Friday, 19 July 2019

Karma By Zara Rizwan

Karma Written by Zara Rizwan


کرما!
زارا رضوان

کرما  مکافاتِ عمل کا دوسرا نام ہے جو ایک دائرے کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں سے چلتا ہے وہیں آ کھڑا ہوتا ہے۔ جیسا کرو گےویسا بھرو گے۔ ایسا نہیں کہ تم برائی کرو بدلے میں اچھائی ملے۔ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے کبھی یہ اِنسانوں کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی  قدرت کی طرف سےمکافاتِ عمل یا کرما  بن کر منہ پر پڑتا ہے۔

*********************

یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب

 اِس میں اندیشہ جان تھا پہلے!!

"تم جاؤ۔ میں بنا لونگی کباب۔ تم حماد کو دیکھو بس"۔ زرین بیگم نے کچن میں داخل ہوئیں تو بہو کو کباب بناتے دیکھ  کر بولیں۔

"امی کنول ہے اُسکے پاس۔ چلیں آپ کباب بنا لیں،  میں  تب تک بریانی  بنا لیتی ہوں"۔۔ طیبہ فریج سے ٹماٹر نکال کر پیاز کی ٹوکری کی جانب بڑھ گئی۔ ۔

"کہا نہ بنا لونگی سب۔ فکر نہ کرو۔ تم جا کر کوئی اورکام دیکھ لو"۔۔ کباب بنا بنا کر وہ ٹرے میں رکھتی جا رہی تھیں۔

"امی آج تومیں بھابھی کے ہاتھ کے کباب کھاؤنگی۔لو جی، ویسے بھی کباب آپ بنا ہی چکی ہیں اُنہوں نے بس تلنے ہی ہیں۔۔بلکہ بھابھی بریانی آپ ہی بنائیں آج  "۔ڈائننگ چیئر پر بیٹھتے ہوئے کنول نے ماں کو کہا۔

" کمال کرتی ہو۔ وہ بچے کو دیکھے یا کچن کو"۔ 

" حماد سو گیا ہے  امی۔ اُٹھ بھی گیا توآپ اور میں ہیں نہ۔ آئیں میرے ساتھ بیٹھ کرباتیں کریں۔ بھابھی سب اچھے سے سنبھال لیں گی"۔ کنول نے کہا تو طیبہ کوحیرت کا خوشگوارجھٹکا لگا۔ 

***************

"کنول تم اب تک  یہاں بیٹھی ہو ۔ کب سے کہہ رہی ہوں جا کر تیار ہو جاؤ شہریار آنیوالا ہوگا"۔  حماد کو کنول کی گود سے لیکر زرین بیگم نے کہاتو اُسکو اُٹھتے ہی بنی۔

"طیبہ لو پکڑو حماد کو سنبھالو میں بنا لیتی ہوں جو تھوڑا بہت بنانا ہے"۔ زرین بیگم نے حماد طیبہ کی گود میں دیتے ہوئے کہا۔ بغیر کچھ کہے وہ خاموشی سے کچن سے چلی گئی۔

"بھابھی آپ یہاں بیٹھی ہیں؟آپ تو چائنیزرائس بنا رہی تھیں نہ"۔۔ نک سک سی تیار ہوتی کنول نے طیبہ کو ٹیرس میں بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔

" کھاناامی بنا رہی ہیں "۔ مختصرسا جواب دے کروہ دوبارہ  حماد کو دلیہ کھلانے میں مصروف ہو گئی- چہرے پر ہمیشہ کی طرح ہار کے اثرات تھے۔شادی کے بعد سے اب تک وہ روز زرین بیگم سے کھانا بنانے کی فرمائش کرتی اور روز یہی جواب ملتا وہ کرلیں گی۔

یہ اُسکی شادی کا پانچواں سال تھالیکن اپنی مرضی سے کچھ نہ کر سکتی تھی۔ سبزی کاٹنے سےکھانابنانے کا سارا کام زرین بیگم خود کرتی تھیں۔کپڑے دھونے کیلئے اورصفائی کیلئے ماسی آتی تھی  ۔ ایک نند تھی  کنول جسکو کوکنگ کا شوق تھا۔ کبھی کچھ اچھا بنانے کا شوق چڑھتا تو زرین بیگم چپ چاپ کچن اُسکے حوالے کر دیتیں۔  تب زرین بیگم کوبجٹ آؤٹ ہونے کی پروا ہوتی نہ مصالحوں کے کم زیادہ ہونے پر اعتراض۔ اُس کے میکے سے کوئی ملنے آتاتو کنول ہی اپنی ماں کیساتھ کچن میں لگی ہوتی ۔چائے بنانےاور برتن کا ڈھیر دھونے کی کی ذمہ داری ہمیشہ کی طرح اُسی کے سپرد تھی۔ کنول کی شادی ہوئی تو اُسکو لگاشاید اب حالات بدل جائیں لیکن زرین بیگم کی روٹین نہ بدلی تھی۔ اُنکا ایک ہی جملہ ہوتا پوری عمر یہی کام کرنا ہے ۔ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی   وہ اپنی حیثیت کا تعین نہ کرپائی تھی۔

********************

"کیا ہوا امی طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی؟"۔۔ زرین بیگم کو سر پر ڈوپٹہ باندھ کر لیٹے  دیکھاتو فکر مندی سے پوچھا۔

"ہاں ٹھیک ہوں۔ بس ہونہی لیٹ گئی ہوں کمر سیدھی کرنے۔۔ بس اُٹھ ہی رہی تھی دال چڑھانے"۔۔

"میں بنا لیتی ہوں امی آپ آرام کریں"۔۔ زرین بیگم کو اُٹھتے دیکھا توبولی۔"کیا آرام  کرنا۔ ساری رات آرام ہی کرتی ہوں"۔

"پھر بھی لیٹ جائیں۔ دال ہی تو ہے، میں بنا لیتی ہوں"۔۔ ٹھیک ہے کہہ وہ دوبارہ لیٹ گئیں۔

"ارے واہ  آج دال تو بہت مزے کی بنی ہے"۔۔  ذیشان نے نوالا منہ میں ڈالتے ہی کہا تو طیبہ کے چہرے پرمسکراہٹ بکھرگئی۔

" نمک تھوڑا زیادہ ہے۔ کم ڈالا کرو، ضرورت ہو تو اوپر سے بھی ڈالا جاسکتا ہے"۔  طیبہ جی امی کہہ کر چپ ہو گئی۔

"آپکو لگ رہا ہے امی وگرنہ بالکل ٹھیک ہے"۔۔ ذیشان نےبلا اِرادہ  کہاتو زرین بیگم مزید کچھ کہے بغیر کھانے میں مشغول ہو گئیں لیکن چہرے کے تاثرات عجیب ہوگئے  تھےیا شاید طیبہ کوہی ایسا لگاتھا۔

***************

"کبریٰ آج اچھے سے صفائی کرنا۔ سائیڈ ٹیبلز پر مٹی کی گرد جمی صاف نظرآتی ہے۔ روز کہتی ہوں لیکن  مجال ہے جو کان پر جوں رینگتی ہو "۔۔ کبریٰ اچھا بیگم صاب کہہ کر دوبارہ ڈسٹنگ میں مصروف ہو گئی۔

"امی آج چائنزرائس، تکہ بوٹی، نوڈلز اورنرگسی کوفتے بنالیں کیا؟  کنول کی نند پہلی بار آ رہی ہیں توکیوں نہ کچھ الگ ہو جائے کھانے میں "۔

"ارے واہ  بھئی۔ کیا سپرمینیو ہے۔ ویسے بھی کچھ دِنوں سے چٹپٹاکھانے کا دِل کر رہا تھاکنول کے جانے کے بعد سے اب تک کھایا ہی نہیں۔ شہریار کو چائنز رائس بہت پسند ہیں"۔ کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے ذیشان نے کہا تو منع کرتے کرتے زرین بیگم کو اِجازت دیتے ہی بنی۔

"واہ بھابھی کمال ہی کر دیا۔ ۔ بہت شاندار اہتمام کیا آپ نے خاص کر میرے فیورٹ چائنزرائس۔ کیا بات ہے۔ کنول کوبھی اِسکی ریسپی بتا دیں"۔۔ شہریار کی بات پر زرین بیگم کا منہ بن گیا۔

"ایک بات ہے  بھابھی آپکے ہاتھوں میں لذت ہے ماشاء اللہ"۔۔ 

" کنول بہت ماہرہےکھانے بنانے میں۔ کیاچیز ہے جو اِسکو نہیں بنانی آتی"۔۔ زرین بیگم نےکہا۔"شکریہ شہریار بھائی۔ آپکوپسند آیا محنت وصول ہو گئی۔ رہی بات کنول کی تو امی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اِسکو سکھانے کی کیا ضرورت۔ یہ تو  خود بہت اچھا کھانا بناتی ہے "۔ طیبہ نے رسان سے جواب دیا۔

"تکہ بوٹی کیسے بنائی طیبہ؟"۔۔ کنول کی بڑی نند حمیرانے پوچھا ۔طیبہ اُسکو ترکیب بتانے لگ گئی لیکن گاہے بگاہے نظریں ساس کی جانب اُٹھ جاتیں جوکنول کی ساس کیساتھ باتوں میں مصروف تھی لیکن طیبہ اُنکے چہرے کے بدلےتاثرات سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ خوش نہیں ۔ ظاہر ہےآج کا مینیو انکی مرضی کا نہیں تھا نہ ہی اُنہوں نے  کچھ بنایا تھا۔ اوپر سے طیبہ کی تعریفیں۔۔ موڈ تو خراب ہونا ہی تھا۔

"مما مما نگٹس بھی بہت مزے کے تھے۔ اِسکی ریسیپی بھی پوچھیں  پھرآپ گھر میں بنا کر دیجئے گا "۔۔ حمیراکا سات سالہ بیٹا آئسکریم کھاتےبولا تو سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ کسی نے کنول کی پھیکی اور مدہم مسکراہٹ کو محسوس نہ کیا۔

*********************

"کیا ہوا امی خیریت؟ میں کب سے دیکھ رہا ہوں آپ اِسطرح لیٹی ہیں۔ طبیعت تو ٹھیک ہے؟"۔۔

"ٹھیک ہوں بیٹا۔بس ٹانگوں میں درد ہے۔اب ہمت نہیں رہی۔ تھوڑا سا کام کرکے تھک جاتی ہوں۔ گولی کھائی ہے۔ ہو جاؤنگی ٹھیک "۔ 

"تو طیبہ کو کہیں جو کام کرنا ہے۔ آپ خود کیوں کرتی ہیں وہ ہے نہ سب سنبھال لے گی"۔۔

" زیادہ مسئلہ ہے تو ڈاکٹر کو دِکھا دیتے ہیں"۔۔ ٹیبل پرچائے رکھتے ہوئے طیبہ نے فکرمندی سے کہا ۔

"ارے نہیں بھئی۔ اُس نے بھی کونسا الگ دوا دے دینی ہے۔ گولی کھائی ہے ہو جائے گا ٹھیک"۔۔ زرین بیگم کے لہجے میں اکتاہٹ اِتنی واضح تھی کہ طیبہ مزید کچھ نہ کہہ سکی۔

" تم ایک کام کرو،  دودھ سوڈا بنا کر لاؤ"۔۔ ذیشان نے طیبہ سے کہا۔ ماں کے لہجے کی تلخی اُس نے صاف محسوس کی لیکن اُسے طبیعت خرابی کی وجہ سمجھ کر چپ کر گیا۔

"نہیں بھئ میں دو گھڑی لیٹوں گی تو ٹھیک ہو جاؤنگی۔ تم آرام سے چائے پیو۔ پریشان مت ہو"۔۔

"ٹھیک ہے امی آپ آرام کریں "۔۔   زرین بیگم کے بار بار منع کرنے پر دونوں نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی۔

***********************

"ذیشان آفس جاتے ہوئے مجھے کنول کے ہاں چھوڑ دینا۔ کافی دِنوں سے کہہ رہی ہے آجاؤ۔ "۔  زرین بیگم چادراوڑھتے ہوئے بولیں۔

"پورے دِن کیلئے جا رہی ہیں تو طیبہ کو بھی ساتھ لے لیتیں۔ وہ اکیلی کیا کرے گی گھر میں؟"۔۔  تسمے باندھتے ہوئے ہوئے کہا۔

" بچے کا ساتھ ہے کہیں پریشان نہ ہو جائے وہاں "۔ 

"ارے نہیں ہوتی پریشان بلکہ آؤٹنگ ہو جائے گی اِسی بہانے۔ کہاں وقت ملتا ہے اِسکو بھی کہیں جانے کا۔ تم  تیار ہو جاؤ۔ حماد کوبھی تیاکرلو۔ اُسکی ضرورت کی چیزیں اور پیمپرز رکھ لوساتھ۔ ضرورت پڑ سکتی ہے"۔۔ طیبہ جی اچھا کہہ کر تیار ہونے چلی گئی۔ زرین بیگم کا منہ بن گیا۔

***********************

"ارے تم کب سے ہمارے ساتھ بیٹھی گپیں ہانک رہی ہو۔ جاکر اپنی اور نند کیساتھ کام کرواؤ۔ کیا سوچ رہی ہونگی کہ ماں کیساتھ ہی لگ کر بیٹھ گئی ہے"۔۔

زرین بیگم نے کنول کوسرگوشی میں کہا۔

"وہ دونوں ہی کافی ہیں امی"۔ کنول کا لہجہ عجیب سا ہوگیا۔

"توبہ ہے کنول؟ حمیرا مہمان ہے یہاں۔ کچھ دِن بعد چلی جائے گی لیکن تم گھر کی بہو ہو۔ یہ سب کرنا تمہاری ذمہ داری ہے نہ کہ اُسکی۔ کوئی اورہی آکر دیکھ لے تو کیا سوچے۔ جاؤ جا کر ہاتھ بٹاؤ"۔ "بیوقوف نہ ہوتو "۔۔ کنول کے جانے کے بعد اُنکی بربڑاہٹ جاری تھی جسے طیبہ باآسانی سن سکتی تھی۔ 

"ارے بہن اِتنا کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ سادہ سا کچھ بنا لیتے۔ ہم کونسا کوئی غیر ہیں"۔۔ زرین بیگم نے ڈائننگ ٹیبل پرپالک پنیر، وائٹ قورمہ،بیف کباب جیسے لوازمات دیکھے تو شرمندہ ہو گئیں۔ آخر کو وہ بیٹی کا سسرال تھااور وہ بیٹی کے سسرال زیادہ جانے کو اچھا نہ سمجھتی تھیں  اِسکا ذکر کئی بار وہ طیبہ کے سامنے بھی کرتیں جسکی وجہ سے طیبہ خود ماں باپ سے مل آتی تاکہ اُنکو آنا ہی نہ پڑے۔۔

"میں نے کہاں  کیاکچھ ۔ یہ سب تو سمیرا اورحمیرا نے بنایا ہے"۔۔ رقیہ نے جواب دیا

"آنٹی یہ حمیراآپی جب بھی آتی ہے میری کچن سے چھٹی کر دیتی ہے۔ کچھ بھی بنانے نہیں دیتی۔ ہنہ"۔سمیرا نے منہ پھلا کر بتایا۔

"سمیراایسا نہیں کہتے۔ وہ مہمان ہے کبھی کبھی تو آتی ہےکیا ہوا جو "۔۔ 

"مہمان کیوں بھئی۔ اِسکا اپنا گھر ہے جب جی چاہے آئے جو دِل کرے بنائے"۔۔رقیہ نے کنول کی  بات کاٹ کر کہاتو سالن ڈالتے ہوئے زرین بیگم کے ہاتھ پل بھر کو رُکے۔

"دیکھا جائے توشادی کے بعد بیٹیاں مہمان ہی ہوتی ہیں بہن"۔ زرین بیگم رسان سے بولیں۔

"ہمم  پالک پنیرمزے کی بنائی ہے "۔۔ طیبہ نے نوالہ منہ ڈالتے ہوئے کنول سے کہا ۔ اِرادہ موضوع بدلنا تھا۔

"حمیرا کے ہاتھوں میں ذائقہ ہے"۔۔ رقیہ نے کہا تو زرین بیگم اور طیبہ نے بیک وقت کنول کو دیکھا جو سرجھکائے کھانے میں مگن تھی جیسے اِس سے زیادہ ضروری کچھ ہو ہی نہ۔۔

"  اب ایسی بھی بات نہیں امی۔ کباب اور رشین سیلڈ میں نے بنائے ہیں ۔ بتایئے کیسے بنے"۔۔ سمیرا نے  پلیٹ زرین بیگم اور طیبہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

"مزیدار ہے"۔۔ زرین بیگم نے کہا۔ لہجہ دھیما تھا۔

"کنول تم نے کچھ نہیں بنایا۔ تمہارے ہاتھوں کا کھانا کھائے عرصہ ہو گیا۔ آج کا دِن تو اِنکو آرام دے دیتیں۔ ویسے بھی  شادی کو سات ماہ ہو چلے ہیں ۔ اِتنا فارغ بیٹھنا بھی ٹھیک نہیں۔ ساتھ لگ کر کام کیا کرو"۔۔زرین بیگم نے اپنے طور بیٹی کو ڈپٹا۔۔کنول نے یوں سر جھکا لیا جیسے کوئی مجرم ہو یا کوئی خطا سرزد ہو گئی ہو۔

"سات ماہ ہی ہوئےہیں کون سا سات سال ہو چلے ہیں۔ ساری زندگی یہی کام کرنا ہے"۔۔رقیہ نے کہاتو زرین بیگم کو یہ جملہ جانا پہچانا سا لگا۔۔کیوں نہ لگتا یہ جملہ اُنہی کا تو تھا۔

کرماہمیشہ  گھوم کر وار کرتا ہے۔اِسکے دائرے سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ دُنیا میں کئے کی سزا دُنیا میں دے کرہی اگلے  جہاں رُخصت کرتاہے۔

**********************

"کنول بیٹا تمہاری امی اور بھابھی جا رہی ہیں۔ برتن بعد میں دھو لینا۔۔ پہلے مل لو"۔۔  زرین بیگم نے آدھ کھلے دروازے سے کنول کو دیکھا جو برتنوں کا ڈھیر دھونے میں مصروف تھی۔ اُنکو لگا وہاں کنول نہیں بلکہ  طیبہ کھڑی ہے۔ پانچ  سال کا سفر اُنہوں نے ایک دِن میں طے کیا۔ اندازہ کر سکتی تھیں کہ  کسی کیلئے یہ پانچ سال پانچ  صدی سے کم نہیں۔

"شکریہ امی آپ آئیں"۔۔ ایک ہاتھ میں حماد اُٹھائے دوسرے سے ماں کے ساتھ لپٹتے ہوئے کہا تو زرین بیگم ایکدم چونک گئیں۔

"اپنا خیال رکھنا کنول"۔ طیبہ نے گلے لگاتے ہوئے کہا۔

**********************

"ارے بیٹا تم یہاں بیٹھی ہو۔ جاؤ جا کر ناشتہ بنا لو؟ ذیشان کے آفس جانے کا وقت ہو رہا ہے "۔۔  حماد کو گود سے لیتے ہوئے بولیں تو طیبہ اپنی حیرت نہ چھپا سکی۔

"جی امی میں؟ آپ بنا لیتیں"۔۔

"ساری زندگی بنایا بھی ہے کھلایا بھی ہے۔ اب توبیٹھ کر کھانے کا وقت ہے۔ یہ گھر اب تمہارے حوالے جیسے مرضی چلاؤ۔ جو مرضی بناؤ۔ میں اب آرام کرونگی"۔۔ 

"کیوں نہیں امی آپ کو مایوسی نہیں ہوگی اِنشاء اللہ" ۔۔ طیبہ  نے فرمانبرداری سے کہا۔

"اِنشاء اللہ۔ اچھا ایک کام کرو"

"جی امی کیا؟"۔۔ جاتے جاتے واپس پلٹی۔

" رات کے کھانے میں اپنے گھر والوں کو بلوا لو ۔۔ کافی دِن ہوئے ملےنہیں۔ تھوڑا ذہن بہل جائے گا وقت اچھا گزر جا ئے گا۔ اور ہاں کھانا مزیدار ہونا چاہیے"۔

"کیوں نہیں امی۔ میں ابھی فون کر دیتی ہوں۔ بلکہ میں آپکو فون لاکر دیتی ہوں۔ آپ  کہہ دیجئے گا"۔۔ طیبہ خوشی سے نہال ہو رہی تھی۔

"ہاں یہ ٹھیک ہے "۔۔ طیبہ ناشتہ بنانے گئی تو زرین بیگم لمبا سانس کھینچ کر چپ ہو گئیں۔ایک دِن میں بیٹی کو دیکھ کر وہ سب محسوس کر لیا جوکبھی بہو کیلئے نہ کر پائیں۔ دیر سے صحیح پر عقل آ گئی تھی۔

"یا اللہ  میری کنول کو اِتنا لمبا سفر نہ کرنا پڑے جتنا اس بچی نے کیا۔ طیبہ تو بہت صابر ہے جس نے اُف  تک نہیں کی ۔ کبھی  ذیشان کو بھڑکانے کی کوشش نہیں،  اُس سے شکایت لگائی نہ کبھی اپنے گھر والوں کو کچھ بتایا۔ کنول  توابھی سے ہمت ہار رہی ہے، ٹوٹ رہی ہے۔میرے مولا  ہمت ٹوٹنے سے پہلے اُسکومنزل مل جائے "۔۔ ہونٹوں پر دُعائیں جاری تھیں۔ اندرآتے طیبہ نے دِل میں آمین کہا اورفون زرین بیگم کو تھما دیا۔

************

Click here to Download Pdf


No comments:

Post a Comment