Monday, 5 August 2019

Dil py lagy Wo Zakham piya ||Episode#4

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_4
#Donot_copy_paste_without_my_permission
فجر کے وقت اُس کی آنکھ کھولی 
اس نے اپنے ساتھ سوئی شیزا کو دیکھا جوکافی گہری نیند میں تھی وہ اُسے اٹھانے کےلئے آواز دینے لگی مگر وہ اب بھی ویسے ہی پڑی رہی ۔۔۔
زارا جب اپنی کوشش کرکے تھک گئی تو بستر سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گئی کچھ دیر بعد وہ واپس آئی تو اسکا چہرہ پوری طرح بھیگا ہوا تھا جس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ وضو کرآئی ہے وہ قدم قدم چل کر دوبارہ سے شیزا کو اٹھانے لگی۔۔۔
”شیزا اُٹھ جاؤ فجر کی نماز پڑھ لو پھر سو جانا ۔۔“
لیکن شیزا پر تو جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا ۔۔
وہ کروٹ بدل کر سوگئی تھی۔
وہ اسکی ڈھٹائی پر حیران تھی کب سے اُسے جگانے کی کوشش بیکار گئی اس لئے اسکا رعایت برتنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اُس نے سامنے پڑا پانی کا گلاس جو آدھ بھرا تھا اس کے اوپر سارا کا سارا پانی انڈیل دیا۔۔
شیزا ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی اور آس پاس دیکھنے لگی جیسے سیلاب آگیا ہو مگر سامنے کھڑی زارا کے ہاتھ میں گلاس دیکھ کر جو پورا خالی تھا ہوش میں آئی۔۔
"بچ گئی ۔۔۔"
اس نے سب سے پہلے شکر ادا کیا۔
اور زارا کو گھوری سے نوازنے کے بعد جب وہ بولی تو اسکے لہجے میں غصّہ تھا ۔۔۔
”یہ ۔۔۔یہ کیا ہے ؟ ، کونسا طوفان آگیا ۔۔۔“
”نماز نہیں پڑھنا ہے؟ “
زارا صرف اتنا ہی بولی
”کیا۔۔۔ ؟ ، اتنی جلدی صبح ہوگئی ، یہ راتیں اتنی چھوٹی کیوں ہوتی ہیں ۔۔۔“
وہ رو دینے کو تھی نیند سے بوجھل آنکھوں میں اداسی در آئی وہ جمائی کو روکتے ہوئے بولی تھی ۔۔
”کتنی سُست ہو یار ،اب اُٹھ بھی جاؤ ۔۔
چلو جلدی کرو نماز کا وقت نکلا جارہا ہے ۔۔“
زارا اسکے سُستی پر چوٹ کیا اور اسے ہاتھ پکڑ کر کھینجنے کے انداز میں اُٹھانے لگی ۔۔
شیزا منہ پُھولائے بیڈ سے نیچے اتری اور واش میں گھس گئی جبکہ وہ جائے نماز لےکر اسٹڈی روم میں چلی گئی تھی۔۔۔
شیزا نماز ادا کرنے کے فورًا بعد پھر سے سُو گئی تھی لیکن زارا کچھ دیر تلاوت کرنے کے بعد کیچن میں آگئی اور سب کے لئے ناشتہ تیار کرنے لگی وہ جانتی تھی یہ لوگ جلدی نکل جائینگے۔۔۔
”ارے زارا بیٹا۔۔۔ تم اتنی صبح صبح یہ کیا کررہی ہو ۔۔۔؟“
لبنٰی خاتون جیسے ہی کیچن میں داخل ہوئیں اُسے کیچن میں کھڑی کام کرتی دیکھ کر بولیں
”کچھ نہیں چاچی جان ۔۔بس آپ سب کے لئے ناشتہ تیار کررہی ،آپ کو کچھ چاہیے تھا ۔۔؟"
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا پھر یہاں آنے کی وجہ پوچھنے لگی ۔۔
”پیاس لگی تھی تو پانی پینے چلی آئی ۔۔۔“
انھوں نے اپنے آنے کے مقصد سے آگاہ کیا
”اوو۔۔۔ سوری میں کل جلدی جلدی میں آپ کے کمرے میں پانی کا جگ رکھنا ہی بھول گئی “
زارا جیسے نادم ہوئی 
”کوئی بات نہیں بیٹا ۔۔۔
میں خود ہی آگئی اس میں کونسی بڑی بات ہے ، تم یہ سب ابھی کیوں کررہی۔۔؟
جاو جا کر سو جاؤں ، ان سب کی کوئی ضرورت نہیں ویسے بھی سب دیر سے اُٹھتے ہیں ۔۔
انھوں نے اُسے آرام کرنے کا کہنے کے ساتھ ساتھ شیزا اور علی کے روٹین سے آگاہ کیا
”آپ فکر مت کریں چاچی جان! ۔۔۔ مجھے عادت ہے ،ویسے بھی میں زبیر کےلئے روز صبح سویرے ہی ناشتہ تیار کرتی ہوں ۔۔“
زارا جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے بولی تھی۔
”میری پیاری بچی خوش رہو ۔۔۔
وہ اسکے قریب آکر اسے پیار سے پیشانی چومتے ہوئے بولیں 
اور پانی لے کر واپس کمرے کے جانب بڑھ گئیں
شیزا نو بجے کے قریب اُٹھی تھی جبکہ علی ابھی باہر سے چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا ۔۔
زارا ٹیبل پر ناشتہ لگاچکی تھی سب نے مل کر ناشتہ کیا ،کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد وہ لوگ آئیر پورٹ کےلئے نکل گئے انکی فلائٹ 12 بجے کی تھی اس لئے انھیں جلدی نکلنا پڑا۔۔
زارا زبیر کے کسی لبنٰی خاتون کی فیملی کے علاوہ اب تک کسی سے نہیں ملی تھی اور نہ ہی زبیر کے ماں باپ کے بارے میں اُسے کچھ پتہ تھا ۔۔۔
انکے جانے کے بعد زارا گھر میں اکیلی رہ گئی جو کہ وہ اکثر رہتی تھی۔۔
وہ اپنی مخصوص جگہ پر آکر بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہرکھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی آج بھی بچّے کھیل رہے تھے وہی معصوم سی ہنسی اسکے سماعت سے ٹکرا رہی تھی ،باہر ہر کوئی اپنی زندگی میں مگن دیکھائی دے رہا تھا ، گھر کے باہر لگے پودے اور سایہ دار درخت ہوا کے چلنے سے شاخوں پر جھول رہے تھے لیکن یہ خوبصورت منظر آج اس کے اندر کی اداسی اور کمی کو کم کرنے کےلئے کافی نہ تھا لبنٰی خاتون کا پیار اُسے رہ رہ کر یاد آنے لگا صبح جب وہ اسے میری بچی کہہ کرپُکار رہی تھیں انکا محبت سے بھر پور لہجہ اور شفقت بھرا ہاتھ جسے وہ اسکے سر پر پھیررہی تھیں اسے سُکون بخش رہا تھا
اس کے دل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ کاش وہ ہمیشہ انکے ساتھ رہتی اور کہیں نہیں جاتیں تاکہ اس بد نصیب کو جسے ماں کا پیار بھی نصیب نہ ہوا تھا ایک ماں مل جاتی لیکن اسکی سوچ اور خواب کو تکمیل تک پہنچنے کےلئے ایک وقت درکار تھا ۔۔۔
اس نے ایک گہری سانس لے کر اپنے اندر سُکون اتارنے کی ناکام کوشش کی اور سامنے رکھی کتاب جسے وہ اپنے ساتھ لے آئی تھی کھول کر مطالعہ کرنے لگی ابھی چند سطر ہی پڑھی تھی کہ بیل کی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی ۔۔
”ایک--- دو -----اور----- پھر کئی بار ۔۔۔
لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا
تقریبًا گیارہ بجے کا وقت تھا 
پچھلے دو تین دن سے وہ اپنے نئے ہمسائے سے پریشان تھی ۔۔۔
اُسے لگا آج بھی وہی ہوگا ۔‍۔۔ اسلئے بیٹھی رہی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ اگر وہ دروازہ نہیں کھولے گی وہ خود ہی تنگ آکر چلا جائے گا ۔۔۔
پہلے ہی وہ اداس تھی مزید کوئی بحث و مباحثہ کرنا نہیں چاہتی تھی ۔۔
لیکن ایسا نہیں ہوا کوئی مسلسل بیل بجائے جارہا تھا ،لگتا تھا آنے والا کچھ زیادہ جلدی میں ہے یا پھر غصّے میں ۔۔۔
زارا اپنا ارادہ ترک کرکے قدم قدم چل کر دروازے تک آئی 
اور دروازہ کھولتے ہی بولی
”تمہیں ایک بار میں سمجھ نہیں آتا ہے کیا ؟ ،کیوں روز روز مجھے پریشان ۔۔۔
لیکن سامنے کھڑے شخص پر نظر پڑتے ہی اسکے تمام الفاظ جیسے دم توڑ گئے وہ اگے کچھ بول نہیں پائی ۔۔
سامنے زبیر کھڑا تھا جو اسے غصّے سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
”کیا بکواس ہے یہ ۔۔۔؟“
کب سے بیل پر بیل دیئے جارہا ہوں اور تم ہو کہ پتہ نہیں کہاں مری پڑی ہو ۔۔۔
ہٹو یہاں سے ۔۔۔“
وہی بے رحم اور احساس سے عاری لہجہ جو کسی کے دل پر زخم چھوڑ جائے ۔۔
زارا جو اسے دیکھ کر سہم گئی تھی ایک اینچ نہیں ہلی تھی زبیر نے اسے سامنے سے ہٹنے کا حکم دیا
وہ فورًا سے سامنے سے ہٹ گئی جبکہ زبیر آگے بڑھ گیا تھا ۔۔
وہ دروازہ بند کرکے کیچن میں چلی گئی کچھ دیر میں لونٹی تو اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا ۔۔۔
وہ پانی کا گلاس اسکی طرف بڑھاتے ہوئے آہستہ سے بولی
پانی۔۔۔۔۔
وہ صوفے پر بیٹھا اپنے ساتھ لائے گئے سامان کو ترتیب سے رکھ رہا تھا ۔۔۔
نظر اُٹھا کر سامنے کھڑی زارا کو دیکھا جس کے چہرے پر خوف اور اداسی رقم تھی ۔
اس نے پانی سے بھرا گلاس تھام لیا اور دو گھونٹ بھر کر اسے سامنے میز پر رکھتے ہوئے زارا سے مخاطب ہوا ۔۔
”تم دروازہ کیوں نہیں کھول رہی تھی ۔۔۔؟”
زارا جو واپس جانے کے لئے مڑی ہی تھی وہی رُک گئی اسکا دل زور زور سے ڈرکنے لگا ، وہ سوچنے لگی ناجانے وہ آگے اور کیا پوچھنے والا ہے ۔۔
”وہ مجھے لگا کہ کوئی اور ہے ۔۔۔“
زارا نے ڈرتے ڈرتے کہا
”ہوں ۔۔۔ تمہیں ایسا کیوں لگا ۔۔؟ اور کس کی بات کررہی ۔۔۔؟”
وہ آگے چانچ پڑتال کرنے لگا
و ۔۔۔ وہ بچے ۔۔۔ مجھے لگا بچے ہونگے
وہ سچ نہیں بتا سکتی تھی ،اس لئے جھوٹ کا سہارا لیا۔۔۔
سچ بتاتی بھی کیسے ،کونسا سامنے بیٹھا شخص اس پر یقین کرتا بلکہ الٹا اسے ہی غلط سمجھتا ۔۔۔
”اچھا چھوڑو یہ سب ۔۔۔ آؤ بیٹھو یہاں ۔۔۔“
زبیر نے اسے بیٹھنے کا کہا
وہ حکم ملتے ہی اسکے برابر والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔
زبیر صوفے پر رکھے شاپنگ بیگ کو اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
یہ تمہارے لئے۔۔۔
اس نے بناء کچھ کہے اسے تھام لیا اور زبیر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی جس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے والا غّصہ نہیں تھا بلکہ وہاں کچھ بھی نہیں تھا ، لہجے میں بھی نرمی تھی۔۔
”کھول کر دیکھو۔۔۔”
پھر سے حکم آیا
زارا فورًا اس میں موجودہ شئے باہر نکالنےلگی ،اُس میں پستہ کلر کا ایک نفیس سا ڈریس تھا ۔۔
اس نے ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھا گویا پوچھ رہی ہوکہ یہ کیا ہے ۔۔۔
زبیر جو اسے ہی دیکھ رہا تھا کہنے لگا
”یہ تمہارے لئے کپڑے اور دوسری چیزیں ہیں ، دراصل آج میرے ایک دوست نے ایک پارٹی رکھی ہے اور مجھے بھی مدعو کیا ہے ۔۔۔
میں چاہتا ہوں تم رات تک تیار رہو ۔۔۔
تمہیں بھی میرے ساتھ چلنا ہے ۔۔۔“

وہ اسے اپنے ساتھ کہیں بھی لے کر نہیں جاتا تھا آج یہ پہلا موقع تھا جب وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانے کا بتا رہا تھا۔۔

No comments:

Post a Comment