#تیری_کمی_ہے_ساائیاں
#ازقلم_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_8
۞۞
ایگزام سے فارغ ہو کر ایمل نے زیان سے ڈرائیونگ سیکھ لی اب تو اسے پر لگ گئے تھے وہ سارا دن گاڑی کیساتھ غائب رہتی ۔رابی کچھ بولتی تو شاہ زیب اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیتا کہ "ایک ہی تو بیٹی ہے ہماری" مگر اسکا دل ایمل کیطرف سے بہت پریشان تھا۔
میٹرک کا رزلٹ اسکا شاندار رہا تھا اور اسے شہر کے بڑے کالج میں ایڈمیشن بھی مل گیا تھا وہ اپنی گاڑی لے کر کالج جاتی تھی۔
وہ کلاسس اٹینڈ کر کے کیفے ٹیریا آگئی برگر اور مینگو جوس لے کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور برگر چٹنی میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگی تبھی کالج کا سینئر جنید وہاب اس کے پاس آیا۔
"ہیلو۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔"
وہ اس کے بلکل سامنے کھڑے بیٹھنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔
"بیٹھ جاؤ۔"
وہ جوس کا گھونٹ بھرتے ہوۓ بولی۔
جنید اسکے سامنے بیٹھا تھا مگر وہ بے نیازی سے برگر سے انصاف کرتی رہی۔ ریپر وغیرہ ڈسٹ بِن میں ڈال کر وہ کیفے سے باہر نکلی۔اس کے پیچھے جنید بھی باہر آیا تھا۔
"ہیلو میڈم! بات تو سنو۔"
"پہلی بات یہ کہ میں میڈم نہیں اسٹوڈنٹ ہوں اور دوسری بات جو کہنا ہے جلدی کہو۔"
وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر گویا ہوئی پل بھر کے لیے جنید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا گئی.
"کوئی لطیفہ سنایا ہے میں نے۔"
وہ تو اسکی ہنسی دیکھ کر جل بھن گئی.
"نہیں۔کہنا یہ تھا کہ آپ سے دوستی کرنی ہے۔"
جنید نے جلدی سے کہا.
"واہ کتنی آسانی سے کہہ دیا دوستی کرنی ہے شکل دیکھی ہے اپنی؟ اگر میں نے بھائی کو بتا دیا نا تو ٹانگیں توڑ کر گلے میں لٹکا دینگے۔"
وہ بپھر گئی تھی.
"بات میں نے منہ سے کہی ہے اور تڑواؤ گی ٹانگیں۔"
وہ اسکی باتوں کو انجواۓ کر رہا تھا اس بار وہ کچھ بولنے کی بجاۓ اسے غصے سے گھورتی رہی.
"تمہارا بھائی توپ چیز ہے کیا جو ٹانگیں توڑ دے گا میری۔"
جنید نے اسکے غصے میں اضافہ کیا
"ہمت ہے نا تو کل ادھر ہی ملنا۔ یہ جو دانت باہر نکلے ہوۓ ہیں نا اندر کو دھنس جائیں گے۔"
وہ پاؤں پٹختی اپنے ڈیپارنمنٹ کیطرف بڑھی.جنید کے قہقہے نے اس کا دور تک پیچھا کیا۔
گھر آکر وہ بے چینی سے زیان کا انتظار کرنے لگی اور جب وہ آیا بھاگتی ہوئی اسکے گلے لگ گئی۔
"بھائی آج آپ نے دیر کر دی۔"
اس نے اسکے گلے میں بازو ڈال کر شکوہ کیا
"اوں ہوں۔۔۔۔لگتا ہے میری ایمی کو آج شدت سے میرا انتظار تھا۔"
وہ اسکے لاڈ اٹھاتے ہوۓ بولا۔
"کل آپ میرے ساتھ کالج جائیں گے تیار رہیے گا ہاں۔" وہ اسکے ساتھ لگی لاؤنج میں آئی۔
"کیوں بھئی میں کس لیے چلوں؟"
وہ حیران ہوا۔
"بس کل معلوم ہوجائیگا۔"
وہ منہ بسور کر بولی۔
"اچھا میں فریش ہو آؤں۔"
وہ اسے چھوڑتا اپنے بیڈ روم کیطرف بڑھا۔
"ایمل۔"
رابی جو کب سے کھڑی انہی کو دیکھ رہی تھی اسے آواز دی
"جی ممی۔"
"میرے کمرے میں آؤ۔"
وہ غصہ کنٹرول کرتے ہوۓ بولی اسے ایمل کا اسطرح زیان کے ساتھ لپٹنا گلے لگنا بالکل پسند نہیں تھا۔یہ بات ایمل کے سوا سبھی جانتے تھے کہ زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے۔
"بولیے۔"
وہ اسکے کمرے میں آکھڑی ہوئی۔
"کتنی بار بیٹا منع کیا ہے اسطرح بھائی سے لپٹتے نہیں ہیں تم اب بڑی ہو گئی ہو چھوٹی سی بچی نہیں ہو۔"
رابی نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
"او ہو ممی وہ میرے بھائی ہیں اور میری سب کلاس فیلوز اپنے بھائی سے ایسے ہی پیار کرتی ہیں۔ان سے ناز اٹھواتی ہیں۔"
اس نے رابی کی بات کو ہلکا لیا تھا۔
"مگر بیٹا وہ ہے تو ایک مرد ہی۔۔۔۔۔"
رابی نے اسے سمجھانا چاہا
"مگر وہ میرے تو بھائی ہیں آپ کے ذہن میں نہ جانے کیا چلتا رہتا ہے ممی۔"اس نے رابی کی بات کاٹی۔اسکا موڈ آف ہوگیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
۞۞
اگلے دن وہ زیان کو لے کر کالج گئی تھی۔اسے سامنے ہی وہ شخص نظر آگیا تھا جس سے اسکی لڑائی ہوئی تھی۔
"وہ رہا بھائی بندر۔"
اسنے انگلی سے جنید کیطرف اشارہ کیا۔وہ زیان کو لے کر اسکی طرف بڑھی۔
"ارے جنید۔۔۔۔"
زیان اور وہ بغل گیر ہو گئے جب کے وہ منہ کھولے حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"آپ اس شخص کو جانتے ہیں بھائی؟"
وہ مراقبے سے نکلی۔
"ارے یہ میرا بہترین دوست رہ چکا ہے اور آج ملا ہے۔"
زیان نے خوشی سے بتایا۔
"خبر دار جو اسے دوست کہا تو۔ یہ کل آپ کے بارے میں۔برا بھلا بول رہا تھا۔"
ایمل نے جنید کیطرف غصیلی نظر سے دیکھا اور زیان کا بازو پکڑ کر اسے کھینچنے لگی۔
"کیا ہو گیا ایمل جاؤ کلاس میں۔ میں واپس جا رہا ہوں۔"
زیان کو غصہ آگیا تھا اسے ایمل سے اسطرح کی بدتمیزی کی نہیں توقع تھی۔
ایمل زیان کو غصے میں دیکھ کر پاؤں پٹختی اپنے ڈیپارنمنٹ کی طرف بڑھ گئی وہ جانتا تھا ایمل ناراض ہو چکی ہے۔مگر وہ اسے نظرانداز کر کے جنید کیطرف متوجہ ہو گیا۔
مگر شام کو زیان نے اسے آئس کریم کھلانے کا لالچ دے کر منا لیا تھا وہ اپنی جان سے عزیز بہن سے زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتا تھا۔
۞۞
وہ بیڈ پر اپنی کتابیں پھیلاۓ نوٹس بنا رہا تھا اور ساتھ نمکو اور چپس سے بھی پورا پورا انصاف کر رہی تھی تبھی دروازہ ناک کر کے رابی اندر داخل ہوئی۔
"کیا کر رہی ہے ماما کی گڑیا۔"
رابی نے پیار سے کہا۔
"اسٹڈی کر رہی ہوں ماما۔" وہ رابی کو کبھی ماما کہتی تھی اور کبھی ممی۔
"کل ایک پارٹی پر جانا ہے سوچا تمہیں بھی ساتھ لے چلوں گی۔" رابی نے کہا۔
ایمل تو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتی تھی ایک دم سے اچھل پڑی
"کہاں ماما؟"
"منان نے قراٰن مجید ختم کر لیا ہے نا اس سلسلے میں حرا کے سسرالیوں نے تقریب رکھی ہے کل تو سنڈے ہے تم بھی چلنا اگر موڈ ہوا تو۔" رابی نے اسے تفصیل سے بتایا۔
کچھ سوچتے ہوۓ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ربیکا کا دل ایمل کیطرف سے ہر وقت خوف سے لرزتا رہتا تھا وہ حد سے زیادہ پر اعتماد تھی اور معصوم بھی۔اچھے برے کو سمجھتی ہی نہیں تھی شاید یہ سب کا لاڈ پیار تھا۔
۞۞
اگلے دن وہ رابی کیساتھ تقریب میں آئی تھی۔لان کے پنک اور وائٹ قمیص شلوار میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔سب رشتہ داروں سے مل کر وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
زرق برق لباس پہنے ہنستی کھلکھلاتی اردگرد گھوم رہی تھی۔کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ یہ ختمِ قراٰن پاک کی تقریب ہے اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے شادی کے فنکشن میں آئی ہے۔حرا خود بھی چمکتا دمکتا لباس پہنے مہمانوں کو ریسیو کر رہی تھی
اسکے عقب میں چند عورتیں اور ناصرہ بھی بیٹھی ہوئی تھی۔تبھی ان میں سے ایک عورت بولی۔
"یہ رابی کی بیٹی ہے نا ماشاءاللہ جوان ہو گئی ہے" اسکے ہونٹوں پر بے اختیار مسکراہٹ چھا گئی
"ایک بیٹا بھی ہے اسکا" وہی عورت پھر بولی
"نہیں ایک ہی بیٹی ہے اسکی۔" ناصرہ نے جواب دیا تھا۔ایمل کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔
"مگر میں نے تو سنا ہے اسکا بیٹا بھی ہے اس سے بڑا۔" دوسری عورت بھی بولی تھی نہ جانے یہ عورتیں کیوں دوسروں کی زندگیوں پر دھڑادھڑ تبصرے کرتی ہیں۔
"ارے کہاں وہ تو اسکے مرحوم دیور کا بیٹا ہے وہ تو بڑاپن ہے ربیکا کا جو اسے بیٹی سے بھی زیادہ اہمیت دیتی ہے۔" ناصرہ کے الفاظ نے اسکے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا۔
"منگنی وغیرہ کر دی ہے یا ابھی نہیں کی؟" اب ایک اور سوال داغا گیا تھا جس کے جواب میں ناصرہ نے جو بات کہی ایمل کے اوساں خطا کرنے کے لیے کافی تھی۔
"ابھی تو کہیں بات نہیں ہوئی، گھر میں جوان بیٹی ہے اسکی مجھے لگتا ہے وہ زیان کا رشتہ اپنے گھر ہی کرے گی۔لڑکا گھر میں ہوتے ہوۓ وہ کیوں کہیں اور لڑکی بیاہے گی۔" لہجہ زہر سے بھی زیادہ کڑوا تھا۔
وہ تیزی سے اٹھ کر رابی کے پاس آئی ۔
"ماما میں گھر جا رہی ہوں۔"
"او کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟" رابی کو پریشانی ہوئی تھی مگر وہ اس وقت جواب دینے کی پوزیشن می نہیں تھی
"ڈرائیور کو بھیج دونگی آپکو پک کر لے گا۔" وہ یہ کہہ کر رابی کو حیران پریشان چھوڑ کر باہر نکل گئی تھی۔
۞۞
وہ رش ڈرائیونگ کر کے گھر پہنچی تھی ڈرائیور کو رابی کا پک کرنے کا کہہ کر وہ کمرے میں آگئی۔اسکا دماغ درد سے پھٹا جا رہا تھا اس نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ زیان اسکا بھائی نہیں کزن ہے۔
وہ منہ بازوں میں چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی "ایسا نہیں ہو سکتا نانو جھوٹ کہہ رہی تھی"
"مگر وہ جھوٹ کیوں بولیں گی مجھے جاننا چاہیے اتنا بڑا سچ مجھ سے کیوں چھپایا گیا"
اس نے پاس پڑا موبائل اٹھا کر دیوار پر مارا۔
"ماما بھی تو زیان بھائی سے گریز کرنے کا کہتی ہیں کوئی نا کوئی بات تو ہے" اسے رابی کی بات یاد آئی۔
کئی وسوسے دل میں پیدا ہو رہے تھے۔
"کیا ہوا میرے چچا کا بیٹا ہے مگر۔۔۔۔"اچانک اسکے ذہن میں ایک خیال آیا وہ جھٹکے سے بیڈ پر سے اتری اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
👇👇👇👇👇👇
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment