#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_09
۞۞
گھر میں اسکے سوا ابھی کوئی نہیں تھا وہ آہستگی سے چلتی ہوئی کریم یزدانی کے کمرے میں آئی۔اس حقیقت کو تسلیم کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا وہ سر کو ایک ہاتھ سے مسلتی دراز ٹـٹولنے لگی۔
"کاش نانو نے جھوٹ کہا ہو کاش۔"
وہ دل میں مسلسل دعا کر رہی تھی۔دراز چیک کر کے وہ الماری کیطرف بڑھی ادھر اُدھر الماری میں تلاش کرتے ہوۓ تبھی اسکی نظر البم پر پڑی اسکی تلاش ختم ہو گئی تھی وہ البم لے کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔
البم دیکھتے ہوتے اسکی نظر ایک تصویر پر ٹھہر گئی۔یہ تو زیان بھائی ہیں مگر یہ کیا چچا چچی ۔۔۔۔ وہ جلدی سے اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے فریم اٹھا کر تصویر کو میچ کرنے لگی۔
"یہ تو زیان بھائی ہی ہیں۔"
اس نے باقی تصویریں دیکھی ہر جگہ زیان اس شخص کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا یا اس عورت کی گود میں ہوتا۔
اس نے واپس البم کریم یزدانی کے روم میں رکھا۔
"میں ماما سے کیسے پوچھوں بھائی کے بارے میں؟"
وہ کمرے میں ٹہلنے لگی یہ سوچ سوچ کر اسکا دل و دماغ غم سے پھٹنے لگا تھا کہ زیان اسکا بھائی نہیں ہے۔وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
شام کو رابی آئی تو تب بھی وہ کمرے میں بند تھی۔رابی کو اسے بخار میں تپتے دیکھ کر تشویش ہوئی
"کیا ہو گیا ایمل میری جان۔"
اس نے نرمی سے اسکے تپتے سر پر ہاتھ رکھا۔
"ابھی بابا کو کال کر کے بلاتی ہوں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔" وہ سیل پر شاہزیب کا نمبر ڈائل کرنے لگی
"نہیں ممی مجھے نہیں جانا۔"
وہ بھاری آواز میں بولی۔
"کیوں نہیں جانا بخار میں تپ رہی ہو تم۔اچھا میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں کھا کر میڈیسن لے لینا۔"
رابی اٹھ کر باہر چلی گئی۔
اس نے سختی سے آنکھیں میچ لی۔
۞۞
شام کو گھر میں سبھی افراد موجود تھے سواۓ زیان کے۔ وہ دوستوں کے ساتھ پکنک پر گیا ہوا تھا۔شاہزیب تو اسکی بیماری کا سن کر مچل گئے جلدی سے اسکے کمرے میں آۓ مگر وہ دوا کے زیرِ اثر سو رہی تھی۔اس کی تپتی پریشانی پر بوسے دے کر لاؤنج میں آۓ۔
"آپ کو بتانا چاہیے تھا ربیکا۔میری بیٹی کو کچھ ہو گیا نا تو؟۔۔۔۔"
اس سے آگے وہ سوچ ہی نہ سکا۔
"کچھ نہیں ہوگا شاہ، بچے بیمار ہوتے رہتے ہیں ٹھیک ہو جاۓ گی" رابی کے بجاۓ کریم یزدانی نے بات سنبھالی شاہزیب اس وقت غصے میں تھا کہ رابی نے اسے انفارم کیوں نہیں کیا اگر رابی کچھ الٹا سیدھا کہہ دیتی تو بات بڑھ جاتی۔
"زیان کی کب واپسی ہو گی؟"
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔
"رات کو آجاۓ گا۔"
رابی نے اسکے لیے چاۓ لاتے ہوۓ کہا۔
ٹیبل پر چاۓ رکھ کر وہ بھی ادھر ہی بیٹھ گئی
"ارے بابا ان کو کچھ سمجھائیں اب ضروری تو نہیں انسان ہر وقت صحت مند ہی رہے بیماریاں بھی تو آتی ہیں۔"
رابی نے مسلسل اسکو پریشانی میں دیکھ کر کہا۔
"میری تو سنتا نہیں ہے یہ۔"
کریم یزدانی نے مسکراہٹ دبا کر کہا معلوم تھا وہ ناراضگی ظاہر کریگا اور وہی ہوا بھی
"ارے بابا جانی کب آپ کی بات نہیں مانی شادی آپ کے کہنے پر تو کی تھی ورنہ ابھی میں آزاد ہوتا۔"
شاہزیب نے ناراض سے لہجے میں کہا۔
جس پر کریم یزدانی اور رابی کا مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔
۞۞
صبح اسکا بخار اتر گیا تھا مگر وہ کالج نہیں گئی۔ شاہزیب رابی کو اس کا خیال رکھنے کی تاکید کر کے آفس چلا گیا تھا۔ زیان البتہ سو رہا تھا رات کو اسکی لیٹ واپسی ہوئی تھی۔
ایمل نے فریش ہو کر بلیک اور ریڈ لان کا سوٹ پہنا۔ لائٹ میک اپ کر کے وہ سب سے نظر بچا کر گاڑی لے کر باہر نکل گئی۔
رش ڈرائیونگ کر کے وہ سہیل احمد کے گھر پہنچی ابھی صبح کے دس بجے تھے وہ گاڑی سے اتر کر کے انکے گھر چلی گئی۔
گھر میں سواۓ ناصرہ بیگم کے کوئی نہیں تھا وہ خیریت پوچھ کر برآمدے میں بیٹھ گئی۔
نانو ابھی میں نے ناشتہ نہیں کیا۔وہ کچن میں اسکے لیے چاۓ بنا رہی تھی جب ایمل نے بلند آواز میں کہا۔
ناصرہ اسکے لیے گرما گرم ناشتہ بنا کر لائی۔اس نے کل سے کچھ خاص نہیں کھایا تھا اور بھوک بھی شدید قسم کی لگی ہوئی تھی۔اس نے جی بھر کر ناشتہ کیا۔
"بہت مزیدار قسم کا ناشتہ بنایا آپ نے۔"
اس نے آخری نوالہ منہ میں رکھتے ہوۓ کہا ناصرہ اسکی بات پر ہلکے سے مسکرا دی۔
"ایک بات تو بتائیں نانو۔"
وہ اپنے مطلب کی بات پر آئی جس کے لیے وہ صبح صبح یہاں چلی آئی تھی۔
"ہاں ہاں پوچھو۔"
وہ بھی اسکے ساتھ والی چئیر پر آبیٹھی۔
"زیان بھائی ہمارے ساتھ کیوں رہتے ہیں جب وہ میرے بھائی نہیں ہیں تو؟"
"تم کیوں پوچھ رہی ہو؟"
ناصرہ نے اسکے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا۔
"ویسے میں نے کبھی ان کے ماما پاپا کو ادھر دیکھا نہیں نا۔"
وہ ہڑبڑا گئی۔
"ہاۓ کیا بتاؤں؟ بیچاروں کا احد کی شادی پر ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور موقع پر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔اس کے بعد تمہارے بابا اور ماما نے ہی اس بن ماں باپ کے بچے کو پالا پوسا۔"
ناصرہ نے مصنوعی آنسو صاف کیے۔
"مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو ربیکا نے کچھ نہیں بتایا تمہیں۔"
ناصرہ کو اچنھبا ہوا۔
"ارے ویسے ہی نانو۔ ماما نے بتایا تھا مگر مجھے یقین نہ آیا اس لیے آپ سے تصدیق کی۔"
وہ کافی دیر بے معنی باتیں ان سے کرتی رہی اور پھر اٹھ کر گاڑی میں آ بیٹھی۔
کافی دیر وہ سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑاتی رہی گھر پہنچی تو لاؤنج میں رابی رو رہی تھی اور زیان پریشانی سے نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
"کیا ہوا؟"
ایمل نے اندر آتے ہی پوچھا رابی نے آگے بڑھ کر اسے بانہوں میں بھینچ لیا ۔
"کہاں چلی گئی تھی تم اتنی پریشان ہو گئی تھی میں۔"
رابی نے اسے روتے ہوۓ جھنجوڑا۔
"دل گھبرا رہا تھا تو باہر تازہ ہوا لینے گئی تھی۔"
وہ بمشکل مسکرا سکی۔
"دادا جان کہاں ہیں؟" اس نے کریم یزدانی کو وہاں نہ پاکر کہا۔
"آفس گئے ہیں گھر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے ہیں۔"
رابی نے آنسو صاف کیے۔
"تم ادھر ہی بیٹھو میں تم دونوں کے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔"
وہ رابی کو منع نہ کر سکی رابی اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔
"کہاں چلی گئی تھی ایمی کی بچی؟ زیان اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا۔مگر وہ کچھ بول نہ سکی ایک ہی بات اسکے ذہن میں گونج رہی تھی۔
"گھر میں لڑکا ہوتے ہوۓ وہ کیوں لڑکی کیوں کہیں اور بیاہے گی"
اس کا دل زور سے دھڑکا اس نے جلدی سے زیان سے خود کو الگ کیا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیر بعد ہی رابی ان دونوں کے لیے ناشتہ لے آئی زیان نے پیٹ بھر کر ناشتہ کیا مگر اس نے بےدلی سے ایک دو نوالے لیے کیونکہ وہ پہلے ہی ناشتہ کر چکی تھی۔
۞۞
اگلے چند دن اسے اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں لگے تھے نظر کا زاویہ بدل گیا تھا اور دل کچھ اور ہی سمجھنے لگا تھا۔
شام کا وقت تھا وہ لان میں جامن کے درخت کے ساتھ لگے جھولے پر بیٹھی زور زور سے جھولا جھول رہی تھی جب ہوا اسکے وجود سے ٹکراتی تو عجیب سی سرشاری بخشتی۔
"تو کیا ماما میری شادی زیان بھ۔۔۔۔"
وہ اس سے آگے سوچ ہی نہ سکی دل کسی اور ہی لے پر دھڑکنیں لگا تھا۔
"یہ بات ماما نے مجھ سے کیوں چھپائی؟"
بہت سے سوال جو اسکے دل و دماغ سے اٹھ رہے تھے مگر وہ جواب دینے سے قاصر تھی۔
وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی اتنے دنوں سے کالج کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا نہ بکس کھولی تھی اب وہ بیڈ پر کتابیں پھیلاۓ گزشتہ دنوں کا ہوم ورک کرنے لگی تھی۔
"کیا کر رہی ہے میری ایمی۔"
زیان نے کمرے میں جھانکا۔
"کچھ نہیں بھ بھائی۔"
نہ جانے کیوں ایمل کی زبان اسے بھائی کہتے ہوۓ لڑکھڑائی۔
"طبیعت ٹھیک ہے نا؟"
وہ اسکے پاس آیا اور بیڈ کی پائنتی بیٹھ گیا
"جی ٹھیک ہے۔"
اس کی نظریں خود بخود ہی جھک گئی۔ سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھی اور ماتھے پر پسینہ امڈ آیا تھا۔
"اچھا تم تو بزی ہو میں بعد میں آتا ہوں خبر لینے۔"وہ مسکراتا ہوا باہر نکل گیا ایمل نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس نے پسینہ صاف کیا اور سانسیں بحال کرنے لگی۔
"یا اللہ! یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟"
وہ زیان سے کترانے لگی تھی وہ جب بھی سامنے آتا اسے ناصرہ بیگم کی کہی ہوئی بات یاد آجاتی "لڑکے کے ہوتے ہوۓ وہ کیوں بیٹی کو کہیں اور بیاہے گی؟"
۞۞
آسمان پر ہلکے سیاہ بادل چھاۓ تھے وہ ٹیرس پر بھاپ اڑاتی چاۓ کا مگ تھامے مسلسل اس کی سوچوں میں گم تھی۔تبھی اسکی نظر دالان میں پیڑ کے نیچے کرسی پر بیٹھے زیان پر پڑی۔وہ اب کافی حد تک اس حقیقت کو تسلیم کر چکی تھی۔
"کیا ماما بھی ایسا چاہتی ہیں مگر انہوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا" اس نے خود سے پوچھا مگر جواب ندارد۔
وہ نیچے زیان کے پاس آئی
"ہیلو۔"
وہ لہراتی ہوئی اسکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی وہ اسے بھائی کہنا چھوڑ چکی تھی۔
"تمہاری ہی کمی تھی۔"
وہ کتاب پڑھ رہا تھا جو اس نے ٹیبل پر رکھی۔
"چلیں آئس کریم کھانے؟" ایمل نے بادلوں سے ڈھکے آسمان کو دیکھا۔
"اس موسم میں، میں نہیں جا رہا۔"
اس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
"اسی موسم میں تو مزہ ہے چلیں نا پلیز۔"
وہ اٹھ کر اسکا بازو کھینچنے لگی مجبوراً زیان کو اٹھنا پڑا۔
"اگر بیمار ہوئی نا تو میں ماما کو بتا دونگا۔"
زیان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوۓ کہا۔
"آپ بتائیں گے ماما کو۔"
اس کی آنکھیں پھیلی۔
"ہاں۔بتا دونگا تم اپنے بھائی کی کوئی بات نہیں سنتی۔چھے سال بڑا ہوں تم سے ایمی۔"
وہ ناراض لہجے میں بولا جبکہ اس کے "اپنے بھائی" کہنے پر ایمل کو سخت برا لگا وہ چپ ہو کر ونڈواسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
آئس کریم کھانے کے بعد ایمل نے لانگ ڈرائیو پر چلنے کی ضد کر دی۔
"ابھی موسم بہت خراب ہو رہا ہے ایمی ضد نہ کرو۔"
اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا کو بارش برسانے کو بے تاب تھا۔
"اسی موسم کا تو مزہ ہے۔ ہلکی ہلکی بارش ہو آپکے پاس پسندیدہ شخص ہو اور بہت سی باتیں ہوں۔"
وہ اک ادا سے بولی۔
"تم نہیں سدھرو گی۔"
اس نے غصے سے گاڑی اسٹارٹ کی جبکہ ایمل اسکے انداز پر کھلکھلائی۔
"کبھی کبھی مجھے لگتا ہے آپکو مجھ سے ذرا سا بھی پیار نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں مانتے۔"
ایمل نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔
زیان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی اسکا سر ڈیش بورڈ سے لگتے لگتے بچا۔
"تم نے ایسا سوچا بھی کیوں؟ تم جان سے بھی عزیز ہو مجھے خبردار کبھی ایسا سوچا تو۔"
وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوۓ بولا اور اسکے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ آگئی۔
واپسی پر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی وہ دونوں مسلسل خاموش تھے۔
"ایک بات پوچھوں؟"
اس نے زیان کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"ہاں کہو۔"
وہ احتیاط سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔
"آپ کو کیسی لڑکیاں پسند ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ کس طرح کی لائف پاٹنر چاہتے ہیں؟"
ایمل نے نظریں چراتے ہوۓ کہا۔
"مجھے تو اپنی گڑیا جیسی لڑکیاں پسند ہیں، ہنستی مسکراتی ہوئی۔"
وہ اس کی بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا۔
"اور لائف پاٹنر اس میں بہت سی خوبیاں ہونی چاہیے"
اس نے مسکراتے ہوۓ کہا
"کون کون سی خوبیاں؟"
ایمل نے ایک اور سوال داغا۔
"خوش اخلاق ہونی چاہیے، بڑوں اور بزرگوں کی عزت و احترام کرنے والی اور سب سے بڑی اور اہم بات ایمان اور حیا والی۔"
زیان نے مسکراتے ہوۓ کہا
وہ بھی کھلکھلائی۔
اس وقت وہ بھول چکی تھی کہ یہ وہی زیان ہے جسے چند ماہ پہلے وہ "بھائی بھائی" کہتے نہ تھکتی تھی مگر وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر چکی تھی اس نے لوگوں کی باتوں پر بغیر کسی تحقیق کے کان دھر لیے تھے۔
بارش کے برسنے میں اب تیزی آتی جا رہی تھی۔وہ سوچوں میں اسقدر محو تھی کہ گاڑی پورچ میں رکی تو وہ سوچوں سے باہر نکلی۔
گاڑی سے گھر کے رہائشی حصے کی طرف جاتے ہوۓ وہ مکمل بھیگ چکے تھے۔
لاؤنج میں رابی انہی کی منتظر کھڑی تھی دونوں کو بھیگا ہوا آتے دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی۔
👇👇
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment