Monday, 1 July 2019

Payam-e-Eid By hira Shahab

Payam e eid By Hira Shahab



#عید_اسپیشل
#پیامِ_عید
#بقلم_حرا_شہاب
********
********
"ہاں میں کل دوبارہ بات کرونگا صاب جی سے کیا پتہ وہ راضی ہوجائیں.."اداسی سے کہتے اس نے رابطہ منقطع کر کے موبائل سامنے کھڑے چوکیدار کو تھمایا..
"بہت شکریہ..آپ نے مجھے اپنا موبائل دیا تو میں گھر والوں سے رابطہ کرسکا.." وہ تشکر آمیز لہجے میں گویا ہوا..
"ارے کوئی بات نہیں..ہم اشرف المخلوقات ہیں..اگر ہم ہی ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو پھر ہمارے اشرف المخلوقات ہونے کا کیا فائدہ.." چوکیدار نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس شخص نے اندر کی طرف قدم بڑھا دیئے..
*****
*****
"صاب جی..صاب جی.."ابھی وہ اپنے کمرے سے نکل کر نیچے اترا ہی تھا کہ اسے آواز سنائی دی اور وہ کوفت زدہ انداز میں پیچھے مُڑا..
"ہاں بولو..تم صبح صبح پھر میرے سر پر عذاب کی طرح نازل ہوگئے ہو.." وہ کافی برہم نظر آرہا تھا..
"صاب جی.میرے بچے میرا انتظار کررہے ہیں..آپ نے کہا تھا..." ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مقابل چیخ اٹھا..
"کتنی مرتبہ تمھیں بتایا ہے کہ نہیں ملے گی چھٹی..کوئی چھٹی نہیں ملے گی..اگر اتنا ہی شوق ہے اپنے بچوں سے ملنے کا تو نوکری چھوڑ کر چلے جاؤ..." وہ اپنی بات مکمل کرتے ہی گھر سے باہر نکل گیا..
******
******
ہائے! یہ مجبوریاں 
عید پر بھی ہیں دُوریاں
میں اکیلا بیٹھا اس شہر میں
میرے پیارے ہیں مجھ سے دُور گاؤں میں
یاد مجھے میرے گاوؤں کی ستانے لگی
عید جُوں جُوں قریب آنے لگی
ہائے !یہ کام کی تلاش نے مجھ سے کیا کیا کروایا
مجھے ہی میرے اپنوں سے دُور کروایا
سب کی طرح میرے دل میں بھی ہیں کچھ خواہشیں
عید کی نماز پڑھ عزیزوں سے گلے ملیں
پر عید پر بھی میں اکیلا ٹھیرا
عید پر بھی مجھے تنہائیوں نے گھیرا
ہائے یہ مجبوریاں 
عید پر بھی ہیں دوریاں
(بقلم نوشابہ چوہان)
********
********
"صاب جی نے کہا ہے نوکری چھوڑ کر چلے جاؤ اور ابھی تو پچھلے مہینے کی تنخوا بھی نہیں دی ہے.." وہ پھر اس چوکیدار کے موبائل سے کسی کو اپنی داستان بتارہا تھا..
کچھ دیر دوسری طرف سے کہے جانی والی باتیں سننے کے بعد دوبارہ گویا ہوا..
"نہیں..وہ بات سنیں تو کچھ ہو نہ..اب پتہ نہیں کیا ہوگا..اللہ پاک ہی کچھ رحم کرینگے..تم بچوں کو سمجھا دینا..اب میں رکھتا ہوں..اللہ حافظ.." اور رابطہ منطتع ہوچکا تھا..
********
********
"اور سنا یار..اتنا پریشان کیوں ہے.."
"یار کیا بتاؤں پہلے وہ رحیم چاچا اور انکی بیوی تھیں وہ ہر مرتبہ عید کی دعوت کا انتظام دیکھ لیتے تھے..اب انھیں تو میں نےنکال دیا..بوڑھے ہوگئے تھے کب تک میں اہنے گھر میں رکھتا..اب جو نوکر ہے وہ عید پر گھر جانے کی چھٹی مانگ رہا ہے..اگر اسے چھٹی دے دی تو عید کی دعوت کا کام اسکا باپ آکر کریگا کیا.." وہ اپنے دوست کو اپنی پریشانی بتانے لگا...
"اوہہہ...چل تو چھوڑ اس کی سن ہی مت یہ ملازم بھی کبھی کبھی خود کو مالک سمجھنے لگتے ہیں..اب انھیں چھٹی دے دیں تو کیاہم گھر بیٹھ جائیں کام کرنے کے لیئے.."وہ ہنکار بھرتے ہوئے بولا..
تمام دوست اسکے اس قدم کو سراہنے لگے لیکن حسن ان سب میں خاموش بیٹھا ہوا تھا..
*******
*******
"صاب جی آپ سے کوئی حسن صاب ملنے آئے ہیں.." اطلاع ملنے پر کمرے سے نکل کر وہ مہمان خانے کی جانب بڑھا..
"ارے حسن تم..آج اس غریب کے گھر کا راستہ کیسے بھول گئے.." وہ اس گلے ملتے ہوئے خوش گوار حیرت کے ساتھ بولا..
"بیٹھو..کیا لو گے..چائے یا ٹھنڈا.." وہ پُر تکلف نظر آنے لگا..
"کچھ بھی نہیں میرا روزہ ہے.." حسن نے شائستہ انداز اپناتے ہوئے کہا..
"کیا روزہ..یار اتنی گرمی میں روزہ کون رکھتا ہے..خیر بتاؤ کیسے آنا ہوا.." وہ کچھ حیرت سے بولا..
"کیا مطلب..تمھارا روزہ نہیں ہے.." حسن کو کچھ حیرت ہوئی..
"نہیں بھئی اتنی گرمی میں روزہ رکھ کر مرنا تھوڑی ہے.."وہ بنا شرمندہ ہوئے بولا..
"صاب جی..روزے کی تو بڑی فضیلت ہے اور روزہ نہ رکھنے پر وعید بھی سنائی گئی ہے..اور..."
ابھی اسکی بات منہ میں ہی تھی کہ اسے جواب ملا..
"تم میرے استاد مت بنو زیادہ..یا تو تمھیں چھٹی چاہیے ہوتی ہے یا بس میرا استاد بنا ہوتا ہے..اپنی اوقات اور حیثیت مت بھولو تم.." 
"کیا ہوگیا یار صائم.. بھائی بتاؤ آپ کیا بتارہے تھے.." حسن ایک ساتھ دونوں سے مخاطب ہوا..
"صاب جی میں کہہ رہا تھا کہ رمضانِ مبارک وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب کم از کم ستر گنا بڑھا دیتے ہیں...اس میں امت محمدیہؐ کیلئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے..."
"بلکل ایسا ہی ہے بلکہ اس ماہِ مبارک کی بہت سی فضیلت ہے..اور پھر پورا ماہ روزہ رکھ کر اللہ کی عبادت کرنے کے بدلے اللہ پاک ہمیں عید جیسی نعمت سے بھی نوازتا ہے..ویسے عید اے یاد ہے بھائی تم جارہے ہو نہ اپنے گھر عید پر.." حسن نے بات کو اس جانب موڑ دیا جس وجہ سے وہ اس وقت یہاں موجود تھا..
"بشیر تم جاؤ کچن میں اور کام کرو.." صائم نے بیچ میں بول کر بشیر کو منظر سے غائب کرنا چاہا..
"یار صائم کیا ہوگیا میں بات کررہا ہوں.." حسن نے صائم کی بشیر کو منظر سے ہٹانے والی حرکت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ برا بھی منایا..
"نہیں صاب جی مجھے چھٹی نہیں دے رہے صاب.." بشیر جلدی سے بولا مبادہ کوئی حل نکل آئے..
"کیوں چھٹی نہیں دے رہے صائم تم..اور بشیر بھائی کیا آپ کو پہلے نہیں پتہ تھا کہ آپ کو عید پر چھٹی نہیں ملے گی.." 
"صاب جی مجھے پہلے کہا تھا صاب نے کہ وہ مجھے چھٹی دینگے دونوں عید پر چار چار دن کی.." بشیر بے بس نظر آنے لگا..
"اچھا..تو صائم اب تم چھٹی کیوں نہیں دے رہے بھئی بشیر کو.."حسن صائم کی طرف متوجہ ہوا...
"بھئی اسے چھٹی دوں تو کام کون کریگا.."اپنی طرف سے صائم نے بہترین جواز دیا تھا..
"پہلے کون کرتا تھا.." حسن نے پوچھا..
"رحیم چچا اور انکی اہلیہ.." اب صائم کچھ کوفت زدہ انداز میں جواب دینے لگا..
"تو اب وہ کہاں ہیں.."
"بھئی بوڑھے ہوگئے تھے کام نہیں کرسکتے تھے نوکری سے نکال دیا میں نے.."صائم اب قدرے غصے میں کہنے لگا..
"دیکھ پہلی بات..بوڑھے لوگوں کو تو نے ان کی روزی سے محروم کیا بیشک روزی دینے والی ذات اس پاک پروردگار کی ہے لیکن تجھے اس نے ذریعہ بنایا تو نے قدر نہیں کی یہ تیری پہلی غلطی..بشیر کو جھوٹ بول کر کام پر رکھا یہ دوسری غلطی..اب وعدہ خلافی کررہا اور اپنی غلطیوں پر شرمندہ بھی نہیں ہے یہ اور بھی بڑی غلطی ہے..کل کو اس کے سامنے حاضر ہوگا تو کیا جواب دیگا.."حسن اسکا مخلص دوست تھا اسے سمجھانے لگا..
"اوہہہ...میرے مولوی بھائی..مجھے مت بتا..اتنا شوق ہگ تو ان دونوں کو بھی ڈھونڈ لے..انھیں بھی پال لے..اسے بھی تو نوکری دے دے.." صائم پر اسکی باتوں کا ایک فیصد اثر بھی نظر نہیں آرہا تھا..
"وہ لوگ تو پہلے سے میرے ہی ادارے میں رہ رہے ہیں..اور اسے بھی میں نوکری دے ہی دونگا..بشیر بھائی جاؤ تم اپنے گھر والوں کے پاس..عید کے بعد میرے ادارے پر آجانا وہاں بوڑھے لوگ, یتیم بچے اور بیوہ خواتین رہتی ہیں..وہاں کے بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال کے لیئے لوگ ایماندار لوگ چاہیے مجھے اور آپ اس کام کے لیئے مجھے بہترین لگ رہے ہو..میں آپ کو نوکری دے دونگا اور تنخواہ بھی یہاں جتنی ملتی ہے اس سے زیادہ ہی دونگا.."حسن نے صائم اور بشیر کو حیران کردیا تھا...
"صاب جی مجھے پھر عید پر چھٹی تو ملے گی نہ..اور مجھے تو پچھلے مہینے کی تنخواہ بھی نہیں ملی گھر پر کیسے جاؤں.." بشیر کی مانو خوشی کا ٹھکانا ہی نہیں تھا لیکن پھر تنخواہ کا نہ ملنے کی فکر ستانے لگی..
"پچھلے مہینے کی تنخواہ تمھیں میں دے دیتا ہوں اور جہاں تک بات ہے تمھیاری عید کی چھٹیوں کی وہ تو تمھیں نہیں ملینگی...کیونکہ وہ ہر سال صرف پانچ لوگوں کو ملتی ہے جب تمھاری باری آئی تمھیں بھی تب ہی ملے گی.."حسن اسے تفصیل بتانے لگا تو بشیر کا خوشی سے دمکتا چہرہ ماند پڑگیا لیکن حسن کی اگلی بات نے اسے دوبارہ پُرسکون کردیا..
"لیکن جب تمھیں عید پر چھٹی نہیں ملے گی تو تم اپنے بیوی بچوں کو یہاں بلاسکتے ہو اس کے پیسے تمھیں میں دونگا...کیونکہ یہاں جو لوگ ہیں انھیں بھی عید پر اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا ہے.." حسن نے اپنی بات مکمل کی..
"ٹھیک ہے صاب جی میں آج ہی گھر جاتا ہوں کل تو شاید عید ہو..پھر میں اگلے ہفتے آجاؤں گا آپ کے پاس.." بشیر نے پورا پروگرام حسن کے گوش گزار کیا.."
"بہتر ہے..."حسن کہہ کر وہاں سے چلا گیا..تو بشیر بھی اپنا سامان لینے سرونٹ کوارٹر کی جانب بڑھ گیا..
جب کے اس سب میں صائم اپنا اور حسن کا موازنہ کرنے لگا..
یوں بیشک دنیاوی دولت کے لحاظ سے حسن تمام دوستوں میں کم دولت کا مالک تھا اور انکی طرح بڑے بڑے گھروں کے بجائے تین کمروں پر مشتمل مختصر سے گھر میں رہتا تھا لیکن دینی اعتبار سے ایمان کی دولت , نیک اعمال کی دولت سب سے زیادہ یا شاید صرف حسن ہی کے پاس تھی..اس بات کا اندازہ صائم کو نہ ہوا..اب وہ اس عہد کے ساتھ اٹھا تھا کہ وہ بھی امیر بنے گا..حقیقی طور پر..وہ بھی ایمان کی دولت , نیکیوں کی دولت حاصل کریگا.. حسن نے آج ایک بشیر کی زندگی بہتر کی تھی لیکن وہ زیادہ استطاعت رکھتا تھا اس نے عہد کیا تھا وہ اپنی حیثیت کے مطابق جتنے ہوسکے اتنے لوگوں کے لیئے آسانی کا ذریعہ بنے گا..اور ان شاءاللہ وہ اپنے اس عہد کو پورا بھی کرنے والا تھا کیونکہ اگر ہم نیک اعمال کرنے کا ارادہ کریں تو پروردگارِ عالیشان کی طرف سے نامحسوس انداز میں ہماری مدد ہو ہی جاتی ہے..
********
********
(ختم شد)

No comments:

Post a Comment