Qalam ka Farz by Syeda Hemail fatima
Qalam ka Farz Written by Syeda Hemail fatima
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع اللہ کے نام سے جو مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
تحریر
" قلم کا فرض "از قلم سیدہ حمائل فاطمہ
ہر زندہ قوم کے ادب پر اس کے مذہبی اور ثقافتی تشخص کی چھاپ نمایاں ہوتی ہے-پاکستانی ادب پر بھی پاکستانی تشخص کی چھاپ آہستہ آہستہ نمایاں ہوئی تھی _
میں چاہتی ہوں ہمارے لکھنے کا مقصد مسلمانوں میں معاشرتی بہتری اور اصلاحی ہو .. جن کی شان وشوکت کافی حد تک کم ہو گئی ہے-جن کی سوچوں پر مغرب نے قبضہ کر لیا ہے..
میں چاہتی ہوں میرے ساتھی تمام لکھاری مل کر پاکستان کے شکست خوردہ مسلمہ عوام میں پھر سے دین اور خود اعتمادی کی ایک نئی روح پھونک دیں, اپنی قلم کی اصلاح سےکریں، تاکہ مسلمانوں کی رسائی ان کے شاندار ماضی تک ہو سکے اور اس کے حوالے سے روشن مستقبل کے تعین اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کریں..
پاکستانی مصنفین کو اب بیگانگی کا احساس ختم کرنا چاہیے اور مسلمانوں کا اپنے زور قلم سے دین پر مکمل اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، انہیں قوم کو غلط بیانی اور بے جا مبالغہ آرائی سے نہیں بلکہ پرخلوص محبت اور دیانت سے دین اور ادب کے حسن کے پہلوؤں سے آگاہ کرنا چاہیے-
جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ کس طرح چل نکلا ہے، ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، مسلمان ہی اپنے بھائیوں کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں، ناانصافی عام ہے ,لوگ مذہب سے کوسوں دوری اختیار کر چکے، سرعام معصوم کلیوں کو مسلا جا رہا ہے، ہر طرف ظلم کی انتہا ہو رہی ہے - غریب امیروں کے ہاتھوں بے موت مارے جا رہے ہیں - کچھ لوگ خود خدا بننے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں، اور کچھ انسان جانور کا روپ دھار چکے ہیں، ایسا خطر ناک روپ دیکھ کر انسان کیا, جانور بھی چیخ پڑے ، مگر انسان کو رحم نا آیا.دندرے بھی اپنی ہم شکل مخلوق کی چیڑ پھاڑ نہیں کرتے، اگر یہ عقل کا پیکرِ چلتا پھرتا دو ٹانگوں والا درندہ اشرف الم ہے تو پھر ہم اس عقل کے پیکر سے بے عقل جانور ہی بھلے.. یہ سب ظالم ہوتے ہیں ہمارے ملک میں یہ آپ بھی جانتے ہیں, میں بھی جانتی ہوں پوری دنیا جانتی ہے، ہم سب سنتے ہیں یہ درد ناک داستان اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں - اس دور میں انسانیت کا پیراہن بری طرح تار تار ہو چکا ہے - اس کی درد ناک سسکیوں سے زمین و آسمان مضطرب ہو رہا - مگر ہمارے ملک کی حکمران نیند سے بیدار نہیں ہوئے..
آنکھ حیراں ہے دل ساکن ہے
یہ کیسا کھیل جاری ہے
جہاں محفوظ نہ معصوم بچی ہے
نہ کوئی بوڑھی مائی ہے یہ
کیسی غفلت چھائی ہے
نہ کوئی کسی کا بھائی ہے
نہ کوئی کسی کی ماں جائی ہے
یہاں مجروح میری پارسائی ہے
کے کھیل کر خون کے ہولی
مومن کے آنکھیوں ڈھٹائی ہے
یا میرے مولا یہ کیسی بدلی چھائی ہے
تو کیا قیامت نزدیک آئی ہے ؟؟
(بقلم:عالیہ رضا)
یہ ہم اپنی آنکھوں دیکھے اور کانوں سننے ظلم کو اپنی مہارت اور سحر انگیز لفظوں کی بناوٹ سے خوبصورت کر کے قلمبند کرتے ہیں.. ظلم کو خوبصورت بنانے کا کیا فائدہ؟؟ یا پھر الفاظ میں خالی درد بیان کرنے کا کیا فائدہ؟ وہ درد تو ٹی وی اخبار بھی بیان کر دیتا ہے، اور ہماری طرح پڑھنے والے بھی یہ درد اپنے آنکھوں سے دیکھتے ہوں گے اور کانوں سے سننتے ہوں گے.. اگر قلمبند کرنا ہے تو اپنی قلم کو اصلاح کے لیے زحمت دیں، اپنی قلم کے سحر انگیز لفظوں سے لوگوں کے دلوں پر پڑے تالے کھولنے کی کوشش کریں.. اپنے مہارت سے تراشے لفظوں سے مسلمانوں کے دلوں پہ جمی میل کو دھو ڈالیں، اپنی تحریروں سے مسلمانوں کے سوئے ایمان کو جگانے کی کوشش کریں. اپنی قلمی زور سے دین کی طرف توجہ دلائی جائے.ہاں صرف دین کی طرف.. امت مسلمہ کے تمام مسئلوں کا حل صرف دین اسلام میں ہے..
جس طرح محمد بن قاسم نے اسلام کے اصولوں پہ تلوار کے ذریعے اسلام پھیلایا تھا, جس طرح اقبال نے برصغیر میں غفلت میں سوئی مسلم قوم کو اپنے قلم کے زور پہ خواب سے جگایا تھا, آج پھر ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے مذہب اسلام کو ایک اور محمد بن قاسم اور اقبال کی ضرورت ہے, اور ہمیں قاسم جیسی وہ تلوار ہمارے الفاظ کو بنانا ہوگی, اقبال جیسا جذبہ اپنے دلوں میں بھر کر اپنے قلم سے ان الفاظ میں روح پھونکنی ہو گی, تاکہ مسلم کے دلوں پہ دین اسلام کی اصل فتح کا جھنڈا گاڑ سکیں... ہمیں اپنے قلم کو اصلاح کے لیے حرکت میں لانا ہوگا تبھی ہم اس عزم کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے.... اگر دل میں ایمان کی محبت کو اُتارنے کا تھان لیں ،تبھی لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلے گا،)
آؤ کے اب قلم اٹھائیں ہم
وقت ہے جہاد بلقلم کا
آؤ ایک عہد اٹھائیں ہم
جہالت کو مٹانے کا
سیدھی راہ دکھانے کا
کسی قاسم کی طرح دین کا لوہا منوانے کا
کسی اقبال کی طرح
سوئی قوم کے جذبات جگانے کے لیے
قلم کی تلوار چلانے کا
کیسے قائد کی طرح
دین حق کے لیے لڑ جانے کا
آؤ عہد اٹھائیں ہم قلم کی نوک پہ اسلام کا جھنڈا لہرانے کا
(بقلم:عالیہ رضا )
اگر دل میں ایمان کی محبت کو اُتارنے کا تھان لیں ،تبھی لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلے گا، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہہ جیسے حکمران کے خواب ہی دیکھتے ہیں ، اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اس خواب سے بیدار ہوجائیں اسکی اُمید بھی نہ رکھی جائے کہ کوئی عمر جیسا آئے گا بلکہ انتظار کے بجائے خود ہی انکی زندگی کے اصولوں کو اپنانا بہتر ہے ۔تبھی ملک میں لوگوں کے ساتھ زیادتی کم ہوگی اور عدل و انصاف کا جھنڈا لہرایا جاسکتا ہے-وہ جسکی سلطنت بیشتر ملکوں تک پھیلی تھی مگر اتنا اعلٰی حکمران ہونے کے باوجود وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں اُسکی رعایا بھوکی نہ رہ جائے اور انھیں رب الکریم کے سامنے پیشمان نہ ہونا پڑے۔۔۔)
کیوں دور چلیں ساتھی اس درد کی بستی سےاس نفسا نفسی سےاس خود غرضی سےعالم غم ِ روگ بنا ہوا ہے زمانہ یہاں اہل درد نہیں وحشی ،بے حس و انا ہے
اسلام کا ثقافتی اور مذہبی اثر گہرا اور دور تک سرایت کرنے والا ہے..بے شک اسلام اپنے واضح معین اور سادہ ایمان کے ساتھ، جو خدا کے متعلق تصورات اور قیاسات تھے ان کے ذہنی انتشار کے متضاد تھا،
ہمیں اپنی قلم کو ، سادہ اور بے نام و نمونہ کی زندگی میں شامل کرنا ہو گا..اللہ کی محبت اور اطاعت میں کامل استغراق اور دکھ درد میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے ساتھ محبت کے بناء پر اپنی قلم کو ان کی آوازیں بنانا ہو گا
No comments:
Post a Comment