Monday, 5 August 2019

Dil par Lagy Wo Zakhrm Piya ||Episode#9

#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_ثمرین_شاہد
#قسط_9
صبح جب اُسکی آنکھ کھولی تو زبیر کمرے میں نہیں تھا ۔۔۔ اُسکے سر میں عجیب سا درد محسوس ہورہا تھا ،کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ سُست روی سے اُٹھ کر واش روم میں چلی گئی ۔۔
اب آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنا جائزہ لینے لگی اسکی آنکھیں سرخ ہورہی تھیں ۔۔۔ اکثر رونے کےبعد ایسا ہوتا آیا تھا ۔۔اس نے اپنے چہرے پر بے شمار پانی کے چھینٹے مارے تاکہ کچھ افاقہ ہو ۔۔۔
کچھ چیزیں انسان کی زندگی کا حصّہ بن جاتی ہے جو لاکھ چاہنے کے باوجود بھی آپکا پیچھا نہیں چھوڑتی، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپکو اس سے کمپرومائیز کرنا پڑتا ہے ۔۔درحقیقت زندگی میں کمپرومائیز کی بہت ضرورت ہوتی ہے خود سے جُڑے رشتے کو بچانے کےلئے عاقل انسان یہی کرتا آیا ہے ۔۔۔ وہ بھی کم عمری میں ہی اس کی اہمیت سمجھ گئی تھی ۔۔۔
وہ اکثر سوچتی تھی کہ اگر اسکے بابا زندہ ہوتے تو کیا تب بھی وہ اسی طرح زندگی میں کمپرومائیز کرتی ۔۔۔پھر خود ہی اپنی سُوچ کی نفی کردیتی ۔۔۔
اسکے بابا اسے کس طرح پلکوں پر بیٹھا کر رکھتے تھے ،اسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیتے تھے اس کے کہنے سے پہلے ہی ہر چیز اسکے لئے حاضر کردیتے۔۔۔
اور سب سے بڑھ کر اُن کی آنکھوں میں اپنے لئے بے پناہ پیار دیکھ کر ہی مسرور ہوجایا کرتی تھی ۔۔
یہاں بھی اُسے کسی چیز کی کمی نہیں تھی بس پیار دینے والا کوئی نہیں تھا ،اسکی آنکھوں میں آئی نمی کو دیکھ کر مچلنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اسکے غم میں کوئی اداس ہونے والا نہیں تھا۔۔ ۔
وہ اکثر کہتے تھے کہ میری شھزادی کی زندگی میں کوئی شھزادہ ہی آئے گا جو اسے مجھ سے بھی زیادہ پیار کریگا.۔۔۔
اگرآج وہ حیات رہتے اسکی یہ حالت دیکھ کر ٹوٹ جاتے ،انکی روح بھی تو دیکھ کر غمگین ہوتی ہوگی ۔۔۔وہ اپنی شھزادی کےلئے کیا کچھ سوچ بیٹھے تھے لیکن اُن کے جانے کے بعد انکی کہی ہر بات اُسے مزید رُلاتی تھی۔۔
پانی گرنے کی آواز نے اسکی سوچ کا تسلسل توڑ دیا اس نے فورًا وضو کیا وہ پہلے ہی دیر سے اُٹھی تھی جسکی وجہ سے اسے قضاء پڑنی تھی۔۔۔
نماز ادا کرنے کے بعد وہ سیدھا نیچے آئی۔۔۔
زبیر نیچے بھی نہیں تھا وہ اسے پورے گھر میں ڈھونڈ چکی تھی لیکن وہ نہیں ملا شاید وہ آفس جا چکا تھا 
وہ اُسے اپنی زندگی کی ایک تلخ حقیقت بتاچکا تھا۔۔۔
زارا اُسے دیکھ کر اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ اُسے اس پر یقین ہے بھی یا نہیں۔۔۔
لیکن وہ جاچکا تھا ۔۔
وہ معمول کے مطابق گھر کے کاموں میں لگ گئی۔۔۔
زبیر رات میں آیا تھا اسے بناء کچھ کہے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔
کھانے کا پوچھنے پر اُس نے صاف منع کردیا ۔۔
پھر یہ روز ہی ہونے لگا 
اُس دن کے بعد سے زبیر نے اُسے مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا۔
وہ روزانہ صبح وقت پر اُٹھ کر اسکے لئے ناشتہ بتاتی اور اسکے تمام کام کرتی ،رات کے کھانے پر اسکا گھنٹوں انتظار کرتی ۔۔
کبھی وہ صاف انکار کردیتا اور کبھی چُپ چاپ بیٹھ کرکھانا کھالیتا تھا۔۔
ناجانے اسکے دماغ میں کیا چل رہا تھا ۔۔۔
وہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی نہیں جان پائی۔
____*____*____*_____
زایان کو گئے دو دن ہوگئے تھے ۔
لائبہ اور ظفر کو اُسکی عادت ہوگئی تھی زایان کے آنے سے انھیں انکا بڑا بھائی مل گیا جب تک وہ انکے ساتھ رہا وہ دونوں اپنا ہر کام اس سے پوچھ کرکرتے تھے وہ انھیں بہترین مشورہ دیتا اور کامیابی پر یہ دونوں خوشی سے اس سے لپٹ جاتے۔۔۔جبکہ اسکی اپنی بہن عائشہ نے کبھی بھی انھیں سراہا نہیں تھا۔
عائشہ کو وہ دونوں کم ہی مخاطب کیا کرتے تھے ،وہ خود بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ کوئی اسے تنگ کرے۔۔۔
آج جب لائبہ اسکول سے آئی توضد کرنے لگی کہ اُسے زایان سے بات کرنی ہے ۔۔
اسکے بے حد اصرار پر ندا خاتون نے اُس سے وعدہ کیا کہ وہ شام میں بات کروادیں گی کیونکہ اس وقت وہ بزی ہوسکتا ہے۔۔
شام کے وقت دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوم ورک کررہے تھے جب نداخاتون کمرے میں داخل ہوئیں ۔
”مما آپ ۔۔۔ “
ظفر جو اپنی کتابیں بیگ میں ڈال رہا تھا نداخاتون کو دیکھ کر بولا۔
”کیوں میں نہیں آسکتی ۔۔“
ندا خاتون نے فورًا جواب دیا 
”جی ضرور آسکتی ہیں مجھے لگا شاید کوئی کام ہے ۔“
ظفر وضاحت کرنے لگا گویا وہ ناراض ہی نہ ہوجائیں ۔
”ہہمممم ۔۔۔ زایان کی کال ہے تم دونوں بات کرنا چاہتے تھے ۔۔“
ندا خاتون نے موبائل اسکی جانب بڑھاتے ہوئے کہا 
ظفر اُن کے ہاتھ سے موبائل لے چکا تھا
لائبہ جو ڈرائینگ بنارہی تھی وہ بھی اُٹھ کر اس تک پہنچی ۔۔
اب وہ دونوں باری باری اس سے بات کررہے تھے جبکہ نداخاتون واپس جاچکی تھیں۔
”زایان بھائی ۔۔۔آپ ہم سے کب ملنے آرہے ۔۔۔؟؟“
لائبہ چہکتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔ظفر اسکے برابر میں بیٹھا انکی گفتگو سُن رہا تھا
موبائل لاؤڈ اسپکیر میں تھا کال پر موجود زایان کی آواز برابر آرہی تھی ۔
”ابھی تو کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔۔۔لیکن جیسے ہی میں کراچی شفٹ ہوجاؤں گا ،تم دونوں سے روز ملنے آیا کروں گا ۔۔۔“
زایان کا جواب سُن کر لائبہ کے ہونٹوں پر رینگتی مسکراہٹ مدہم پڑ گئی ۔۔۔
”مطلب پھر تو آپ نہیں آنے والے۔۔“
ظفر نے اداس ہوتے ہوئے کہا
کچھ دیر یونہی باتوں کا سلسلہ جاری رہا پھر لائن کاٹ دی گئی یقینًا وہ انکی باتوں سے بُور ہوچکا تھا کیونکہ ایک بار جب وہ دونوں بولنا شروع کرتے تو چُپ ہونے کا نام نہیں لیتے اُسے تو یہی لگتا تھا ۔۔۔
____*____*____*____
آج آفس کی چھٹی تھی زبیر ناشتے کے بعد لاؤنج میں بیٹھا ٹی دیکھ رہا تھا۔۔جبکہ زارا کیچن میں کھڑی اسکے لئے کیک بنارہی تھی ۔۔
آج زبیر کی سالگرہ تھی اسکی شادی کو چند ماہ ہوئے تھے جب وہ اس گھر میں آئی تھی تو وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکا شوہر کیسا ہے ،کس مزاج کا ہے ؟
لیکن آہستہ آہستہ وہ اسکے مزاج سے آشنا ہوتی گئی ۔وہ ہر اُس کام سے اجتناب کرتی جو زبیر کی ناراضگی کا باعث بنتا مگر اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی وہ اس پر غصّہ نکالتا یہاں تک کہ کئی بار وہ اُس پر ہاتھ بھی اُٹھا چکا تھا۔۔
اسکی پسند کے بارے میں وہ لبنٰی چاچی سے پوچھ چکی تھی اور اسکے سالگرہ کا بھی اسے انھوں نے ہی بتایا تھا۔۔ 
وہ لاؤنج سے زارا کے چہرے پر سجی مسکراہٹ کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا اسے اسطرح دیکھ کر اُسے خوش ہونا چاہیے لیکن وہ خوش نہیں تھا ۔۔۔اچانک اُسے کچھ یاد آیا۔۔
دو دن پہلے جب وہ آفس کےلئے گھر سے نکلا تھا ،اسکی گاڑی خراب تھی جسکی وجہ سے اس نے ٹیکسی لینے کا سوچا جسکے لئے اسے بس اسٹین تک جانا تھا ابھی وہ چند قدم ہی چل پایا کہ اسکی پُست سے ایک مردانہ آواز اُبھری۔۔
وہ پلٹ کر اپنے آس پاس دیکھنے لگا کچھ فاصلے پر ایک لڑکا کھڑا تھا ،یہ وہی نوجوان تھا جس نے کچھ دیر قبل اُسے آواز لگائی تھی ۔۔
اس کے رُک جانے پر وہ دوڑتے ہوئے پہنچا تھا اور آتے ہی مصاحفہ کے لئے ہاتھ آگے کیا اس نے بھی اسکا ارادہ بھاپ کر اس سے ہاتھ ملا لیا ۔۔
”آپ اس گھر میں رہتے ہیں نہ۔۔۔؟ “
آنے والے نے اپنی انگلی کی مدد سے اُس کے گھر کی جانب اشارہ کرکے بتایا ۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلانے کے بعد اس سے کہنے لگا
”معاف کیجیئے گا لیکن میں نے آپ کو پہچانہ نہیں ۔۔۔“
وہ اس شخص کو یہاں پہلی بار ہی دیکھ رہا تھا اس لئے لاعلمی کا اظہار کیا۔۔
”جی میں چند ہفتے پہلے ہی یہاں سامنے گھر میں رہنے آیا ہوں ۔۔
یعنی آپکا ہمسایہ بننے کا شرف حاصل کرچکا ہوں ۔۔” 
اُس نوجوان نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا
”اچھا۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے “اس نے مسکراتے ہوئے کہا 
”جی۔۔۔ آپ کی وائف سے بھی ملاقات ہوئی ہے میری ۔۔۔
ایک دو بار گھر پر بھی گیا تھا شاید آپ اُس وقت نہیں تھے اس لئے انھوں نے مجھے گیٹ سے ہی واپس بھیج دیا ۔۔۔ “
”زارا سے ۔۔۔؟؟“
وہ بڑابڑایا تھا لیکن پھر بھی وہ نوجوان سُن چکا تھا 
اسکا نام سُنتے ہی وہ کچھ سوچنے لگا پھر سے سلسلہ کلام کو جوڑا۔۔
“زارا ۔۔۔؟ ”
“جی زارا زبیر۔۔۔ میں کچھ کام سے آؤٹ آف سٹی گیا تھا “
اس نے اپنی غیر موجودگی سے آگاہ کیا
”تبھی آپ نظر نہیں آئے ، آپ اتنے سوئیٹ جبکہ آپکی وائف جگھڑالو قسم کی ۔۔ویسے کافی مختلف ہیں آپ دونوں ۔۔۔“ 
وہ اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کررہا تھا جیسے یہ اس پر لازم ہو۔
جبکہ اسکے چہرے پر ناگوار لیکریں ابھری تھیں۔
زبیر معذرت کرکے جانا چاہا تھا۔۔
”ارے ۔۔۔ آپ کہاں جارہے ہیں ۔۔؟؟“
اس نے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا
”دراصل میری گاڑی خراب۔۔۔۔“
اسے سے پہلے کہ وہ اگے کچھ بولتا نوجوان اسکی بات کاٹتے ہوئے بولا
”جی ۔۔۔ میں دیکھ چکا ہوں ،میں بھی باہر جارہا تھا تو سوچا کیوں نہ آپ کو لفٹ دے دوں ۔۔“
ناچاہتے ہوئے بھی اُس دن اس نوجوان کے ساتھ جانا پڑا۔۔۔
ٹی وی پر چلتی بریکنگ نیوز کی آواز کی وجہ سے وہ حال میں واپس آیا تھا۔۔
وہ جب سے یہی سوچ رہا تھا کہ زارا نے یہ بات اس سے کیوں چُھپائی ۔۔۔
پھر ایکدم اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا وہ ٹی وی آف کرکے زارا کو بتائے بغیر گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔
زارا کیک بنا کر اسے سجا چکی تھی اسکے علاوہ بہت سے لوازمات تیار کرکے جب وہ لاؤنج میں آئی تو وہ وہاں نہیں تھا ۔۔
وہ اسکا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا ۔۔۔
کئی گھنٹے بیت گئے تھے۔۔
آج وہ اُس کےلئے اچھے سے تیار ہوئی تھی ،خوبصورت تو وہ تھی لیکن تیار ہونے کے بعد وہ مزید پیاری لگتی تھی۔۔
وہ لاونج میں چکر کاٹ رہی تھی بار بار گھڑی بھی دیکھتی جاتی پتہ نہیں وہ کہاں چلا گیا تھا ۔۔
آٹھ بجے کے قریب بیل کی آواز سُن کر وہ دوڑتی ہوئی دروازے تک آئی۔۔
وہ کب سے زبیر کا انتظار کررہی تھی اس لئے بناء پوچھے ہی دروازہ کھول دی ۔۔
مگر سامنے زبیر کے بجائے جمیشد نامی آدمی کھڑا تھا ۔۔
”ہیلو مس زارا۔۔۔ کیسی ہیں ۔۔۔؟؟“
دروازہ کھلتے ہی اسے دیکھ کر پکارا گیا
زارا نے فورًا سے دروازہ بند کردیا
”مس زارا دروازہ کھولیں ،میں زبیر کےلئے تحفہ لےکر آیا ہوں ۔۔۔ آخر آج اسکی سالگرہ ہے ۔۔“
جمشید نے ہاتھ میں پکڑے باکس پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے بعد دروازے کے پیچھے کھڑی زارا سے کہا، 
جب بار بار کہنے پر بھی دروازہ نہیں کھولا گیا تو وہ وہاں سے چلا گیا
کچھ دیر بعد زبیر گھر میں داخل ہوا ۔۔۔
اچانک دروازہ کھولنے کی آواز سے زارا ڈر گئی تھی لیکن سامنے زبیر کو دیکھ کر سکون کا سانس بھرنے لگی ۔۔۔
آج پھر سے وہ نشہ کرکے آیا تھا۔۔۔
سچ کہتے ہیں کسی کی فطرت کبھی نہیں بدلتی اور زبیر کو بھی نشے کی بُری لت لگ گئی تھی جس سے چھٹکارہ پانا مشکل تھا۔۔
وہ لڑکھڑاتے ہوئے اندر داخل ہوا۔۔۔
زارا اسے گرنے سے بچانے کےلئے آگے بڑھی تھی لیکن اس نے ہاتھ کی مدد سے روک دیا۔۔
”وہی رُک جاؤ۔۔۔
ایک قدم بھی آگے مت بڑھانا۔۔۔“
وہ زور سے چینخا تھا
زارا اسکے غصّے سے لال ہوتی آنکھوں سے خوف کھاگئی۔۔
پچھلے کچھ دنوں پہلے جب وہ اس سے کوئی بات نہیں کررہا تھا وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے مخاطب کرے لیکن ابھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ سوچ میں پڑجاتی ۔۔
”زبیر ۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔؟“
اسکی آواز بلکل آہستہ تھی ۔۔
”وہ جمشید یہاں کیا کررہا تھا۔۔؟ بولو۔۔۔“
پہلے ہی وہ کچھ دونوں سے اس نوجوان سے ہوئی ملاقات اور اسکی باتیں سوچ سوچ کر پریشان تھا اور آتے وقت جمشید کو گھر کے باہر کھڑا دیکھ کر وہ بھڑک گیا
”ز۔۔۔زب۔۔ زبیر و۔۔۔وہ یہاں آ۔۔۔۔یا تھا!لیکن .....“
”اووو ۔۔۔ تو تم اُس آدمی کےلئے تیار بیٹھی تھی۔۔۔
زبیر نے اسکے سراپے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے استزائیہ کہا یہ کہتے ہی وہ ہنستا چلا گیا اسکی ہنسی کی گونج پورے لاؤنج میں سُنائی دے رہی تھی۔۔
زارا جو نفیس سا ڈریس پہنے ہلکی پھلکی تیار ہوئی تھی اسے ناسمجھی کے عالم میں دیکھنے لگی وہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ زبیر اسکے بارے میں ایسا سوچتا ہوگا۔۔
”آپ غلط سمجھ رہے ہیں یہ میں آپ کےلئے۔۔۔۔“
وہ یہ برداشت نہیں کرپائی تھی کہ زبیر اس پر گٹھیا الزام لگارہا ہے ۔۔۔ اس لئے اس نے بھی غصّے کے ساتھ بلند آواز میں کہا۔
”اب جب تمہاری چوری پکڑی گئی ہے تو یہ اچھا بہانا ہے ۔۔۔ میرے لئے۔۔!!”اونہہ
وہ حقارت بھری نگاہوں سے اسے گھور رہا تھا۔۔۔
”ناجانے کتنوں سے ملتی رہی ہو۔۔۔
دھوکے باز لڑکی ،
دفع ہوجاؤ۔۔۔ “
اس نے اُسے بازوؤں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا اور دروازہ بند کرکے بڑبڑاتا صوفے پر ڈھے سا گیا ۔۔۔
وہ چینختی رہی ۔۔۔ دروازہ کھولنے کی التجا کرتی رہی ۔۔۔
روتی رہی۔۔۔ لیکن وہ بےحس انسان نہ اسکی بات سُننے کو تیار ہوا اور نہ ہی اس نے دروازہ کھولا۔۔۔ 

No comments:

Post a Comment