#قسط_نمبر_4
۞__________۞۞_________۞
صبح خلافِ معمول اسکی آنکھ دیر سے کھلی۔شاور لے کر وہ زیان کے روم کیطرف بڑھی اور اسے اسکول کے لیے ریڈی کیا جب تک نازو (جو گھر کی ملازمہ تھی) اس نے ناشتہ بھی لگا دیا۔ ناشتے کی ٹیبل پر کریم یزدانی رابی اور زیان ہی موجود تھے۔
وہ اپنے ساتھ ساتھ زیان کو بھی ناشتہ کروا رہی تھی۔
"شاہ نہیں اٹھا؟ "
کریم یزدانی نے اخبار کی سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوۓ پوچھا۔
"نہیں میں جگاتی ہوں ابھی۔"
اس نے بریڈ کا ٹکڑا زیان کے منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا۔
"رہنے دو آج میں ہی چکر لگا لیتا ہوں آفس کا، کتنے دنوں سے ارادہ باندھ رہا تھا۔"
وہ کرسی چھوڑ کر تیار ہونے کے لیے اپنے کمرے کیطرف بڑھے۔
زیان کو اسکول اور کریم یزدانی کو آفس کے لیے روانہ کر کے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
شاہ زیب ابھی بستر میں ہی دبکا ہوا تھا۔رابی اسکے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی اور کافی دیر اسکے چہرے کے ہر نقش کو اپنے اندر اتارتی رہی۔
"شاہ صاحب۔ اٹھیں نا۔"
اس نے دھیمے سے اسے بلایا
وہ سنی ان سنی کرتا آنکھوں پر بازو رکھ کر سو گیا۔
"اٹھیں نا، بابا بھی آفس چلے گئے ہیں۔"
اس نے پھر آواز دی۔
"سونے دو یار جاؤ اپنا کام کرو۔"
وہ نیند سے بوجھل آواز میں گویا ہوا۔
"نہیں میں اکیلی بور ہو رہی ہوں آپ اٹھ جائیں۔"
اس نے آنکھوں سے اسکا بازو ہٹایا۔
"کیا ہے یار سونے کیوں نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔(اس نے سخت لہجے میں کہا)۔۔۔۔ٹی وی لگا لو مجھے آرام کرنے دو۔"
وہ غصے سے کہہ کر کروٹ بدل کر سو گیا وہ لب کاٹتی آنکھوں میں آنسو بھر کر لاؤنج میں آگئی۔
اسکے جانے کے بعد وہ اٹھا
" بابا جان کو بہت جلدی تھی شادی کی،سکون غارت کر دیا میرا"
وہ بڑبڑاتے ہوۓ واشروم کیطرف بڑھا۔
فریش ہو کر نیچے آیا تو وہ لاؤنج میں بیٹھی آنسو بہا رہی تھی اسے دیکھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔وہ لاؤنج میں بیٹھ کر اسی اخبار کی ورق گردانی کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے کریم یزدانی پڑھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر بعد رابی اسکے پاس ناشتے کی ٹرے لے کر آئی اور اسکے لیے ٹیبل پر ناشتہ لگایا۔
"سنو!۔"
وہ واپس کچن کی طرف مڑنے لگی تھی جب شاہزیب نے اسے روکا
"جی۔" وہ اسکی طرف مڑی۔
"ناشتہ کیا ہے آپ نے؟"
وہ بریڈ پر جیم لگاتے ہوۓ بولا۔
"جی کر لیا۔"
وہ واپس مڑنے لگی تھی جب شاہزیب نے اسے اپنی طرف بلایا۔
"جی۔" وہ اسکے پاس آکر بولی۔
"بیٹھو اور میرے ساتھ ناشتہ کرو۔"
شاہزیب نے اسکا ہاتھ پکڑ اسے اپنے ساتھ بٹھایا۔
اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی شاہزیب نے اسے اپنے ساتھ ناشتہ کروایا۔
"چھوٹی چھوٹی باتوں پر رویا مت کرو۔"
وہ اسے نرمی سے کہہ رہا تھا اور سر جھکاۓ سن رہی تھی۔ وہ تو صابر و شاکر تھی پھر نہ جانے کیوں شاہزیب کی ذرا سی ڈانٹ پر اسکے آنسو امڈ آتے تھے۔
"اچھا میں تیار ہو کر آفس جا رہا ہوں تم ٹی وی ہے اسٹڈی ہے وہاں وقت گزار لیا کرو بور کیوں ہوتی ہو؟"
وہ اسکے سر پر ہلکی سی چپت لگاتا کمرے کیطرف چلا گیا۔یکدم ہی رابی کا دل اسکا آفس جانے کا سن کر اداس ہو گیا تھا۔ جو لوگ دل میں بس جائیں یا بسنے لگتے ہیں پھر جی چاہتا ہے وہ ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہیں ہمارے آس پاس اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں اور شاید رابی کے دل میں بھی شاہزیب بس گیا تھا یہ اداسی بے جا نہ تھی۔
۞۞
☜ماضی
جب اسکی آنکھ کھلی تو دن چڑھ گیا تھا وہ نہ جانے کتنے گھنٹے سوتا رہا۔لگاتار سونے کی وجہ سے اسکے آنکھوں کے پپوٹے سوج گئے تھے۔وہ فریش ہو کر نیچے آیا۔
لاؤنج میں بیٹھے وہ تینوں کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے اسے دیکھ کر سب کی ہنسی کو بریک لگا۔
"بھیا آپ تو مجھ سے بات نہ کرنا۔ کل آپکی وجہ سے مجھے دوستوں کے سامنے اسقدر سبکی ہوئی سبھی کہہ رہے تھے تمہارے بڑے بھیا نظر نہیں آرہے اب میں انہیں کیا کہتا وہ اندر کمرے میں خراٹے لے رہے ہیں۔"
ذیشان نان اسٹاپ شروع ہو گیا تھا ایمل نے اسے آنکھ کے اشارے سے مزید بولنے سے منع کیا۔
"بس ذرا طبیعت خراب تھی میری۔رئیلی سوری۔"
وہ اسکے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔ایمل ذیشان کے ساتھ والے صوفے پر براجمان تھی اور کریم یزدانی بالکل سامنے۔
"اوہ کیا ہوا بھیا؟"
اس نے شاہزیب کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
"آپکو تو ٹمریچر ہو رہا ہے۔"
اس نے ہاتھوں کی گرماہٹ محسوس کر کے کہا
"نہیں بس ذرا سا سر درد۔"
"شاہ اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔" کریم یزدانی نے بھی اسکے چہرے کا جائزہ لیتے ہوۓ کہا۔
"نہیں ٹیبلیٹ لونگا تو آرام آجاۓ گا اتنا لمبا چوڑا مسٔلہ نہیں ہے۔" شاہزیب نے ذیشان سے ہاتھ چھڑواتے ہوۓ کہا۔
"انکل سہی کہہ رہے ہیں بھیا۔"
ایمل پہلی بار اس سے براہ راست مخاطب تھی۔
"میڈیسن لونگا آرام آجاۓ گا۔"
اس نے مسکرانے کی کوشش کی
اچھا میں خانساماں سے آپ کے لیے کھانے کا کہتی ہوں وہ اٹھ کر کچن کیطرف بڑھی جبکہ ذیشان شاہزیب کا ہولے ہولے سر دبا رہا تھا۔
۞۞
کھانا کھا کر اسکا جی متلانے لگا تھا شاید بخار کیوجہ سے، وہ چہل قدمی کرنے کے لیے لان میں انکل آیا۔تھوڑی دیر چل کر جب اسکی طبیعت تھوڑا بہتر ہوئی تو وہ دالان میں پیڑ کے نیچے ایک کرسی پر بیٹھ گیا، تبھی بے ارادہ طور پر اسکی نظر ذیشان کے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پر اٹھ گئی۔
ذیشان اسکے ہاتھ پکڑے نہ جانے کیا کہہ رہا تھا جس پر وہ خوب کھلکھلا رہی تھی۔
شاہزیب نے کرب سے آنکھیں بند کی۔ہمیشہ اس نے ایمل کو ہمسفر کے طور پر سوچا تھا۔ اسی کے خواب سجاۓ تھے۔ اب ایمل کو بھابی تسلیم کرنے میں اسے دقت محسوس ہو رہی تھے۔ سارے خواب شیشے کی طرح ٹوٹ کر پاش پاش ہو گئے تھے۔جو اسے اندر ہی اندر زخمی کر رہے تھے۔اسکے تو وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ذیشان کی شادی ایمل یعنی اسی کی فیری سے ہو رہی ہے ورنہ وہ پاکستان آنے کی غلطی نہ کرتا۔
اس نے چکراتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھاما۔
"یا خدا! یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ کیوں میرے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے میں کیسے یہ سب برداشت کروں میں بہت کمزور ہوں یااللہ میری آزمائش کم کر دیں۔"
اس نے تڑپ کر التجا کی
ذیشان اسے ہاتھ ہلا رہا تھا اور شاید کچھ کہہ بھی رہا تھا مگر شاہزیب کو اسکی آواز نہ سنائی دی جواباً اس نے بھی ہاتھ اٹھا کر ہلایا
"میں فنا ہو جاؤں گا مگر کبھی اپنے بھائی کی خوشیاں نہیں چھینوں گا۔ان دونوں کی خوشی میں میری خوشی ہے میں ان کی زندگی سے دور چلا جاؤں گا۔" اس نے سوچتے ہوۓ کرسی چھوڑی اور اپنے کمرے کیطرف چلا گیا۔
ان کی آنکھوں کی اجازت مار دے گی
مجھے اس بار ہجرت مار دے گی
ہنسی میں دکھ چھپا لیتا ہوں اپنے
کسی دن یہ سہولت مار دے گی
کبھی سوچا نہیں تھا تیرے ہوتے
کوئی تازہ محبت مار دے گی
کسی کو اپنا دشمن ہی بنا لوں
وگرنہ یہ فراغت مار دے گی
محبت کرنے سے پہلے پتہ تھا
قبیلے کی روایت مار دے گی
حسنؔ یہ وقت آنے پر کھلے گا
کسے کس کی ضرورت مار دے گی
۞۞
طبیعت بہتر ہوتے ہی اس نے کریم یزدانی سے لندن واپس جانے کی بات کر دی۔اگرچہ وہ واپس نہ جانے کے لیے آیا تھا مگر روز روز ایمل کو دیکھ کر خود کو اذیت نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی کسی کو شک و شبہات میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔
کریم یزدانی اسکی بات سن کر بھڑک اٹھے۔
"تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے شاہ ابھی تمہیں آۓ ایک ماہ نہیں ہوا اور تم واپس جانے کی بات کرتے ہو ہوش ٹھکانے ہیں یا نہیں۔"
بابا جانی میرا جانا ضروری ہے میں ذیشان کی ناراضگی کیوجہ سے آیا تھا اور اب۔۔۔۔"
اس نے منمناتے ہوۓ کہا
"شادی تو تم نے اسکی اٹینڈ کی نہیں۔:کریم یزدانی نے اسکی بات کاٹ کر طنزاً کہا
"ذیشان اور ایمل ہنی مون پر جانا چاہتے ہیں جب تک انکی واپسی ہوتی تم یہی رہو گے۔"
کریم یزدانی نے حتمی انداز میں کہا وہ دونوں اسوقت لاؤنج میں بیٹھے تھے ذیشان اور ایمل احد کیطرف گئے ہوۓ تھے۔ شاہزیب نے موقع اچھا جان کر واپسی کی بات چھیڑ دی تھی۔
"میں تو چاہتا تھا تم لندن سے واپس آؤ تو تمہاری بھی شادی کر دوں آخر کب تک ایسے اکیلے رہو گے۔"
کریم یزدانی نے اسے گم سم دیکھتے ہوۓ کہا۔
"میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔"
یکدم اسکے دماغ کی رگیں تن گئی تھی
"کیوں الرجک ہو شادی سے ؟تم سے ذیشان کتنے برس چھوٹا ہے اور وہ اپنا گھر بسا چکا ہے۔"
کریم یزدانی نے اسے ذیشان کی مثال دے کر کہا۔
"مجھے نہیں کرنی شادی بس اور اگر اب آپ نے یہ ٹاپک چھیڑا تو بغیر بتاۓ کہیں بھی چلا جاؤں گا۔"
وہ سختی سے کہتا اپنے کمرے چلا گیا اور کریم یزدانی حیرانگی سے اسکا یہ روپ دیکھ رہے تھے انہیں بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
وہ لائٹ آف کیے کرسی پر بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
یس۔۔
تبھی دروازہ کھول کر کریم یزدانی اندر داخل ہوۓ کمرہ سگریٹ کر دھویں سے بھرا ہوا تھا انہوں نے لائٹ آن کی اور تاسف سے شاہزیب کو دیکھا
"یہ سب کیا ہے شاہ؟"
کریم یزدانی اسکے پاس آۓ وہ نظریں جھکا گیا تھا۔
"تم نے کب سے سگریٹ پینے شروع کر دیے؟"
کریم یزدانی نے نیچے مسلے ہوۓ سگریٹ دیکھ کر کہا وہ ہنوز خاموش رہا۔
"کیا بات ہے شاہ؟" انہوں نے پاس آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا "کون سی آگ تمہارے اندر دہک رہی ہے جس کے شعلے تمہاری آنکھیں اگل رہی ہیں۔"
"بابا آپ نہیں سمجھ سکتے، میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔" اس نے بے بسی سے کہا۔
کچھ دیر کریم یزدانی اس کو دیکھتے رہے پھر اسے لندن جانے کی اجازت دے کر کمرے سے باہر نکل گئے۔
"لندن سے واپسی پر خوش باش تھا پھر آخر ایسا کیا ہوا جو اتنا ڈسٹرب ہے۔"
وہ کریم یزدانی کو بھی بے چین کر گیا تھا انہیں بھی گہری سوچوں میں دھکیل گیا تھا۔
۞___________۞۞__________۞
جاری ہے۔
No comments:
Post a Comment