہ سمیر بھائی کا..." اس نے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نشاندہی کی...
ہاجرہ کو اپنے اندر آتش فشاں اُبلتا محسوس ہوا...
"کو...کوننن سمیر...." ہاجرہ کا دل پھٹنے لگا تھا...
وہ بخوبی جانتی تھی کہ گاؤں میں اس نام کا اور کوئی لڑکا نہیں ہے جس کی عمر شادی کی ہو...
مگر پھر بھی وہ حمزہ کو اپنی بات پر نظرِثانی کر کے جواب کی تصدیق کرنا چاہتی تھی...
"سمیر بھائی احمد تایا کے بیٹے جو باہر سے آئیں ہیں...." حمزہ اتنا کہہ کر چلا گیا...
ہاجرہ سے چلنے کی سکت چھین لی کسی نے...
اس کے پاؤں جم گئے تھے یا وہ پتھر بن گئی تھی....
اسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا....
ہاجرہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی...اس کی آنکھیں بنا آنسو بہے لال ہونے لگیں...
راہ سے کچھ نامحرم گزرے, اس نے اپنے پاؤں کو جنبش دی...
گھر کے کچھ فاصلے پر ہی ایک بار پھر وہ سنگ کا مجسمہ بن کر رہ گئی...
وہ سمیر تھا....اونچا لمبا قد کسرتی جسامت کا خوبر نوجوان...سالوں بعد بھی وہ اسے پہلی نظر میں پہچان گئی تھی....کسی غیر ملکی لڑکی کے ساتھ... اس لڑکی نے لباس بہت عجیب سا پہنا تھا جس میں اس عورت کا ستر تک بھی نہ چھپا تھا...
"چاچا پھر آئیں گے ہاجرہ سے ملنے..." سمیر نے آخری بار ان سے اجازت چاہی...
اس لڑکی کے کھلے بال شانوں پر پڑے تھے اور بےباک سے وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چلے آرہے تھے...سمیر ہاجرہ کے پاس سے گزر گیا اور مڑ کر تک نہ دیکھا...
ہاجرہ اس کچی پگپنڈی سے چلتی خستہ حال راستے پر چل پڑی...
اسے نہیں معلوم تھا وہ کہاں جارہی ہے...
مگر وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی...
"میرا سمیر شہر میں کہیں کھو گیا ہے میں اسے ڈھونڈنے جارہی ہوں... وہ میرا منتظر ہوگا..." وہ اس جملے کو دھراتی ہوئی بہت دور نکل گئی تھی....
وہ کسی بڑے سے انجان شہر میں کھو گئی..
شام کی سیاہیاں چاروں اور پھیلنے لگیں...
تاریکی نے کُل جہاں پر چادر اُڑھا دی...
ساری رات سمیر اور عابد صاحب ہاجرہ کی تلاش میں دربدر پھرتے رہے...
مگر اس کا کوئی نقش نہیں ملا...
انھوں نے پولیس میں شکایت درج کی... احمد صاحب اپنے پوتے اور بہو کو تسلیم کرچکے تھے اس لئے ہاجرہ کے جھنجٹ میں پڑنے سے معذرت کر چکے تھے...
سمیر ہر شام ہاجرہ کو ڈھونڈنے نکلتا تھا...
مگر ہر شام اس کی تلاش اور انتظار کو صرف خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا تھا...
تمام عمر ہاجرہ نے انتظار کیا اب سمیر کر رہا تھا اسے یقین تھا وہ ایک دن ضرور آئے گی... جب ہی وہ ہر ہر شام بے چین ہوجایا کرتا تھا...
اسے کچے رستوں پر ہاجرہ کے پاؤں کے نشان نظر آتے تھے...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
((ختم شد))

No comments:

Post a Comment