Lamho ki Khata By Aleena Arshad
Lahom Ki Khata Written by Aleena Arshad
لمحوں کی خطا ۔
از علینا ارشد
امی! اب آپ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے نہیں جائیں گی ۔اب بھائی کے ساتھ میں بھی کام پر جایا کروں گا ۔
عائشہ نے ایک نظر اپنے پندرہ سال کے بیٹے پر ڈالی ۔۔'کیوں میری جان آگے پڑھنا نہیں ہے کیا ؟
امی پڑھنا ہے نا بہت سارا 'مگر ابھی تو چھٹیاں ہیں نا اور رزلٹ آنے میں بہت وقت ہے ۔
بس اب آپ کام پر نہیں جائیں گی ۔میں اور بھائی اب بڑے ہو گئے ہیں ۔آپ کا اور مہک کا خیال رکھ سکتے ہیں ۔
امی جان موحد ٹھیک کہہ رہا ہے ' میں بھی یہی چاہتا ہوں اور میں نے عمر انکل سے بات کی تھی ۔وہ کہتے جب تک موحد فارغ ہے ۔دکان پر آ جایا کرے ۔بس اب آپ اجازت دیں تو؟
فاروق نے عائشہ کی طرف دیکھ کر بہت ادب سے پوچھا ۔۔۔
تو عائشہ بیگم وہ وقت یاد آ ہی گیا جسے صبر کا پھل کہتے ہیں ۔آج تمھارے دونوں بیٹے اس قابل ہو گئے ہیں کہ تمھارہ سہارا بن سکیں ۔۔۔۔۔
"شکر ہے تیرا میرے مالک "
چلو ٹھیک ہے میرے شہزادوں جیسے تم دونوں کو بہتر لگے ۔۔
شکریہ امی جان ۔
موحد اور فاروق نے ایک ساتھ عائشہ کا منہ چوما ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امی ۔۔امی ۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔عائشہ ایک دم ڈر گئی ۔
امی جان موحد کو ایک نظر دیکھ لیں ۔آخری بار پھر کبھی نظر نہیں آئے گا ۔فاروق عائشہ کے گلے لگ کر بلک اٹھا ۔۔۔۔۔
عائشہ جو کب سے کسی بت کی طرح موحد کو دیکھے جارہی تھی اونچی آواز میں رونا شروع ہو گئی ۔
فاروق میرا موحد ۔۔۔
یہ تو کہتا تھا امی میں ہونا نا اب نہیں رونا ۔۔۔
اب کیوں چھوڑ گیا رونے کے لئے ۔۔
امی پلیز چپ کریں ۔اللہ پاک کی یہی مرضی تھی اور آپ تو کہتی تھیں حالات کیسے بھی ہوں ۔کبھی زبان پر شکوہ نہیں لانا چائیے صبر کرنا چاہیے ۔۔
اللہ نے اس بار میرے صبر کا پھل ہی واپس لے لیا ساری عمر مر مر کر گزاری ہے کبھی شکوہ زبان پر نہیں لائی ۔نشئی شوہر تین چھوٹے چھوٹے بچے اور لوگ کی بات سن کر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا 'مگر آج نہیں ہورہا ۔۔
کاش میں ۔۔
"ماں میری پیاری ماں میں ہوں نا "وہ جاتے جاتے بھی کہہ کر گیا ہے کہ میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دوں ۔۔۔پلیز اس کے لیے چپ ہو جائیں ۔
جنازے کا وقت ہو گیا ہے ۔اٹھ کر گلے لگا لیں آخری بار اسے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کبھی کبھی کسی کو آزمانے پہ آتی ہے تو آزمائیے جاتی ہے ۔ چل سو چل ایک آزمائش پھر ایک اور ۔۔ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ایسے میں کبھی کبھی صبر کے بند ٹوٹ ہی جایا کرتے ہیں ۔
ایسا ہی کچھ عائشہ کے ساتھ ہو رہا تھا ۔مگر اب تو ہمت ہی ختم ہو گئی تھی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے جوان بیٹا دنیا چھوڑ گیا ۔نافرمانی کی اتنی سزا ۔۔۔یا اللہ مجھے معاف کر دے مجھے ۔میں نے کبھی شکوہ نہیں کیا 'جانتی ہوں خطا وار ہوں ۔۔
مگر اب دل غم کی شدت سے پھٹ رہا ہے اولاد کا دکھ آج سمجھ میں آیا۔۔مدد کر میرے مولا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ آپی آپ کا دلہا تو ذرہ بھی نہیں اچھا -
ثمرہ نے دلہن بنی عائشہ کے پاس آ کر سرگوشی کی ۔۔
کوئی بات نہیں ۔۔ دل کا اچھا ہونا ضروری ہے ۔۔شکل تو اللہ کی بنائی ہوئی شے ہے بری کیسے ہو سکتی ہے ۔۔۔
عائشہ نے پیار سے خود سے دو سال چھوٹی اپنی کزن کو سمجھایا ۔۔
نرم خو سی عائشہ جس شکل جتنی خوبصورت تھی دل اس سے زیادہ خوبصورت تھا سب کی دل عزیز ۔
احمد رضا سے شادی اس کی اپنی پسند پر ہو رہی تھی کبھی ضد نہ کرنے والی عائشہ نے زندگی کا سب سے بڑا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خودکشی کی دھمکی دے کر سب کو منوا بھی لیا ۔
کوئی والدین اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے مگر کبھی کبھی اولاد کی زندگی کے لئے ان کے سامنے ہار جاتے ہیں ۔۔
احمد عائشہ کا رکشہ ڈرائیور تھا جو اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے عائشہ کا دل جیت چکا تھا اور اس انداز میں اسکو اپنے سحر میں جھکڑا کہ عائشہ کو اس کے علاوہ کیسی اور کیا بات سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی ۔۔
عائشہ وہ بالکل بھی اچھا انسان نہیں ہے ابھی بھی وقت ہے مان جاو ہماری بات۔۔
ماں وہ بہت اچھے ہیں ۔اور آپ لوگ تو بس ایک بار ہی ملیں ہیں 'ان سے ،مانا کہ وہ غریب ہیں اور گاؤں میں رہتے ہیں ۔اور زیادہ خوبصورت بھی نہیں مگر ماں وہ دل کے بہت اچھے ہیں اور پڑھے لکھے اور محنتی ہیں اور رکشہ صرف نوکری نہ ملنے کی وجہ سے چلا رہے ہیں ۔پلیز ماں ۔۔۔
عائشہ تم نے ہماری امیدوں کو چکنا چور کر دیا ہے ۔پہلے تمھاری خود کشی کی کوشش اور پھر گھر سے چھوڑنے کی دھمکی نے ،ہمیں بے بس کر دیا ہے ۔تم ایسی تو نہیں تھی۔ہم تو تمہاری فرمانبرداری کی مثال دیتے تھے لوگوں کو ۔شاید ہماری ہی نظر لگ گئی ۔بہت دل دکھایا ہے تم نے ۔میں شاید کبھی تمھیں معاف کر دوں 'مگر تمھارے بابا کبھی تمہیں معاف نہیں کریں گے ۔مان توڑا تم نے ان کا ۔۔۔لوگوں کی نظروں میں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔۔تم تو بہت اچھی بیٹی تھی ۔
"ایک غیر شخص کی دو سال کی محبت میں گرفتار ہو کر تم ہماری بیس سال کی محبت، لاڈ، پیار سب بھول گئی ،اور ایک لالچی انسان ہے ۔ایسی کون سی جاب ہے جو دو سال سے نہیں ملی ۔
میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ۔اور کسی کو جاننے کے لیے ایک ہی نظر کافی ہوتی ہے ۔
ہماری بات مان جاو میری جان' اپنی زندگی تباہ مت کرو ۔۔
امی پلیز ۔۔۔۔
بس کرو 'رفیعہ بیگم ۔
بابا کی آواز سن کر عائشہ خاموش ہو گئی ۔
صحیح کہتے ہیں 'اصل آزمائش اولاد ہی ہوتی ہے ۔
اس کو سمجھا دو کہ اس سے رشتہ جڑتے ہی اس کا رشتہ ہم سے ختم ۔یہ ہمارے لیے مر گئی ہم اس کیلئے , کچھ بھی ہو جائے یہ پلیٹ کر اس دہلیز پر کبھی نہیں آئے ۔۔
سبحان صاحب نے دکھی مگر سخت لہجے میں کہا ۔
بابا کی باتیں سن کر عائشہ کا دل ایک پل کے لیے ڈوب گیا ۔دماغ نے کہا ان کی بات مان لینی چاہیے ۔مگر اب وہ اتنی دور آ چکی تھی کہ پلٹنا ممکن نہیں تھا ۔اور پھر کانوں میں گونجتی احمد کی محبت بھری باتیں اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھیں ۔عائشہ وہ تمھیں جب میرے ساتھ خوش دیکھیں گے نا تو دیکھنا ایک پل میں ساری ناراضگی بھول جائیں گے ۔
رفیعہ اس کو بولو جلدی تیار ہو جائے مولوی صاحب نکاح پڑھانے کے آنے والے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کے پہلے سال سب اچھا رہا ۔مگر نا تو احمد کو نوکری ملنی تھی نا ہی ملی ۔۔میٹرک پاس کون سی اونچی نوکریاں ملتی ہیں ۔
عائشہ نے اس کے اس جھوٹ کو حوصلے کے ساتھ کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا۔آخر محبت جو تھی اور انتخاب بھی اپنا ٹھہرا ۔
سال بعد جب احمد کو جب یقین ہو گیا کہ عائشہ کے گھر والوں کی طرف سے کچھ نہیں ملنے والا ۔۔
ماں باپ زندہ ہوتے تو شاید پھر بھی کوئی امید رہتی ۔مگر وہ تو شادی کے تین ماہ بعد ہی ایک کار ایکسیڈنٹ میں مر گئے تھے اور بھائی بھابھی تو اس کی شکل تک دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے ۔
بات بات طعنے اور پھر لڑائی جھگڑے اور ذرہ سی بات پر ہاتھ اٹھا دینا تو معمولی سی بات ہو گی تھی ۔
مگر حد تو تب ہوئی جب رکشہ بیچ کر نشہ کرنا شروع کر دیا ۔
عائشہ نے بھی جیسے سب چپ چاپ سہنے کا فیصلہ کر لیا تھا جو بویا تھا عمر بھر کاٹنا تھا ۔۔
ساری عمر صبر کے ساتھ گزار دی ۔
کسی کام کو ہاتھ بھی نا لگانے والی نازوں پلی نے مردوں کی طرح کھیتوں میں کام کیا ۔
نا تو تعلیم مکمل تھی اور نا ہی کوئی ہنر ہاتھ میں اور گاؤں میں اس کے علاوہ ایسا کوئی کام بھی نہیں تھا جس سے وہ تین بچوں کا اور نشئی شوہر کا پیٹ بھر سکتی ۔مگر بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔دھوپ جیسی کڑی زندگی میں نیک اولاد ہی اس کے لیے ٹھنڈی چھاؤں جیسی تھی ۔شاید یہ اس کے صبر کا صلہ تھا
دن بھر کام کر کے اور پھر احمد کی مار کھا کر بھی بچوں کے سامنے مسکراتی رہتی ۔۔
اور کبھی شکوہ نہیں کیا اللہ سے ۔
آخر جان سے ماں باپ کا دل توڑا تھا اپنی نافرمانی کی سزا ملی تھی کچھ حساب دنیا میں ہی مل ہو جاتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاروق اور موحد کی باتیں سن کر اسے لگا کہ شاید سزا ختم ہو گئی ہے مگر موحد کی موت نے اس کی ہمت ختم کر دی ۔
آج اس کا دل تڑپ تڑپ کر چاہ رہا تھا کہ ماں باپ کے قدموں میں جا کر گر جائے اور رو رو کر ان سے معافی مانگ لے اور یہ اعتراف کرے آپ صحیح تھے میں غلط ۔
مگر افسوس اب یہ وقت بھی گزر چکا تھا ۔
عائشہ نے ایک دکھ بھری نظر صحن کے کونے میں نشے میں بے دھت پڑے احمد پر ڈالی ۔
شاید اس سے زیادہ بدنصیب انسان یا باپ کوئی ہو جسے اپنے بیٹے کی موت کا بھی ہوش نہیں تھا ایسا بدنصیب جو اپنے بیٹے کا جنازہ تک میں شامل نہ ہو سکا اور یہ اس کی سزا تھی ۔
ہم بیٹیاں اپنے ماں باپ کے آنگن کی چڑیاں ہوتی ہیں ۔جنہیں وہ ساری عمر اپنے پروں میں چھپا کر رکھتے ہیں ۔
مگر جیسے ہی ہم اڑنے کے قابل ہوتی ہیں نجانے کیوں ان کے احسانوں کو بھولنے لگتی ہیں ۔
ہمارے پنکھ پھیلاتے ہی اردگرد شکاریوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے ۔
نا چاہتے ہوئے بھی ہم کسی نہ کسی جال میں الجھ کر پھنس جاتی ہیں ۔
"اور انجانے میں اپنے گرد باندھا ہوا عزت اور مان کا حصار توڑ کر محبت کی چادر اوڑھ لیتی ہیں "
اور چادر میں اپنوں کے ٹوٹے ہوئے بھروسے کے چھید نظر انداز کر کے ایک نئے جہان کو کھوجنے نکل پڑتی ہیں 'بنا نفع و نقصان کی پروا کئے ۔
ایک ایسی دینا جو شروع شروع اتنی خوبصورت لگتی ہے کہ اپنا آپ خوبصورت لگنے لگتا ہے ۔
ایسی خوشنما وادی جو پل بھر میں اپنے سحر میں جھکڑ لے مگر آہستہ آہستہ اپنی اندر چھپی بدصورتیاں آشکار کرنا شروع کر دیتی ہے ۔
مگر تب تک ہم اتنا مگن ہو چکے ہوتے ہیں کہ کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا ۔ہوس اور لالچ اور گرز میں لپٹی فریب دیتی 'جذبوں کی خوبصورتی سے سجی بدصورت محبت ۔
اور اگر احساس ہوتا بھی ہے تو نظرانداز کرکے آگے سپنوں کی گھڑی اٹھے اندھا دھند آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
آنکھیں تب کھلتی ہیں ۔جب ذلت کے گڑھے میں اوندھے منہ جا گرتے ہیں ۔تب ہاں تب آتا ہے سب یاد ہر غلطی، ہر کوتاہی ،ہر نافرمانی، پیچھے چھوڑی ہوئی عزت اور ٹوٹے ہوئے بھروسے کی کرچیاں اور پھر اس محبت کی چادر میں چھپے ہوئے چھید بھی نظر آ جاتے ہیں 'مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔
محبت کرنا غلط نہیں ہوتی ،محبت تو ہو جاتی ہے بنا جانے، بنا سوچے ،بنا سمجھے، ہاں مگر اس محبت میں اندھے ہو کر باقی محبتوں کو رسوائیوں میں دھکیل دینا غلط ہوتا ہے
محبت کے نام پر استعمال ہو جانا غلط ہوتا ہے، اس محبت میں اٹھائے جانے والے قدم جو ذلت کی طرف بڑھتے ہیں ۔انجام جانے کے باوجود ایسی منزل کی طرف بڑھانا غلط ہے ۔ ایسی غلطیاں اکٹھی ہو کر گناہ بن جاتی ہیں اور گناہوں کی سزا تاعمر ملتی ہے۔
۔ماں باپ کبھی اولاد کا برا نہیں چاہتے اگر ہمیں انکا کوئی فیصلہ غلط لگتا بھی ہے وہ بھی ہمارے اپنے غلط فیصلے سے سو گناہ صحیح ہوتا ہے جو ہم کرنے جا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے۔
سب کا دل دکھا کر خوش رہا جا سکتا ہے شاید مگر ماں باپ کا نہیں ۔"وہ بد دعا نہ بھی دینے ان کے دکھے دل سے نکلی آہ عرش ہلا دیتی ہے 'اور آہیں نسلیں تباہ کر دیتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کیجئے مگر اس محبت ہو کر غلط فیصلے مت کریں ۔محبت ہو جانا فطری عمل ہے مگر اس میں خود کو تباہیاں کی طرف لے جانا ہمارا اپنا فیصلہ ہوتا ہے ۔
"اور مردوں کے معاشرے میں ہم عورتوں کو محبت کرنا زیب نہیں دیتا ۔
نجانے کون کب گدھ بن کر محبت کا جال ڈال کر نوچ لے۔
"محبت محرم سے ہو تو جزا دیتی ہے نا محرم سے ہو تو تاعمر سزا دیتی ہے "۔
اختتام شدہ
Click here to download Pdf
No comments:
Post a Comment