Naqs-e-Kafy-e-Paaye yaar || Haadi Khan || Episode1
Naqs e kafy paaye Yaar written by HaaDi khan
#نقشِ_کفِ_پائے_یار
#قسط_نمبر_ایک
#ہادی_خان
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
برگریز کے موسم میں...وہ تیز ہوا کا جھونکا کسی جوشیلے نوجوان کی مانند بوڑھے شجر کی کمزور ٹہنیوں سے جا ٹکرایا..
نتیجتاً زرد پتے جھڑنے لگے...
اس بوڑھے شجر پر کبھی جھولا ہوا کرتا تھا....
مگر کسی بوجھ اٹھانے والے محنت کش مزدور کی مانند وہ صحت مند اور مضبوط شاخ جس نے جھولا اٹھایا ہوا تھا کسی بدتمیز طوفانی آندھی کی نذر ہوگئی...اس صحت مند شاخ کے بنا وہ کُل شجر ادھورا ظاہر ہو رہا تھا...
اس شجر کے ادھڑے بازو کا وہ زخم اب سوکھ چکا تھا مگر وہ صاف صاف نامکمل اور ادنیٰ لگ رہا تھا...
خدا معلوم وہ شاخ کس چولہے کا بالن ہوئی ہوگی...لیلن کا پھٹا پرانا کپڑا دروازے کے اندر سے اوپر کو اٹھتا اٹھتا افق تک پہنچتا نظر آرہا تھا...
بیلچے سے مٹی بکھیرنے والوں کے سے چہروں کی مانند گرد آلود بھورے رنگ کے لکڑی کے دروازے کے اس پار جھاڑو گھیسنے کی آواز آرہی تھی...ساتھ قدم در قدم پائل چھنک رہی تھی...
ایک زبردست جھونکے نے دورازے کو دھکا دیا اور دروازے پر لٹکا شگاف زدہ لیلن کا کپڑا تیز ہوا سے توازن برقرار نہ رکھ سکا اور مستی سے جھولنے لگا....اس دوشیزہ کے سر سے چندری اڑتی چلی گئی...اس کی گھنے جنگل جیسی زلفیں سمندر کی موجوں کی مانند ایک دوسرے میں سمو رہی تھی...
موسم شرارتی ہوتا جارہا تھا...
تیز رفتار چھپاکے مارتے دریا کی مذاحمت کو ہاتھ رکھنے سے دریا کا سدھ بدھ کھوئی لہریں ہاتھوں پر تالیاں بجاتی ہیں ویسے ہی ہوا نے ہاجرہ کے تن بدن سے ٹکرا کر اسے تروتازہ کر دیا تھا...
ہاجرہ نے آنکھیں موند کر اس احساس کو اپنے اندر بھینچ لیا...
مٹی کے فرش پر بادلوں کا نم ناک دھمال شروع ہوا...
وہ برسات بہت جوش سے شروع ہوئی...
وہ خوش پیکر لڑکی اپنی تیز سانسوں پر قابو نہ رکھتے ہوئے بارش کا خیر مقدم کر رہی تھی...اس کے کانوں میں ٹپ ٹپ کی ایک منفرد سی دُھن گونج اٹھی...عطر کی شیشی ٹوٹنے پر جیسے خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے اسی طرح مٹی کی خوشبو ہر طرف کو بکھر گئی...
بارش کی تیزی نے اسے وہاں سے ہٹنے پر مجبور کیا...
اس کی عجلت سے پاؤں کی پائل نے کِھل کھلا کر اس کی پس پائی کا تمسخر اڑایا...ہاجرہ نے خود کو ڈھانپ کر دروازے کی کنڈی لگائی..
دروازے کے ساتھ بالن کا ڈھیر لگا تھا جس میں ایک مانوس سی لکڑی کا تختہ بھی تھا...
جو دونوں جانب سے رسی سے بندھا تھا اور رسی اس پر لپیٹی گئی تھی...
یہ وہ ہی پینگ تھی جو کبھی اس شجر کے مضبوط بازو پر لہرایا کرتی تھی...
ہاجرہ نے نظر بھر کر اس کو دیکھا...
وہ صحن کے بیچو بیچ ساکن کسی پتلے کی طرح کھڑی رہ گئی...
"سمیر میں گر جاؤں گی..."ہاجرہ کی آواز ہوا میں رنگ کی طرح گُھل گئی..ڈر کی وجہ سے اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکلی...
"میں گرنے نہیں دونگا تم بس مضبوطی سے پکڑے رہو..." سمیر نے پینگ کو ایک اور دھکا دیا...
ہاجرہ کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ ابھری ہوئی تھی...
کسی نے دروازے پر دستک دی...
آواز اتنی کم تھی کہ ہاجرہ کو خبر نہ ہوئی...
پھر ایک زوردار دھکا دیا گیا...
"کو...کون..."ہاجرہ بوکھلا گئی...
"ہاجرہ بیٹا دروازہ کھولو بہت بارش ہے...." وہ اس انداز سے آشنا تھی...ہاجرہ کو اس سرد بارش کے قطروں میں سے اپنے رخسار پر آگ پگلتی محسوس ہوئی...
انامل سے عارض پر بہتی اس بارش کی الگ تھلگ واضح لکیر صاف کر کے ہاجرہ لکڑی کے اس دروازے کو کھولنے لگی...
"تم یہاں ہی کھڑی تھی کیا..."دروازے کے اس جانب سے آواز آئی..."جی..."وہ یہی کہہ سکی تھی..
"انتظار کر رہی تھی نا..."اس سوال پر ہاجرہ کا منہ سل گیا ,اس کے پاس اس بات کا جواب نہ تھا...
وہ یکسر خاموش رہی اور پھر بولی...
"جی انتظار ہی کر رہی تھی آج آپ کو دیر کیوں ہوگئی..."لکڑی کا مٹیالا سا دروازہ گیلا ہونے کی وجہ سے منفرد قسم کی خوشبو دے رہا تھا...
"اچھا اندر چلو بہت بھیگ لیا..."انھوں نے اس کے سر پے ہاتھ رکھا...
سائیکل کو اندر چھتر چھایا کے نیچے کھڑا کر کے وہ کپڑے بدلنے چلے گئے...
اس دوران ہاجرہ نے ان کے لیئے چائے آنچ پر رکھ دی تھی...
وہ عموماً شام کو آکر شکر والی چائے پیتے اور دن بھر کی مصروفیت سے آگاہ کرتے تھے...
اکیلے رہتے ہوئے وہ بھی بوریت کا شکار ہو جاتی ہوگی اس لیے باپ ہی ہر شام اس کے دوست ثابت ہوتے اور خوب خوش گپیاں لگاتے..."بھئی چائے تو بہت ہی اچھی ہے..." عابد صاحب نے ہاجرہ کی ڈھارس بندھائی...
"یہ تو آپ روز ہی کہتے ہیں ابو..."ہاجرہ کے ان توصیفی کلمات سے درینہ مراسم تھے...
"مجھے تعریف کے لئے اور لفظ نہیں ملتے...تمہاری چائے کے آگے الفاظ کا قصہ تمام ہے,بس ان ہی بوسیدہ الفاظ کا سہارا لے رہا ہوں..." وہ ہمیشہ ہاجرہ کو خاص محسوس کروانے کو لاکھ جتن کرتے...
"جی یہ تو آپ کی شگفتہ مزاجی اور شفقت کی ہی وجہ سے ہے ورنہ میری چائے اتنی بھی تعریف کی مستحق نہیں ہے ابو...."ہاجرہ نے باپ کو سراہا..
"بھئی آج پچیس سالوں سے تمہارے عثمان چچا ایسی چائے کبھی نہیں بنا سکے جو تم پانچ منٹ میں کسی طلسماتی عمل سے بنا کر حاضر کر دیتی ہو..."
"یہ جو کچھ بھی بنا رہی ہوں سب آپ ہی سے تو سیکھا ہے..." ہاجرہ نے واقعی ان سے اور عثمان چچا سے کھانا پکانا سیکھا تھا...
"ہاں بیٹا جب سے تمہاری ماں خواب عدم دیکھ چکی ہے..." وہ رکے..."بیٹا.."
"جی ابا..." وہ توجہ سے سن رہی تھی...
"میں نے تمہاری پرورش میں کوئی کمی تو نہیں کی..." انھوں نے سرنگوں کر کے کہا..
"ابا آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں..."ہاجرہ ان کے پاؤں میں بیٹھ گئی اور ان کا ہاتھ تھام لیا...
"نہیں بیٹا تم کم عمری سے خود کو بھی اور مجھے بھی سنبھالے ہوئی ہو... یہ سب گھریلو ذمہ داریاں..."وہ کاٹ کاٹ کر بول رہے تھے...
"آپ کو لگتا ہے کہ میں یہ سب سوچتی ہوں..." ہاجرہ کا دھیماپن دل موہ لینے والا تھا...
وہ دونوں محروم تھے... بچی ماں سے اور باپ شریکِ حیات سے... مگر دونوں میں گاجر کی طرح بیرونی نرمی اور اندرون نڑا سخت ایک دوسرے کو سمبھالنے کا حوصلہ بھی تھا...
انسانی جسم کے اعضائے رئیسہ کی ہر قسم کی ڈاکٹری اور حکیمی دوا پائی جاتی ہے...
مگر ان دواؤں کو کھانے سے ایک مدت متعین ہوتی ہے پھر وہ ناکارہ ہوجاتی ہے... اسی طرح ان کے برعکس انسان کی کچھ اور بیماریاں غصہ ،اناپرستی،غرور کا بھی کوئی مقررہ وقت یا مدت ہونی چاہئے جس کے بعد اندر کوئی خول نہ رہے...
"لیکن تم خود کی ایک آزادانہ زندگی جیتی سکول کالج جاتی پڑھتی لکھتی جو دل کرتا وہ بنتی...." عابد صاحب کا لہجہ متحمل اور جامد تھا...
"نہیں ابا مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے بس آپ کی خدمت کرنے سے مجھے جو سکون ملتا ہے وہی میرا حاصل ہے...مجھے بس آپ کے ساتھ ہی رہنا ہے..." ہاجرہ متلطف دیکھنے لگی...
"جیتی رہو.." انھوں نے ہاجرہ کے سر پر ہاتھ رکھا...
"بس میری آخری ذمہ داری ختم ہو وہ آئے اور لے جائے اپنی امانت کو رخصت کر کےجب تک تم خوب خدمت کرسکتی ہو..."وہ شرارتی انداز میں گویا ہوئے..
وہ شرما کر اندر چلی گئی...
آج اس سے وہاں بیٹھا نہ گیا...
ہاجرہ نے پردے میں منہ چھپا لیا...
سامنے ٹوٹا ہوا آئینہ تھا جس کو ہاجرہ نے ہی بہت مہارت سے ٹیپ سے یک جاں کیا ہوا تھا...
کچھ رشتے بھی آئینے کا ہی عکس دکھاتے ہیں بہت سمبھالنے پر بھی ٹوٹ جائیں تو اس کو اکھٹے کرنے والے ہاتھ اور ان کا خلوص اور اس پر کی گئی پیوندکاری نظر نہیں آتی بس دراڑیں ہی ظاہر ہوتی ہیں...
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟🌟
"نہیں میں کبھی بھی نہیں جاؤں گی..." ہاجرہ ڈٹی ہوئی تھی...
"چلو تو..." سمیر اسے کھینچ رہا تھا..
"مت کرو میں یہیں بیٹھی ہوں نا تم جا کر آجاؤ..." ہاجرہ نے وہیں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا...
"بالکل ٹھیک ہے میں بھی نہیں جارہا جو جاتا ہے جائے..."سمیر نے اسے منانے کو کہا...
"اچھا اٹھو چلو میرا ہاتھ پکڑے رکھنا..."سمیر روانی سے بولتا گیا...
"نہیں میں گر جاؤں گی..." وہ ڈرتے ہوئے بولی... "میں ہوں نا ساتھ, چلو اٹھو اب, میرا ہاتھ پکڑ کر چلو میرے ساتھ..." شملہ پہاڑی پر چڑھنے کے لئے انھوں نے ہاتھ پکڑ لئے تھے...
ہاجرہ ان ٹیڑھی ترچھی سیڑھیوں سے ڈر رہی تھی...
مگر جب اس نے مضبوطی سے سمیر کا ہاتھ تھاما تو بس سب کچھ ہی بھول بیٹھی. .انھوں نے پہلا زینہ سر کیا...
باقی سب بڑے آگے آگے جارہے تھے...
سمیر نے اس کا ہاتھ پکڑے رکھا..
ہاجرہ بغور سمیر کے ماتھے پر پڑی گہری شکنوں کو دیکھ رہی تھی....
جو اب 100 سڑھیوں کے سر کرنے پر پسینے سے شرابور ہو چکی تھیں...
وہاں وہ رکے جہاں تقریباً آدھے زینے سر ہوچکے تھے...
"سمیر سوچو کہ میں یہاں سے گر جاؤں تو...کیا ہوگا..." ہاجرہ نے نیچے دیکھ کر پوچھا..
"ہم دونوں ہی مرجائیں گے..." سمیر جذباتی ہوا...
"تم نہیں میں گر جاؤں تو..." ہاجرہ نے دوبارہ دوہرایا...
"تمہیں نہیں لگتا میں تمہیں بچانے کے لئے آؤں گا..." سمیر نے الٹا اسی سے سوال کرلیا..
خاموشی چھا گئی...
وہ سوال و جواب ۱۶۸ سیڑھی پر کھڑے کر رہے تھے...
انھوں نے اپنا آگے کا سفر دوبارہ شروع کر دیا...
شام کا منظر تھا...
ان دونوں نے ایک ساتھ ۳۱۲ سیڑھیوں کو سر کر لیا تھا اور اب وہ شملہ پہاڑی کے سر پر آچکے تھے...
"ہاجرہ ادھر رکاوٹیں نہیں لگی ہوئیں میرا ہاتھ تھامے رہو ورنہ گر جاؤ گی...نیچے مت دیکھنا چکر آجائیں گے...." سمیر نے اسے پکڑ کر اپنے پیچھے پیچھے آخر اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں اب دھیمی دھیمی تاریکی میں شہر بھر کی جلتی بتیاں نظر آرہی تھیں....مگر اب تک ان دونوں نے ہاتھ نہیں چھوڑے تھے....مزید تیس سیڑھیوں کے بعد وہ بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے...وہاں ہاجرہ نے اپنا ہاتھ سمیر کی قید سے آزاد کیا جو پوری طرح لال ہوچکا تھا اور سمیر کی انگلیوں کے نشان بھی اس کے ہاتھ پر چھپ چکے تھے....سمیر نے ایک مرتبہ پھر سے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور اسے اب ساتھ رہنے کی تنبیہ کی...
ہاجزہ کو اپنے بچپن پر پیار آیا...
وہ اسی کے انتظار میں تھی....
No comments:
Post a Comment