#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_6
۞۞
شاہزیب کی ڈانٹ کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا تھا۔چند دنوں سے اسکی طبیعت خراب تھی اور جب سے زوبیہ بیگم کے گھر سے لوٹی تھی ٹھنڈ لگنے کیوجہ سے بخار بھی رہنے لگا تھا۔اس لیے بھی وہ کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی زیان اور کریم یزدانی کا بھی پہلے جیسا خیال نہیں رکھ پا رہی تھی جس کا قصوروار انہوں نے شاہزیب کو ٹھہرایا تھا اور اسکی اچھی خاصی کلاس بھی لے ڈالی۔
"آپ مجھ سے ناراض ہیں؟"
وہ صوفے پر بیٹھی موبائل کیساتھ بزی تھی جب شاہ زیب نے اس سے پوچھا۔
اس نے بغیر اسکی طرف توجہ دیے نفی میں سر ہلایا ۔
شاہزیب اسکے پاس آکر بیٹھا اور موبائل اس کے ہاتھ سے لے کر اپنی گود میں رکھا۔
"پھر بیزار سی کیوں رہتی ہو کیا میرا ساتھ پسند نہیں ہے؟"
اس نے رابی کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
"میں نے ایسا کب کہا۔"
رابی نے اسکی بات پر سر اٹھایا۔
"میں بہت شرمندہ ہوں۔مجھے تمہیں ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا پلیز معاف کر دو۔"
شاہ زیب نے اس سے معافی مانگی یہ سب کریم یزدانی کی ڈانٹ کا اثر تھا۔
"میں آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی۔"
اس نے دل سے کہا تھا۔
"پھر یہ سب کیا ہے ہر وقت کمرے میں کیوں پڑی رہتی ہو؟"
"طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"
اس نے آہستگی سے کہا۔
"تو پہلے بتاتی نا ابھی ڈاکٹر کے پاس چلو۔"
شاہزیب کو اپنی لاپرواہی پر غصہ آیا تھا۔
اسکے مسلسل انکار کے باوجود شاہزیب اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اور جو خبر ڈاکٹر نے سنائی۔ شاہزیب کا دل خوشی سے بھرنے کے لیے کافی تھی باپ بننے کا احساس اسے سرشار کر رہا تھا اسکے چہرے سے روشنیاں پھوٹ رہی تھی۔اور جب گھر آکر اس نے یہ خبر کریم یزدانی کو سنائی وہ سجدہ ریز ہو گئے اپنے بچوں کی صحت سلامتی کےلیے اور اس گھر کی خوشیوں کے لیے۔
۞۞
آنے والے دنوں میں شاہزیب نے اسکا حد سے زیادہ خیال رکھا تھا۔اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے اور اسکی صحت کا۔
اور پھر وہ وقت آگیا جب ان کے گھر گول مٹول سی لڑکی نے جنم لیا وہ ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھی۔بہن کے آنے جانے کی وجہ سے زیان کی خوشی دیدنی تھی وہ اچھل اچھل کر خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔
شاہزیب نے پہلی بار اپنی بیٹی کو دیکھا اور اسکو بانہوں میں اٹھا کر کہا "اسکا نام ایمل بتول رکھوں گا"
وہ جو آنکھیں موندھے خاموشی سے لیٹی تھی شاہزیب کی بات پر اسکی آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھی۔
"یہ نام تو وہ اسکی ڈائری پر شعر سمیت دیکھ چکی تھی۔"
"نہیں۔"
رابی نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
"کیوں۔؟"
وہ اسکے گال چومتے ہوۓ بولا ۔
"اسکے علاوہ آپ جو نام رکھیں مگر یہ نام نہیں رکھنے دونگی؟"
اس نے اٹل لہجے میں کہا تھا۔
"اس نام میں کیا خرابی ہے؟"
شاہزیب نے اسکے پہلو میں اسے واپس رکھتے ہوۓ کہا۔اسے حیرت تھی کہ آخر ایمل کے نام پر رابی کا رویہ ایسا کیوں ہو گیا۔رابی نے آنکھوں پر بازو رکھ لی تھی جسکا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد سہیل احمد اور ناصرہ بھی تحائف کیساتھ آپہنچی۔ناصرہ بیگم رابی سے برے دل سے ہی ملی تھی انکے دل میں یہی خیال تھا کہ " آج اگر یہ رابی نہ ہوتی تو میری حِرا اس گھر کی بہو ہوتی۔" مگر یہ تو نصیب کا کھیل ہے جب سے ان پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ شاہزیب پہلے سے شادی شدہ نہیں تھا انکا رویہ رابی سے کافی سخت ہوگیا تھا۔
سہیل احمد اور ناصرہ کے جانے کے بعد وہ اسکے لیے سوپ لے کر کمرے میں آیا
"یہ جلدی سے پی لو۔"
شاہزیب نے سائیڈ ٹیبل پر باؤل رکھا۔
"ایمل نام اچھا ہے نا؟"
رابی نے کچھ سوچتے ہوۓ پوچھا۔
"یہی نام ٹھیک رہے گا"اس نے شاہزیب کیطرف دیکھتے ہوۓ کہا۔
"یہ سوپ پی لو۔" اس نے رابی کی بات کو نظر انداز کر دیا تبھی ننھے وجود نے تیز آواز میں راگ الاپنے شروع کر دیے تھے۔اس نے بے بسی سے شاہزیب کو دیکھا اور وہ اسکی صورت دیکھ کر مسکراہٹ چھپاتا باہر نکل گیا۔
۞۞
بچوں کو پالنا اسکے لیے نیا تجربہ تھا اور کافی مشکل بھی۔اور اوپر سے زیان کے ایگزام بھی سر پر آگئے تھے وہ خدا کا شکر تھا کہ ایک بوڑھا وجود گھر پر تھا یعنی کریم یزدانی جو زیان کی پڑھائی کے معاملے میں کافی اسکی مدد کردیتے تھے۔شاہزیب کو بزنس سے فرصت نہیں تھی گھر آتا تو تھوڑی دیر زیان اور ایمل کیساتھ وقت گزار کر سو جاتا یا فائلوں میں سر کھپاتا رہتا۔
ایمل کی صبح سے طبیعت خراب تھی وہ مسلسل رو رہی تھی۔ وہ اسے کبھی شانوں پر ڈال کر کمرے میں ٹہلتی کبھی بازوؤں میں جھلاتی۔ شام کو شاہزیب آیا تو وہ ایمل کو اسکی گود میں ڈال کر رونے لگی دن بھر اسکو اٹھا اٹھا کر اسکے بازو شل ہو گئے تھے کمر میں بھی ناقابلِ برداشت درد تھا۔
"ارے کیا ہوا ؟"
وہ ایمل کو گود میں اٹھا کر تھپکنے لگا اب وہ چپ ہو چکی تھی اور غنودگی میں تھی مگر رابی رونے میں ہی مصروف تھی اس وقت اسے بالکل نہیں پتہ تھا کہ کچھ بچوں کیساتھ یہ مسٔلہ ہوتا ہے کہ وہ مخصوص وقت پر روتے ہیں۔
وہ ایمل کو آہستگی سے بیڈ پر رکھ اسکے پاس آکر بیٹھا ۔
"کیوں رو رہی ہو؟ "
"آپکو میری ذرا فکر نہیں ہے سارا دن اس نے مجھے آرام نہیں کرنے دیا۔ سر درد سے پھٹا جا رہا ہے بازو شل ہو گئی ہوں جسم کا پور پور درد کر رہا ہے۔"
وہ دوپٹے سے ناک رگڑتے ہوۓ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
" اتنا نہیں کہ ایک دن آفس سے چھٹی کر لیں۔ کام کی پڑی رہتی ہے آپکو۔"
شاہزیب نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی۔
"گھر بیٹھوں گا تب بھی تم کو اعتراض ہوگا کہ کام نہیں کرتے ان کو ذمہ داری کا احساس نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔"
شاہزیب کی بات نے پر وہ ایک ناراض نظر اس پر ڈال کر اٹھ گئی اور ایمل کے پاس جا کر لیٹ گئی۔
۞۞
اگلے چند دن آرام سے گزرے پھر حِرا کی شادی سر پر آگئی اسکا رشتہ دور پار کے کسی کزن سے ہوا تھا جنکا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔وہ تو اس سارے معاملے میں بوکھلا کے رہ گئی۔زیان تو چھے سال کا تھا مگر ایمل چھوٹی تھی اسکو سنبھالنا خاصا مشکل تھا اسکی اپنی صحت بھی بہت گِر گئی تھی۔
شاہزیب نے اس کو حرا کی مہندی والے دن سہیل احمد کے گھر چھوڑا تھا۔زیان کو وہ اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا۔
اس نے ہر رسم میں حصہ لیا تھا اور جب ایمل کو سلانے کمرے میں آئی تبھی ناصرہ بیگم سر پر آکھڑی ہوئی۔
"سب مہمان ابھی ہال میں ہیں اور تمہیں سونے کی پڑی ہے۔"
"میں تو ایمل کو سلانے آئی تھی۔"
اس نے پاس لیٹی ایمل کی طرف اشارہ کیا۔
"ہونہہ۔۔۔۔مہمانوں کا انتظام بھی کرنا ہے مگر یہاں میزبان ہی اپنے بستر سنبھال چکے ہیں۔"
وہ بڑبڑاتے ہوۓ باہر نکل گئی۔
رابی نے اسی وقت شاہزیب کو کال کر کے بلایا اور اسکے ساتھ واپس گھر آگئی۔ پورا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔شاہزیب نے بھی اس سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بارات اور ولیمے کا فنکشن بھی اس نے شاہزیب کیساتھ اٹینڈ کیا اور اسی کے ساتھ واپس آگئی۔شاہزیب ناصرہ بیگم کا اسکے ساتھ رویہ دیکھ چکا تھا مگر وہ تنقید کم ہی کسی پر کرتا تھا۔ مطلب کی بات ہو تو کر لیتا تھا ورنہ اسے اپنی خیالوں کی دنیا سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔
دن ہفتوں سے مہینوں اور سالوں میں بدلنے لگے۔ ایمل بڑی ہوتی جا رہی تھی جب اس نے چلنا شروع کیا تو سب سے زیادہ خوشی زیان کو ہوئی وہ اسکی انگلی پکڑ کر سارے گھر میں گھماتا اور کبھی اسے کھلونوں سے بہلا رہا ہوتا۔ اسکی اور ایمل کی عمر میں چھے سال کا فرق تھا اور وہ کافی سمجھ دار بھی ہو گیا تھا۔
ایمل جب اسکول جانا شروع ہوئی تو زیان کے پاؤں ہی زمین پر ٹک نہیں رہے تھے ۔وہ فخر سے گردن تان کر اپنی بہن کی انگلی پکڑ کر اسکول لے جاتا۔اب رابی ایمل اور زیان لے گھر آنے تک پورے گھر میں چکراتی پھرتی گھر میں صرف وہ اور کریم یزدانی ہوتے تھے جو کبھی کبھی آفس چلے جاتے یا کسی دوست رشتے دار کے گھر۔ان کی غیر موجودگی میں گھر کی خاموشی اور ویرانی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی۔
"ماما آج زیان بھائی کی لڑائی ہوئی ہے۔"
رابی اسکا یونیفارم چینج کر رہی تھی جب ایمل نے کہا۔
"کیوں؟"
رابی کو حیرت ہوئی زیان خاصا شریف بچہ تھا اسطرح کی حرکت کی اس سے امید نہیں کی جاسکتی تھی۔۔
"وہ معاذ نے مجھے چٹکی کاٹی تو زیان بھائی نے اسے تھپڑ مارا۔" ایمل معصومیت سے بتا رہی تھی۔
"زیان بیٹا۔" رابی نے زیان کو آواز دی۔ تھوڑی دیر وہ بھاگتا ہوا آیا "جی ماما"
"کس سے لڑائی ہوئی ہے آپکی؟"
رابی نے نرمی سے پوچھا وہ ایمل سے زیادہ زیان کا خیال رکھتی تھی۔
"معاذ سے اس نے میری بہن کو مارا تھا اور یہ میں برداشت نہیں کرسکتا کوئی میری ایمی کو انگلی بھی لگاۓ۔"
زیان نے جذباتی ہو کر کہا۔
"یہ اچھی بات نہیں ہے بیٹا بابا کو پتہ چلا تو وہ ناراض ہونگے آئندہ آپ نے ایسی حرکت نہیں کرنی۔ رابی نے اسے پیار سے سمجھایا اور تم بھائی کی لڑائی مت کروایا کرو"
زیان کو سمجھا کر آخر میں رابی نے ایمل کو ڈانٹا جس پر ایمل نے زیان کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا۔ رابی کو اسکی اس حرکت پر ہنسی آگئی۔ ایمل بہت شرارتی تھی اور کبھی کبھی ایسی بات یا حرکت کر جاتی کہ رابی سے ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا۔
۞۞
شام کو وہ کپڑے پریس کر کے الماری میں ٹانک رہی تھی شاہزیب کے آنے میں ابھی کافی وقت تھا اور دونوں بچے کریم یزدانی کے پاس تھے وہ بور ہونے کی بجاۓ کپڑے ٹانکنے کا کام سر انجام دینے لگی۔
کپڑوں کو الماری سیٹ کر کے اس نے دراز کھولنے کی کوشش کی جو شاہزیب ہمیشہ لاک کر کے رکھتا تھا۔اسے تجسس تھا آخر شاہزیب نے یہ لاک کیوں کر رکھا ہے؟
مگر آج خلافِ توقع لاک کھل گیا تھا۔اسے خوشی ہوئی اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا۔ابھی شاہزیب کے آنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ پھر بھی اس نے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈور لاک کر دیا۔
دراز کھول کر پہلی نظر اسکی ریڈ کور والی ڈائری پر پڑی۔اس نے لپک کر ڈائری اٹھائی اور باقی دراز چیک کرنے لگی مگر وہاں شاہزیب کی ضروری فائلز کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ ڈائری لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
👇👇👇👇
جاری۔ہے
No comments:
Post a Comment