Kis din Mera Viah Hovy ga Written by Sana Khan Tanoli
کس دن میرا ویاہ ہووے گا؟
مصنفہ : ثناء خان تنولی
منو کو بچپن سے ہی شادی کا بڑا شوق تھا۔۔۔۔ منو جب دسویں جماعت میں پہنچی تو کچھ سہیلیوں کی مینگنیاں اور کچھ ہی شادیاں ہونے لگیں، اس فیشن کو دیکھتے ہوئے منو کے اندر بھی بیاہ رچانے کے سہانے سپنے جنم لینے لگے ۔ بالآخر بارہویں جماعت کے پرچوں کے اختتام پر اس کا بھی رشتہ آ ہی گیا ۔
اب منو کی اماں کی خواہش تھی کہ پہلے بڑی بیٹی کو بیاہنا ہے منو چونکہ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھی بڑے دو بہن بھائی شادی شدہ تھے مگر منجلی بہن اب بھی کنواری تھی ۔
منو معصوم اب بڑی بہن کی شادی کا انتظار کرنے لگی ۔ آخر وہ دن بھی آ ہی گیا اللہ اللہ کر کے وہ بلا بھی سر سے ٹلی اب اگلا نبمر منو کا ہی تھا یہ خیال من ہی من میں اس کو دلاسہ دیتا رہتا کہ اب اگلا نمبر اسی کا ہے ۔
بن ٹھن کر رہا جاتا کہ کچھ پتا نہیں کس روز ساس کی دھماکے دار انٹری ہو جائے ۔۔اور پھر پہلا تاثر ہی آخری تاثر مانا جاتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اجڑا ہوا گھریلو حُلیہ دیکھ کر وہ پہلی نظر میں ہی منو سے بیزار نہ ہو جائیں. ۔ساس مطلب ہونے والی ساسوں موم ۔
تیرھویں جماعت کا داخلہ لیے کچھ مہینے بیتے کہ ساس اماں اپنی اکلوتی بیٹی کے ہمراہ اپنے اکلوتے لاڈلے بھولے بیٹے کا رشتہ کی نوید لیے منو کے گھر چلی آئیں...
منو سے اس کی رضامندی پوچھی گئی جس پر معاشرتی لڑکی کا بھیس پہنے اس نے نیچی آنکھوں سے ہلکی سی ہاں میں گردن ہلا دی جسے اس کی رضامندی سمجھ کر رشتے کیلئے حامی بھر لی گئی ۔
اب بیچاری منو کو شادی کا تو شوق تھا ہی مگر اُس کے ساتھ ہی وہ چاہتی تھی کہ اس کی لَو میرج ہو ۔
اب لَو میرج کرنے کیلئے جب اسے کوئی لڑکا نہ ملا تو اس نے سوچا کہ کیوں نا اسی لڑکے کے گلے پڑے جس سے اسکا رشتہ ہونے جا رہا تھا ۔
بڑی چالاکی سے اُس نے کسی طرح احمد کی بہن کو باتوں میں الجھا کر احمد میاں کا نمبر حاصل کر ہی لیا ۔
(احمد منو کے ہونے والے وہ) ۔
اب منو نے جب احمد سے بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا بات کا سلسلہ شروع ہوتے ہی منو معصوم نے بڑی بے باکی سے احمد میاں کو ساری بات سمجھا دی کہ وہ لَو میرج کرنا چاہتی ہے' کیوں نا اسی شادی کو ارینج سے لَو میں بدل دیا جائے ۔ جو منو کی اس بیوقوفانہ بات کو سنتے ہی ہنستا رہ گیا ۔اور پھر کچھ سوچتے ہوئے منو کی بات سے متفق ہو کر اس نے بات کو آگے بڑھایا ۔ باتوں کا سلسلہ کہیں گھنٹوں تک لگاتار جاری رہنے لگا ۔میسج سے بات بڑھ کر ایک دو گھنٹوں کی کال اور پھر چھ سات گھنٹوں تک جا پہنچی ۔
احمد میاں بھی منو سی گوہرِ نایاب کو پا کر کہیں پھولے نہ سما رہے تھے ...
جہاں منو اور احمد ایک لَو سٹوری بنانے کے چکر میں مشغول تھے وہیں احمد کی پیاری بہن ڈائن ان دونوں کے خلاف سازشیں رچنے لگی ۔
جو رشتہ پہلے گھر والوں کی مرضی سے ہو رہا تھا اب اُسے محض منو اور احمد کے آپس میں بات کرنے کی وجہ سے صرف اُن کی رضامندی کا نام دے دیا گیا تھا ۔
بیچاری منو کو لَو میرج کا یہ سیاپا بڑا مہنگا پڑ گیا ۔ احمد کی بہن نے اپنی ماں کے کان بھرنے میں بھی کوئی کثر اٹھا نہ رکھی ۔
کافی مشکلات اور پاپڑ بیلنے کے بعد منو کی بات آگے بڑھی ۔ اب اس کی ساس کا ایک نکمہ وتیرہ تھا کہ لڑکی گاؤں میں رہے گی ان کے ساتھ اور سارے ک بھی وہی کرے گی ۔اوپڑ سے یہ ڈر کہ کہیں ہمارے بیٹے کو لے کر فرار ہی نہ ہو جائے ۔۔کہاں بیچاری منو معصوم چنچل سی لڑکی اپنی ایک چھوٹی سی خواہش کو پورا کرنے چلی تھی وہیں کہیں تہمتیں اس پر دھڑ دی گئیں ۔اور بیچارا احمد اس سب کے بیچ بلاوجہ پستا رہا ۔
شادی تو وہ بھی اب صرف منو سے ہی کرنا چاہتا تھا مگر اماں اور بہن کے خلاف بولنا اس کو ہر گز گوارہ نہ تھا ۔ ادھر منو کی کڑوی غصیلی باتیں اور گھر میں اماں کے طعنے سنتے سنتے وہ بیزار ہو گیا تھا ۔ مگر منو اور اب بھی کسی طرح سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھی وہ اب بھی احمد کی خاطر گاؤں رہنے کو ترجیح دے رہی تھی کیونکہ وہ کسی کو باتیں بنانے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی ۔
اب رشتہ تو پکا یو چکا تھا منو کی خواہش تھی اب ان کی منگنی بھی ہو جائے تاکہ وہ اپنی تمام سہیلیوں کو GOT ENGAGED کا سٹیٹس لگا لگا کر ساڑے ۔
اب وہ اس بات کے پیچھے صبح وشام احمد کے کان کھانے لگی کہ کب بھیجو گے اپنی اماں کو منگنی کی بات کرنے ۔ مگر مجال ہے جو احمد میاں کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو ۔
بیچاری منو اب چپ چاپ ساسوں موم کے منگنی کا سندیسہ لانے کا انتظار کرنے لگی ۔
No comments:
Post a Comment