دستا ر..... کفن........ تدفین
زرک میر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچی اپنے بال نہ سنوار سکتی ہو ،بہتی ناک صاف نہ کرسکتی ہو ،عورت ہونے کا کوئی اعضائی شعورنہ رکھتی ہو لیکن گڈے گڑیوں (دُ تک )کا کھیل ایسا کھیلتی ہے جیسا کہ اسے دنیاداری کا مکمل شعور ہو ۔کشیدہ کاری کرکے گڑیا بناتی ہے ۔ان کی آنکھیں بال منہ ناک دھاگہ سوئی سے بنا کر خوبصورت کپڑے پہناتی ہے ۔ان کے رشتہ دار بناتی ہے ، ان کے لئے گھروندے بناتی ہے، شادیاں کراتی ہے ،ناراضگیاں ، لڑائیاں کراتی ہے ۔ایک چھوٹی دنیا ۔جس میں زندگی اور موت تک کا سفر بھی دکھاتی ہے ۔
11سالہ بختو کا گھر پہاڑ کے اوٹ میں قائم چند گھروں پر مشتمل خلق (گاﺅں) میں تھا۔گھر گاﺅں کے جنوب کی جانب پہاڑی کی طرف سے پہلی لائن میں قائم تھا ،گھر کے عقب میں کچھ فاصلے پر ایک پرانا درخت سالوں سے قائم تھا ۔انتہائی گہری شاخوں والا یہ توت کا درخت جگنو کے نام سے مشہورتھا ۔ یہ بختوکی پوری دنیاتھی بختو گھر سے نکل کرعقب میں جگنو کے گہرے سائے میں پہنچ جاتی ،پھر اپنی سہیلی ماہ پری کے ساتھ مل کرجگنو کے سائے میں گڈے گڑیوں کی دنیاآباد کردیتی ۔یہ دونوں ان کے لئےگھر بناتیں پھر ان میں ان گڈے گڑیوں کومختلف کام کرتی دکھاتیں ۔کچھ( دُتک) گڈے گڑیاں اگر پرانی ہوجاتیں اوران کے کشیدہ کاری سے بنائے گئے چہرے مسخ ہوجاتے تو وہ ان کے موت کا اعلان کرکے ان کو ان کے لئے بنائے قبرستان میں دفنا دیتیں اور نئے گڈے گڑیاں بنا کر ان کی جگہ پرکی جاتی۔ کبھی بختو کے گڈے گڑیوں کے ہاں شادی کا سماں تو کبھی اس کی سہیلی ماہ پری کے گڈے گڑیوں کے ہاں موت کا سا سماں ۔شادی میں بھی تمام رسم اداکرائے جاتے اور موت میں بھی ۔دفنائے گئے گڈے گڑیوں کی رسم سوئم (خیرات پر) ٹافیاں تقسیم کی جاتیں ۔
بختو کا باپ میرو باغات میں کام کرتا تھا ۔ کبھی کسی ٹیوب ویل پر تو کبھی کسی زمیندار کے باغ میں رکھوالی یا باغ فصلیں سیراب کرنے کا کام ۔چند بھیڑ بکریاں بھی گھر کے صحن میں بندھی رہتی تھیں جنہیں الصبح میرو کھول کر پہاڑ کی جانب ہانکتا ۔جب یہ پہاڑ کے قریب پہنچتیں تو میرو اپنے کام کی جانب روانہ ہوتا ۔یہ چرکر دوپہر کو خود ہی گھر کی طرف لوٹتیں ،پھر بختو کی ماں ان کا دودھ دھو کردودھ والی چائے (شیرچاہ) بناتی بختو کی دادی چلم(حقہ) بجھا کرچائے پینے آگے بڑھتی،بختو کا سات سالہ بھائی اکبر بھی پیالہ اٹھاکر چائے کا انتظارکرتا، میرو بھی باغ سے کام ختم کرکے آجاتا،سب مل کر چائے پیتے ۔یہ روز کامعمول تھا ۔ بختو اس دوران اپنے تھکے ماندے باپ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ۔اس کے مونچھوں کو تاﺅ دیتی اوردستارکو سیدھا کرکے کہتی دیکھو میرمیران خان بڑے غصے میں ہیں،پھر دستار کی حالت دیکھ کر ہنستی اورکچھ مزاحیہ جملے کستی ۔میرو کا دستار بھی زمانے کے کافی سرد گرم دیکھ چکا تھا ۔گرد آلود ہواﺅں اور تپتی دھوپ تھاپ کر دستارمیں چھید پڑگئے تھے اور دستار کا ہرول سرے سے تارتار ہوچکا تھا۔کپڑے کا رنگ سفید سے بالکل پیلا پڑچکاتھا ۔
اماں اگر آج کھانا پکانے کو کچھ نہیں تواس گوبھی کوہی پکا لیں
ماں پہلے حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھتی پھر سمجھ جاتی کہ بختو نے میرو کے دستار کی ہی بات کی ہے ۔
اپنے باپ کے دستار کے ساتھ ایسا مذاق ٹھیک نہیں ،یہ دستار ہماری عزت ہے۔ماں بختو کو ٹوکتی ۔
یہ سن کرمیرو کے ہونٹوں پرہلکی سے مسکراہٹ پھیلتی اور کہتا
میرا اصل دستار بختو ہے ، میری عزت ہے بختو ۔ بختو سلامت تو میرا دستار سلامت ۔۔۔۔۔
بختو اپنے بھائی اکبر سے چار سال بڑی تھی۔باپ کی لاڈلی تھی ۔
ایک دن میر وموٹے تازے بکروں میں سے ایک بکرے کو شہر بیچنے لے گیا۔،بختو اور اکبر سمجھ گئے آج ان کا باپ میرو ان کیلئے شہر سے چیزیں لائے گا ۔گاﺅں سے سڑک کچھ دور تھی لیکن گھر سے سڑک بالکل صاف دکھائی دیتی، کبھی میرو شہر جاتا تو بختو کی عادت تھی کہ دوپہر کو بس کا انتظارکرتی جونہی سڑک پر بس کو آتی دیکھتی جو پہاڑ کے اوٹ سے نکلتے ہی سڑک پر رک جاتی ،بختو سمجھ جاتی کہ ابا ابھی بس سے اتریں گے ،اس روز بھی بس پہاڑ کی اوٹ سے دکھائی دیتے ہی رک گئی ،بختو آنکھیں پھاڑ کر بس کو دیکھنے لگی ،میرو اتارا اور ساتھ میں کنڈیکٹر اس کا سامان اتارنے لگا ۔ کچھ گٹھڑی اتارنے کے بعد بس دوبارہ دھواں چھوڑتی ہوئی روانہ ہوگئی ۔میرو نے اپنا سامان سمیٹا اورایک گٹھڑی کو کندھے پر اورباقی دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر گھر کی طرف آنے لگا ۔جوں جوں میرو قریب آتا گیا بختو کا تجسس بڑھتا گیا کہ اس بار اباجان کیا کیا لانے والے ہیں ۔ میرو اب گھر کے اتنے قریب آگیا تھاکہ بختو کو دوڑ کر اس کے پاس جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔بختو نے دوڑ لگائی اکبر بھی اس کے پیچھے ہولیا ۔ بختو نے کندھے والی گٹھڑی اباسے لے کر خود ہی اٹھا لی۔ اکبر بھی باپ کے پیروں میں لپٹ گیا ۔میرو نے صحن میں پہنچ کر دم لیا اور سامان نیچے رکھ کر دیوار کیساتھ بچھی دری پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ دیوار کی اوٹ میں سائے کافی پھیل گئے تھے ۔ بختو کی اماں نے میرو کیلئے پانی کا گلاس لایا ۔میرو نے پانی پیا ۔ بختو جلدی جلدی دوگٹھڑیوں کو کھول کر دیکھ بھی چکی تھی ۔
ابا نے گوشت لایا ہے ،مٹھائی بھی ہے ،اکبر کیلئے جوتے بھی ہیں ۔واہ میرے لئے دوپٹہ بھی ہے۔۔۔۔
،بختو چیزیں دیکھتی جارہی تھیں اور خوش ہوتی جارہی تھی ۔دفعتا اس کی نظر پلاسٹک کے ایک تھیلے پرپڑی اور چھونک اٹھی ۔
یہ کیا ہے ؟
میرواپنے لئے دوسرے سازوسامان کے ساتھ ایک نیا دستار بھی لایاتھا۔ بختو خوش ہوگئی لیکن باپ کو چھیڑنے لگا
ارے واہ ابا آپ نے میری بات مان لی اپنے لئے نیا دستار لے آئے ۔
اب پرانا دستار مجھے دو اسے میں اپنے گڑیوں کیلئے استعمال کرونگی۔۔۔۔ اس کا کپڑا میری گڑیوں کے کام آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔
یہ سن کر دادی نے بختو کو ڈانٹا۔۔۔
تو اپنے باپ کے دستار کو گڑیوں کیلئے استعمال کریگی ؟دستار کیساتھ ایسا مذاق نہیں کرتے ۔پرانا دستار تو میرے کفن کے لائق ہے اور تو اسے اپنے گڈے گڈیوں کےلئے استعمال کریگی
بختو کھلکھلا کر ہنس پڑی اور کہا
چلو پھر اسے اپنے پرانے گڈے گڑیوں کیساتھ دفنا دیتی ہوں ،میرے گڈے گڑیوں کی طرح پرانی دستار بھی اب کسی کام کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دادی نے پھر ڈانٹا
بختو تمہارے گڈے گڑیاں (دتک) بھاڑ میں گئیں ، تم دستار کو دفنانے کی باتیں کیوں کررہی ہو؟یہ بات کرنے سے پہلے تمہارے دانت کیوں نہیں گرے (براہوئی متل " تمے باغا نا" )
بختو کی پھر ہنسی چوٹی ،دادی نیا دستار آگیا ہے اب ابا اس کا کیا کرینگے ؟
لیکن یہ تمہاری گڑیوں کیلئے بھی استعمال نہیں ہوسکتا۔۔۔ سمجھی؟
پھر اسے دفنا دینا چاہئے اسے ڈھیر (کچہرہ دان ) میں بھی تو نہیں پھینک سکتے
بختو نے پھر دادی کو لاجواب کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
بس بختو بس ، جاﺅ اپنا کام کرو تمہیں دستار کی حرمت کا کیا پتہ ،اسے میں اپنے لئے سنبھال کررکھونگی ،اگر یہ میرا کفن بنے تو میری روح کو تسکین ملے گی
یہ باتیں سنتے سنتے میرو کا چہرہ سرخ ہوتا گیا و ہ ایک دم چیخ اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی (امی ) یہ کیا رٹ لگا رکھی ہے تم لوگوں نے ۔
بختو کہتی ہے اسے گڑیوں کیلئے استعمال کریگی یا اسے دفنا ئے گی اور تم اسے کفن بنانے کی باتیں کررہی ہو ، کیا میں مر گیا یا میری عزت ختم ہوگئی کہ میرے دستار کو تارتار کرنے پر تلی ہو تم دونوں۔۔۔۔ عورت ذات ہی ایسی ہے ،عزت خاک میں ملانے والی۔آج یہ دستار کے بارے میں نئی نئی باتیں کیوں سننے کو مل رہی ہیں کہیں یہ میرے دستار پر زوال کی نشانی تو نہیں ۔عورت کی زبان کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا ۔ہماری روایات میں کہیں دستار کو نہ تو کبھی کفن بنایاگیاہے اور نہ ہی کبھی اسے پرانا ہوجانے پردفنایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ میرو کا پارا چڑھ گیاتھا۔ وہ وہم کا شکار ہوگیاتھا ایسا ہی جیسے کہ گاﺅں میں یہ روایت ہے کہ رات کے کسی پہر اگر بھونکتے بھونکتے کتے کی آواز روہانسی ہوجائے ،مرغا اگر دوپہر کو آذان دینے لگے کوئی کسی کے دستار کے گرانے کی بات کرے رات کے وقت گھر میں کوئی جھاڑو دے تو یہ کسی سختی کا پیغام سمجھا جاتا ہے ،میرو کو اس کے دستارکے بارے میں گھر سے ہی ایسی باتیں سننے کو ملی تھیں کہ وہ سیخ پاہوگیاتھا یہ وہم کسی پیشن گوئی کا واحد ذریعہ بن گیا تھا ۔ سو میرو اور میرو کے خاندان پر خودساختہ خوف طاری ہوگیا ۔
میرو رنجیدہ ہوگیا تھا بلکہ اب گہری سوچ میں بھی پڑگیا تھا۔شہر سے ڈھیر ساری چیزیں لانے کی خوشی بڑی اماں اور بختو کی غیر ارادی باتوں سے ماند پڑ گئی تھی ۔اکبر برابر چیزوں کو الٹ پلٹ کرکے دیکھ رہاتھا باقی سب سہم گئے تھے ۔بختو کمرے میں چلی گئی تھی ۔اسی اثناءمیں بختو کی اماں شیر چاہ سے بھری کیتلی (چاہ دان) لے آئی اس کے چہرے پر بھی خوف کے سائے نمودار ہوگئے تھے ،بڑی اماں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور اپنی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگی ۔
میرو میرا بیٹا ہے،میرے بیٹے کا دستار میرے جسم کا کپڑا نہیں بن سکتا تو کفن کیسے بن سکتا ہے ؟میں نے تو یونہی یہ بات کہہ دی تھی ،اللہ نہ کرے میرو کے دستار پر کوئی حرف آئے ۔
اماں ایسی باتیں یونہی منہ سے نہیں نکلتیں ، ضرور کچھ ہوگا ، کچھ ایسا غلط نہ ہو کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں ۔ میرو پر اماں کی وضاحت کا کچھ اثر نہیں ہوا
کچھ نہیں ہوگا ٰبختو کے ابا۔ہم نے پچھلے مہینے تو بکرے کا صدقہ کرایا ہے ،اور کہتے ہیں کہ خیرات سے بلا ٹل جاتے ہیں ،بیوی نے میرو کی ہمت باندھتے ہوئے کہا
میرو نے کہا ، وہ تو ہم نے اکبر کی نظر اتارنے کیلئے صدقہ دیاتھا ، اس بار ضرورکوئی ایسی مصیبت آنی ہے جو میری عزت پر حملہ آور ہونے والی ہے کہ میری ماں اور میری بیٹی میری عزت (دستار ) کوکفن اور دفنانے کی باتیں کررہی ہیں ۔
بیوی نے کہا ، تمہاری عزت سے کوئی چیز ہمیں عزیز نہیں ،ان بکروں سے جو چاہواس کا بھی صدقہ دو۔
بکروں کا صدقہ تو دوں لیکن عزت پر حملہ آور مصیبتوں کا مقابلہ ایسا آسان نہیں ،اب نیا دستار کیسے پہنونگا ،مجھے تو خوف آرہا ہے کہیں نیا دستار پہنوں گاتو کچھ ہوجائے گا ۔
اللہ بخش کی نیت مجھے کئی دنوں سے ٹھیک نہیں لگ رہی ، وہ برسوں پرانی دشمنی نکالنے کی سوچ رہا ہے کہیں یہ اس کی طرف سے میری عزت پر حملہ کا اشارہ نہ ہو۔
کون سی پرانی دشمنی ؟
اس بار میرو کی ماں نے اپنی خفت سے نکلتے ہوئے پوچھا
میرو نے گہرے سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا
اس کی بہن سے میں نے اپنی مہنگی توڑ دی تھی یہ کہہ کر کہ وہ عزت کے قابل نہیں
کوئی بات نہیں بیٹا ، وہ فیصلہ لوگوں کے سامنے ٹکری دینو نے کیا تھااور جرگے نے فیصلہ بھی تمہارے حق میں کر کے اللہ بخش سے مہنگی کا پورا خرچہ تمہیں دلوایاتھا ۔
وہی تو اماں ،اب وہ مختلف بہانے ڈھونڈ رہا ہے بدلہ لینے کیلئے ۔بختو بڑی ہوگئی ہے مجھے اس کی فکر کھائے جارہی ہے ۔اللہ بخش درندہ ہے کچھ بھی کرسکتا ہے ۔
یہ سن کر اماں حقہ کا ہلکا سا کش لے کر خاموش ہوگئی ۔
میروکو پورا یقین ہوگیا تھا کہ اب اس سے کوئی نہ کوئی بدلہ لینے لگا ہے ،اب وہ ان لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا جن سے اس کی ماضی میں کوئی عزت اور بے عزتی والا معاملہ پیش آیاتھا
نصیر والے بھی اپنا بدلہ چکانے کا سوچ رہے ہونگے جوان کے خلاف بطور گواہ جرگہ میں پیش ہوا تھا ،لیکن وہ تو حقیقت تھی ان کی عورت کھیتوں میں پارگاﺅں والے اسد کیساتھ پکڑی گئی تھی اور صرف میں ہی گواہ نہیں تھا بلکہ چھ اور آدمی بھی گواہ تھے ۔گاﺅں کی غیرت کا معاملہ تھا ،میں کیسے پیچھے رہ سکتاتھا ۔ اور پھر وہ چوری کا معاملہ جہاں زرجان کے گھر کی عورتیں باغ میں چوری کی نیت سے آئی تھیں میں باغ کا رکھوالی تھا انہیں کیسے نہ پکڑتا ۔ میرو کے سامنے اس کے ایسے کارنامے تیزی سے ایک ایک کرکے آرہے تھے جو اس نے ماضی میں انجام دیئے تھے اور یہ کارنامے اس کے انجانے خوف میں مزید اضافہ کررہے تھے۔ اسے لگا پورا گاﺅں ہی اس کا دشمن ہے اور اس سے بدلہ لینے کے تاک میں ہے یہ سوچ سوچ کر میرو کی حالت ہی غیر ہوگئی تھی، اکبر بھی سب کو سہما ہوا دیکھتے ہوئے باہر کھیلنے گیا تھا جبکہ بختو کمرے میں بیٹھ کر اپنے باپ کی اس حالت کو دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوتی گئی ۔ یہ آگ اس کی باتوں سے لگی تھی ،وہ اپنی چھوٹی منہ سے بڑی بات کہہ گئی تھی اور جس ممکنہ خطرے کی گھنٹی اس کی نادانی کی وجہ سے بجی تھی اس خطرے کا نشانہ بھی وہ بننے والی تھی تب تو اس کی ساری چینچل شوخ ادائیں ہوا ہوگئی تھیں ۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیاتھا ،جب باپ نے معاملے کو اس قدر سنگینی سے لیا تھا اور سب گھر والے سہم گئے تھے تو بختو کا خوفزدہ ہونا فطری امر تھا اور پھر وہ اس انجانے خوف کو جنم دینے والی بھی وہ خود تھی ، قبائلی رسم ورواج اور روایات سے نابلد بختو نے اپنی لاشعوری سے اپنے خاندان کی پوری عزت کی عمارت کو لرزہ دیا تھا،اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس عالی شان عمارت کی بنیاد اس کے کمزور نسوانی کندھوں پر کھڑی ہے جسے اس نے اپنی معصومانہ اورلاشعور باتوں سے لرزہ دیاتھا، بختو کے ننے ذہن پر اس کا گہرا اثرتو ہونا تھا ۔اس کی معمولی سے بات اس کے گلے میں پھندہ بن کر پھنس گئی تھی ،اس کی چھوٹی سے بات پورے گھر کو غیر ارادی طورپر پراسرار خوف کا شکار بنادے گی اس کو اس کا قطعی اندازہ نہیں تھا،اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ عزت کی یہ ان دیکھی عمارت کس قدراہم ہے اور کس قدر کمزور بھی اس قدر کمزور کہ جسے میری جیسی بچی کی باتیں اتل پتل کرسکتی ہیں ۔ توہم پرستی گالی ، غصہ اور ظاہری تعریف وتوصیف پر کھڑی یہ عمارت دھڑام سے نیچے گرنے والی تھی۔تب ہی وہ کمرے میں سہم کر بیٹھ گئی تھی ۔ماں نے چائے کی پیالی دی تو چائے پینے سے بھی انکار کردیا ۔
اب اندھیرا چھانے لگا تھا ،میرو کمرے میں آگیاتو بختو کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی ۔اذان کی آواز سنائی دی تو میرو اٹھا وضوبنا کر نماز پڑھنے مسجد گیا،کچھ وقت بعد مسجد سے لوگ باہر نکل کر گھروں کی طرف جانے لگے جب مکمل اندھیرا چھانے لگا تو بختو کی ماں نے دسترخوان بچھایااور آواز دینے لگی۔ سب کھانا کھانے لگے لیکن بختو نہیں آئی ۔بختو آﺅ کھانا کھاﺅ ۔ماں نے دوبارہ آواز دی ۔
میرو نے کہا
کہاں ہے بختو کیا ہوا اسے ؟
اس بات کو لے کر بچی ڈر گئی ہے کہیں دھب کر بیٹھ گئی ہوگی ،یہ کہہ کر اس کی ماں کچن میں ڈھونڈنے گئی لیکن بختو وہاں بھی نہیں ملی
ماں کا ماتھا ٹھنکا ،یہاں وہاں دیکھا ،مویشوں کے باڑے میں دیکھ آئی ، دروازے سے باہر جھانک کر گلی میں دیکھا لیکن بختو کہیں نظر نہیں آئی ۔بختو بختو ،ماں نے دو تین بلند آواز سے پکارا لیکن کوئی جواب نہیں آیا ۔
میرو بھی اٹھ کر دروازے پر آگیاتھا ،کہاں گئی بختو
پتہ نہیں ،تمہارے مسجد جانے تک تو یہی گھر میں تھی ،پتہ نہیں کہاں چلی گئی
میرو نے ساتھ ہمسائیہ کا گھر کھٹکھٹایا لیکن وہاں سے بھی جواب نہیں میں ملا
بختو کو کیا ہوا ؟کون لے گیا اسے ؟ سارامعاملہ میرو کے ذہن میں پھر سے گھومنے لگا ۔پیشن گوئی واقعی سچ تو ثابت نہیں ہور ہی ۔کہیں اللہ بخش نے تو ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ، گھر سے میری بچی کو کیسے لے جاسکتا ہے اللہ بخش
اب وہ دوبارہ گھر آکر سوچنے لگا کہ بختو کہاں جاسکتی ہے ؟
بیوی اور ماں نے کہا کہ فلاں فلاں کے گھر میں گئی ہوگی وہاں جا کر پتہ کرو
میرو نے کہا نہیں نہیں ،اس طرح سے بات پھیل جائے گی ،اگر بختو کہیں گئی ہوگی تو آجائے گی اگر کوئی اور لے گیا ہے توتب بھی لوگوں کو کیا پتہ۔ بعد میں لوگ باتیں بنانے لگیں گے۔نہیں نہیں ہم کسی کے پاس نہیں جائیں گے ۔بس کچھ دیر انتظار کرینگے اس کے بعد خود جاکر ڈھونڈونگا اسے ۔کسی نہیں کچھ نہیں بتانا ۔
دستر خوان یونہی بچھا رہا ،پلیٹ میں گوشت کی بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن سب مصیبت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ اکبر بیٹھا بوٹیاں کھا ئے جارہاتھا ۔
میرو نے سوچا ،کرم خان کو بتادوں میرا راز دان ہے میرے ساتھ چل کر بختو کو ڈھونڈنے میں ساتھ دیگا ،لیکن ساتھ اس کے ذہن میں بدگمانی کی ایک لہر سی اٹھی ۔ایسے موقعوں پر کوئی کسی کیلئے باتیں دبا کر نہیں رکھتا میں خود ہی جاﺅنگا ڈھونڈنے ،لیکن کہاں کہاں جاﺅں ،اس وقت کسی نے اس طرح سے دربدر گھومتے دیکھ کر وجہ پوچھی تو کیا بتاﺅنگا ،سوال وجواب کاسلسلہ میرو کے ذہن میں جاری ہوچکاتھا جہاں سوال بھی خود سے پیدا ہورہے تھے اور ان کے جواب بھی میرو خود گھڑ ےجارہا تھا ۔ اس کے پاس وقت بعد کم ہے ،رات اور لڑکی کا غائب ہونامعمولی بات نہیں ۔گاﺅں میں میری عزت صبح تک دفن ہوچکی ہوگی ،یہ سوچ کر اس کے اعصاب شل ہوتے جارہے تھے ،اس نے سرپر ٹو پی پہنی اور گھر سے نکل گیا ،بیوی نے قرآن اٹھا کر سینے سے لگایا ۔دادی اماں بھی اپنے طورپر دم درود میں لگ گئی
میرو پہلے مسجد کی طرف گیا ،وہاں مسجد کے طالب گاﺅں سے زیرہ اکٹھا کرکے مولوی کے ہجرے کی طرف جارہے تھے ،میرو نے سوچا ان سے پوچھوں لیکن پھر دل میں خیال آیا کہ یہ جا کر ملا کو بتا دینگے ملا عشاءکی نماز پر تمام نمازیوں کو یہ خبر سنا کر صبح ہونے سے پہلے ہی گاﺅں کے لوگوں کو میری عزت کے دفن ہونے کا قصہ سنائے گا ۔
میرو یہاں گیا وہاں گیا ۔ میر کے ٹیوب ویل پر گیا،ایک بار سوچا اللہ بخش کے گھر میں گھس کر اپنی بچی کا پتہ کرے پھر خیال آیا اگر اللہ بخش بختو کو لے گیا ہوگا تو اپنے گھر میں نہیں رکھے گا ،اس خیال سے پھر باغ گیا وہاں ٹارچ کی روشنی سے دیکھنے لگا ،دل نے چاہا زور زور سے بختو بختو پکارے پھر ڈر لگا کہ کہیں لوگ نہ سن لیں ، میرو مکمل طورپر بے بس ہوچکا تھا سوچا خود کسی کنویں میں کھود جائے اس کے علاﺅہ اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا ،لیکن ایک امید کے سہارے پھر سے گاﺅں کی گلیوں میں ڈھونڈنے لگا ،کوئی دیکھتا اور وجہ پوچھتا تو کہتا کہ بکرا رسی توڑ کر بھاگ گیا ہے اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ ورنہ صبح تک کتے کاٹ کھائیں گے اسے۔ لوگ اسے ڈھونڈنے کیلئے ممکنہ جگہوں کا کہہ کر آگے بڑھتے ،کیا ستم تھا کہ بچی کے کھونے کا کسی بتا بھی نہیں سکتا ۔اب بختو کی گمشدگی معمہ بن گئی تھی ۔میرو سوچتا وہ گھر چلا جائے شاہد اس وقت تک بختو گھر آگئی ہوگی لیکن پھر سوچتا کچھ آگے تک چل کر ڈھونڈ لے پھر واپس گھر چلاجائے ۔بالآخر لوگ عشاءکی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو جارہے تھے میرو نے گاﺅں کے دکان پر کھڑے ہوکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بھی نماز پڑھ کر ہی باہر نکلا ہے ،جونہی لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے وہ اپنے گھر واپس آیا ۔ بیوی اور اس کی ماں بدستور قرآن سے لگ کر پریشان حال بیٹھی ہیں ۔
کیا ہوا ؟
کیا ہونا ہے بس صبح میری عزت کا جنازہ اٹھنے والا ہے ،میرو نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا
یااللہ میری بچی صحیح سلامت مل جائے میں دو بکروں کا صدقہ دونگی ،بیوی نے کہا
اب بکرے میری سوئم (خیرات ) پر ہی صدقے کروانا ،میں عزت کے بغیر جی کرکیا کرونگا ،میرو نے پانی کا گھونٹ خشک حلق میں اتارتے ہوئے کہا
ایسی باتیں نہ کرو بچی کسی صورت میں مل جائے تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔بیوی نے روتے ہوئے کہا
تمہیں اپنی بچی کی پڑی ہے تمہاری بچی اگر اپنی مرضی سے کہیں گئی ہے یا کوئی اسے اٹھا کر لے گیا ہے وہ تو واپس آجائے گی لیکن میری عزت کا کیا ہوگا ،یہ سوچا ہے تم نے ؟میرو نے اپنی بیوی کو ڈانٹ پلائی
بیوی روتی رہی اور زور زور سے دعائیں مانگنے لگی
میرو ایک بارپھر اٹھا اور گلی میں دیکھنے لگا لیکن کچھ نظر نہیں آیا،گاﺅں کی گلیاں سنسان ہوگئی تھیں ،کتے باہر آگئے تھے اور ادھر ادھر غول درغول بھونکتے جارہے تھے ،گلیاں ان کی آواز سے گونج جاتیں ،میرو دیوانہ وار گلیوں میں گھستا رہا اور یہاں وہاں دیکھتا رہا لیکن کچھ بھی نظر نہیں آیا ،گاﺅں سے دور کچھ پاوالیوں (خانہ بدوشوں) کے گدان تھے سوچا وہاں جاکر دیکھ لوں وہ مجھے کیا جانتے ہیں وہ ویسے ہی یہاں کے رہنے والے نہیں ،اگر بختو وہاں گئی ہے تو وہ مجھے ضرور بتائیں گے میری ان سے کیا دشمنی ہے ،یہ سوچ کر اس کے قدم تیزی سے گدانوں کی طرف بڑھنے لگے ،یہ دیکھ کر ان کے شکاری کتے میرو کی طرف تیزی سے لپکے ۔ گدان والے کتوں کی اچانک لپکنے پر اٹھ بیٹھے دیکھا کوئی ان کی طرف ٹارچ لگا کرآرہا ہے ان میں سے بھی کچھ لوگ گدانوں سے نکل کر میرو کی طر ف آئے ۔ سلام دعا کے بعد میرو کی نظر غیر ارادی طورپران کے دستاروں پر پڑی تو اس کے سامنے ایک بارپھر دستار کی پوری داستان گردش کرنے لگی،میرو کو ان کے دستار اندھیرے میں بھی انتہائی صاف اجھلے اور بغیر پٹے پرانے محسوس ہوئے کیونکہ ان پر میرو کو ایسا کوئی داغ اور چھید نظر نہیں آیا جو میرو کی نئی دستار پرلگنے والے تھے ۔ میرو کی غیرت جاگ گئی اور اپنا ارادہ بدل لیا اس نے پاوالیوں (خانہ بدوشوں ) سے کہا اس کا ایک بکرا گم گیا ہے کہیں یہاں تو نہیں آیا ۔انکار سن کر میرو واپس مڑا اور تیزی سے گاﺅں کی طر ف آنے لگا ،وہاں سے گاﺅں خاموش اور پرسکون نظرآیاتھا ،میرو کو لگا بختو گاﺅں میں ہی کسی جگہ پرموجود ہے لیکن افسوس اسے یہ نہیں پتہ کہ اس کی بچی گاﺅں کے کس گھر میں قید ہے یا کہیں چھپ گئی ہے ۔وہ بار بار اللہ بخش کے گھر کی طرف دیکھتا کہیں وہاں سے چیخنے اور چلانے کی آواز تو نہیں آرہی ،کبھی کانوں کو خود سے ایسی آوازیں محسوس ہوتیں پھر دھیان سے سننے کی کوشش کرتا تو وہ آوازیں خاموش ہوجاتیں ،اب اس کے پاس کچھ ہی گھنٹے تھے یعنی مرغ کی آذان تک، اس کے بعد اسے گاﺅں میں یوں دیوانہ وار گھومنے پھرنے پر لوگوں کے کان کھڑے ہوجانے تھے اورپھر صبح سب کچھ واضح ہوجانا تھا ،صبح تک اللہ بخش اپنی درندگی کا ثبوت دے چکا ہوگا اور بختو کو کہیں پھینک کر چلاگیاہوگا ،اب وہ سوچ رہاتھا کہ بختو صبح کہاں سے ملے گی ،زندہ ملے گی یا کھیتوں میں اس کی بے حرمت لاش ملے گی ،اللہ بخش یا نصیر والے بختو سے کیا سلوک کررہے ہونگے ،کیا وہ بختو کی عزت تارتار کرکے اسے چھوڑ دینگے یا ماردینگے ،اب میرو کا ذہن بھی اس بلیک بورڈ کی طرح ہوگیا تھا جس پر ریاضی کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے جمع تفریق حاصل ضرب کرتے کرتے اصل سوال کہیں کھو گیا تھا اور پورا بلیک بورڈ ” رف عمل“ بن گیا تھا ۔گویا اب اس میں مزید سوال لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔وہ دوبارہ گھر آیا ،وہی منظر پھر سے دیکھا ،بیوی قرآن سے لگی تھی ۔دادی اماں لیٹی ہوئی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے بھی کوسوں دور تھی ۔
پیدل گاﺅں کی گلیوں کو دوتین دفعہ چھان مارنے باغ مسجد اور پاوالیوں کے ہاں پہاڑی کے پاس جاتے جاتے میرو تھک گیا تھا اور پھر وہ کئی گھنٹوں سے اعصابی جنگ کا بھی شکار تھا ،اب وہ چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں چھت پر گھاڑ دیں ایسے جیسا کوئی کوئی مرنے کے وقت بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھیں یونہی چھت پر گھاڑ دے،بیوی قرآن کو سینے سے لگائے میرو کو دیکھ رہی تھی اور رو رہی تھی
کتوں کی آواز اب دھیمی پڑ گئی تھی ۔مرغے آذان کیلئے پر پڑپڑ ارہے تھے ساتھ ہی ملا نے بھی آذا ن دینا شروع کردی ۔
آذان کا مطلب یہ تھا اب میرو کے پاس ٹائم ختم ہوگیاہے اپنی عزت بچانے کا ۔اب لوگ اٹھ چکے تھے ۔اب اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھاکہ وہ بختو کو ڈھونڈ کر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاکر اپنی عزت بچا لے ۔دن کی روشنی میں ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ تاریکی کاکام ہی غیر مرئی چیزوں کو شہ دینا ہے اور دن کی روشنی کا کام انہیں طشت ازبام کرنا ۔اس فطری اصول کا اب میرو پر پورا پورا اطلاق ہونا تھا ۔میرو نماز کیلئے مسجد بھی نہیں گیا ۔وہ سوچ رہاتھا کہ وہ گاﺅں چھوڑ کر چلا جائے لیکن جائے تو کہاں جائے ۔ایسے ممکنہ وغیر ممکنہ طریقوں پر سوچ کر وہ بالکل پاگل پن کی حد تک جاچکاتھا ۔
ادھر بختو مغرب کی نماز کے بعد اپنے آپ کو اس انجانے خوف کا ذمہ دار ٹھہرا کر گھر سے نکل گیاتھا وہ کیا کرنے جارہی تھی اور کہاں جارہی تھی اور اس کا کیا نیتجہ نکلے گا یہ اسے بھی پتہ نہیں تھا عین اسی طرح جس طرح سے دستار کو دفنانے والی بات اس نے بغیر سوچے سمجھے کہی تھی ۔وہ اپنے گڈے گڑیوں کو بھی اٹھا لایاتھا اپنے ساتھ ،وہ سیدھا جگنو کے پاس چلا گیا ۔اس نے تمام گڈے گڑیوں کو ان کے قبرستان میں دفنا دیا ۔اس بار وہ بڈھے گڈے گڑیوں کو نہیں دفنا رہی تھی بلکہ وہ تمام گڈے گڑیوں (دتکوں ) کو دفنا رہی تھی گویا اپنی چھوٹی سی دنیاکو دفنا رہی تھی ۔ وہ پتھر دل ہوگئی تھی۔ گڈے گڑیوں کو دفنانے کے بعد وہ لٹکی ہوئی رسی کے سہارے جگنو کے اوپر چڑھ گئی تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے ،جب تک کچھ روشنی باقی تھی وہ جنگو کے مزید اوپر کی شاخوں پر چڑھنے لگی تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ لے ۔شاہد اب نیچے جانے کے سارے راستے خود بختو بند کرچکی تھی اب وہ اس شاخ پر پہنچ گئی تھی جس پر کچھ پرندے رات بسر کرنے کیلئے اپنے پروں میں چونچ ڈالے سورہے تھے ۔بختو آج ان پرندوں سے اس قدر قریب تھی جس کی وہ کئی وقتوں سے خواہش کرتی رہی تھی کہ وہ ان کو قریب سے دیکھ سے اور ان کو چھو سکے لیکن آج وہ ان سے بے نیاز ہو کر ساتھ والی نسبتا مضبوط شاخ پر بیٹھ گئی ۔کچھ دیر جب روشنی مکمل طورپر اوجھل ہوگئی اورتاریکی نے اپنے سیاہ اور گنے پر پوری فضاءمیں پھیلا دیئے ۔چار سو اندھیرا چھا گیا تھا ۔ بختو کے ذہن سے اندھیرے کا خوف نکل چکاتھا ،ہوا چلنے سے پتے سرسرانے لگے ، عجیب موسیقی پیدا ہورہی تھی ،رات گہری ہوتی گئی ،گاﺅں سو گیا تھا ،بختو میرو اور اپنے گھر والوں سے بے خبر درخت پر چڑھی ہوئی تھی وہ اب بے خودی میں تھی ،گہری رات میں وہ کبھی صحن میں جانے سے ڈرتی تھی لیکن وہ آج جگنو پر زمین سے کئی فٹ اوپر گھپ اندھیرے میں ایک شاخ پر بے خوف بے حس و حرکت بیٹھی ہے اس کا ذہن اور شعور مائوف ہوگئے تھے، اسے جگنو پر اچھا خاصا وقت گزرگیا تھا ۔گہری رات میں ہوا کے تیز جھونکے آنے لگے تھے جس سے درخت کے شاخ حرکت میں آنے لگیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کا ایک زور کا جھونکا آیااور بختو والی شاخ کوزور کی جنبش دی ،بختو اپنا توازن کھو بیٹھا ،ایک دم سے وہ اپنے حواس پر کنٹرول کرنے لگا لیکن اب وہ نیچے کو آنے لگی تھی ۔ایک شاخ سے ٹکرائی دوسری سے ٹکرائی ،ننے ہاتھوں سے شاخوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ پھسلتے گئے ،وہ شاخوں میں پھنستی رہی پھر گرنے لگی ۔اب شاہد وہ بچنے کی بھرپورکوشش کررہی تھی لیکن کوئی ترکیب کام نہیں آرہی تھی ۔بالآخر درمیان میں تنے سے بختو کا سرزور سے ٹکرا گیا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا زمین پر گر گئی ۔
صبح نمازی نماز سے فارغ ہوگئے نمازی ایک ایک کرکے گھروں کو لوٹنے لگے تو کرم خان گھروں کے عقب کے راستے سے آنے لگا شاہد وہ رفع حاجت کیلئے پہاڑی کے پاس خشک ندی کی جانب جارہاتھا۔جونہی وہ جگنو کے پاس پہنچا تو اس کی نظر بختو پر پڑی ،وہ بختو کی طرف لپکا ۔جسم کب کا ٹھنڈا ہوچکا تھا ،کپڑے شاخوں میں پھنسنے کی وجہ سے تارتار ہوچکے تھے ،جسم لہولہان ہوچکاتھا ۔
کرم خان کے قدم تیزی سے میرو کے گھر کی جانب بڑھے ۔
تھوڑی دیر بعد میرو لاش کے قریب بیٹھا اپنی مری ہوئی عزت کو دیکھ رہاتھا
کسی نے بچی کیساتھ زیادتی کی اور اسے یہاں پھینک کر چلاگیا
کوئی درندہ ہی ہوگا ،درندگی کے بعد بچی کو مار کربھاگ گیا ہے
دیکھو کپڑوں کو کس بے دری سے بچی کے جسم سے چھیرا ہے ظالم نے
سر پر چھوٹ لگی ہے ،لگتا ہے بیلچے سے وار کیاہے
بختو کی عمر ہی کیا تھی ،تو بہ توبہ کیا زمانہ آگیا ،ایسی گندگی نظر آخر کس کی پڑی ہوگی بختو پر
لڑکی کا کسی سے کوئی چکر وکر تو نہیں تھا ۔ہوسکتا ہے کسی نے بھگانے کی کوشش کی ہو ،ناکامی پر اپنا منہ کالا کرکے اسے قتل کرکے پھینک کر چلا گیا ہوگا
جتنی منہ اتنی باتیں ،ہر کوئی اپنی بات کہے جارہاتھا
یہ کا م میرو کے کسی دشمن کا ہی لگتا ہے ۔ کسی اور نے بھی اپنی رائے دی ۔
یہ سن کر میرو نے کہا
اللہ بخش
اللہ بخش ،وہ کیوں ایسا کریگا ؟ کسی نے مجمع کو چھیر کر آگے بڑھتے ہوئے کہا
وہ مجھ سے اپنا پرانا حساب چکتا کرنا چاہتا تھا میں نے اس کے بہن کو چھوڑ دیاتھا ،میرو نے کہا
ارے لیکن اس بچی کیساتھ وہ ایسا کیوں کریگا ؟
کافی دنوں سے وہ اس تھاک میں تھا ،میرے گھر کے آس پاس بھٹکتا رہا ہے
جب میرو اللہ بخش کو قاتل ٹھہرا رہاتھاتو مجمع میں سے کسی نے کہا ۔ اللہ بخش تو شہر گیا تھا اپنی بیوی کو لے کر ، رات اسے بچی پیدا ہوئی ہے
میرو نے کہا
پھرنصیر نے ایسا کیا ہوگا
شیرو کی نظر بھی بری تھی
شاہنواز بھی ایسا کرسکتا ہے
ادو نے بھی گھر سے نکلنے پر کئی دفعہ بختو کا پیچھا کیاتھا
میرو نام لئے جارہاتھا اور الزام دھرتا جارہاتھا
لوگ اس کی حالت کو سمجھتے ہوئے چھپ ہوگئے
لوگوں نے بختو کی لاش کو عورتوں کی طرف منتقل کردیاتاکہ غسل وغیرہ دیاجاسکے
میرو قبر بنانے کیلئے بندے بھیج دیئے ہیں ،مولوی نے کہا
اس کی قبر گھر کے پیچھے والے قبرستان میں بنے گی
پیچھے والے قبرستان ؟یہاں کونسا قبرستان ہے ؟مولوی نے پوچھا
بختو کی بنائی ہوئی قبرستان
وہ خود قبرستان بنا گئی ہے ۔
بڑا قبرستان پہلے سے آباد تھا ،اپنے دفن ہونے سے پہلے اپنی معصوم سی خواہشات پر مبنی دنیا بھی دفن کرگئی تھی ۔اب خود دفن ہونے جارہی تھی ۔
یہ لوکفن
میرو نے اپنا نیا دستار غسل دینے والی عورت کو تھما دیا
قبر میں اتارتے ہی میرونے پرانا دستار بھی بختو کے پہلو میں ڈال دیا
اور دونوں ہاتھوں سے تیز تیز مٹی ڈالنے لگا ۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment