Wednesday, 3 July 2019

Teri Kami hai Saiyan By Bint-e-Nazeer Episode#3

Teri Kami hai Saiyan Written By Bint-e-Nazeer||Episode#3


#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_3
۞_________۞۝۞________۞
"رہ گئے نہ حیران۔اب منہ دکھائی دیں۔"
ذیشان نے اسے گم سم دیکھ کر کہا۔
"ان کے شایانِ شان تو میرے پاس کچھ نہیں۔ کچھ حقیر سے تحفے لایا ہوں وہ بجھوا دونگا۔"
شاہزیب نے رک رک مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے۔وہ اس پر ایک نظر ڈال کر دروازے سے ہی پلٹ گیا تھا۔
"تیاری مکمل ہو گئی ہو تو چلیں۔"ذیشان نے اسے مخاطب کیا
"ہاں۔"
اس نے گھنیری پلکیں جھکا کر کہا 
ذیشان اس پر پیار بھری نظر ڈال کر باہر نکل گیا۔
۞۝۞
کمرے میں آکر وہ پہلے واش روم گیا اور چہرے پر یخ پانی کے چھینٹے مارے۔کچھ دیر وہ دل پر ہاتھ رکھ اسے قابو کرتا رہا اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگا۔
"اپنی باری کا انتظار کرتا تو فیری ہاتھ سے نکل جاتی۔" 
اسے ذیشان کی کہی بات یاد آئی شاید وہ سچ ہی کہہ رہا تھا۔
"آخر ایسا میرے ساتھ ہی کیوں؟ماں کے علاوہ جس عورت کو حد سے زیادہ سوچا،چاہا، اسے کیسے کھو دوں۔ میں کس طرح کسی اور کا ہونے دوں۔" 
بیڈ پر بیٹھ کر اسنے دونوں ہاتھوں میں سر گرا لیا۔
"وہ تمہارے بھائی کی بیوی ہے۔" دماغ نے کہا۔
"وہ تمہاری محبت ہے تم کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہو سکتے ہو۔" 
دل نے بھی دہائی دی۔
"جان سے پیارا بھائی جو تم سے بہت محبت کرتا ہے۔" 
دماغ نے ایک اور دلیل دی۔
"تم بھی تو اسے چاہتے ہو کیا تم اسکو کسی اور کیساتھ دیکھ پاؤ گے؟"
دل و دماغ کی جنگ جاری تھی۔وہ ولیمہ اٹینڈ کرنے کے قابل نہیں تھا اس لیے اس نے سائیڈ دراز سے دو نیند کی گولیاں لی اور پانی کیساتھ نگل گیا۔
آج پہلی بار اس نے سلیپنگ پلز لی تھی ورنہ وہ خیالوں میں رہنا پسند کرتا تھا تھوڑی ہی دیر بعد اس پر غنودگی طاری ہو گئی اور وہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر گیا۔
۞۝۞
وہ لاؤنج میں ٹی وی آن کر کے بیٹھی تھی بظاہر تو اسکی نظر ٹی وی اسکرین پر تھی مگر دماغ کہیں اور تھا وہ رات کو شاہزیب کی ڈائری پر کسی لڑکی کا نام دیکھ کر پریشان تھی۔شاہزیب اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا تمام فرائض باخوبی پورے کر رہا تھا مگر اس سب کے علاوہ بیوی شوہر کا پیار اور توجہ بھی چاہتی ہے جو وہ رابی کو دینے سے قاصر تھا۔
"کن خیالات میں گم ہو بیٹا؟"
کئی بار پکارنے پر جب وہ نہ بولی تو کریم یزدانی نے اسکے پاس آکر بولے۔
"جی بابا۔"
انکی آواز پر وہ سوچوں کی دنیا سے باہر آئی۔
"کوئی مسٔلہ ہے بیٹا؟" 
انہوں نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔ جب سے شاہزیب نے مکمل طور پر بزنس سنبھالا تھا وہ گھر پر یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے کبھی کبھار ہی آفس چکر لگا لیتے تھے۔
"نہیں تو۔" 
اس نے نظریں چراتے ہوۓ کہا۔
"اچھا پھر دو کپ چاۓ بنا کر میرے کمرے میں آجاؤ۔"
وہ اسے چاۓ کا کہہ کر کمرے کیطرف چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ چاۓ کے کپ لیے انکے کمرے میں آگئی۔
"اب بتاؤ کیوں پریشان ہو؟"
انہوں نے کپ اس سے لے کر پہلا سپ لیتے ہوۓ پوچھا۔
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔"
اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"پھر منہ پر بارہ کیوں بجے ہوۓ ہیں؟"
انہوں نے اسکا چہرہ غور سے دیکھتا ہوۓ کہا۔
"دیکھو بیٹھا، میں جانتا ہوں تم شاہ کی وجہ سے پریشان ہو وہ سنجیدہ مزاج ہے اور اسکی طبیعت میں ذرا رعب ہے مگر دل کا برا نہیں ہے۔ تم جوں جوں اس کو جانو گی تمہارے دل میں اس کے لیے پیار بڑھتا جاۓ گا۔" 
انہوں نے چاۓ کا دوسرا سپ لیتے ہوۓ کہا۔
"میں جانتی ہوں وہ بہت اچھے ہیں۔"
رابی نے نظریں جھکاۓ کہا
"ہوں۔"
کریم یزدانی نے چاۓ کا آخری گھونٹ بھرا اور کپ سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا:
"اسکی زندگی میں بہت سے زخم ہیں تلخیاں ہیں وہ کم گو اور حساس دل انسان ہے۔ مرنا پسند کرے گا مگر دل کی بات کسی کو نہیں بتاۓ گا۔ اسکی سرد مہری سے پریشان مت ہونا مجھے امید ہے تمہارے سنگ وہ بدل جاۓ گا بس کبھی اسکی طرف سے دل برا مت کرنا۔"
وہ اسے نصیحتیں کر رہے تھے
"اب جاؤ بیٹا۔"
کریم یزدانی نے اسے جانے کی اجازت دی وہ کپ اٹھا کر کمرے سے باہر نکلی اسے امید تھی کریم یزدانی شاہزیب کی گزشتہ زندگی کے بارے میں بھی کوئی بات کرینگے مگر ان کی باتوں میں سے وہ صرف اتنا ہی اندازہ لگا سکی کہ وہ بہت سے دکھ جھیل چکا ہے جنکی جلن اسکی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔
۞۝۞
رات کو شاہزیب آیا تو رابی نے اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا۔ وہ زیان کیساتھ ہی خود کو مصروف ظاہر کرتی رہی کوئی بھی عورت اپنے اور شوہر کے بیچ کسی دوسری عورت کو برداشت نہیں کرسکتی چاہے جتنی بھی صابر و شاکر کیوں نہ ہو ۔اسکے دل میں جلن ضرور ہوتی ہے اور وہی جلن اس وقت رابی کے دل میں بھی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ زیان کو سلانے اسکے کمرے میں چلی گئی جب واپس اپنے کمرے میں لوٹی تو شاہزیب کمرے میں نہیں تھا، اسے غصہ تو بہت آیا مگر وہ ضبط کرتی رہی۔ نئی نویلی دلہن کو اپنے شوہر کا وقت اور پیار چاہیے ہوتا ہے۔وہ تو ہنی مون پر بھی کہیں نہیں گئے تھے۔کریم یزدانی نے شاہزیب کو بہت منایا مگر وہ زیان کو ساتھ لے جانے پر بضد تھا اور زیان جاتا تو اسکی پڑھائی کا حرج ہوتا۔
اچانک ہی اسے ٹیرس پر شاہزیب کا ہیولہ سا نظر آیا وہ ٹیرس کیطرف بڑھی اور اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی ہو گئی وہ نہ جانے سگار کیساتھ کونسے غم سلگا رہا تھا،ایک سگریٹ ختم کر کے اسنے دوسرا سلگا کر ہونٹوں کے ساتھ لگایا تبھی رابی آگے بڑھی اور جھٹکے سے اسکے ہاتھ سے سگریٹ لے لی۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے حیرانگی سے دیکھ رہا تھا، وہ اسکی آمد سے قطعی بے خبر تھا۔وہ خود بھی اپنی دیدہ دلیری پر عش عش کر اٹھی۔
"اسکی زیادتی نقصان دہ ہے اور آپ مسلسل اسکا استعمال کر رہے ہیں۔"
اس نے اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا۔
"پہلے مجبوری تھی اب عادت بن چکی ہے۔"
شاہزیب نے آہستگی سے کہا۔
"آہ۔۔۔۔۔۔"
اس نے سگریٹ نیچے پھینکا جو سلگ سلگ کر اسکی ہتھیلی جھلسا گیا تھا۔وہ ہتھیلی مسلنے لگی۔شاہزیب نے آگے بڑھ کر اسکی ہتھیلی سامنے کی جس پر سرخ نشان پڑ گیا تھا۔
"کیا ضرورت تھی اسے ہاتھ میں رکھنے کی۔" شاہزیب نے اسے سخت نظروں سے گھورا۔
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے میں لایا اور اسکی ہتھیلی پر مرہم لگایا۔ بے اختیار اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔آگ کی جلن یا درد کی وجہ سے نہیں شاہزیب کی ذرا سی فکر کیوجہ سے۔ اسکی ماں کے علاوہ کس نے اتنی فکر کی تھی۔
ایک بار ماموں کے گھر گرم تیل سے اسکی انگلی جل گئی تھی وہ جلن کی وجہ سے پوری رات سو نہ سکی۔کون مرہم رکھتا اسکے زخم پر؟ پھر بھی وہ گھر کا سارا کام خود ہی سمیٹتی رہی۔
"زیادہ درد ہو رہا ہے؟"
وہ اسکے رونے پر گھبرا گیا
اس نے نفی میں سر ہلایا 
"تو پھر رو کیوں رہی ہیں؟"
اسکے آنسو شاہزیب کو ڈسٹرب کر رہے تھے۔
اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور پھر اپنی بے اختیاری پر غصہ بھی بہت آیا۔
"آرام کریں۔"
شاہزیب اسکے پاس سے اٹھنے لگا تھا جب رابی نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
"پلیز کہیں مت جائیں۔"
وہ پہلے اسکے روکنے پر کچھ دیر ہونق بنا اسے دیکھتا رہا پھر واپس اسی کے پاس بیٹھ گیا
"آپ وعدہ کریں آئندہ سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔"وہ اسکی ذرا سی توجہ پاکر اس سے باتیں منوا رہی تھی۔عورت ایسی ہی ہوتی ہے کسی کی ذرا سی محبت اور توجہ پاکر اس سے بہت سی امیدیں اور مان وابستہ کر لیتی ہے۔
"حالانکہ یہ وعدہ آپکو کرنا چاہیے۔"شاہزیب نے اسکی جلی ہوئی ہتھیلی کو دیکھ کر کہا۔
"پلیز مذاق مت کریں وعدہ کریں مجھ سے۔" رابی نے آنکھوں میں آنسو سموتے ہوۓ کہا شاہزیب اسکی اس تبدیلی پر حیران ہوۓ بغیر نہ رہ سکا یہ شاید اسی کے نرم لہجے کا نتیجہ تھا۔
"آپ کے سامنے سگریٹ ہاتھ میں نہیں لونگا۔"
شاہزیب نے اسکا مان نہیں توڑا
اس نے مسکرا کر اسکے کندھے سے سر ٹکایا تھا اور شاہزیب کو کریم یزدانی کی بات یاد آئی تھی۔
"شادی کر کے تمہیں اس حول سے باہر آنے پڑے گا بیویاں خود سے بیگانگی برداشت نہیں کرتی۔وہ انسان کو راہِ راست پر لانے کے تمام گُن جانتی ہیں" آخری جملہ انہوں نے ہنستے ہوۓ شریر لہجے میں کہا تھا ان کی بات یاد کر کے وہ بھی ہولے سے مسکرا دیا۔ 
۞___________۞۝۞__________۞
جاری ہے۔

No comments:

Post a Comment