Teri Kami hai Saiyan By Bint-e-Nazeer Episode#11
Teri Kami hai Saiyan Written By Bint-e-Nazeer||Episode#11
#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#ازقلم_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_11
۞__________۞۞_________۞
"مگر جنید وہاب تو اچھا لڑکا ہے اور گھر کے سبھی افراد راضی ہیں۔ تمہیں کیا مسٔلہ ہے؟ انکار کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم کسی اور میں انٹرسٹڈ ہو؟"
رابی نے تحمل سے پوچھا۔
"جی"
ایمل نے سر جھکا لیا۔
"کون ہے وہ؟"
رابی اسکے پاس کھڑی تھی۔
"زیان۔"
اس کے دل کی بات زبان پر آ ہی گئی تھی۔
"کون زیان؟"
اسے زیان کے ہم نام ہونے کا خدشہ تھا مگر ایمل کی اگلا جواب سن کر حیرت سے اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
"زیان بِن ذیشان کو پسند کرتی ہوں.اور اسی سے شادی کی خواہش۔۔۔۔"
"آگے ایک لفظ مت کہنا۔ پاگل ہو گئی ہو تم دماغ جگہ پر ہے یا نہیں۔بھائی ہے وہ تمہارا۔"
رابی غصے سے آگ بگولہ ہو گئی۔
"بھائی نہیں کزن ہیں وہ میرے اور کزن سے نکاح۔۔۔۔"
رابی کا اٹھتا ہاتھ اسکی بولتی بند کر گیا۔
"آج یہ بات زبان سے نکال دی ہے آئندہ یہ بات سوچنا بھی مت۔ ایسا ممکن نہیں ہے سمجھی تم۔"
رابی نے اسے وارن کرتے ہوۓ کہا۔
وہ گالوں پر ہاتھ رکھے رابی کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
"ایسا ممکن ہوگا میں ممکن بنا دونگی وہ میرا بھائی نہیں کزن ہے اور کزن سے نکاح جائز ہے۔"
وہ اونچی آواز میں چیخی تھی۔
شام تک شاہزیب آیا رابی نے ساری بات اسکے گوش گزار کردی۔ ایمل اپنی بات پر قائم تھی اور اسکا ایک ہی فیصلہ تھا وہ زیان سے ہی شادی کرے گی۔وہ تینوں لاؤنج میں بیٹھے سوچوں میں گم تھے۔
"یہ آپ سب کا پیار ہے جو وہ اتنا ہٹ دھرمی کرتی ہے، باربار کہتی تھی اتنا پیار مت کریں یہ پیار اسے بگاڑ دے گا۔ مگر نہیں ہر بار مجھے ہی جھڑک سننے کو ملی۔"
رابی نے برہم لہجے میں کہا۔
"خاموش ہو جاؤ ربیکا۔"
شاہزیب کا دماغ درد سے پھٹا جا رہا تھا رابی کی بات سن کر اسے غصہ آگیا۔"بیٹا آرام سے، بچی ہے غلطی سے کہہ دیا ہوگا پیار سے سمجھاؤ تو شاید سمجھ جاۓ وہ تو شکر ہے زیان نہیں ہے۔"
کریم یزدانی نے شاہزیب سے مخاطب ہوکر کہا۔
گھر کا ماحول خراب ہو گیا تھا سبھی لوگ پریشان تھے اور ایمل کمرے میں پڑی سوگ بنا رہی تھی۔
۞۞
"دیکھو ایمل اب بھی تمہارے پاس وقت ہے تم کہہ دو یہ سب جھوٹ ہے، مذاق ہے ، کل تک زیان بھی آجاۓ گا اور اگر اس تک یہ بات چلی گئی تو وہ برداشت نہیں کرے گا۔ وہ تم پر جان چھڑکتا ہے اپنی۔"
رابی رونے لگی تھی مگر ایمل وہ پتھر ہو چکی تھی۔
"یہ جھوٹ نہیں ہے ممی۔ میں اسے اتنے برس سے چاہتی ہوں اسکے خواب آنکھوں میں سجاۓ ہیں اور اب پل میں دستبردار ہو جاؤں ایسا میں سوچ بھی نہیں سکتی۔"
تبھی دروازہ کھول کر شاہزیب اندر آیا۔
"یہ صلہ دے رہی ہو ہمارے لاڈ پیار کا۔"
غصے سے اس کے اعصاب تنے ہوۓ تھے۔
"بابا پسند ہی تو بتائی ہے اپنی اور کیا کیا ہے؟"
وہ بغیر کسی خوف کے بولی۔
"شٹ اپ ایمل۔مجھے غصہ مت دلاؤ۔کیوں میرا سر جھکانے پر تُلی ہو کیا سوچے گا زیان کیا جواب دونگا میں اسے۔"
شاہ زیب چند دنوں میں ہی کمزور لگنے لگا تھا۔یہ اولاد بھی انسان کو کن کن مشکلات میں لا کھڑا کرتی ہے تبھی تو قراٰن مجید میں اللہ تعالٰی نے اولاد اور دولت کو انسان کی سب سے بڑی آزمائش قرار دیا ہے۔
وہ تاسف سے اپنی جان سے عزیز بیٹی کو دیکھتا باہر نکل گیا۔
"ہمارے سامنے جو بکواس کی ہے نا وہ زیان کے سامنے مت کرنا ورنہ زندہ درگو کر دونگی تمہیں۔"
رابی غصے سے وارن کرتی باہر نکل گئی۔
وہ بیڈ پر سر تھام کر بیٹھ گئی۔
"کیا گناہ کر دیا میں نے کہ سب مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں پسند ہی تو کیا انہیں۔"
وہ بازو میں منہ چھپا کر سسکنے لگی۔
گم سُم سی رہتی ہوں اب شرارتیں نہیں کرتی
تیرے عشق نے مجھے تہذیب سِکھا دی
۞۞
زیان سڈنی سے گھر آیا تو عجیب سی گھر میں ویرانی چھائی تھی بظاہر تو سبھی نے مسکرا کر اسے ویلکم کیا مگر وہ ان کے چہرے پر پریشانی دیکھ چکا تھا۔
"یہ خاموشی کیوں ہے گھر میں، کوئی پریشانی ہے کیا؟ "
وہ رابی اور کریم یزدانی لاؤنج میں بیٹھے تھے شاہزیب کی ہمت نہیں تھی وہ زیان کا سامنا کرے۔
"نہیں تو۔"
رابی نے بمشکل مسکرا کر کہا۔
"ایمی کدھر ہے؟" زیان نے اسے نہ پا کر کہا۔
"ہو گی اپنے کمرے میں ، میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔"
نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کے لہجے میں کڑواہٹ گُھل گئی تھی وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
"میں ایمی سے مل آؤں۔"
وہ کریم یزدابی سے کہتا اٹھ کر ایمی کے روم میں چلا گیا۔
زیان کو دیکھ کر وہ جھٹکے سے اٹھی اور اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"کیا ہو گیا ایمی میری جان، لگتا ہے بہت مِس کیا ہے بھیا کو۔" وہ اسکا سر تھپکتا پیار سے بولا۔
ٖ"آئی لو یو" وہ بھیگے لہجے میں بولی۔
"آئی لو یو ٹو۔ اتنے آنسو ضائع کر دیے تم نے۔"
وہ اسکے آنسو صاف کرتے ہوۓ بولا۔
"کیا ہوا ایمی یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہے؟"
زیان پریشان ہوا۔
"ماما نے مارا ہے۔"
وہ سسکتے ہوۓ بولی۔
"کیوں مارا ہے ماما نے؟"
اسے حیرت ہوئی رابی تو کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتی تھی مگر اسکی غیر موجودگی میں آخر ایسا کیا ہوگیا جو گھر کا ماحول بھی سوگوار ہے۔
"بتاؤں گی لیکن پہلے آپ وعدہ کریں جو کہوں گی وہ مانیں گے؟"
"کیسی بات؟۔۔۔"
وہ چونکا۔
"پہلے وعدہ کریں۔"
اس کی آنکھوں کے کنارے اب بھی بھیگے ہوۓ تھے۔
"اچھا وعدہ کرتا ہوں ، اب بتاؤ کیا بات ہے۔کیوں مارا ہے ماما نے؟"
زیان جھنجلا گیا۔
"میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔آپ میرے بھائی نہی۔۔۔۔۔۔"
ایمل کی بات سے اسے ایسا لگا جیسے اسکے کانوں میں کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیل دیا ہو وہ جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو۔تم میری بہن ہو آئندہ ایسے اول فول منہ سے نہ بکنا۔"
زیان نے اس کی بات کاٹ کر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔یہ سچ ہے کہ وہ ساری حقیقت سے واقف تھا وہ جانتا تھا شاہزیب اسکے تایا ابو ہیں مگر اس نے ایمل کو بہنوں جیسی محبت اور پیار دیا تھا اور اب اسکے منہ سے ایسے الفاظ سن کر وہ حیرت سے گنگ رہ گیا تھا
"کیا یہ میرے پیار کو غلط رنگ دیتی رہی ہے۔"
یہ سوچ کر ہی اسکا دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
"آپ کزن ہیں میرے اور کزن سے نکاح جائز۔۔۔۔"
"زیان تم جاؤ نیچے۔۔۔۔۔"
رابی کی آواز پر ایمل کی چلتی زبان کو بریک لگی وہ بغیر کچھ کہے دروازے سے باہر نکل کر سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔
"میں نے تمہیں منع کیا تھا نا ایمل کہ اسکے سامنے یہ بے ہودہ بکواس مت کرنا پھر بھی تم نے فوراً زبان کھولی۔ "
رابی کے خطرناک تیور دیکھ کر بھی وہ اپنی جگہ کھڑی رہی نہ جانے کیسے اس لڑکی میں اتنی ہمت مجتمع ہو گئی تھی۔
"کونسی بے ہودہ بکواس ہے ۔ہر لڑکی کو اپنی پسند بتانے کا حق ہے اور اسلام میں بھی اسکی اجازت۔۔۔"
"وہ بھائی ہے تمہارا۔"
رابی نے دانت پیس کر کہا۔
"میرے کہنے یا آپ کے کہنے سے زیان میرا بھائی نہیں بن جاۓ گا دنیا والوں کی نظر میں کل بھی وہ میرے چچا کا بیٹا تھا اور آج بھی۔"
باہر کھڑے زیان نے دہل کر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا جبکہ رابی نے اس پر تھپڑوں کی برسات شروع کر دی تھی۔
زیان سے صبر نہ ہوا اس نے کمرے میں داخل ہو کر ایمل کو رابی سے چھڑوایا "یہ کیا کر رہی ہیں ممی؟ چھوڑیں اسے۔"
"ہمیں ذلیل کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی کیا کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں۔"
زیان روتی ہوئی رابی کو تسلیاں دے کر باہر نکل گیا اور وہ ٹھنڈے فرش ہر ڈھے گئی۔
۞۞
ایمل کافی دنوں سے بخار میں مبتلا تھی مگر کسی نے پوچھا تک نہیں تھا جو اسکی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے اب وہ بخار میں پھنک رہی تھی مگر کوئی سامنے بھی نہیں آیا تھا۔
رابی اس پتھر کی دیوار سے ٹکریں مار مار کر لہولہان ہو چکی تھی مگر اسکی ایک ہی رٹ تھی۔
"زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے اور وہ اسے پسند کرتی ہے اسی سے ہی شادی بھی کرے گی۔"
سارا گھر ہی پریشان تھا اب فیصلہ زیان نے کرنا تھا اور وہ فیصلہ کر چکا تھا۔"میں ایمل سے نکاح کے لیے تیار ہوں۔"
وہ سب لان میں بیٹھے تھے جب زیان نے کہا۔
"میں تو اسکا کزن ہوں اس نے کبھی مجھے بھائی سمجھا ہی نہیں نہ کل،نہ آج۔" وہ سرجھکاۓ بولا۔
رابی اور شاہزیب اسکے انداز پر تڑپ اٹھے جبکہ کریم یزدانی نے اسکی بات کی تائید کی۔
شاہزیب زیان کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں تھا ایمل نے باپ کا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔جبکہ رابی اسکے پاس بیٹھی آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ انکی خوشیوں کو نہ جانے کس کی
نظر لگ گئی تھی۔
"بابا جانی پلیز آپ کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں؟"
زیان اٹھ کر اسکے پاس آکر بیٹھا
"میں نے ہمیشہ آپکو اور ماما کو "ماں باپ"کہا نہیں سمجھا بھی ہے اور آپ کی عزت میرے لیے بہت مقدم ہے آپکو ایسے سر نیچا کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپکا سر ہمیشہ بلند رہے گا۔"
اس نے شاہ زیب کے کندھے پر ہاتھ رکھا شاہزیب نے اسے گلے لگا لیا۔"مجھے فخر ہے تم پر۔"
شاہ زیب نے اسے ماتھے پر بوسہ دیا۔
۞۞
اگلے چند ہفتوں میں ایمل اور زیان کا سادگی سے نکاح ہو گیا اور وہ ایمل شاہ زیب سے ایمل زیان بن گئی۔رخصتی کے بعد اسے زیان کے کمرے میں بٹھا دیا گیا سبھی گھر کے افراد اس سے ناراض تھے مگر مہمانوں کے سامنے کسی نے بھی ظاہر نہیں کیا۔
پھولوں کی سیج پر وہ بیٹھی بار بار مسکرا رہی تھی اسے یہ احساس ہی سرشار کر رہا تھا کہ اب زیان صرف اسکا ہے صرف اسکا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی وہ سب کھو چکی ہے زیان کو بھی اور ماں باپ کو بھی۔
۞۞
اپنے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر کھڑا وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا تھا کتنے برس بعد اس نے رابی سے کیا وعدہ توڑ دیا تھا۔
وہ کمرے میں آیا تو رابی بھی بیڈ پر اداس سی بیٹھی تھی شاہ زیب کو اندر آتے دیکھ کر اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔
"مدتوں کیا وہ وعدہ آج آپ نے توڑ دیا۔"
رابی نے اسکے ہاتھ میں سلگتا سگریٹ دیکھ کر کہا۔
"میں خود بھی ٹوٹ چکا ہوں ربیکا۔"
وہ ٹوٹے ہوۓ لہجے میں بولا۔رابی اسکے پاس آئی۔
"جب ذیشان کی موت ہوئی تھی تو زیان کو میں نے سنبھالا تھا تب خود سے ایک عہد کیا تھا کہ زیان کو کبھی بھی کوئی دکھ نہیں دوں گا وہ ذیشان اور ایمل کی نشانی ہے مگر آج زیان کے اترے ہوۓ اداس چہرے کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے میرا دل آری سے کاٹ کر لہولہان کر دیا ہے۔"
وہ روتے ہوۓ سب رابی کے گوش گزار کر رہا تھا۔
"میری بیٹی نے آج میرا خود سے کیا عہد بھی توڑ دیا ذیشان اور ایمل کی خوشیوں کا قاتل میں خود کو سمجھتا تھا جب بھی ان کو ہنستے مسکراتے دیکھتے میرے دل سے "آہ" نکلتی کیونکہ
کہ ایمل میری بھی محبت تھی۔ میں نے زبان سے ہمیشہ انکی خوشیوں کی دعا مانگی ان کی زندگیوں سے دور میں بیرون ملک لندن کا باسی بنا رہا مگر میرے دل کی آہ لگ گئی انکو، انکا ہنستا ہوا گھر اجڑ گیا، دونوں روڈ ایکسیڈنٹ میں مر گئے۔میرا ضمیر مجھے ہر وقت ملامت کرتا تھا مگر ذیشان کی نشانی زیان کو خوش دیکھ کر میرے دل کا بوجھ ہلکاہو جاتا تھا مگر آج یہ دل اسکو اداس دیکھ کر غم سے پھٹنے کو بے تاب ہے۔"
آج دل میں لگی گرہ آہستہ آہستہ کھل رہی تھی رابی خاموشی سے اس شخص کا ماضی سن رہی تھی جو اسکا شوہر تھا رابی کی آنکھیں بھی اسکے رونے سے بھیگ گئی۔
"آپ کیوں خود کو ملامت کرتے ہیں شاہ۔ ان کی زندگی تو اتنی ہی تھی وہ اپنی عمر اتنی لکھوا کر دنیا میں آۓ تھے اس سب میں آپ کا کیا قصور؟ اور آپ تو ان کے راستے سے ہٹ گئے تھے"۔
رابی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"خود کو سنبھالیں شاہ سب بہتر ہو جاۓ گا میں آپ کے ساتھ ہوں۔"
رابی اسکو تسلیاں دے رہی تھی اسکا اپنا دل بھی تو ایمل نے بہت دکھایا تھا مگر شاہ زیب کے غم کے آگے اسکا غم کچھ نہیں تھا۔شاہزیب نے آہستگی سے اسکے شانے کے ساتھ سر ٹکایا بے شک رابی اسکے لیے بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی۔
۞۞
👇👇
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment