#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_1
۞____________۞۞____________۞
"میرا رشتہ طے ہو گیا ہے۔"
دور خلاؤں میں گھورتے ہوۓ اس نے ثمن تک یہ بریکنگ نیوز پہنچائی۔وہ دونوں چھت پر بیٹھی سردیوں کی نرم دھوپ سینک رہی تھی۔
"کب؟ بتایا نہیں تم نے مجھے۔"
ثمن کو حیرت ہوئی کل تک تو ایسی کوئی بھی بات نہیں سنی تھی۔
"مجھے خود بھی آج ہی بتایا گیا ہے۔"
وہ اسکی طرف دیکھے بغیر بولی۔
"میں نے تو حِرا کے رشتے کی سنی تھی پر تمہارا کیسے؟ تفصیل سے بتاؤ پہیلیاں کیوں بجھوا رہی ہو۔"
ثمن کو بات جاننے کی جلدی تھی کیونکہ اسے رابی کی پڑوسی ہونے کیساتھ ساتھ بہترین دوست کا بھی درجہ حاصل تھا۔
"حِرا کے لیے جس لڑکے کا رشتہ آیا ہے وہ لڑکا ایک بچے کا بھی باپ ہے۔حِرا نے اس رشتے پر انکار کر دیا ہے۔"
اس نے ثمن کیطرف دیکھ کر کہا۔
"اور یقیناً تمہیں ہی قربانی کا بکرا بنایا گیا ہوگا۔"
ثمن بات کی تہ تک پہنچ گئی تھی۔اس کی بات پر رابی سر جھکا گئی۔
"خدا کے لیے رابی تم کب اپنے حق کے لیے لڑنا شروع کرو گی؟ان کی بات پر جس طرح تم سر ہلاتی ہو یہ لوگ تمہیں۔۔۔۔۔"
وہ تاسف سے اسے دیکھتی رہی۔
"ماموں کے مجھ پر بہت احسان ہیں ثمن، میں اس قدر ان احسانوں میں دبی ہوئی ہوں کہ ان کی کسی غلط بات پر بھی میں سر اٹھا کر انکار نہیں کر سکتی۔ جب ہمیں باپ نے دھتکار کر گھر سے نکالا تھا اس وقت سے پناہ دے رکھی ہے ماموں نے؟ بے شک ممانی جان کا مجھ سے اور امی سے برا سلوک تھا مگر گھر سے تو نہیں نکالا۔ امی نے ہمیشہ صبر کیا اور میں بھی عافیہ بیگم کی بیٹی ہوں۔"
اس کی باتوں نے چند ساعت کے لیے ثمن کی بولتی بند کر دی۔
"میں نے اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا ہے ان شاء اللّٰہ سب بہتر ہوگا۔"
اس نے مسکرا کر ثمن کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ جانتی تھی ثمن کو اس کی کتنی فکر تھی۔
"تم تو کہتی تھی لڑکا دولت مند ہے، حرا اور اسکی عمر میں تھوڑا سا ہی فرق ہے مگر شادی شدہ کا تو نہیں بتایا تھا۔"
"ہمیں خود بھی نہیں معلوم تھا۔رشتہ لے کر آنے والوں کیساتھ اسکا پانچ سالہ بیٹا بھی آیا تھا اور سب کے سامنے اسکے بیٹے نے بھانڈا پھوڑ دیا اسے بابا کہہ کر۔"
رابی نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا۔
"اگر تمہارا معاملہ بیچ میں نہ آتا تو میں جی بھر کر اس بات ہر ہنستی۔"
"تم اب بھی ہنس سکتی ہو۔"
"لڑکا دکھنے میں کیسا ہے؟"
ثمن نے ایک اور سوال داغا۔
"میں نہیں گئی ان کے سامنے۔"
"تم کچن میں ماسی بنی ہوئی تھی تم کہاں جاتی۔مجھے تو یاد ہی نہ رہا۔"
ثمن کے اسطرح کہنے پر وہ کھلکھلائی۔
"اچھا میں اب جا رہی ہوں۔"
رابی جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"ہاں ہاں جاؤ تمہارا ہی انتظار ہو رہا ہو گا۔"
ثمن نے پھر ایک میٹھا سا طنز کیا۔
وہ سنی ان سنی کرتی سیڑھیاں اترنے لگی۔
۞۞
رابیکا عرف رابی عافیہ بیگم کی اکلوتی اولاد تھی۔عافیہ بیگم کو ان کے شوہر نے بہن کی باتوں میں آکر طلاق دے دی تھی اور وہ چھے سالہ رابی کو لے کر اپنے بھائی سہیل احمد کے در آپڑی۔
شروع شروع میں سہیل احمد کی بیوی ناصرہ کا ان سے اچھا سلوک تھا مگر آہستہ آہستہ اس نے اپنے رنگ دکھانا شروع کر دیے۔
گھر میں عافیہ بیگم کی حیثیت ملازموں جیسی ہی تھی وہ دن بھر گھر کا کام کرتی رہتی۔رابی کالج سے آتی تو ان کی مدد کر دیتی تھی۔وہ رابی کو بھی سمجھاتی رہتی اسے صبر کی تلقین کرتی اور وہ انکی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتی۔عافیہ بیگم کے انتقال کے بعد رابی جیسے تپتے صحرا میں آگئی۔ناصرہ نے کالج چھڑوا کر اسے گھر کے کاموں میں لگا دیا۔ سہیل احمد نے اس کے کالج چھڑوانے پر اعتراض اٹھایا تھا مگر ناصرہ نے انہیں سمجھا بجھا کر چپ کروا دیا۔
سہیل احمد اور ناصرہ کی ایک بیٹی حرا بھی تھی۔رابی سے اسکا سلوک نہ بہت اچھا تھا نہ برا۔جب کبھی موڈ ہوتا رابی کی مدد کر دیتی مگر زیادہ تر اپنی ذات میں ہی مگن رہتی تھی۔
۞۞
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر کریم یزدانی پر پڑی۔ رات کے اس پہر ان کو وہاں دیکھ کر وہ ٹھٹھک گیا۔
"اسلام علیکم بابا جانی۔"
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا
"وعلیکم سلام۔"
سپاٹ لہجے میں جواب دیا گیا۔
"آپ ابھی تک سوۓ نہیں؟"
'تمہیں مبارک باد دینی تھی۔لڑکی والوں نے ہاں کر دی ہے۔"
ان کا لہجہ روکھا سا تھا۔
وہ بے یقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا وہ چاہ کر بھی ان سے اپنی حیرت نہ چھپا سکا۔
"شاہ صاحب اگر شادی پر راضی ہوۓ ہو تو دل سے راضی ہوتے ناں، آپ نے جو ڈرامہ رچایا تھا نہ مجھے امید نہیں تھی وہ لوگ ہاں کرینگے مگر اللہﷻ کی مرضی۔"
وہ اسے اس وقت شاہ صاحب کہتے تھے جب سخت ناراض ہوتے یا اچھے موڈ میں ہوتے۔
"اب رشتہ ہو گیا ہے تو زوبیہ سے کہوں گا وہ ڈائریکٹ شادی کرنے کی بات کرے یہ نہ ہو آپ کوئی اور منصوبہ بندی کر لو۔"
"زیان سو گیا ہے۔"
اس نے انکی بات یکسر نظرانداز کر دی۔
"ہاں سو گیا ہے۔"
انہوں نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی.
"اوکے آپ اب سو جائیں شب بخیر۔"
وہ اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"مجھے سمجھ نہیں آتی تمہاری شاہ." وہ تاسف سے سر ہلاتے رہ گئے۔
اپنے کمرے میں آکر اس نے بے خبر سوۓ ہوۓ زیان پر نظر ڈالی جو سوتے ہوۓ بہت معصوم لگ رہا تھا۔
اس نے بے اختیار اس کے دونوں گالوں پر چٹاچٹ پیار کیا اور لمحہ بھر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا۔
پھر سگار سلگا کر ٹیرس پر نکل آیا جو کمرے کیساتھ ملحقہ تھا۔
یہ اسکے روز کا معمول تھا۔وہ کھڑے کھڑے ٹیرس پر سگریٹ پھونکتے رات گزار دیتا یا اسٹڈی میں ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوۓ۔
۞۞
☜ماضی
"یہاں کیا کر رہے ہو شانی؟"
وہ باہر جا رہا تھا جب سیڑھیوں پر بیٹھے ذیشان پر اسکی نظر پڑی۔
"رو رہے ہو تم؟"
وہ اسکی سسکیاں سن کر پاس آیا اور اسکے ساتھ سیڑھیوں پر بیٹھتے ہوۓ اسے خود میں بھینچ لیا.
"میری جان بس بہت ہو گیا اب اور آنسو نہیں بہانے۔"
وہ اسکے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا۔
"ممی کیوں چلی گئی مجھے چھوڑ کے بھیا؟ میں انہیں بہت یاد کرتا ہوں۔انہیں واپس بھلا لیں ناں"
اس نے معصومیت سے کہا
"وہ واپس نہیں آسکتی۔انہیں اللہﷻ میاں نے اپنے پاس بلا لیا ہے اور وہ اچھے لوگوں کو جلد اپنے پاس بلا لیتا ہے۔"
"مگر اللہﷻ میاں نے مجھے کیوں اکیلا کر دیا۔"
اس کے آنکھوں میں اب بھی آنسو جھلملا رہے تھے۔
"نہیں آپ اکیلے تو نہیں۔ممی کی جگہ اللہ میاں نے آپکو باباجانی اور بھیا دیے ہیں۔سوچو اگر آپ کے پاس یہ رشتے بھی نہ ہوتے تو؟ جب آپ کو ممی کی یاد آۓ تو آپ اداس مت ہوا کرو بلکہ سوچا کرو کہ مجھے ممی کی جگہ خدا نے بھیا اور بابا دیے ہیں۔"
اس نے کچھ سمجھتے ہوۓ سر ہلایا۔
اس نے شانی کے ماتھے پر بوسے دے کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔اسکا دل بھی تو دکھی تھا مگر وہ اپنا دکھ ظاہر نہیں کرتا تھا نہ کسی کے سامنے روتا تھا۔
دور سے ان دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کریم یزدانی کی آنکھیں نم ہو گئی۔
وہ کبھی اپنے بڑے بیٹے کو نہیں سمجھ پاۓ تھے ان کا خیال تھا وہ جذبات اور احساسات سے عاری شخص ہے۔جس لڑکے کی آنکھوں میں ماں کی موت پر ایک آنسو نہیں آیا تھا وہ چھوٹے بھائی کو تسلی دیتے ہوۓ رو رہا تھا۔ ہاں یہ بات اور تھی کہ وہ اپنے ماں کی تدفین کے بعد اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔
وہ وقت سے پہلے ہی سمجھ دار ہو گیا تھا اور کچھ ماں کی وفات نے اسے تنہائی پسند اور کم گو بنا دیا تھا۔
کریم یزدانی کے دو ہی بیٹے تھے شاہ زیب یزدانی اور ذیشان یزدانی۔ بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے دوسری شادی نہیں کی تھی بلکہ اپنے بچوں کیساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔
وقت گزرتا گیا۔وہ دونوں بچپن سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔
ذیشان کالج سے یونیورسٹی لیول تک پہنچا تب شاہ زیب کریم یزدانی کا بزنس میں ہاتھ بٹاتا تھا۔
ایک دن اس نے اچانک ہی کریم یزدانی سے بیرون ملک جانے کی بات چھیڑ دی۔
"باباجانی میں لندن جانا چاہتا ہوں۔"
وہ کسی فائل میں سر دیے بیٹھے تھے شاہ زیب کی بات پر انہوں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"کیوں؟ "
"میں وہاں بزنس کرنا چاہتا ہوں۔ "
اس نے سر جھکا کر کہا
"یہاں کیوں نہیں؟ بیٹا اپنا ملک ہے رہنا تو تم نے ادھر ہی ہے اور پھر میں چاہتا تھا تمہاری شادی کر دوں۔کتنے برس ہو گئے کوئی خوشی نہیں دیکھی۔ گھر میں بھی رونق ہو جاۓ گی۔"
"نہیں بابا جانی میری شادی کے بارے میں ابھی سوچیے گا بھی مت، ہاں ذیشان کی کر دیں۔"
"کیوں تم نے کنوارہ رہنا ہے تمام عمر۔"
"ایسی بات نہیں ہے بابا جانی مگر ابھی میرے کچھ خواب ہیں کچھ مقاصد ہیں جو پورے کرنے ہیں اور شادی کر کے میں کچھ نہیں کر پاؤں گا۔"
"ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔میں کبھی تمہارے راستے میں حائل نہیں ہوں گا میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔"
وہ بہت سی دعاؤں سے اسے نواز رہے تھے مگر اسکے دور جانے کا انہیں ملال بھی بہت تھا۔
ذیشان نے شاہ زیب کا بیرون ملک جانے کا سنا تو بہت واویلا کیا۔وہ کسی طور پر بھی بھیا کے باہر جانے پر رضا مند نہیں تھا۔اسے راضی کرنے کے لیے شاہزیب کو بہت سے وعدے کرنے پڑے تب جا کر وہ مانا لیکن پھر بھی وہ بہت اداس تھا۔
لندن جانے سے دو دن پہلے وہ اپنے بہترین دوست احد سے ملنے اس کے گھر آیا ہوا تھا۔
وہ کھڑکی کے پاس کھڑا باہر کے مناظر دیکھنے میں مصروف تھا جب تیزی سے بولتی ایک لڑکی کمرے میں داخل ہوئی
"بھائی میں کب کی ریڈی ہوں آپ کمرے سے باہر کیوں نہیں نک۔۔۔۔"
اس نے گردن گھما کر لڑکی کی طرف دیکھا اور اس پر سے نظریں ہٹانا بھول گیا۔لیمن کلر کے لباس میں ہلکا سا میک اپ اور چہرے پر معصومیت طاری کیے وہ شاہ زیب کو بہت ہی بھلی لگ رہی تھی۔
احد کی جگہ انجان شخص کو دیکھ کر اس کی باتوں کو بریک لگا وہ سخت شرمندہ نظر آرہی تھی شاید وہ شاہ زیب کی آمد سے بے خبر تھی۔
"وہ ،میں بھائی سے۔۔۔۔۔۔"
وہ بے ربط جملے کہتے باہر بھاگ گئی۔
شاہ زیب اسکے کمرے سے نکلنے کے بعد خوابوں کی دنیا سے باہر آیا بے اختیار اسکے لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔
تھوڑی دیر بعد احد بھی چاۓ اور لوازمات کی ٹرے لے کر کمرہ میں آگیا اور وہ اسکے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گیا۔
دو دن بعد وہ ائیر پورٹ پر لندن جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔بابا جانی اور ذیشان اسے سی آف کرنے آۓ تھے
وہ باباجانی سے مل کر ذیشان سے ملا۔
"ارے پگلے یہ کیا عورتوں کی طرح رو رہے ہو واپس لوٹ آؤں گا۔"
اس نے ذیشان کے آنسو دیکھ کر کہا وہ اس کے انداز پر روتے روتے مسکرا دیا۔
وہ دونوں کو ہاتھ ہلاتا جہاز میں بیٹھ گیا۔
سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر اس نے آنکھیں موندھ لی۔ایک چہرہ اسکی آنکھوں سے سامنے آگیا ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔نہ جانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ اپنا دل اسی کے پاس ہی چھوڑ آیا ہے۔
"اب واپس جا کر بابا جانی سے بات کروں گا"اس نے دل میں سوچا بے اختیار اسے ایک شعر یاد آیا۔
💕💕زندگی کو تلاش تھی جن کی
نادر وہ لوگ ہم کو بڑی دیر سے ملے💕💕
۞___________۞۞_________۞
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment