Wednesday, 24 July 2019

Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode3 Part1

Naqs e kafy-e-paaye yaar Written by Haadi khan

#نقشِ_کفِ_پائےِ_یار

#قسط_نمبر_تین

(پہلا حصہ)

#ہادی_خان

🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟

🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟

شام کو عابد صاحب نے گھر آکر ہاجرہ کی ضرورت کا سامان دے دیا...

یہ اتنا سب کچھ ہاجرہ نے نہیں لکھوایا تھا...

اس نے صرف رسوئی گھر کے سامان کی پرچی تیار کر کے دی تھی یہاں خلافِ مخیل ہی سب ہوا...

عابد صاحب کے دونوں ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپنگ بیگز تھے اور باقی کے سائیکل کے ہینڈل سے آویزاں تھے...

وہ اس کے لئے حسبِ توفیق ہر آسائش لے آئے تھے...

کچھ نئے برتن بھی...جن میں چائے کا مگ جو اس دور میں بالکل نیا اور الگ تھلگ تھا...

کھانے کو مزے مزے کے لوازمات سے بھرا شاپر اور مکس پھلوں کی بنی ٹوکری سائیکل کے کیرئیر میں جکڑی ہوئی تھے...

وہ ناجانے اپنی خواہشات کو آج پورا کر رہے تھے یا اس کے حصے کی رکھی رقم کو آج اس پر خرچ کرنے کا موقع ملا تھا...

وہ بچی بلند بختوں کی مالک تھی اگر ایک دو حاسدوں کو فراموش کریں تو باقی سارا گاؤں ہی اس کو بیٹی تسلیم کرتا تھا...

"ہاجرہ بیٹا یہ تم پہننا...." عابد صاحب سامان سے ایک سوٹ نکال کر اس کے سامنے پیش کرنے والے انداز میں لیئے جھکے تھے...

ہاجرہ کی آنکھیں چمک اٹھی اس کے الفاظ مفلوج ہو چکے تھے.....

وہ اس بڑی حویلی سے نکلنے کے بعد پہلا دن تھا...

اپنے باپ کی بے لوث محبت دیکھ کر ہاجرہ نے حسرت کی کے کاش وہ پہلے ادھر آئی ہوتی...

خیر جو اللہ کو منظور ہو...مگر وہ وہاں آکر بہت اطیمنان محسوس کر رہی تھی...

اپنائیت کا احساس واقعے اپنوں کے ساتھ ہوتا ہے...

جہاں دل مائل وہاں من لگ جاتا ہے...

🌟🌟🌟🌟🌟

🌟🌟🌟🌟🌟

چند دنوں بعد جب احمد صاحب کو ہاجرہ مسلسل غیر حاظر لگنے لگی.....

"سنو ہاجرہ بٹیا کہا ہے...." ایک دن انھوں نے عروسہ بیگم سے پوچھ لیا...

"وہ اپنے کمرے میں ہوگی...." عروسہ نے منہ چڑا کر جواب دیا....

"آج کل کی لڑکیوں کے پاؤں زمین پر کہاں لگتے ہیں..."

"بس بس زیادہ مت بولو ہماری بیٹی ایسی نہیں ہے...." احمد صاحب نے فوراً ان کی تردید کی...

عروسہ بیگم اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گئی...

انھوں نے ایک رات کو جلدی آکر خود سے دیکھا وہ واقع انھیں اپنے کمرے میں کیا گھر پر ہی نہیں ملی...

عروسہ بیگم سے روز پوچھتے تو وہ ٹال دیتیں آج انھوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا...

"وہ نہ ہی صبح فجر کے وقت دیکھنے کو ملتی ہے... نہ وہ رات کو ہوتی ہے... اتنی انمول ہوگئی ہے کہ آنکھ میں سرمہ ڈالنے کے برابر بھی نہیں نظر آتی....جاؤ اسے بلا کر لاؤ..." 

جب عروسہ بیگم چپ رہی تو وہ چلائے،،،،

"بتاؤ ہاجرہ کہاں ہے کیا کیا ہے تم نے میری بیٹی کے ساتھ..." احمد صاحب چیخے تھے...

"وہ اپنے باپ کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی ہے...." عروسہ بیگم نے ڈر ڈر کر جواب دیا...

اسی شام کو احمد صاحب اکیلے ہی ہاجرہ کے گھر آئے...

"بیٹا آنے سے پہلے انسان اطلاع دے دیتا ہے میں بہت دنوں سے پریشان تھا....." انھوں نے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا...

مگر ہاجرہ کے جواب دینے سے پہلے عابد صاحب نے ان کو روک کر اپنی مداخلت کرنا ضروری سمجھا.. پھر بہت دیر تک گھر کے واحد مٹی کے کمرے میں دونوں نے خود کو بند کر لیا...

اس محفل میں کوئی زن شامل نہ تھی جس کے بارے بات ہو رہی تھی "ہاجرہ" وہ تک بھی نہیں...

کہتے ہیں جس محفل میں عورت کو بڑا بنا کر بیٹھا دیا جائے یا ایک فریق کی سربراہ عورت ہو تو وہ جرگہ نہیں مچھلی بزار بن جاتا ہے...

اس کی دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مرد جو فیصلہ کرتے ہیں سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کہیں ایک جھک جاتا ہے تو کہیں دوسرا مگر عورت اپنی من مانی کرتی ہے...

اس سارے دورانیے میں ہاجرہ باہر صحن میں چکر کاٹ رہی تھی....

ہاجرہ کا من بوجھل ہونے لگا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آیا یہ رشتہ باقی رہے گا یا نہیں...

یہ چند لمحوں کی مدت سے بند دروازہ ہاجرہ پر مجنوں کی دیوانگی میں سنگلاخ تپتی زمین پر ننگے پاؤں چلنے کے برابر دِقت طلب کہیں تو غلط نہ ہوگا..وہ اسی بات کو سوچ کر لرز رہی تھی کہیں سب ختم ہی نہ ہو جائے...یہ نہ ہو اس کا خود کو سمیر کا مان لینا اب عامیانہ لگے...رشتوں کی کسی کڑی کی نوعیت بدل نہ دی جائے...بڑوں کے فیصلے جہاں خوشنودی کا سبب بنتے ہیں وہی انا اور غصے میں لیے گئے فیصلے بہت زیادہ نظرِثانی کے مستحق ہوتے ہیں...ہاجرہ کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں وہ اپنے دردِ سر میں کسی بھی پہلو پر سکون نہیں پارہی تھی...

مگر کچھ دیر بعد دروازہ کھلا...

دونوں بھائیوں کے منہ پر خفگی سی چھائی تھی...

ناجانے کیا فیصلہ ہوا ہوگا...

وہ تھوڑی سی آگے بڑھی...

ہاجرہ نے تایا کے پاس کھڑے ہوکر ان سےنظروں ہی نظروں میں بہت سارے سوالات پوچھ لئے تھے...

احمد صاحب سرنگوں و شرمسار کھڑے رہے...

وہ فقط ہاجرہ کے سر پر ہاتھ ہی رکھ سکے...

ہاجرہ کی آنکھوں سے آنسوں کی قطاریں بہنے لگیں...

بالکل ایسے جیسے کسی قیود کا دورازہ کھلا رہ جائے تو قیدی زنجیریں تڑوا کر نکل اٹھتے ہیں...

وہ نہیں جانتی تھی کس سے کیا جواب مانگے...

مجذوب تو خاموشیوں کی ہی گہری باتیں سمجھتے ہیں...

مگر ادھر کون کس بات کو کیا سمجھتا...

سلا منہ لئے احمد صاحب لکڑی کے اس مٹیالے دروازے سےخالی ہاتھ ہی دہلیز پار کر گئے...

کچے فرش پر آنسو گرتے ہی جذب ہو رہے تھے.. مٹی کے بنے پٹ پر بیٹھی ہاجرہ انھی دقیق سوچوں میں غوطہ زن تھی...

دروازے پر ایک مانوس سی دستک ہوئی ہاجرہ سمجھ گئی تھی کون آیا ہوگا....کیونکہ اس طوفانی دستک کا ایک ہی انس سے تعلق ہے اور وہ اس کی واحد سہیلی آمنہ تھی..

آمنہ اور ہاجرہ کا میل جول کا سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع ہوا تھا...

پہلے پہل تو عید تہوار غم خوشی پر ملاقات ہوجاتی تھی...

شادمانیوں میں ہاجرہ شرکت نہیں کرتی تھی...

وہ ان مقامات پر اپنی محرومیوں کو شوخ اور واضح پاتی....

جب ہی آمنہ کبھی کبھی آجایا کرتی مہینے میں دو سے تین چکر لگا لیتی تھی مگر اس کم آمدورفت کے سلسلے کے باوجود بھی ہاجرہ اس دستک سے خوب شناسائی رکھتی...

جب سے ہاجرہ نے احمد صاحب کا گھر چھوڑا تھا آمنہ ہی اس کی، شدتِ محبت ،انتظار، اور اس سے ملے جلے سب جذبوں کی اکیلی رازدار تھی...

"تمہیں پتا ہے...." دروازے کے کھلنے کی دیر تھی نہ سلام نہ دعا نہ حال احوال پوچھا اور اس کی باتوں کی چکی چل پڑی...

"کیا....سلام تو کرلیا...." بات ہاجرہ کے منہ میں ہی رہ گئی...

"اندر چلو کوئی سن لے گا...." آمنہ ہاجرہ کا ہاتھ اس انداز سے پکڑ کے اندر کی جانب لے جارہی تھی جیسے کوئی گوالا اپنی کسی بھولی گائے کی رسی پکڑے اپنے پیچھے پیچھے لے کرجاتا ہے ہاجرہ بھی اپنے بازو کی سمت پر چلنے پر جبراً مجبور ہوئی...

"کیا بتا رہی ہو رکو بھی...." ہاجرہ نے عین کمرے کے پیچو بیچ اس سے اپنا ہاتھ چھڑا دیا....

"کان کرو..."آمنہ نے اپنی تسلی کو آس پاس کمرے میں ایک نظر دوڑائی..

"ہاں بولو..." ہاجرہ دھیمی آواز میں بولی...

"اڑتی اڑتی خبر ملی ہے....وہ...آرہا ہے...."ہاجرہ کو ایک ایک لفظ اپنے اندر اترتا محسوس ہوا....

گرمی میں جو کام یخ لسی کا گلاس خلق سے اندر اتراتے ہوئے کرتا ہے جو ٹھنڈی تاثیر بخشتا ہے وہی کام ان الفاظ نے ہاجرہ کے وجود کے لیے کیا تھا....

منہ پر گرتے برسات کے پہلے قطرے سے ہی بادلوں کے ارادوں کا اندیشہ ہوجاتا ہے یہ خبر بھی یہاں اس ہی پہلے قطرے کی سی ثابت ہوئی..

ہاجرہ کا من مچل گیا...

ہاجرہ پر اس بات کا سحر طاری ہوگیا...

اس کا سراپا لرزش میں مبتلا ہونے لگا...

کانپتے ہونٹ پھڑکتی دائی آنکھ میں اب حیا کا عنصر تپنے لگا...

ہاجرہ مارے شرم کے اس ٹیپوں سے جڑے دڑاڑ شدہ شیشے کے دائیں جانب لگے پردے میں منہ دے کر شرمائی...

آمنہ کو یہ بات کہنے میں اتنی ہی حیا آئی کہ اس نے ہاجرہ کے ڈوپٹے میں منہ چھپا لیا...

ان دونوں نے کافی ثانیے نظریں نہ ملائیں..

ان کچے گھروں میں لاج رکھنے کو ہی سہی مگر شرم جیسا قیمتی نگینہ ہر خاص و عام بڑے چھوٹے کے پاس پایا جاتا ہے...

بڑی دیر تک شرم کے مارے وہ دونوں ایک دوسرے سے منہ اپنے اپنے ڈوپٹے میں چھپاتی رہیں..

پھر دونوں ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر عین ان خاموش قسم کے پاگلوں کی طرح بے معنی مسکراتی رہیں....

سمیر کا نام سنتے ہی اس کا روم روم دھمال ڈالنے لگتا..

کسی ملنگ سا حال تھا ہاجرہ کا سمیر کا نام اس کے لئے ڈھولک کے تھاپ کی مانند تھا...

جب جوش چڑھنے لگے تو انسان کے پاؤں اٹھنے لگتے ہیں بھلے وہ روٹھے یار کو منانے کو اٹھیں یا مرشد کو منانے میں...

"اس انتظار کو برسوں گزر چکے ہیں سمیر...وہ جھولا ،وہ شامیں ،درخت کی شاخیں وہ سب جگہیں مجھ سے تمہارے آنے کا پوچھتی ہیں میں اور بہانے نہیں بنا سکتی آجاؤ...اب لوٹ آؤ ہاجرہ شدت سے منتظر ہے اب اگر اور انتظار کروایا تو شاید اب تمہارا انتظار کرتے کرتے میں منتفی ہوجاؤں..." ہاجرہ کہیں کھو گئی تھی ناجانے جاگتے ہوئے خوابوں میں یا خیالوں کے کسی بے نام شہر میں....

آمنہ اس کا منہ تکتی رہی اور پھر کچھ دیر بعد ہاجرہ سے جواب نہ ملنے پر وہ واپس چلی گئی..آمنہ جانتی تھی جھلی رنگو دھیا ہے اسے کوئی اور رنگ کہاں نظر آتا ہے جب سمیر نظروں کے سامنے آیا ہو...

پیاسے کی پیاس کو تڑکا تب لگتا ہے جب وہ اپنے سامنے پانی کو دیکھ لیتا ہے ہاجرہ کے انتظار کا مشکل ترین مرحلہ اب شروع ہوا تھا....

No comments:

Post a Comment