Monday, 5 August 2019

Dil py Lagy Zakham Piya ||Episode#8


#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_8
گھر پہنچتے ہی وہ اُس پر برس پڑا ۔۔
“تم۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ،اُس جمشید سے بات کرنے کی ۔۔۔
بولو اب چُپ کیوں ہو۔۔۔؟”
وہ دونوں مدمقابل کھڑے تھے ۔۔۔زبیر بلند آواز میں اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔
”و۔۔۔و۔۔۔ وہ زبیر!
"می۔۔میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا ،آپ میرا یقین کریں!"
اس نے خود ہی مجھے آپ کے نام سے وہاں بُلایا اور پھر۔۔۔“
وہ بولتے بولتے رو دی تھی ۔۔۔
زبیر کو آپے سے باہر دیکھ کر وہ اور کرتی بھی کیا پچھلے کچھ دنوں سے زبیر میں آئے بدلاؤ کو دیکھ کر وہ خوش رہنے لگی تھی لیکن آج پھر سے زبیر کو موقع مل گیا تھا اُس پر شک کرنے کا ، اُسے بُرا بھلا کہنے کا۔۔۔
”بس اب میں ایک لفظ بھی نہ سُنو۔۔۔ “
تمہیں کس نے کہا تھا کہ بناء سوچے سمجھے چل دو۔۔۔
ایک بار سوچ تو لیتی ۔۔۔ لیکن نہیں ۔۔۔!!“
اُس کا لہجہ کافی تلخ تھا
زارا کے رونے میں تیزی آگئی، زبیر کو اسکے آنسوؤں کی پروا ہی کب تھی جو اب ہوتی ۔۔۔
”تم بھی سب عورتوں کی طرح ہو۔۔۔ مجھے لگنے لگا تھا کہ تم اُس سے مختلف ہو ، معصوم ہو ۔۔۔
میں اپنے کیئے پر پچھتارہا تھا
مجھے لگا میں نے تم پر بہت ظلم کیا، تمہارے ساتھ زیادتی کی ،تمہارے حقوق پورا نہیں کرپایا
لیکن آج۔۔۔ آج تمہاری اس حرکت نے ثابت کردیا کہ میں غلط تھا مجھے تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک روا رکھنا چاہیے جس کی تم حق دار ہو۔۔۔“
زبیر نے جو کچھ بھی کہا اسکے سمجھ کےباہر تھا وہ اسکا موازانہ کس سے کررہا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔۔۔
اس نے زبیر کا بازو پکڑ کر اسے وہاںسے جانے سے روکا لیکن زبیر بے دردی سے اسکا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھ گیا ۔۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ زبیر پھر سے اسے غلط سمجھے ایک مشرقی بیوی کی طرح وہ ہرحال میں اپنا رشتہ بچانا چاہتی تھی۔۔
وہ دوڑتی ہوئی اسکے سامنے راستہ روک کر کھڑی ہوگئی اور التجا کرنے لگی ۔۔
زبیر پلیز میری بات کا یقین کریں ۔
لیکن اُس نے زارا کے چہرے پر نقش سچائی دیکھنے کے بجائے طیش میں آکر اسے دھکا دے دیا ، وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور سامنے رکھے میز کے کونے سے جا ٹکرائی میز سے ٹکرانے کی وجہ سے اسکے ماتھے پر گہرا زخم لگا جس سے خون رس رہا تھا
درد کی وجہ سے وہ سی سی کرتی رہ گئی۔۔۔
اسکی آواز پر وہ پلٹتا تھا، اسکے ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر وہ اسکی طرف بڑھا اور اسکے سامنے دو زانوں بیٹھ گیا۔۔ 
اپنے پینٹ کی جیب سے ایک نیپکین نکال کر اسکے زخم پر رکھنے کے بعد وہ وہاں سے اُٹھ کر ڈک بھرتا سیڑھیوں پر چڑھ گیا جب وہ واپس لوٹتا تو اسکے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا
زارا اُسے یک ٹک دیکھے گئی اور سوچ میں پڑ گئی ۔۔
یہ شخص کتنا عجیب طبعیت کا مالک تھا
پہلے خود ہی زخم دیا اور اب یہ مرہم ۔۔۔
کیا اس مرہم سے پیچھلے سارے زخم مٹ جائیں گے ۔۔
گزشتہ دنوں سے وہ جس زبیر کو دیکھ رہی تھی وہ اسکے لئے بلکل نیا تھا ۔۔۔
وہ جو سوچتے آئی تھی کہ اسکے دل میں دل نہیں گویا پتھر ہے لیکن وہ غلط تھی ۔۔
اسکے اس بھیانک چہرے کے پیچھے کون سا راز تھا وہ جاننا چاہتی تھی۔۔
وہ ایسا کیوں ہے ؟؟؟
کیا وجہ تھی جسکی وجہ سے وہ اس قدر تلخ ہو گیا۔۔۔
لیکن پوچھنے کی ہمت نہیں کرپائی اس لئے خاموشی سے اسکے چہرے کا طواف کرتی رہی۔۔۔
وہ دوائی لگانے کے بعد اس زخم پر پٹی کررہا تھا جو معمولی نوعیت کی تھی ۔۔
میز پر ایڈ باکس رکھنے کے بعد وہ اسکے برابر میں بیٹھ گیا۔۔۔
کچھ لمحے یونہی بیت گئے۔۔۔پھر اس نے بولنا شروع کیا ۔۔
”تم نہیں جانتی زارا۔۔۔
تم کچھ نہیں جانتی ۔۔۔ میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا پھر بھی ناداشتہ طور پر ہر بار میں تم پر ظلم کرتا ہوں ۔۔۔
”لیکن ۔۔۔؟؟ “ وہ سانس لینے کو رُکا۔
وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھی جب وہ خاموش ہوا تو وہ بولی
”لیکن کیا۔۔۔؟“
اُس نے زارا کے چہرے پر ایک نگاہ ڈال کر پھر سے اپنا سلسلہ کلام جوڑا
"لیکن میں مجبور ہوں ۔۔۔"
"میرا ماضی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔۔.۔
مجھے لگتا ہے سب ایک جیسے ہیں ،دُنیا اور دُنیا کی ساری عورتیں ایک جیسی ہیں ۔۔خود غرض ،دھوکے باز ۔۔۔"
اور یہی وجہ ہے میں تم پر یقین نہیں کرپاتا۔۔
وہ دُکھ اور افسوس کے ملے جُلے تاثیرات لیئے بول رہا تھا زارا یہ سُن کر حیران ہوئی۔۔۔
”وہ اسے اپنی ماضی سے جُڑی حقیقت بتا رہا تھا ۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتی وہ بول پڑا
”تہیں پتہ ہے ۔۔۔
نہیں کیسے جان سکتی ہو ۔۔۔ تم تو میری زندگی میں کچھ ماہ پہلے ہی آئی ہو۔۔۔“
وہ اپنی الفاظ کی تصحیح کرنے کے بعد بولا
بچپن میں دوسرے بچّوں کی طرح میں بھی چاہتا تھا کہ میں باہر جاکر کھیلوں ، نئے نئے دوست بناؤں ۔۔۔
لیکن انکی وجہ سے میری خواہش بس ایک خواہش بن کر رہ گئی۔۔
دوسروں کی مائیں اپنے بچّوں کے لئے اپنی جان تک قربان کردیتی ہے لیکن ناجانے میری ماں کیسی تھی مجھے جنم دیتے ہی مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
جب سات سال کی عمر میں، میں نے اپنے باپ سے پوچھا تو اس نے تو یہی کہا کہ وہ مر چکی ہے ۔۔۔اور کبھی لوٹ کر نہیں آئے گی ۔۔۔
مجھے اس وقت ٹھیک سے نہیں معلوم تھا کہ مرنا کیا ہوتا ہے ،بس لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ مرنا اسے ہی کہتے ہیں جب کوئی اللہ میاں کے پاس رہنے چلے جاتا ہے اور لوٹ کر واپس نہیں آتا۔۔
میری دادی جان مجھے ہر وقت ڈانٹتے رہتی تھیں ، اپنی ماں پر گیا ہے کہتی اور میں کچھ کہہ نہیں پاتا ۔۔۔
کہتا بھی کیسے میں نے اسے دیکھا جو نہیں تھا۔۔اور دُعا کرتا کہ وہ واپس آجائے ۔۔
پھر ایک دن مجھے پتہ چلا کہ میرے باپ نے شادی کرلی ہے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں تھا لیکن مجھے ایک ماں ضرور مل گئی تھی ۔میں ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا انھیں امی جان کہہ کر پکارتا، انھوں نے بھی اپنا رنگ بدل دیا وہ مجھے گالیاں دیتیں ،دن رات مجھ سے کام کرواتی تھیں ۔۔مجھے دھتکارتی تھیں
میں کچھ وقت کےلئے پریشان ہوجاتا کہ وہ ایسی کیوں ہیں ۔۔؟
لیکن میں پھر خود کو جھوٹا دلاسہ دیتا کہ نہیں ماں بس زرا پریشان رہتی ہے اس لئے ورنہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے “۔
گرمی کے دنوں مجھے نیند نہیں آتی تھی میں صحن میں ٹہلنے نکلا تھا کہ اچانک مجھے دادی جان کے کمرے سے آوازیں آنے لگی میں آہستہ آہستہ کمرے کے جانب بڑھا وہاں میرے بابا امی جان کے ساتھ موجود تھیں وہ شاید میرے بارے میں کچھ بات کررہے تھے ،دادی جان کہہ رہی تھی میری ماں تو چلی گئی اور مجھ وبال کو چھوڑ گئی
اُس دن پوری رات میں سو نہیں پایا تھا بس روتا رہا۔۔۔
مجھے لگتا تھا وہ میری اصل ماں تھی مگر دادی سے کسی اور کو میری ماں بتا رہی تھیں۔۔
میں جب کبھی گھر سے باہر نکلتا لوگ مجھ پر ہنستے اور بار بار کہتے میری ماں بہت بُری تھی تبھی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ۔
”میں سمجھ نہیں پاتا کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔۔ میری ماں تو مر گئی تھی پھر وہ بُری کیسے ہوئی ۔۔؟؟“
”کیا تمام لوگ جو مر جاتے ہیں وہ بُرے ہوتے ہیں ۔۔۔ “اکثر میں خود سے یہی سوال کرتا ۔
ایک دن میری سوتیلی ماں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا ۔۔
دادی نے بھی انھیں کا ساتھ دیا
مجھے بددُعائیں دینے لگیں ،مجھے طعنہ دیئے ۔۔۔
اُسی دن مجھ پر انکشاف ہوا کہ میری ماں کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور مجھے انکے درمیان مرنے کےلئے چھوڑ گئی تھی
میری سوتیلی ماں نے مجھ پر الزام لگایا کیونکہ وہ سوتیلی تھی لیکن میرا باپ وہ تو میرا اپنا تھا، اُس نے مجھ پر یقین کیوں نہیں کیا ۔۔۔
اس نے کیوں نہیں کہا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔
میں اپنے بابا کو اس آس کے ساتھ دیکھتا رہا کہ وہ میری حمایت کریں گے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیابلکہ میری خوب پٹائی کی اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا۔۔۔
میں روتا رہا التجا کرتا رہا کہ میرا یقین کریں لیکن اس دن اس گھر کے دروازے مجھ پر بند کردیئے گئے۔۔۔
اس کے بعد میں گلی محلے میں بھٹکتا رہا لیکن میرا باپ مجھے ڈھونڈنے تک نہیں آیا۔۔ ساری زندگی مجھے لوگوں نے یہی طعنہ دیا اور اسکی کے ساتھ میں بڑا ہوا ۔
میں نے وہ شہر بھی چھوڑ دیا لیکن یہ تلخ ماضی اب بھی کسی آسیب کی طرح میرا پیچھا کرتی ہے
ایسا لگتا ہے آج بھی لوگ مجھ پر ہنس رہے ہیں جیسے بچپن میں ہنستے تھے ۔۔“
اس نے کرب سے آنکھیں موندلیں۔۔
پھر ایک گہری سانس بھرنے کے بعد زارا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا
”کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤگی ۔۔؟؟“
زارا جو سکتے میں تھی چونک کر اسے دیکھنے لگی
”وہ کیا پوچھ رہا تھا ۔۔۔“
زارا حیران تھی
”تو کیا اسے لگتا تھا کہ وہ اُسے چھوڑ کر چلی جائے گی۔“
”بولو ۔۔۔ میں بلکل بھی اچھا نہیں ہوں ۔۔۔
کیا تم بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی ؟؟؟“
وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔
”نہیں ۔۔۔“ زارا بس اتنا ہی بول پائی۔۔
وہ جواب ملتے ہی وہاں سے اُٹھ کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
جبکہ زارا اسکے پُست کو گُھور رہی تھی۔۔

____*____*____*_____

No comments:

Post a Comment