Monday, 5 August 2019

Dil py lagy Wo Zakham piya ||Episode#3

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#تیسری_قسط
وہ اسے غصّے سے گُھورنے لگی مگر بولی کچھ نہیں۔
اور رہی بات میرے یہاں آنے کی تو وہ آپ آنٹی سے پوچھ سکتی ہیں ، کیوں آنٹی۔۔؟
وہ صاعقہ خاتون کی طرف دیکھ کر بولا 
جو کب سے ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی اس کے کہنے پر زرا آگے کو آئیں ۔
تم دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہو ؟
اور باری باری ان کے چہرے پر بدلتے ہوئے تاثیرات کو دیکھنے لگیں جسے دیکھ کر یہی لگا کہ انکی پہلی ملاقات کافی تلغ رہی ہے
“ جی آنٹی ۔۔ آج صبح ہی ملاقات ہوئی تھی ،کافی کنجوس ہیں محترمہ۔۔۔
میں ان سے چائے کےلئے دودھ ادھار لینے گیا تھا فضول میں نہ دینے کے بہانے ڈونڈھنے لگیں۔”
وہ مظلموں سی شکل بنا کر بولا
” پھر۔۔۔؟”
اسکی بات سُن کر وہ اگے پوچھے بغیر نہ رہ سکیں 
“پھر کیا تھا ، میں نے بھی تھان لیا جب تک یہ کنجوس مکھی چوس میرا مطالبہ پورا نہیں کرتی ہیں میں یہاں سے بلکل بھی نہیں ہلنے والا اور بلا آخر انھیں چائے لاکے دینا ہی پڑا ۔۔”
وہ اس طرح بتارہا تھا جیسے ایک زرا سے چائے نہیں بلکہ کسی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کا قصّہ سنا رہا ہو۔۔
صاعقہ خاتون کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہوگیا ، پھر وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے زارا سے مخاطب ہوئیں
”اور زارا بچے ۔۔ تم نے اسے کچھ نہیں کہا۔۔؟”
زارا پہلے ہی اسکی بات سُن کر سیخ پا تھی صاعقہ خاتون کی ہنسی نے اسے اداس کردیا مگر اپنا بدلہ لیئے بغیر وہ کیسے رہ سکتی تھی چڑ کر بولی اسکی آواز میں غصّہ جھلک رہا تھا۔۔
”یہ جھوٹ کہہ رہا ہے میں نے کوئی کنجوسی نہیں کی ، 
اسکی وجہ سے میرا کیک بھی جل گیا اور مجھے بھوکا رہنا پڑا۔۔“
”لیکن یہ۔۔۔“
اس سے پہلے وہ آگے کچھ بولتا صاعقہ خاتون نے درمیان میں ٹوک دیا
”بس بھی کرو بچّوں۔۔۔ اب چلنا نہیں ہے کیا ؟ ،اگر تم دونوں کا یونہی لڑنے کا ارادہ ہے تو میں جارہی ہوں زرا آرام ہی کرلوں گی ۔۔۔“
انھوں نے جیسے ان دونوں کو وارن کیا۔۔
”نہیں نہیں خالہ۔۔۔ آپ میرے ساتھ چلیں اور باقی لوگ اپنے گھر کو جاسکتے ہیں ۔۔“
اس نے خاص کر اسکی طرف دیکھ کر کہا اور صاعقہ خاتون کا ہاتھ تھام کر چلنے لگی
اس بار وہ اپنا پسندیدہ کام (جواب دینا ) بعد پر ڈال کر ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تھا۔
تقریبًا دو گھنٹے بعد وہ مارکیٹ سے لوٹی تھی تمام چیزوں کی اسکی جگہ پر رکھ کر وہ کیچن میں اپنے لئے چائے بنانے آئی ،اسکا سر درد کرنے لگا تھا اوپر سے بھوک بھی لگی تھی ۔۔
چائے کا پانی چڑھا کر اسمیں شکر ملایا پھر پتّی ڈال کر جوش دینے کے بعد دودھ ڈال کر اپنے لئے ایک کپ چائے تیار کیا ساتھ میں کیک کو پیلیٹ میں رکھ کر اسکے کچھ ٹکڑے کیئے اور قدم قدم چل کر کھڑکی کے قریب لگی کرسی پر براجمان ہوگئی۔۔
سورج غروب ہونے والا تھا ایسا معلوم ہوتا جیسے آسمان نے نارنجی اور بیلو رنگ کا چادر اُوڑھ رکھا ہو ، بہت سے پرندوں آسمان میں اُڑتے دکھائی دے رہے تھے جو اپنے اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھے ،باہر سے بچّوں کے کھیلنے کی آوازیں آرہی تھی ۔۔جیسے ہی اس نے اپنا رُخ موڑا وہ بّچوں کے ساتھ کھیلتا دکھائی دیا ۔۔
اس کا دل کیا وہ کھڑکی کا پردہ گرا دے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کچھ دیر وہ وہاں بیٹھی رہی پھر نماز ادا کرکے سُونے لیٹ گئی۔۔۔
_____*_____*____*______
آج بھی وہ پہلے سی کیفیت میں مبتلا تھی ، رات میں کچھ گھنٹے ہی سو پائی ۔صبح اُٹھ کر اس نے نماز ادا کیا اور جلدی جلدی گھر کے کام سے فارغ ہوکر اپنے مخصوص جگے پر آکر بیٹھ گئی ، وہ اندر سے چاہے کتنی بھی غمگین کیوں نہ باہر کی رونق یہ دلکش مناظر اسے چند پل سکون بخشتے تھے وہ خوش نہ سہی پر چند لمحے پر اُمید ضرور ہوجایا کرتی تھی ۔۔ابھی وہ بیٹھی بچّوں کو کھیلتا دیکھ رہی تھی انکی زندگی سے بھر پور ہنسی اسے رشک کرنے پر مجبور کررہی تھی اتنے میں لینڈ لائن پر بیل ہوئی وہ اُٹھ کر فون تک آئی اور اسے کان سے لگاتے ہی سب سے پہلے سلام کیا
"اسلام ُعلیکم، کون ؟ "
”وعلیکم اسلام ۔۔ زبیر احمد ،تمہارا شوہر ۔۔۔“
دوسری طرف زبیر تھا ، بلکل سپاٹ لہجے میں بولا ۔۔۔
”آپ کیسے ہیں اور کب آرہے ہیں؟“
زارا نے پوچھنا جیسے خود پر لازم کیا
”مجھے کیا ہونا ہے اور ابھی وقت لگے گا ،تم میری فکر نہ کرو ، میں نے تمہیں یہ بتانے کےلئے فون کیا ہے کہ میری چاچی جان آرہی ہیں کچھ دیر میں پہنچتی ہونگی ساتھ شیزا اور علی بھی آرہے ، انکے کھانے پینے کا انتظام کردینا ۔۔”
اب بھی ڈھونس جماتے ہوئے کہا گیا ۔۔
”جی ۔۔۔ زارا نے فرمانبردار بیوی کی طرح اسکی حکم پر لبیک کہا۔۔“
وہ کچھ دیر یونہی فون کان سے لگائے کھڑی رہی کہ شاید وہ اُس کے بارے میں پوچھے گا لیکن وہ کچھ نہیں بولا بلکہ لائن کٹ گئی تھی“
اس نے فون رکھ دیا ۔۔۔
اور کیچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
____*_____*_____ _*__
اُس کی آنکھ صبح دیر سے کھلی تھی ابھی وہ شاور لے کر نکلا تھا بالوں کو تولیے سے سوکھاتے ہوئے وہ کچھ گُنگُنا بھی رہا تھا پھر کچن میں گھس گیا ،یہ مکان کافی خوبصورتی سے فرنش کیا گیا تھا فرنیچر سے لے کر پردے تک ہر چیز قیمتی تھی ، اس سے ظاہر تھا کہ وہ یقینًا کافی بڑے گھر سے تعلق رکھتا ہے ۔۔
اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے اپنے لئے املیٹ تیار کیا پھر بریڈ پر جیم لگا لے چائے چڑھاکر اپنا ناشتہ وہی کھڑے کھڑے ہی کرنے لگا ۔۔
_____*____*____*_____
گھڑی صبح کے دس بجا رہی تھی لیکن وہ مہمان آنے کا سُن کر اس وقت کیچن میں کھڑی کھانا بنانے میں مصروف تھی جب دروازے پر بیل ہوئی۔۔
”لگتا ہے آگئی ہیں لبنٰی چاچی۔۔۔“
وہ زیر لب دُہرائی پھر سامنے لگے نل سے ہاتھ دھوکر کر دروازے کھولنے کےلئے کیچن سے نکل کر دروازے تک آئی اور بناء پوچھے ہی دروازے کھول دیا ۔۔
”اسلامُ علیکم! ”
ایک مردانہ آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی
وہ جو ڈوپتہ ٹھیک کرنے کے چکر میں تھی فورًا سے آنے والے شخص پر نظر ڈالی تو اسکی آنکھ جیسے پھٹ گئی اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا یہ وہی تھا
جس کی شکل وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار دیکھ ہی لیتی تھی ، وہ جیسے کسی آسیب کی طرح اس سے جمٹ گیا تھا ۔
”تم ۔۔۔ تم یہاں کیا کررہے ہو۔۔؟ تمہیں اور کوئی کام وام نہیں ہے کیا ؟ ،جو یوں منہ اُٹھائے چلے آتے ہو۔۔۔“
وہ غصّے سے پاگل ہوتی لڑنے کے انداز میں اس سے گویا ہوئی اگر اسے پتہ ہوتا کہ دروازے پر یہ آدمی ہے تو وہ کبھی کھولتی ہی نہیں ۔
سامنے کھڑے سفید ُکرتے میں ملبوس دراز قد شخص پر تو جیسے حیرت کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔۔
وہ بے یقینی کے عالم میں اسے یک ٹک دیکھے گیا
”آخر اس لڑکی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے بندے کی پوری بات سُنے بغیر ہی بولنا شروع کردیتی ہے “
اس نے دل میں سوچا۔۔۔
وہ اسے بت بنے دیکھ کر مزید غصے میں آگئی ۔۔۔
”جاؤ یہاں سے ،اور اپنی یہ سڑی ہوئی شکل آئندہ دیکھانے کی زحمت مت کرنا ۔۔۔ “
وہ اپنا ہاتھ اسکے چہرے کے قریب لے جاکر شھادت کی انگلی کی مدد سے گول دائرہ بناتے ہوئے بولی ۔۔
”ایسکیوز می ۔۔۔ آپ تمیز سے بات کریں ، میرے اس خوبصورت سے چہرے کی توہین کرنا میں معاف نہیں کرسکتا اس چہرے کو جو آپ کے مطابق سڑی ہوئی ہے لوگ پانے کی خواہش رکھتے ہیں ، وہ الگ بات ہے یہ فلحال کسی کو میسر نہیں ۔۔۔“
وہ اسے افسوس کے ساتھ دیکھنے کے بعد برہم ہوکر بولا واقعی وہ ایک خوبصورت اور شاندار شخصیت کا مالک تھا لوگ کے درمیان اسکی کافی عزت تھی لیکن یہ لڑکی ہر بار اسکی توہین کرتی تھی۔۔
”کیوں آئے ہو ۔۔۔؟“
زارا سیدھا موضوع پر آئی ، اسکی وجہ سے کچھ نہ کچھ بُرا ہوتا تھا اور اسے زبیر کا ڈر الگ لگا رہتا۔۔
اس نے چائے کا کپ اسکے سامنے کرتے ہوئے کہا
”یہ لیں “
”یہ دینے آئے تھے تم۔۔۔ پہلے. کیوں نہیں بتایا ؟“
وہ جیسے حیران ہوئی پھر اس بار دھیمے اور پُر سکون لہجے میں پوچھا
”بولنے دیا ہوتا تب نہ بتاتا پہلے ہی شیرنی کی طرح کھانے کو ڈورتی ہیں ۔۔“
وہ یہ سوچ سکا تھا بولا کچھ بھی نہیں ۔
وہ اسے یوں چُپ کھڑے دیکھتی رہی پھر بولی
”ٹھیک ہے آپ جائیں مجھے بہت کام ہے ۔۔“
ایک دم سے وہ تم سے آپ پر آئی تھی جھٹکا تو لگنا ہی تھا، اسکی معصوم چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے وہ اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کرنے لگا۔
”سُنیں ،ایک کپ چائے مل سکتی ہے ،وہ کیا ہے نہ صبح میں نے چائے بنائی لیکن دو دو بار بنا کر پھینکنا پڑی ،وہ آپ کی چائے کی طرح بنی ہی نہیں ۔۔۔“
اس نے شکست خوردہ لہجے میں کہا 
”اووو۔۔۔ تو یہ بات ہے اتنا ڈرامہ وہ بھی چائے کےلئے ۔۔۔“
وہ وہاں سے سوچتی ہوئی اندر گئی دس منٹ بعد لوٹی تو چائے کا کپ اسکے ہاتھ میں تھا۔
”یہ لو ۔۔ اس بار دے رہی ہوں لیکن بار بار یہ ڈرامہ نہیں چلے گا اور اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے خود ہی رکھ لینا اور ایک بات خدارا آپ اپنے گھر میں رہیں اور مجھے میرے گھر میں خوش رہنے دیں “وہ باقاعدہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے بولی تھی، آنکھوں میں التجا لیئے اور وہ کچھ بول بھی نہیں سکا ان دو دونوں میں پہلی بار اُسے لگا کہ شاید وہ کچھ چھُپارہی ہو ۔۔۔
لیکن پھر اپنی سوچ کی نفی کرتا وہاں سے ڈک بھرتے اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
جبکہ زارا پھر سے اپنے کاموں میں جھٹ گئی 
جلدی جلدی ہاتھ چلا کر سوئیٹ ڈیش تیار کیا ۔۔
پھر بریانی کے ساتھ رائتہ اور کباب تیار کرنے لگی تقریبًا یہ کام کرتے دو گھنٹے لگ گئے تھے ۔۔
وہ جب شاور لے کر نکلی تب تک لبنٰی چاچی اور انکے بچّے آگئے تھے ۔۔
سارا دن یونہی کام کرتے اور اسکی خدمت کرتے گزر گیا لبنٰی چاچی بہت اچھی تھی بات کرتی تو ایسا لگتا انھیں ہی سُنتے جائے جن سے مل کر وہ سوچنےپر مجبور ہوجاتی تھی اگر اسکی ماں زندہ ہوتی تو کیا ایسی ہی ہوتی اور مزاج کی سُلجھی ہوئی خاتون تھی غصّہ انکی شخصیت میں دور دور تک نہیں نظر آتا ، انکے بچے بھی کافی خوش اخلاق اور ملنسار تھے علی بارہ سال کا ایک خوش شکل لڑکا تھا جو ساتھویں جماعت میں پڑھتا تھا جبکہ شیزا اسکی ہی ہم عمر تھی اور بی ایس سی کی فرسٹ آئیر کی طلبہ تھی، وہ ان سے مل کر خوش ہوجایا کرتی تھی شادی کے بعد وہ اس کے گھر دوسری بار ہی آئے تھے۔۔
رات کے کھانا انھوں نے ایک ساتھ ہی کرنا تھا وہ ٹیبل پر کھانا لگاچکی تھی اب سبھی ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے تھے اور اپنے اپنے پیلیٹ پر جھکے کھانے میں مصروف تھے تبھی شیزا اس سے گویا ہوئی ۔
”زارا بھابھی ۔۔۔ آپ کچھ زیادہ ہی کمزور نہیں ہوگئیں ؟، پچھلی بار جب ہم آئے تھے تب آپ ٹھیک ٹھاک تھیں۔.”
وہ جواب طلب نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی
”کہاں کمزور ہوئی ہوں بلکہ مجھے لگتا ہے پہلے سے موٹی ہوگئی۔۔“
اس نے فورًا سے جھوٹ بولا
”مجھے لگا زبیر بھائی آپ سے بہت کام کرواتے ہیں انھیں ملازموں کا کام جو پسند نہیں آتا ۔ خیر ایک بات پوچھوں “
وہ چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے زارا سے بولی
”بلکل پوچھو، تمہیں مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے شیزا ۔۔۔“
وہ آخری نوالہ ختم کرکے پیلیٹ کو اگے کرتے ہوئے بولی وہ پانی کا گلاس بھرنے کے بعد ایک گھونٹ بھر رہی تھی 
”آپ کو زبیر بھائی کیسے لگتے ہیں ؟“
شیزا تجسّس کے مارے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔جبکہ زارا کو زبیر کا نام سُن کر اچھو لگ لگا ۔۔
اس نے بامشکل ہی اپنے حلق سے پانی کا گھونٹ اتارا پھر گہری سانس لینے کے بعد دو لفظ بولی ۔۔
”اچھے ہیں ۔۔۔”
اس نے پھر سے جھوٹ بولا ،وہ جانتی تھی کہ جھوٹ بولنا ایک گناہ ہے اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی جھوٹ پر جھوٹ بول رہی تھی، پہلے خود سے پھر دوسروں سے کیونکہ وہ اپنے رشتے کی حقیقت دوسروں پر عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی ، ایک ایسا شخص جو اس پر بھروسہ نہیں کرتا تھا ،اس پر ہاتھ اُٹھاتا تھا ،اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا ایسے شخص کے بارے میں وہ کیا کہتی ۔
”صرف اچھے ۔۔؟ مجھے لگا آپ کہیں گی بہت اچھھھے ۔۔“
اس نے مایوسی کے ساتھ زارا کو دیکھا جو کچھ سوچ رہی تھی اسکے اس طرح کہنے پر زارا نے اسکے چہرے کو دیکھا ،وہ اسکی ہم عمر ہی تھی لیکن اس کے مقابلے میں وہ کتنی ترو تازہ اور خوبصورت نظر آرہی تھی جبکہ اسکا رنگت شیزا سے قدرے صاف تھی اسکے چہرے کی بناوٹ بھی بہت اچھی تھی لیکن آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے تھے ۔۔
“چپ ہوجاؤ شیزا ،کھاتے وقت یوں بات نہیں کرتے جلدی سے کھانا ختم کرو پھر کمرے میں چلی جانا صبح ہمیں جلدی نکلنا ہے ۔۔۔“
لبنٰی خاتون شیزا کو ڈانٹنے لگیں اور اسے اپنا کھانا ختم کرنے کا کہا جسکا پیلیٹ ویسے ہی بھرا تھا وہ چند لقمے لینے کے علاوہ کچھ نہیں کھائی تھی جبکہ وہ زارا اور علی اپنا کھانا ختم کرچکے تھے اور علی ان سب کو سلام کرتا وہاں سے چلا گیا۔
”شب بخیر فیملی سوئیٹ فیملی ۔۔۔
”تمہیں بھی ۔۔۔“
زارا کے ساتھ وہاں بیٹھے سبھی نفوس نے ایک ساتھ کہا
لبنٰی خاتون اب زارا سے مخاطب تھیں ۔۔
”زارا ۔۔۔ بیٹا تم ٹھیک ہو ؟"
دیکھو بیٹا۔۔ اگر زبیر کچھ کہے تو اسکی بات کا بُرا مت ماننا ، وہ تھوڑا سخت مزاج ہے ،بہت جلدی غصّہ کرنے لگتا ہے بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا ، اسکی زندگی میں بہت سی پریشانی آئی ہے اس لئے وہ ایسا ہوگیا ہے ۔۔
وہ اسکے چہرے پر اداسی دیکھ چکی تھیں جو لاکھ چُھپانے کے باوجود واضح تھی اس لئے اسے سمجھانے لگیں ۔
”جی چاچی جان ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں،
آپ فکر مت کریں ،میں آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگی ۔۔۔”
زارا نے یہ الفاظ بہت ہمت کرکے ادا کیئے تھے اندر سے وہ بلکل ٹوٹ سی گئی تھی لیکن اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا تھا وہ انھیں کیا بتاتی کہ وہ زبیر کے ظلم و ستم سہنے کے باوجود اس سے آج تک یہی اُمید رکھتی ہے کہ وہ اسے سمجھے گا۔۔
”بہت خوب میری بچی۔۔۔“
انھوں نے کرسی سے اُٹھ کر زارا کو گلے سے لگا لیا کچھ دیر وہ اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتی رہیں پھر اسے اپنے ساتھ لیئے کمرے کے جانب چل دیں ۔
انکے پیچھے پیچھے شیزا بھی آئی تھی۔
انکی فیملی دوسرے دن جانے والی تھی لبنٰی خاتون کا پیار دینے والا انداز دیکھ کر اس کے دل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ کاش وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں ۔آج اسے اکیلے گھر میں خوف محسوس نہیں ہونا تھا کیونکہ اتنے سارے لوگ تھے جو دل سے اسے پیار کرتے تھے کوئی دکھاوا یا غرض نہیں تھا۔۔لیکن وہ بھی صرف ایک دن کے لئے پھر سے وہ اسی تکلیف سے گزرتی ،وہی کانٹوں بھری زندگی جس پر چلنے سے پاؤں کے ساتھ ساتھ دل بھی زخمی ہوجاتا تھا۔۔

_____*___-*____*_____

No comments:

Post a Comment