Ehsaas Written By Shahnaz Awan
#احساس
#از_قلم_شہناز_اعوان
ہم سب دوستوں کا الگ الگ شعبے سے تعلق تھا اکثر ہم لنچ ڈنر کرنے باہر جاتی ہے. آج بھی ہم سب دوستوں نے ڈنر کرنےکے لئے ہوٹل مہران جانے کا فیصلہ کیا.
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں موسم گرما کو خوش آمدید کہہ رہی تھی.
گاڑی میں ہلکی آواز میں گانے میں گانا چل رہا تھا.
کچی ڈوریوں,ڈوریوں,ڈوریوں سےمینو تو باندھ لے
پکی یاریوں,یاریوں,یاریوں میں ہوندے نہ فاصلے
یہ ناراضگی کاگزی ساری تیری م
یرے سونہیا سن لے میری
دل دیاں گلاں کرنگے نال نال بہہ کے
آنکھ نالےآنکھ نوملاکے
ہم سگنل کھل نے کا انتظار کر رہی تھی ہم تب ہی ایک بزرگ گاڑی کے پاس آئے اورکہنے لگے بیٹی پین لے گی آپ اس سے پہلے کہ میں اُس سے پین خریدتی میری دوست نے کہا نہیں اور وہ بزرگ چلے گئے بزرگ کے جاتے ہی میری دوست مجھ سے کہنے لگی ہم کھانا کھانے جارےہیں پیپر دینے نہیں جو پین کی ضرورت پڑےگی اور ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑی.
تھوڑی دیر میں ہم مہران ہوٹل پہنچ گئی, ویٹر مینو کارڈ دینے کے بعد آڈر کا انتظار کرنے لگا.
مینو کارڈ پر سر سری سی نگاہ ڈال کر ہم نے کھانا آڈر کیا. کھانے کا آرڈ دینے کے بعد ہم ادرادھر کی باتیں کرنے لگی اور تہہ کیا کھانے کے بعد شوپنگ کا ارادہ کیا ہم سب دوستوں کو ایک ساتھ کہی جانے کا موقع کم ہی ملتا تھا.
سب دوست باتیں کرنے میں مصروف تھیں لیکن میرا ذہین ابھی بھی اسی بات پر الجھا ہوا تھا آخر ایسی کیا مجبوری ہوگی وہ اس عمر میں رات کو بیچ سڑک پر پین بیچ نے پر مجبور ہے.
میم آپ کا آڈر پاس کھڑے ویٹر نے مخاطب کرتے ہوئے کھانا میز پر رکھا اور ہم کھانا کھانے لگی, کھانا کھانے کے بعد ہم نے ویٹر کو بلایا اور بل لانے کے لیے کہا.
جی اوکے میم کہہ کر وہ بل لانے گیا.
میم آپ کا بل پہہ کرنے بعد دوستوں نے ویٹر کو ٹپ دی.
ویٹر کو ٹپ دیتے دیکھ میں نے دوستوں سے کہا ٹپ کیوں یہ تو اس کا کام ہے اور اس کو اس کام کی تنخواہ ملتی ہے ہاں پتا ہے تنخواہ ملتی ہے پتہ نہیں کتنی تنخواہ ہواس کی.
تمھیں کسی غریب کا احساس نہیں ہے کیا میری دوستنے مجھ سے کہا.
اگر اسے احساس کہتے ہیں ہاں مجھمیں احساس نہیں ہے.
احساس وہ ہے جب تم بنا ضرورت کے کسی ضرورت مند سے چیزیں خریدوں, ہوٹل سے باہر آئے اور باتیں کرتی ہوئی پارکنگ کی طرف چلنے لگی تب ہی میری نظر پارکنگ کےپاس ڈھبے پر پڑی جہاں آٹھ سالہ لڑکی پھولوں کے گجھرے اور ہار ایک لکڑی پر سجائے پاس رکھی کھاناکھا رہی تھیں.
بظاہر تو وہ کھانا کھارہی تھی لیکن نگاہیں اس کی پارکنگ پر تھی تب ہی ایک کار پارکنگ میں آکر رکی بچی نے کھانا چھوڑ کر پھولوں سے سجی وہ لکڑی اٹھائی اور اس گاڑی کی طرف اس امید سے بھری شاید وہ پھول خرید لے لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ نا امید ہوکر واپسی لوٹی اور پھر سے کھانا کھانے لگی.
یہ سب دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسوں آگئے, میں نے اپنی دوست سے کہا ایسے ضرورت مند لوگوں سے بنا ضرورت چیزیں خریدنے کا نام احساس ہے.
ماشاءاللہ سے بہت خوب بیان کیا آپ نے ہمارا معاشرہ بے حس ہوتا جا رہا ہے
ReplyDelete