Wapasi ka Safar by Mona Shehzad
Wapasi ka Safar Written by Mona Shehzad
☆☆"واپسی کا سفر"☆☆( ویلنٹائن ڈے پر لکھی گئی ایک تحریر )
آج ویلنٹائن ڈے تھا اور تیمور نے عزت کو جوش و خروش سے صبح صبح ہی جہاں اس خاص دن کی مبارکباد دی تھی وہاں ساتھ ہی یہ بھی بتادیا تھا کہ چونکہ آج کا دن "محبت " کی تجدید کا دن ہے اس لیے ضروری ہے کہ آج وہ دونوں بالمشافہ مل کر اس محبت کی تجدید کریں، عزت نے اس کو سمجھانے کی بهرپور کوشش کی، لیکن آج اس کی کوئی بات تیمور ماننے پر تیار نہ هوا. آخر میں تیمور نے یہ تک کہہ دیا کہ وہ اس پر اعتبار نہیں کرتی، جبکہ آج اس خاص موقع پر وه اس کو اپنی امی اور آپی سے ملوانا چاه رہا ہے تاکہ وہ ان دونوں کے رشتے کی منظوری دے کر بات اس کے والدین سے باضابطہ طور پر کرسکیں. یہ سن کر عزت کو اپنی خوش نصیبی پر ناز سا هوا، ابھی چند ماہ پہلے ہی تو ایک رانگ نمبر کے ذریعے سے ان کی بات چیت هوئی تهی،اس رات وہ بابا کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر وہ بوکھلا سی گئی تھی، جلدی میں بڑے بهیا کا نمبر ملایا تو ایک نمبر کی غلطی سے نمبر تیمور کو مل گیا تھا اس نے بڑے شائستہ انداز میں اس کی بات سن کر نہ صرف اس کو تسلی دی بلکہ اس کو یہ بھی کہا کہ پریشانی میں اس سے غلط نمبر مل گیا ہے. آئندہ کچھ دنوں میں وه روز فون پر اس سے بابا کی خیریت دریافت کرتا رہا. عزت ایک اچھے گهر کی باشعور اور سمجھدار لڑکی تھی مگر تیمور کے انداز و اطوار کچھ ایسے شائستہ تهے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا رابطہ اس سے بڑهتا گیا. تیمور کی ویسے تو سب باتیں هی دلکش تهیں مگر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ باتوں کے دوران اگر کبھی اذان کا وقت هوجاتا تو فورا اس کو بھی نماز کی ادائیگی کی تاکید کے ساتھ فورا فون بند کر دیتا. آج جب چھ ماہ بعد جب اس نے عزت کو اپنے گھر ملنے کو بلایا تھا تو کچھ دیر کے لیے عزت بدگمانی کا شکار ہوگئی تھی مگر جب تیمور کی آواز آنسوؤں سے بهرا گئی اور اس نے بتایا کہ وہ یہ ملاقات صرف اپنی والدہ اور آپی کو اس سے ملانے کے لئے ارینج کر رہا ہے تو عزت کے سارے اندیشے دهل گے. آج کالج کے لیے تیار ہوتے ہوئے اس نے خاص طور پر اپنے لباس کا انتخاب کیا، هلکا پهلکا میک اپ بھی کیا. گهر سے نکلتے وقت حسب معمول امی کو جب خداحافظ کہا تو انہوں نے روز کی طرح کہا "جاو بیٹا؛ اللہ نگہبان، میری بیٹی میرا فخر هو تم."یہ جملے آج اسے بڑے وزنی لگے، دل عجیب سا بوجھل سا هو گیا. کالج میں بھی وہ سارا دن بےچینی کا شکار رہی، چهٹی کے وقت اس نے بوجھل دل سے اپنے قدم باہر نکالے اور اچانک اس کے زهن میں قرآن پاک کی وه آیت گونجی :"هم نے ستهروں کے لئے ستهریاں اور گندوں کے لیے گندیاں رکهیں. "اس کو اپنی نانی کی بات یاد آگئی ،وہ اکثر کہتی تھیں:"بیٹا بدنصیبی سے هم اس معاشرے کے افراد هیں جہاں مرد نہا دھو کر صاف هوجاتا هے اور عورت ناکردہ گناہ کی صلیب پر تاحیات لٹکتی رہتی ہے. "اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا ،اسے وہ سارے گینگ ریپ یاد آگئے جب محبوب نے بہانے سے محبوبہ کو اکیلے بلایا اور دوستوں کے ساتھ مل کر اپنی ہوس کی آگ بجھا لی ،اس نے سوچا :"یہ تیمور کی کیسی محبت تھی کہ وہ اس کو اس کے ماں باپ سے چهپ کر اسے اپنے گھر اکیلے آنے کا کہہ رہا ہے. کیا تیمور یا اس کی والدہ کبھی بھی اس کے کردار کا اعتبار کریں گے ، اگر وہ ان کے خاندان کا حصہ بن بهی جائے. تب بھی یہی طعنہ رہے گا کہ جو لڑکی اپنے والدین کی عزت و ناموس کی پروا کئے بغیر ایک نامحرم مرد سے ملنے چلی آسکتی ہے ،وہ شادی کے بعد بھی بہک سکتی ہے۔اس کے دل نے پرزور طریقے سے اس کی تائید کی۔عزت کی ٹانگیں کپکپانے لگیں،اسے چکر سے آنے لگے ، ایک نامحرم کی نام نہاد محبت میں کیسے وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بهول گئی تھی۔کیسے ایک نامحرم کی خوشی اتنی اہم هوگئ کہ وہ اپنے والدین، اپنے بهیا کی چاہت بهول گئی تھی۔لمحوں میں سالوں کی مسافت طے هوگئ. اس نے اپنے قدم واپسی کے لیے بڑها دیے جہاں اس کی ماں، اس کے حقیقی رشتے اس کا انتظار کر رہے تھے. اس نے گھر داخل بوتے هوے سوچا :"یہ ویلنٹائن ڈے نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ یہ لوٹ مار کا دن تھا، جو آزادی کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے گھر میں سینده لگانے آیا تھا."عزت نے تو اپنے بڑھتے قدم روک لئے ،کیا آپ نے بھی اس بارے میں سوچا ہے؟
No comments:
Post a Comment