#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_12
۞۞
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی مگر زیان ابھی تک اپنے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ایمل اسکا انتظار کرتے کرتے تھک کر سو گئی تھی جب وہ اپنے بیڈ روم میں آیا تو دور کہیں مؤذن صبح کی اذان
دے رہا تھا۔ بیڈ پر سوتی ایمل پر ایک نظر ڈال کر وہ واش روم میں چلا گیا واپس آیا تو نائٹ ڈریس میں ملبوس تھا۔صوفے پر لیٹ کر اس نے آنکھیں موند لی۔
"بہت دل دکھا دیا تم نے ایمی، بہت عزیز تھی تم مجھے اگر اسکے بدلے میری جان مانگ لیتی تو وہ بھی خوشی خوشی میں تم پر وار دیتا مگر تم نے تو میری جان کو ہی بے جان کر دیا۔ سب سکون
غارت کر دیا میرا۔میری محبتوں کو غلط رنگ دیتی رہی۔میں چاہ کر بھی تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا"
دو آنسو آنکھوں سے نکل کر اسکے چہرے پر بکھر گئے۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی بس تلخ سوچیں تھی کو اسکا اندر باہر لہولہان کر رہی تھی۔
وہ صوفے سے اٹھا اور دوسرے روم میں چلا گیا۔
۞۞
صبح اسکی آنکھ بازو میں ہونے والی چبھن سے کھلی اس نے اٹھ کر بستر دیکھا جہاں اسکی کانچ کی ٹوٹی ہوئی چوڑی پڑی تھی۔ اسکی بازو پر معمولی سی خراش پڑ گئی تھی۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی۔
"تو کیا زیان کمرے میں آیا ہی نہیں۔"
اس نے آئینے میں اپنے سراپے کو دیکھتے ہوۓ سوچا۔
"جس کے لیے اتنا سج دھج کے بیٹھی اس نے ایک نظر بھی مجھ پر ڈالنا گوارا نہیں کی"
اس نے زیور بے دردی سے اتار کر دراز میں پٹخا۔
چوڑیاں اتار کم رہی تھی اور توڑ زیادہ رہی تھی۔آنسو چہرے پر بہتے چلے جا رہے تھے۔
"اب مجھے پتہ چلا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟"
اس نے بالوں کو کیچر سے آزاد کیا اور سادہ سا لان کا سوٹ لے کر واش روم میں گھس گئی۔
شاور لینے سے جسم کے ساتھ ساتھ دماغ بھی تھوڑا پرسکون ہو گیا تھا۔
وہ بال سنوار کر باہر جانے لگی تھی جب زیان اندر آیا۔
اس پر ایک ترچھی نظر ڈال کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"آپ کہاں تھے؟"
ایمل نے اسکے پاس آکر سوال کیا۔
"کیوں؟"
زیان کی نظریں فرش پر تھی۔
میں آپکا انتظار کرتی رہی۔
ایمل نے اسے جتایا۔
"شادی کر تو لی ہے زیان بِن ذیشان سے جو تمہاری خواہش تھی۔"
زیان کے لفظوں میں گہرا طنز تھا۔
"ایک بات کان کھول کر سن لو تم، یہ جو کاغذی رشتہ قائم کیا ہے اسے غنیمت سمجھو۔ میری زندگی میں تم زبردستی گھسی ہو اور میرے لیے تمہاری اہمیت اتنی ہی ہے جتنے گھر کے بوسیدہ سامان کی ہوتی ہے جسے ہر کوئی دیکھتا تو ہے مگر استعمال کرنا گوارا نہیں کرتا بلکہ ٹھوکر مار کر گزر جاتا ہے اس لیے میری زندگی کے معاملات سے ایک قدم دور رہنا."
زیان تلخ لہجے میں کہتا باہر نکل گیا اور وہ بت بنی کھڑی اسکے لفظوں پر غور کر رہی تھی۔
"اتنی تذلیل." آنکھیں آنسو سے لبالب بھر گئی تھی.
وہ اب کچھ نہیں کر سکتی تھی یہ کانٹوں سے بھرے راستے کا اس نے خود انتخاب کیا تھا اور اب اس راستے کو اس نے خود اکیلے پاٹنا تھا۔اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جو انسان جتنا ماں باپ کا لاڈلا ہوتا ہے اسے اتنی ہی تکالیف اور دکھ ملتے ہیں سہی کہتے ہیں وہ۔اور ایمل بھی ان لوگوں میں سے ایک تھی۔
ناشتے کی ٹیبل پر وہ آئی تو شاہزیب اور رابی اٹھ کر روم میں چلے گئے کریم یزدانی بھی اس سے سنجیدگی سے ایک دو باتیں کر کے وہاں سے اٹھ گئے۔ناشتے کی ٹیبل پر صرف وہ چہرے پر سوگواری طاری کیے بیٹھی تھی کون کہتا تھا کہ
"وہ پہلے دن کی دلہن ہے۔"
"آخر ایسا کونسا گناہ کر دیا میں نے۔اک پسند کی شادی ہی تو کی ہے۔"
وہ بھی سب اسی طرح چھوڑ کر کمرے میں آگئی ۔ اسے اب یہ بے رُْخیاں جھیلنی تھی سب کی ناراضگی دور کرنی تھی جو مشکل تو تھا مگر نا ممکن نہیں۔
۞۞
میرے دل کی ہے یہ آرزو
مجھے تو ہی بس ملا کرے
یونہی چاہے مجھ کو تو عمر بھر
نہ شکایت نہ گلہ کرے
میری چاہتیں میری خواہشیں
میری زندگی ہے تیرے لیے
میری رب سے یہی دعا ہے بس
تجھ کو نہ مجھ سے جدا کرے
میرے خواب میرے رت جگے
میری نیند بھی ہے تیرے لیے
میری زندگی جو بچی ہے اب
تیری نام اس کو خدا کرے
مجھے زندگی سے گلہ نہیں
مجھے تجھ سے بھی یہی آس ہے
میں بھی چاہوں تجھ کو سدا یونہی
اگر تو بھی مجھ سے وفا کرے
کمرے میں اکیلی بیٹھی وہ زیان کی گزشتہ باتوں کو یاد کر کے آنسو بہا رہی تھی۔ اسے زیان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس سے یہ سلوک کرے گا، اس طرح اسکو دھتکار دے گا…
اس نے کمرے سے باہر نکلنا چھوڑ دیا تھا اسے کوئی خبر نہیں تھی کون کیا کر رہا ہے؟ وہ بس اپنی ذات میں گم ہو گئی تھی۔ سب کے تلخ رویے کو سوچ کر اس نے کرب سے آنکھیں بند کی۔
۞۞
"بابا جانی میں چاہتا ہوں کہ اسلام آباد کے اپارنمنٹ میں شفٹ ہو جاؤں ویسے بھی بزنس کے سلسلے میں بار بار وہاں جانا پڑتا ہے تو۔"
اس وقت لاؤنج میں صرف شاہزیب اور زیان بیٹھے تھے۔
"ہاں میں تم سے یہ بات کہنے والا تھا کہیں گھوم پھر آؤ۔رشتہ دار تم دونوں کو کھانے پر بلا رہے ہیں اور میں سمجھ سکتا ہوں تم ان حالات میں لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتے تو ہنی مون کے بہانے دعوتوں پر جانے سے بچ جاؤ گے۔"
شاہ زیب نے اپنی راۓ کا اظہار کیا۔
"مگر بابا میں اکیلے جانا چاہتا تھا۔"
زیان منمنایا۔
"جو تم مناسب سمجھو بیٹا مگر اسے بھی ساتھ لے جاتے تو بہتر تھا۔"
شاہ زیب نے دھیمے لہجے میں کہا
زیان نے سر کو ہلکی سی ہاں میں جنبش دی۔
۞۞
وہ بیڈ پر بیٹھی تھی جب ایک جھٹکے سے دروازہ کھلا اور زیان اندر داخل ہوا۔وہ آج کافی دنوں بعد اپنے کمرے میں آیا تھا ایمل کو خوشگوار حیرت ہوئی مگر اسکے تنے ہوۓ اعصاب دیکھ کر وہ سہم بھی گئی تھی۔
"پیکنگ کر لو کل ہمیں اسلام آباد جانا ہے۔"
زیان نے سخت لہجے میں کہا۔
"مگر ک کیوں؟"
اسکی زبان لڑکھڑائی۔
"ہنی مون کے لیے، زیان یزدانی سے شادی کا شوق پورا کر لیا آپ نے اب ہنی مون کا شوق میں پورا کر دیتا ہوں۔"
زیان نے اسکا تمسخر اڑاتے ہوۓ کہا وہ اسے نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہ سکی۔
"اور سنو۔مجھ سے سوال مت کیا کرو جو کہتا ہوں اس پر عمل کیا کرو۔"
زیان اپنی بات کہہ کر جھٹکے سے دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا اس نے لمبی سانسیں لینی شروع کر دی۔
"اس شخص کی نرمی تو کہیں اڑن چھو ہو گئی ہے اب تو غصہ ناک پہ دھرا ہوتا ہے، یہی محبت تھی ان سب کی۔ایک غلطی کی اور محبت جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔۔۔۔
ایسا تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا"
اس نے ماتھے پر امڈنے والا پسینہ صاف کیا اور اپنے کپڑے الماری سے نکال کر بیگ میں رکھنے لگی۔
۞۞
اسلام آباد جانے سے پہلے اسنے رابی اور شاہزیب سے ملنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس سے ملنا تو دور شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
کریم یزدانی سے مل کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔
"بیٹا ان کا ناراض ہونے کا حق ہے انکی بہت سی امیدیں وابستہ تھی تم سے مگر تم نے ان کے اعتبارکو ٹھیس پہنچائی ہے۔میں دعا کروں گا اور سمجھاؤں گا بھی کہ وہ تمہیں معاف کر دیں۔"
کریم یزدانی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے
ہوۓ تسلی دی تھی۔
اس نے روتے ہوۓ کریم یزدانی کو الوداع کہا اور زیان
کیساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئی۔
ایمل کو اپارنمنٹ میں چھوڑ کر زیان کہیں غائب ہی ہو گیا تھا۔
اسلام آباد میں موسم کافی سرد تھا۔ وہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد شال لپیٹ کر بالکنی میں آ کھڑی ہوئی۔
بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی مگر زیان اسے یہاں چھوڑ کر بھول ہی گیا تھا۔
شام کے ساۓ پھیل رہے تھے۔پرندے چہچہاتے ہوۓ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
"یہ زیان کدھر رہ گئے ہیں؟"
اسے پریشانی ہوئی تھی۔ اس نے سیل پر اسکا نمبر ڈائل کیا مگر زیان کا نمبر آف جا رہا تھا۔
"اللہ خیر کرے۔"
وہ بار بار اسکا نمبر ٹرائی کر رہی تھی آخر وہ شال کو اپنے گرد درست کر کے باہر نکلی۔
"کہاں جاؤں یہاں کے راستوں کا بھی مجھے نہیں پتہ"۔
وہ گیٹ کے باہر ٹھنڈے فرش پر بیٹھ کر رونے لگی
کافی دیر بعد اسے زیان کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔
وہ جلدی سے اٹھ کر زیان کی طرف آئی۔
"کہاں چلے گئے تھے آپ اتنی پریشان ہو گئی تھی میں۔" وہ روتے ہوۓ اس سے لپٹ گئی۔
رو رو کر چہرہ سرخ ہو گیا تھا وہ اسے تھام کر اندر لے آیا اسے اپنی غلطی پر ندامت ہوئی اسے اسطرح ایمل کو انجان جگہ چھوڑ کر باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔
"مجھے اکیلا کیوں چھوڑ گئے تھے آپ؟"
وہ آنسو صاف کرتے ہوۓ بولی۔
"کھانا لینے گیا تھا خودکشی کرنے نہیں گیا تھا۔" وہ واپس اپنی جُون میں لوٹ آیا تھا۔
"کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ، اللہ نہ کرے کبھی آپ۔۔۔۔۔"
"بس بس کھانا نکال کر کھاؤ اور سو جاؤ۔"
زیان نے درشتی سے اسکی بات کاٹی۔
وہ کھانے کو ایک نظر دیکھ کر بیڈ پر کمبل بچھا کر لیٹ گئی۔ بھوک تو بہت محسوس ہو رہی تھی مگر دل بھر گیا تھا اسکا۔وہ کافی دیر کمبل میں منہ چھپا کر روتی رہی۔
زیان نے کھانا گرم کر کے کھایا اور ٹیرس پر آگیا۔ وہ بزنس کے سلسلے میں جب بھی اسلام آباد آتا تھا اسی اپارنمنٹ میں ٹھہرتا تھا۔
اس نے دونوں بازو سینے پر باندھے۔سردی سے اسکا جسم کپکپا رہا تھا مگر اسکے دل کا موسم تو باہر کے موسم سے زیادہ سرد تھا۔ وہ چاہ کر بھی ایمل سے نرم رویہ نہیں رکھ پا رہا تھا۔۔۔
ایمل کے آنسو اسکے دل کو تڑپا رہے تھے پگھلا رہے تھے۔مگر ماضی کا نقشہ سامنے آتے ہی اسکا لہجہ چٹان سے بھی سخت ہو جاتا۔لفظوں میں درشتی آجاتی۔خود بخود ہی دل کا شکوہ زبان پر آجاتا مگر زہر سے بھرا ہوا۔جو ایمل کے دل کو لہولہان کر دیتا۔
۞۞
وہ صبح ایمل کے اٹھنے سے پہلے ہی گھر سے چلا گیا تھا۔وہ نیم گرم پانی سے شاور لے کر کچن میں آئی جہاں صرف چاۓ کا سامان پڑا تھا۔
"کتنے بے حس ہیں میں کیا کھاؤں؟ کل سے کچھ نہیں کھایا۔"
وہ روہانسی ہوگئی۔
رات کا ادھ کھلا کھانا سلیب پر پڑا تھا جس پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھی۔اس نے وہ ڈسٹ بن میں ڈالا اور اپنی لیے چاۓ بنا کر کمرے میں آگئی۔
چاۓ پی کر اس نے کمرے کی حالت سیٹ کی اور بور ہونے سے بچنے کے لیے کچن اور بیٹھک کی بھی صفائی کر دی۔
"یہ کیسا ہنی مون ہے؟"
اس نے جمائی لیتے ہوۓ سوچا۔
زیان رات کو گھر آیا تو وہ اسی کا انتظار کر رہی تھی
"کھانا کچن میں پڑا ہے کھا لینا". وہ اپنے حصے کا کھانا کھا چکا تھا۔اسے کھانے کی کہہ کر وہ کمبل لے کر بیٹھک میں چلا گیا۔
ایمل نے جلدی سے سالن گرم کیا اور جب ہاٹ پاٹ کھولا تو آدھی روٹی اسکا منہ چڑھا رہی تھی۔ دل میں آیا کہ ابھی جا کر وہ بھی زیان کے منہ میں ٹھونس آۓ مگر معاملہ بھوک کا تھا اس نے وہی کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
۞۞
"مجھے گھر جانا ہے۔"
جب وہ شام کو گھر آیا تو ایمل نے اس سے کہا۔
اسے یہاں آۓ 15 دن ہو گئے تھے۔پورا دن وہ اکیلی یہاں بور ہو گئی تھی راستوں کا بھی اسے پتہ نہیں تھا کہ باہر کی ہوا کا ہی مزہ لے لے۔
"اتنی جلدی میرے ساتھ رہ کر دل بھر گیا۔تم نے زندگی بھر ہمسفر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔"
زیان مذاق اڑاتے لہجے میں بولا۔
"میں نے ایسا تو نہیں کہا، میں یہاں اکیلے بور ہو جاتی ہوں۔"
ایمل نے انگلیاں مروڑتے ہوۓ کہا
"اب تمہاری باقی کی زندگی ایسے ہی گزرے گی۔۔۔۔
چھوڑ دوں گا کل۔"
زیان نے کچھ توقف بعد کہا۔
"کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتے؟ "
ایمل نے ہچکچاتے ہوۓ کہا۔
ایک پل میں زیان کے اعصاب تن گئے تھے اس نے زور سے مٹھیاں بھینچ لی اور جب بولا تو لہجہ زہر سے بھی کڑوا تھا۔
"نہیں، کبھی نہیں تم معافی کے قابل ہی نہیں ہو۔ تم نے دل کیساتھ میرے اعتبار اور مان کا بھی خون کیا ہے میں چاہ کر بھی کسی کو بہن نہیں بنا سکوں گا۔"
"میں اپنی غلطی مانتی ہوں پلیز معاف کر دیں آپ جیسا کہیں گے وہی کروں گی آپ کے رنگ میں ڈھل جاؤں گی مگر یہ آپ سب کی بے رخی مجھے مار ڈالے گی۔"
وہ رونے لگی تھی۔
مگر زیان جھٹکے سے اٹھا تھا۔
"میری نظر میں تم بے حیا لڑکی ہو اگر بابا کا خیال نہ ہوتا تو ابھی کے ابھی۔۔۔" وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
"تیار رہنا کل چھوڑ آؤں گا گھر۔"
وہ تیزی سے کہتا باہر نکل گیا مگر وہ روتے ہوۓ فرش پر بیٹھ گئی اسکا دل چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر روۓ وہ نادانی میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی۔
۞۞
مری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی
جب چاند ستارے چمک رہے ہوں گے
جب یادوں کے پھول مہک رہے ہوں گے
جب نیند کو نین ترس رہے ہوں گے
میری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی
جب تنہائی سے دل گھبراۓ گا
جب تمہیں اکیلا پن ستاۓ گا
جب کوئی خواب ہی نہیں آۓ گا
جب پھول کتابوں میں رہ جائیں گے
میری پاگل سی محبت تمہیں یاد آۓ گی۔
۞۞
اگلے روز زیان اسے گھر چھوڑ آیا تھا اس نے بھی دل میں ایک فیصلہ کر لیا تھا وہی فیصلہ جو چند برس قبل اسکے باپ شاہ زیب یزدانی نے کیا تھا۔
👇
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment