چلتن ............... کلچر ................ پروفیسر
زرک میر
پارٹیوں نوکریوں پروفیسروں ‘ڈاکٹروں عدالتوں اور سیکرٹریٹ کی فکر سے آزاد لوگ جب لکپاس کے ٹنل سے گزرکر شال کے حدود میں داخل ہوتے ہیں توان کی نظر چلتن پر پڑتی ہے اور پڑنی بھی چاہیئے لکپاس ٹنل سے پاس ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ منزل آگئی ‘سیکرٹریٹ جانے والا اپنی فائل سنبھالتا ہے‘نوکری کے لئے وزیر کے پاس جانے والا اپنی سفارش کرنے والے کو فون کرتا ہے کہ وہ شال پہنچ گیا ہے ‘کچہری جانے والا اپنے وکیل کو فون کرکے اپنی آمد کا بتادیتا ہے‘ ڈاکٹر کے پاس جانے والا بھی سنبھل جاتا ہے اورپرانے ڈاکٹری نسخوں اورادویات کا تھیلا سیٹ کے نیچے سے اٹھا کر گود میں رکھتا ہے کہیں کھو نہ جائے
لکپاس کے ٹنل سے نکل کر چلتن کو اس بار دیکھا توچلتن اس پژمردگی اور آسیبی سائیوں کے باوجود بھی مجھے جوان لگا کیونکہ شال میں بارش ہورہی تھی اورچلتن” نود“ سے ڈھکا ہواتھا ۔ یہ بارش چلتن کی مرہون منت ہے جو گزرتے بادلوں کو اپنی بلند چوٹی کی وجہ سے کھینچتاہے اور یہ رک کر برستے ہیں اور جب برستے ہیں تو شال جل تل ہوجاتا ہے کاش کے چلتن کے چالیس ٹکڑے ہوتے اور ان کو میںمہاتما بدھا کی ارتی کی طرح پورے بلوچستان میں جگہ جگہ رکھ دیتا اور ہم اسے بطورپیار بغیرکسی سزا وجزا کے پوجتے اور یہ مزید فخر سے بلند ہوجا تا اب تو چند سالوں سے چلتن کا سرفخر سے کہیں زیادہ بلندہوگیا ہے اور اس فخر اور غرور کے سبب اس نے ایک پراسرارخاموشی بھی اختیارکرلی ہے یہ فخریہ خاموشی بے سبب بھی تو نہیں چلتن نے اپنے سب سے خاموش پراسرار اور گہرائی میں کھو جانے والے” فرزند “کو اپنی آغوش میں جگہ جو دی ہے یہ چلتن کی مخلصی اور قومی شناخت کی حقدار ی ہے کہ کہاں کہاں سے اپنے اس گم سم چھپ اور گہری سوچ میں غرق بیٹے کو موت کے بعد اپنے دامن میں کھینچ لایا اس گم سم بیٹے کی میت نے کتنے چکر کاٹے ؟کہاں کہاں نہیں گیا؟وہ جو زندگی میں سامنا نہیں کرسکے انہوں نے اپنی ملاقات کی خواہش بھی پوری کی اور اس زندہ اورگم سم میت سے ملاقات کی
جب شال میں داخل ہوئے تو ہزارگنجی سے شہر کی طرف روانہ ہوئے تو کلچرڈے کے آثار نظر آنے شروع ہوئے حتی کہ جامعہ بلوچستان پہنچاتو میلہ لگا تھا ہرطرف دستار ہی دستارتھے ‘سیلفیوں کا دور تھا کہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا میں کچھ واقف کاروں کے قریب سے گزرا تب بھی انہیں سیلفیوںکی وجہ سے ہوش نہیں رہا حالانکہ میں ان کی دعوت پر ہی شال جامعہ بلوچستا ن پہنچاتھا دسمبر میں جو سردی چھوڑ کرگیاتھا وہ سردی کہاں اب تو جامعہ بلوچستان میں بہار ہی بہار تھا ‘بارش اور بارش میں کلچر ڈے اور اس کلچر میں پروفیسر‘ لیکچرر‘ رہبر اورسیکورٹی آفیسرسب ہی شریک تھےمیں اپنا سا منہ لے کررہ گیا‘جامعہ بلوچستا ن کے دوست کو سائیڈ پر لے جاکر کہا کوئی دستار ہے تو دے دو میں ان کے سامنے بغیردستارکے عجیب لگ رہا ہوں پہلے تو پروفیسراور لیکچررز کو اس دن سادہ دیکھ کر تسلی ہوتی اوروہ طرح طرح کی تاویلیں دے کر اس دن کو منانے سے منع فرماتے لیکن آج تو وہ بھی دستار کے ساتھ سجے ہیں اور سنا ہے پریس کلب میں اخترمینگل بھی میلہ لوٹ رہے ہیں مجھے وہاں جانا ہے اور کہیں وہاں بغیر دستار کے جاکر دستار والوں کے بیچ عجیب نہ لگوںاور کلچر نہ منانے والا بلوچ دشمن لگوں اور اخترمینگل مجھے بغیر دستار کے دیکھ کر میری شکایت کرکے مجھے کلچر میں شامل سیکورٹی آفیسر کے حوالے نہ کردیں یہ سن کر دوست کی ہنسی نکل گئی اور کہا “ یار ایک اضافی دستار بچا کر رکھا تھا صبح جب ناشتہ لینے گیا تو ڈاکٹر حئی بدستور پیدل سٹرک سے گزررہے تھے میں نے ناشتہ ساتھ کرنے کا شرف بخشنے کا کہا تو ساتھ چل دیئے اورہمارے ساتھ ناشتہ بھی کیااوریہاں دستاروں کو دیکھ کر ایک دستار مستعار مانگ لیااور کہا کہ اس بار نئی پارٹی کی فعالیت کے لئے کلچر ڈے بنانا اور دستار پہننا ضروری ہے ۔اب میں کیسے منع کرتا میں نے وہ دستارڈاکٹرحئی کو دے دی ‘دوست کی یہ بات سن کر میں نے سرد آہ بھری اور ڈاکٹرحئی کی عمر میں اس سیاسی فعل پر بہت ملال آیا اور بعد میں یہ سن کر مزید ملال آیا کہ دستار لے جانے کے بعد ڈاکٹرحئی راستے میں کسی سیکرٹریٹ کے آفیسر کی گاڑی میں بیٹھ کر سیکرٹریٹ گئے اور شام تک سیکرٹریٹ میں رہے اور دستار پہننے اور کلچر شو میں آنے کی نوبت ہی نہیں آئی دستارنہ ملنے کے بعدجب دوست نے چائے پلائی اور میں نے آگے جا کر بڑے کلچر شو دیکھنے کی خواہش کااظہار کیا تو دوست نے مجھے رخصت کیا اور میں آگے بڑھا جامعہ بلوچستا ن کے آگے سے لوکل بس میں بیٹھا تو دروازے پر کھڑے ہونے کی جگہ مشکل سے ملی اور پھر دستارپہنے نوجوان جو ق درجوق پریس کلب جانے کے لئے لوکل بس میں چڑھے تھے خیر جب میں نے سٹوڈنٹ کارڈ دکھایا تو لوکل کے منشی نے منہ بنایااور کہا ”ایلم مست آن دنیااس سوار ء نی اراکان بسس “ میں نے کہا‘ میں تو کبھی کبھی شال آتا ہوں میرا تو آف کرایہ حق بنتا ہے تب منشی نے آدھا کرایہ کاٹ لیااور کہا ‘سب کلچر ڈے منانے جارہے ہیں ایک دن کے کلچر ڈے کا کیا فائدہ ؟آج کے بعد سب کلچر اورقومی لباس کو بھول جائیں گے سریاب پھاٹک سے آگے ہمارا کچھ بھی نہیں سب افغانوں کا ہے شہر میں صرف سریاب کے لوکل بسوں کے آنے جانے کا رشتہ قائم ہے باقی تو بلوچوں کا اب اس شہر میں باقی کچھ نہیں بچا صرف بڑی شلوار پہننے سے کچھ نہیں ہوگا اور دستار پہن کر ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے میں نے ہاں میں ہاں ملایا اورآخری اسٹاپ پر اتر گیا ‘دیگرنوجوان بھی اسی اسٹاپ پر اترے اور تیز قدموں سے پریس کلب کی جانب لپکے ‘میں بھی ان کے پیچھے ہو لیا لیکن باربارسرپر دستار نہ ہونے پر کوفت ہوتی رہی پریس کلب پہنچے تو نوجوانوں کا پہلے سے ہی رش لگا تھا اور پتہ چلا کہ اخترجان میٹروپولیٹن کے سبزہ زار پر بلوچ خواتین کیساتھ کلچر شو میں شریک ہیں اوراس شو میں مردوں کا داخلہ ممنوع قراردیاگیاتھا (بعد میں تصاویر میں اخترمینگل اور بی این پی کے سرکردہ رہنماﺅں کو ان خواتین کے درمیان پایا جہاں خواتین نے بلوچی لباس زیب تن کئے ہوئی تھیں اور وہ اخترمینگل کیساتھ سیلفیاں بنارہی تھیں‘اور اختردستارپہنے خواتین کے درمیان میں نظر آئے اور آغا حسن سمیت بی این پی کے ” مرد “ حضرات کا جم غفیر بھی نظر آیا بعد میں میں نے اخذ کیا کہ یہ پروگرام غیر بی این پی مرد حضرات کے لئے ہی ممنوع تھا) ایک نوجوان اپنے دوست سے کہہ رہا تھا کہ پروفیسر صاحب کے کلچر پروگرام پر چلتے ہیں ‘کتب میلہ بھی لگایاہے وہاں چلتے ہیں میں چھونک گیا اور ان سے استفسار کیا کہ کتاب میلہ کہاں ہے اورکس پروفیسر نے لگایاہے تو پتہ چلا جشن قلات کی بھرپورکامیابی اورپذیرائی کے بعد اب کلچرڈے کااہتمام بھی پروفیسر لیاقت سنی صاحب نے سیشن کورٹ میں کیا ہے اور وہاں کتب میلہ بھی لگایا ہے ‘جشن قلات ‘جشن پی ٹی وی بولان اوراب جشن کلچر ڈے اب ادباءاورشعراءنے قوم کومایوسی کی اتاہ گہرائیوں سے نکالنے کے لئے جشن سیریز کاسلسلہ شروع کررکھا ہے ذہن میں آیا کہ وہاں سیمینار جیسا ہوگا‘ بلوچ دانشورہونگے ‘بلوچ کلچر پر بات ہوگی تہذیبی سفر پر روشنی ڈالی جائے گی‘ زبان وادب کی بات ہوگی قومی بقاءکی بات ہوگی ‘سرجوڑے بیٹھے لوگ نظر آئیں گے ‘پروفیسررولیکچرررزدستار سے پہلے سروں کے تحفظ پرمضطرب نظرآئیں گے اور کہتے ہوئے سنے جائیں گے کہ سرسلامت دستار بہت‘اور یہ کہ کلچر کے لئے قومی بقاءضروری ہے اور اس امرپربھی بات ہوگی کہ ” آجو دیرے ‘دیرے غلام ء “خیر کین کپن ؟یقینا اس پربھی تشویش کااظہارکیاجائے گا کہ اس شہر میں ہمیں اکثریت ثابت کرنے کا چیلنج درپیش ہے ‘ لیکن وہاں جاکر دیکھا تو ایسالگا کہ یہ بی این پی عوامی کا پروگرام ہے اور پروفیسر اس میں مدعو ہیں کچھ پروفیسروں کو ” جشن قلات کی بھرپورمخالفت نے مستقبل قریب میں کوئی بھی جشن منانے سے روک لیا ہے“ یہ ہمارے پروفیسر بھی اب بی ایس او بن گئے گویا حمایت کے لئے کوئی پارٹی ضروری ہے چاہے وہ اسرارزہری ہو یا اخترمینگل مزید کچھ پروفیسروں کی بھی امید بھر آئی ہے اور ڈاکٹرحئی نے بھی ایک پارٹی بنالی ہے‘ اس کے لئے بھی تو پروفیسرز چاہیئے ہونگے پروفیسر صاحب کے پروگرام میں بھی وحید زہیر اور افضل مراد کے پروگراموں کی طرح علم وادب کلچراور قومی بقاءپر کوئی بات نہیں ہوئی چنانچہ پروفیسرکے پروگرام پر وحیدزہیر اور افضل مراد اپنی غیر موجودگی کے باوجود اپنی مزاج کا گہرا رنگ چھوڑ گئے تھے پروفیسروں کا پروگرام ہو اوراس میں لیکچر نہ ہو مجھے سخت مایوسی ہوئی گویااس سال بھی ہمارے ہاں کلچر ڈے لباس تک ہی محدودرہا شاہد اگلے سال کوئی پروفیسر‘ رہبر اور سکیورٹی آفیسر اس کی تہذیبی اورتمدنی اس کی بقاءاور فروغ پر روشنی ڈال سکے میں تھکاہارا واپس یونیورسٹی آیاد وست بھی تھکاہواتھا ‘مجھے لے کر سریاب روڈ پر اپنے مہمان خانے لے گیا اسے اپنی روداد سنائی تو کہنے لگا ‘آج کل جامعہ بلوچستان میں روز کلچر ڈے ہوتا ہے رساکشی کا پروگرام صبح وشام جاری رہتا ہے واقفان حال بلوچ کی برادرکشی کی داستانوں سے بخوبی واقف ہیں
No comments:
Post a Comment