Teri Kami hai Saiyan By Bint-e-Nazeer Episode#7
Teri Kami hai Saiyan Written By Bint-e-Nazeer||Episode#7
#تیری_کمی_ہے_سائیاں
#از_بنتِ_نذیر
#قسط_نمبر_7
۞________۞۞_______۞
وہ ڈائری کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔پھر ڈائری کھولی پہلے صفحہ پر شاہزیب کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس نے صفحہ پلٹا۔ ماں کے بارے میں خوبصورت بات لکھی گئی تھی جسے پڑھ کر بے اختیار اس کی آنکھیں بھیگ گئی۔وہ صفحے پلٹتی گئی تبھی شاہزیب کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا وہ پھرتی سے اٹھی اور ڈائری دراز میں رکھ کر دراز بند کیا اور نیچے آئی۔
شاہزیب مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔
"السلام علیکم!."
لاؤنج میں کریم یزدانی کے پاس بیٹھے زیان اور ایمل بھاگتے ہوۓ اسکے پاس آۓ۔
"وعلیکم سلام۔"
رابی نے دھیمے لہجے میں سوال کا جواب دیا مگر دل ڈائری میں اٹکا ہوا تھا۔شاہزیب نے دونوں کو کینڈی چاکلیٹس نکال کر دی زیان واپس کریم یزدانی کے پاس چلا گیا تھا مگر ایمل ابھی بھی شاہزیب سے کچھ اور ملنے کی امید پر کھڑی تھی۔
"بابا صرف چاکلیٹ ہی۔"
ایمل نے منہ بسورا۔
"ہاں بیٹا۔زیادہ میٹھا نہیں کھاتے دانت خراب ہو جاتے ہیں۔"
شاہزیب نے نرمی سے اسے کہا۔
"بابا میرے لیے گڑیا نہیں لائی؟"
ایمل نے پھر شاہزیب سے پوچھا۔
"جاؤ ایمل بابا کو سکون کا سانس تو لینے دو۔"
رابی نے اسے ٹوکا۔
وہ منہ بسور کر زیان کے پاس چلی گئی۔ شاہزیب کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھاتھوڑی دیر انکے ساتھ بزنس کی باتیں کرنے کے بعد وہ فریش ہونے چلا گیا جب تک نازو کیساتھ مل کر رابی نے کھانے کا ٹیبل سیٹ کرنے لگی۔
۞۞
"ایمل کون ہے؟"
وہ اسکے پہلو میں لیٹی چھت کو گھور رہی تھی وہ اسکی بات پر چونکا۔"میری بیٹی ہے۔"
شاہزیب نے نرمی سے جواب دیا۔
"میں اس ایمل کی بات نہیں کر رہی ہوں اور جس کی بات کر رہی ہوں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔"
وہ اس وقت روایتی بیویوں کی طرح لگ رہی تھی جو شوہر کے ماضی کی ٹوہ میں لگی رہتی ہیں۔
"بھابی تھی میری زیان کی ماما۔"
شاہزیب نے آہستگی سے کہا تھا اب چونکنے کی باری اسکی تھی۔
"زیان کی ممی مگر انکی ڈائری پر کس ایمل کا نام تھا پھر۔۔ شاید یہ ذیشان کی ڈائری پڑھ رہے ہوۓ ہونگے ۔"
اس نے خود کو غلط فہمی سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر اب ڈائری پڑھنے کا تجسس بڑھ گیا تھا۔
اگلے دن شاہزیب اور بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد وہ کمرے میں آئی اور وہی دراز کھولنے کی کوشش کی، جس میں ڈائری رکھی ہوئی تھی۔
"ہیں😳، لاک کر دیا"
وہ زور زور سے اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی تبھی الماری کے اوپر رکھی زیان کی چھوٹی سی اسپورٹ کار رابی کے پاؤں پر آکر لگی تھی۔
"آہ۔۔۔"وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی۔
"بھاڑ میں جاۓ ڈائری۔"وہ پاؤں سہلاتے ہوۓ بڑبڑائی۔
۞۞
گزرتے وقت کیساتھ ربیکا ڈائری کی بات بھول ہی گئی بچے اب بڑے ہو رہے تھے۔ ایمل ہائی سیکشن تک پہنچ گئی تھی اور زیان کالج لیول تک۔
کریم یزدانی ، شاہزیب ، ربیکا اور زیان کی محبتوں نے مل کر ایمل کو پر اعتماد بنا دیا تھا اور کچھ منہ پھٹ بھی۔ وہ اسکول میں کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی اور اگر کسی سے اَن بَن ہو جاتی تو فخر سے گردن اکڑا کر کہتی
"میرے بھائی کو جانتے نہیں ہو اس لیے آئندہ سوچ سمجھ کر مجھ سے منہ لگانا" زیان کی اس سے محبت تھی ہی ایسی وہ جتنا فخر کرتی کم تھا البتہ ربیکا کو اس سے زیان سے لپٹنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
وہ کب سے لاؤنج میں بیٹھی میتھ کے سوال حل کر رہی تھی اسکے ایگزام سر پر تھے اور دنیا جہاں سے بے خبر صرف پیپرز کی تیاری کر رہی تھی۔
پاس بیٹھے کریم یزدانی اسکے چہرے کا بغور جائزہ لے رہے تھے جو الجھن سے کبھی نوٹ بک کر لکھتی کبھی پن منہ میں ڈال کر حل سوچتی۔
"بیٹا کوئی پریشانی ہے؟"
کریم یزدانی نے نرمی سے پوچھا۔
"دادا جان یہ سوال حل نہیں ہو رہا۔"
اسکے لہجے میں مایوسی در آئی تھی پھر وہ کتابیں سمیٹتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"زیان بھائی آئیں گے تو ان سے پوچھ لونگی۔"
وہ ماتھے سے بالوں کو ہٹاتے ہوۓ بولی۔
"کتابیں کمرے میں چھوڑ آؤ پھر دادا جان کے پاس آ جاؤ۔"
وہ ان کی بات پر سر ہلاتی کمرے کیطرف بڑھی دو منٹ بعد وہ بھاگتے ہوۓ کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھ گئی اور انکے ساتھ اپنی باتوں کی پٹاری کھول لی تھی۔ وہ اپنی عمر کی بچیوں سے کافی بڑھی نظر آتی تھی ایک تو قد بھی کافی لمبا ہو گیا تھا اور وزن بھی بڑھ گیا تھا رابی کو اسکے بڑھتے ہوۓ وزن کی فکر بھی لاحق ہو گئی تھی۔
۞۞
شاہزیب اور زیان ایک ساتھ ہی گھر آۓ تھے۔
"السلام علیکم دادا جانی۔"
وہ کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھا کریم یزدانی کو اس میں ذیشان کی جھلک نظر آتی تھی۔اسکی شکل و صورت ذیشان پر تھی البتہ آنکھیں اور بال ایمل کی طرح تھے۔
"وعلیکم سلام۔دادا جان کو بھول ہی جاتے ہو تم۔"
انہوں نے اسکی کمر پر دھپ رسید کی شاہزیب بھی پاس پڑے صوفے پر براجمان ہو گیا
"آپ کوئی بھولنے کی چیز ہیں دادا جان۔ایمی کدھر ہے؟"
ایمل کی غیر موجودگی محسوس کر کے زیان نے پوچھا
"اپنے کمرے میں ہے۔"
کریم یزدانی بجاۓ رابی نے جواب دیا جو ان دونوں کے لیے پانی لا رہی تھی۔"آپ دونوں باپ بیٹے نے اسکی عادتیں خراب کردی ہیں"
"اب کیا کہہ دیا میری بیٹی نے؟"
شاہزیب نے اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوۓ کہا۔
"گاڑی لینے کی ضد کر رہی ہے کہ ایگزام کے بعد زیان سے ڈرائیونگ سیکھ لوں گی۔"
رابی نے اسی کیطرح منہ بنا کر کہا جس پر سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
"او ہو کیوں میری بیٹی کی پیچھے پڑی رہتی ہو۔میں اپنی بچی کو گاڑی لے کر دونگا۔"
شاہزیب کے لہجے میں بیٹی کے لیے پیار ہی پیار تھا۔
"زیان تم ایمل کو ایگزام کے بعد گاڑی ڈرائیو کرنا سکھا دینا"
شاہ زیب نے زیان سے مخاطب ہو کر کہا۔
"اوکے بابا۔میں ذرا فریش ہو آؤں اور ایمی کو بھی لے آؤں۔"
وہ اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھا اور شاہزیب بھی فریش ہونے کی غرض سے اپنے روم کیطرف چلا گیا۔
"شاہ زیب یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔"
رابی اسکے پیچھے اندر آئی تھی۔
"کیا غلط کر دیا مسز۔"
وہ مسکرایا تھا
"وہ لڑکی ہے اور جس طرح آپ اسکی ہر ضد پوری کر رہے ہیں نا وہ ۔۔۔۔"
شاہزیب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آگے کچھ بھی بولنے سے منع کیا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا۔
"وہ میری ایک ہی بیٹی ہے ربیکا اور میں نہیں چاہتا وہ کسی چیز کے لیے ترسے ۔میں دنیا کی ہر خوشی اسکے قدموں میں لا کر بچھاؤں گا۔ ان وسوسوں کو دل میں جگہ مت دیا کرو۔"
وہ اسکے پاس کھڑا نرمی سے کہہ رہا تھا مگر وہ تھوڑی ہی خود وہم پالتی تھی خود ہی کہیں سے اس کے دل و دماغ میں آجاتے۔ وہ بات ختم کر کے واشروم چلا گیا تھا وہ بھی ہر خیال جھٹک کر کچن کیطرف بڑھی۔
۞۞
"ایمی۔"
وہ اسکے کمرے میں آیا تھا مگر وہ بستر پر آڑھی ترچھی پڑی سو رہی تھی۔"موم کی گڑیا۔میری چندا"
اس نے گلاس سے تھوڑا سا ٹھنڈا پانی لے کر اسکے منہ پر چھڑکا۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھولی تھی زیان آنکھوں میں شرارت لیے اسی کو دیکھ رہے تھا۔
"بھائی"
وہ زیان کے پیچھے بھاگی تھی جو اسکے خطرناک تیور دیکھ کر ایک ہی جست میں دروازے تک پہنچ گیا۔
"میں یہ بدلہ نہیں چھوڑوں گی۔"
وہ آنکھیں مسلتے ہوۓ بولی جو نیند کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی۔
"فریش ہو کر نیچے آجاؤ موٹو۔"
وہ قہقہہ لگاتے ہوۓ اس کے کمرے سے باہر نکلا جبکہ وہ پاؤں پٹختی واش روم کیطرف بڑھ گئی
👇👇
جاری ہے
No comments:
Post a Comment