Wednesday, 3 July 2019

Teri Kami hai Saiyan By Bint-e-Nazeer Episode#2

Teri Kami hai Saiyan Written By Bint-e-Nazeer||Episode#2


#تیری_کمی_ہے_سائیاں

#از_بنتِ_نذیر

#قسط_نمبر_2

۞_________۞۝۞_________۞

اگلے ہفتے ہی زوبیہ بیگم نے رابی کے گھر جا کر ڈائریکٹ شادی کی بات کر دی۔ وہ لوگ تو یہی چاہتے تھے فوراً ہاں کردی مگر شادی کی تیاریوں کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگ لیا تھا۔

ایک ماہ بعد رابی حجلہ عروسی میں شاہ زیب کے کمرے میں موجود تھی مگر شاہ زیب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا۔

اسکے انتظار میں بیٹھے بیٹھے اسکی کمر اکڑ گئی تھی اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی بہت سی سوچیں اسکے ذہن میں ابھر رہی تھی جو اسے پریشان کر رہی تھی۔رات کے دو بج رہے تھے جب دروازہ کھلنے سے چرچراہٹ پیدا ہوئی وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور گھونگھٹ تھوڑا آگے سِرکا لیا۔

شاہ زیب اندر آیا اور واش روم کیطرف بڑھ گیا واپس آیا تو نائٹ ڈریس میں ملبوس تھا۔

"آپ ایسے ہی سوئیں گی یا چینج کرینگی؟" 

شاہزیب وہاں کھڑا سوالیہ انداز سے اسے پوچھ رہا تھا۔پہلی بار اسے ہتک محسوس ہوئی۔

"کیا میں اتنی بے وقعت ہوں؟" 

وہ سوچتے ہوۓ اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کر سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔وہ آئینے میں اسے دیکھ رہی تھی جو اب لیٹ چکا تھا۔

اس نے نوچتے ہوۓ زیور اتارا اور الماری میں سے سوٹ نکال کر واش روم کی طرف بڑھی۔

وہ جی بھر کر رو کر واش روم سے باہر نکلی۔

کیا کیا خواب سجا کر وہ پھولوں کی سیج پر بیٹھی ہوئی تھی جو سب ٹوٹ گئے تھے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کمرے کی ایک ایک چیز اس پر ہنس رہی ہے اسکا تمسخر اڑا رہی ہے۔

وہ آنسو صاف کرتی بیڈ کی دوسری طرف لیٹ گئی پہلے جو آنکھیں نیند کی وجہ سے بوجھل تھی اب نیند کوسوں دور تھی وہ شاہزیب کی طرف سے رخ موڑے بے آواز روتی رہی اور شاہزیب اسکے رونے کی سوں سوں کی آواز سے خود کو کوستا رہا۔

۞۝۞

اگلے دن شاہزیب نے اپنے گزشتہ رویہ کی اس سے معافی مانگ لی تھی اور اس سے کافی باتیں بھی کی جو وہ خاموشی سے سنتی رہی۔

"جو رشتے مجھ سے وابستہ ہیں آپ ان کی عزت کریں۔ میں چھوٹا تھا جب ماما جانی کی وفات ہو گئی تھی تب سے بابا جانی نے ہی ہمارا ماں اور باپ کی طرح خیال رکھا وہ بہت مشکلات اور تکالیف جھیل چکے ہیں اگر آپ ان کا خیال رکھیں گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی اور زیان اسکے ساتھ کسی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرونگا وہ بن ماں باپ کے بچہ ہے اسے یہ احساس نہیں ہونا چاہیے آپ اسکی آنٹی ہیں۔"

رابی غور سے اسکی بات سن رہی تھی مگر اسکی آخری بات پر اس نے استفہامیہ نظروں سے شاہ زیب کی طرف دیکھا۔

"زیان آپکا بیٹا نہیں ہے کیا؟"

اس نے پہلی بار شاہزیب کے سامنے زبان کھولی۔

"میرا بھتیجا ہے مگر میں چاہتا ہوں اسے ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہو وہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے۔"

اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا

"آپ کا کوئی اور بھائی؟"

وہ شاہزیب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ہچکچائی۔

"تھا۔اب نہیں ہے۔"

اس کے لہجہ بھیگ گیا۔

رابی کو افسوس ہوا اسے معلوم تھا بن ماں باپ کے بچوں کو کن دکھوں اور احساس کمتری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود اس اذیت سے گزر چکی تھی۔

"کیا سوچ رہی ہیں آپ؟ "

اس نے سوچوں میں گم رابی کو مخاطب کیا۔

"کچھ نہیں۔۔۔

آپ بے فکر ہو جائیں آپکو مجھ سے کسی قسم کی شکایت نہیں ہوگی۔"

اس نے دل سے کہا۔

شاہزیب اسکی بات پر پھیکا سا مسکرا دیا۔

رابی نے اس بات پر عمل بھی کیا وہ کریم یزدانی کا باپ کیطرح خیال رکھتی اور زیان کو بیٹا کہتی ہی نہیں سمجھتی بھی تھی وہ بھی اسکے ساتھ گھل مل گیا تھا اور رابی کے کہنے پر ہی اسے ماما کہتا تھا۔کریم یزدانی بھی اسکے حسنِ اخلاق سے بہت خوش تھے خوشیوں نے انکی گھر کی راہ دیکھ لی تھی۔

۞۝۞

وہ شادی ہوۓ آج پہلی بار آفس گیا۔واپس آکر رات کو وہ کمرے میں فائلز میں سر دیا بیٹھا تھا تبھی زیان دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا۔

"بابا بابا۔"

وہ اس کی کرسی کے پاس آکر کھڑا ہوا۔

"ہوں!……"

اس نے بغیر اسکی طرف توجہ دیے کہا۔

"بابا جانی۔"

اب اس نے پیار اور لاڈ سے اسے بلایا

"جی میرا بیٹا۔"

وہ اسکی چالاکی اچھی طرح جانتا تھا اپنی بات منوانی ہو تو وہ اسے ایسے لاڈ سے بابا جانی بلایا کرتا تھا۔

"آئس کریم کھانے لے چلیں پلیز ماما بھی جائیں گی۔" 

اس نے منت بھرے لہجے میں کہا۔

"نہیں۔۔۔ ابھی دیر ہو گئی ہے۔سو جاؤ۔ کل شام کو چلیں گے۔"

اس نے ریسٹ واچ پر ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا، گھڑی کی سوئیاں "9" بجا رہی تھی۔

"بابا پل..."

" کل چلیں ضد نہیں کرتے۔"

شاہزیب نے نرمی سے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا

"پرانے والے بابا اچھے تھے میری بات سنتے تھے،آپ بہت برے ہیں کل بھی مجھے ماما کیساتھ انکے گھر نہیں جانے دی۔"(رابی اپنے میکے گئی تھی زیان بھی جانے کی ضد کر رہا تھا مگر شاہزیب نے اسے روک لیا تھا)" زیان کی آنکھیں لبالب آنسو سے بھر گئی۔

شاہزیب اس کی بات پر چند پل بول ہی نہ سکا پھر کرسی چھوڑ کر اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔

کافی دیر وہ زیان کے ایک ایک نقش کو تکتا رہا اور پھر اسے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔

"چلو آئس کریم کھانے۔۔۔"

شاہزیب نے اسے الگ کرتے ہوۓ کہا اور وہ خوشی سے نیچے رابی کے پاس بھاگ گیا۔

"ماما چلیں آئس کریم کھانے۔اب آپ انکار مت کیجیے گا۔اتنی مشکلوں سے بابا کو منایا ہے۔"

وہ شاہزیب کو نیچے آتے دیکھ کر رابی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا۔

"تم اور بابا چلے جاؤ۔"

رابی نے دھیمی آواز میں کہا

"نہیں آپ بھی چلیں گی ساتھ۔۔۔

بابا!۔۔ماما کو کہیے نا وہ بھی چلیں۔"

زیان نے شاہ زیب سے مخاطب ہو کر کیا۔

"ہاں زیان ٹھیک کہہ رہا ہے، آپ بھی چلیں۔"

شاہزیب کے کہنے پر اس نے ایک نظر اپنے لباس پر ڈالی 

"ماما بہت کیوٹ لگ رہی ہیں اس لباسں میں۔ ہیں نا بابا جانی۔"

زیان نے اسکا ارادہ بھانپ کر شاہزیب سے تصدیق چاہی، رابی اسکی بات پر شرم سے پانی پانی ہو گئی۔شاہزیب نے اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔

بلاشبہ وہ اورنج اور بلو کلر کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

رابی نے شاہزیب کو اپنی طرف دیکھتا پا کر جلدی سے زیان کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی راہ لی اور شاہزیب کی آنکھوں کے سامنے وہی گھبرایا اور شرمندہ سا چہرہ آنے لگا۔وہ سر جھٹک کر انکے پیچھے چل دیا۔

۞۝۞

ان کی واپسی رات دیر سے ہوئی زیان آتے ہوۓ سو گیا تھا رابی اسے بانہوں میں اٹھا کر اسکے کمرے میں لے گئی جو کریم یزدانی کے روم کیساتھ تھا۔بیڈ پر اسے لیٹا کر اسکے گالوں پر بوسے دیے اور اپنے کمرے میں آگئی۔ 

"شاہزیب ابھی تک کمرے میں نہیں آۓ۔" اس نے باہر نکل کر نیچے جھانکا۔

"کہاں چلے گئے؟"

وہ سوچتے ہوۓ ٹیرس کیطرف بڑھی۔ اتنے دن شاہزیب کیساتھ رہ کر وہ اتنا تو جان گئی تھی کہ شاہزیب کی پسندیدہ جگہ کونسی ہے وہ کہاں زیادہ پایا جاتا ہے۔

ٹیرس پر دیکھ وہ واپس کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئی 

"کچھ دیر اور انتظار کر لیتی ہوں شاید کچھ دیر بعد خود ہی آجائیں"

اس نے خود کلامی کرتے ہوۓ کہا۔

کافی دیر انتظار کرنے کے بعد جب شاہزیب کمرے میں نہیں آیا وہ اٹھ کر اسٹڈی کیطرف بڑھی۔اسکا اندازہ درست تھا وہ اسٹڈی میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔وہ دبے قدموں اسکی طرف بڑھی۔

"شاہ صاحب۔ "

وہ کریم یزدانی کی دیکھا دیکھی اسے شاہ صاحب ہی کہتی تھی۔

"شاہ ص۔۔۔۔۔۔"

وہ دوسری بار اسے پکارنے لگی تھی جب ٹیبل پر کھلی ڈائری پر بڑے حروف میں خوبصورتی سے لکھا نام اور شعر دیکھ کر ٹھٹھک گئی وہ جسطرح دبے قدموں چل کر آئی تھی اسی طرح باہر نکل گئی۔

۞۝۞

☜ماضی

ایک ہفتہ لندن میں گھومنے پھرنے کے بعد اسکا دھیان کام کیطرف آیا۔دن بھر کام کر کے وہ رات کو گھر آتا تب بھی کمپیوٹر پر مصروف ہوجاتا۔خالی دماغ وسوسوں کا گھر ہوتا ہے یہی سوچ کر وہ خود کو مصروف رکھتا۔

بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کرتا تو ایک پری چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آجاتا اور بے اختیار اسکے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی۔ کبھی کبھی وہ سوچتا اسکا نام کیا ہوگا پھر خود ہی نام سوچتا ریجیکٹ کرتا کبھی کبھی اسے خود پر ہنسی سی آجاتی کہ وہ اتنا میچور ہو کر ایسی حرکتیں کر رہا ہے۔

وقت گزرتا جا رہا تھا جب ایک دن ذیشان اسے اپنی منگنی کا بتایا۔

"مبارک ہو یار۔ تم تو بڑے تیز نکلے۔"

شاہزیب نے اسے شریر لہجے میں کہا

"اپنی باری کا انتظار کرتا تو وہ فیری ہاتھ سے نکل جاتی آپ نے تو بوڑھے ہو کر شادی کرنی ہے۔"

ذیشان نے بھی اسی کے لہجے میں جواب دیا۔

ذیشان کی بات پر وہ کافی دیر قہقہہ لگاتا رہا۔

"اچھا فیری کونسی؟"

ہنسنے کی وجہ سے آنکھوں میں در آنے والی نمی صاف کرتے ہوۓ پوچھا گیا۔"جس سے میری منگنی ہو گی۔ ہاۓ بھیا بلکل سبز آنکھوں والی فیری کی طرح ہے آپ اسے دیکھیں گے نا تو میری پسند کو داد دینگے۔"

ذیشان نے فخریہ انداز سے کہا

"چلو دیکھ لیتے ہیں۔تمہاری فیری زیادہ پیاری ہے یا میری"آخری بات اسنے دل میں ادا کی۔

"اچھا آپ آئینگے نا۔پلیز بھیا آجائیں اپنوں کے ہوتے ہوۓ بھی آپ پردیس میں اکیلے دس از ناٹ فئیر۔"

"میرا بھی بہت جی کر رہا ہے تمہاری منگنی کا فنکشن اٹینڈ کروں مگر نہیں آسکوں گا شادی پر ضرور آؤں گا پرومس۔"

شاہزیب نے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا وہ لندن میں اپنا کام مکمل کر کے ہمیشہ کے لیے پاکستان آنا چاہتا تھا۔

"میں ناراض ہو جاؤں گا۔"

ذیشان نے منہ بسورا

"گفٹس بھیج دونگا۔"شاہزیب نے آخری کوشش کی اسے منانے کی"بس آپ آجائیں اور کچھ نہیں چاہیے۔"

ذیشان اسکے آنے پر بضد تھا۔

"شادی پر آؤنگا اگر اسطرح ناراض ہوۓ تو پھر کبھی نہیں آؤنگا۔"

:اوکے گڈ باۓ۔"

لائن کٹ گئی تھی وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے کافی دیر ایسے ہی بیٹھا رہا.

منگنی کے فنکشن پر وہ نہیں جا سکا تھا جسکی وجہ سے ذیشان نے اس سے بات چیت بند کر دی تھی مگر اسکی بھی اپنی ہی مجبوری تھی۔

مگر جب چھے ماہ بعد اس نے کریم یزدانی سے اسکی شادی کے بارے میں سنا تو اس نے واپسی کی تیاریاں شروع کر دی تھی۔سب کے لیے گفٹس وغیرہ لیے اور آخر میں اپنی فیری کے نام کا سونے کا خوبصورت سا لاکٹ لیا تھا۔

"میری قسمت میں ہوا تو ایک دن خود یہ تمہیں پہناؤں گا" اس نے مسکرا کر سوچا

جہاز کی سیٹ کنفرم نہ ہونے کیوجہ سے وہ اس دن پاکستان لوٹا جس دن ذیشان کی بارات تھی۔رات کے بارہ بجے ائیر پورٹ سے اسے لینے کریم یزدانی آۓ تھے۔وہ چھوٹے بچے کیطرح کافی دیر ان سے لپٹا رہا اتنے سالوں کے بعد باپ کی شفیق بانہیں جو نصیب ہوئی تھی۔گاڑی میں بیٹھ کر وہ کریم یزدانی سے گزرے لمحوں کی بہت سی باتیں کرتا رہا۔

۞۝۞

اگلے دن شام کو ولیمے کا فنکشن تھا اسکی آنکھ کھلی تو 3 بج رہے تھے وہ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آیا۔لاؤنج میں ذیشان بیٹھا تھا"السلام علیکم!۔"

اس نے بلند آواز میں سلام کیا اور ذیشان کے رد عمل کے لیے خود کو تیار کیا مگر خلافِ معمول وہ گرم جوشی سے اس سے ملا۔

"وعلیکم سلام۔مٓیں بہت ناراض تھا آپ سے مگر اب آپ آگئے ہیں یہی میرے لیے اہم ہے۔"

ذیشان نے اس کیساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔

"باباجانی کہاں ہیں؟"

شاہزیب نے کریم یزدانی کو وہاں نہ پاکر کہا۔

"وہ ہال چلے گئے ہم آپ کے انتظار میں رک گئے۔"ذیشان نے جواب دیا"بھابی نہیں نظر آرہی۔"

شاہزیب نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوۓ کہا۔

"کمرے میں ہے ابھی بلا کر لاتا ہوں۔"ذیشان اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا

"میں کمرے میں ہی مل لونگا۔"شاہزیب بھی اسکی پیروی میں اندر چلا گیا۔کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے پاس دو لڑکیاں کھڑی شاید فنکشن کے لیے تیاری کر رہی تھی۔

"بھیا اٹھ گئے ہیں مل لو۔"ذیشان نے پاس جا کر کہا البتہ شاہزیب دروازے میں ہی کھڑا ہو گیا تھا۔

اپنی جانب آتی لڑکی کو وہ پہلی نظر میں ہی پہچان گیا تھا۔

"یہ ایمل شاہ یعنی میری شریکِ حیات۔"

ذیشان نے ایمل کو دیکھتے ہوۓ شریر لہجے میں کہا۔شاہزیب نے بمشکل دروازے کا سہارا لیا اسے ایمل کو دیکھ کر سو وولٹ کا جھٹکا لگا تھا۔وہ اتنے سالوں سے جسے ہمسفر بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا وہ اسکی بھابی بن گئی تھی۔۔

👇👇

جاری ہے۔

No comments:

Post a Comment