Monday, 26 August 2019

Pehla Dhanda By Zarak Mir

پہلا دھندا
زرک میر
وہ ابھی چھوٹی تھی لیکن تھی تو عورت ذات . وہ ماں جیسا بننا چاہتی تھی یا پھر یوں کہیئے کہ ماں جیسا کرنا چاہتی تھی اور ماں کوٹے پر بیٹھتی تھی .ایک کرایہ کا دوکمرے والا فلیٹ .ماں شنو اور بیٹی روشنی .پہلے پہل ایک دلال کے ہاں کام ملا تو دلال کے گاہک کم ' چرسی بھنگی اور پان منہ میں ٹھونسے دوست زیادہ تھے .روز مفت کا ایک دانت کترتا بدبودار آدمی اپنی تھکن اتار کر چلا جاتا. دلال کی فرمائش کہ چوں چرا بھی نہیں کرنی, میرے دوست ہیں بہت دور سے آتے ہیں .پھر جب خود دلال پر گرمی چڑھتی تو اس کی الگ فرمائشیں.ہمت کرکے ریلوے اسٹیشن کے عقب میں ایک پرانی بلڈنگ میں ایک جگہ ملی . لیکن یہاں پولیس تھانیدار کی تھانیداری شروع لیکن تھانیدار گھردار بھی تھا اور تھانیدار بھی اس لئے کم ہی ٹپکتا تھا جو پکے اور اچھے گاہک تھے انہوں نے ایک ہی ہفتے میں نئی جگہ کی بو سونگھ لی اور ادھر آنکلے اور ویسے بھی ریلوے اسٹیشن کے مسافروں کی رغبت کے لئے ایک شاطر قلعی کی زبان پر یہ جملہ رٹا ہوا تھا 
صاحب تھکاوٹ دور کرنے کےلئے کچھ دیرسستا لیں جگہ بھی ہے شنو اچھی خاطر مدارت بھی کرینگی پھر نکل جانا مولا کا نام لے کر .یہ بتاتے بتاتے وہ سامان اٹھائے ریلوے اسٹیشن کے عقب میں پہنچ ہی جاتا. تب کام اچھا نکل آتا .
ماں بیٹی دن بھر ساتھ رہتے جب کوئی گاہک آتا تو شنو صاف صفائی کرکے دوسرے کمرے میں جاتی اور محفل جم جاتی , روشنی یونہی چیزوں کیساتھ کھیلنے میں مگن رہتی .ماں کی سرخی اٹھاکر لبوں کو سرخ کرڈالتی پائوڈر ڈالتی .بال سلجھاتی, دوپٹہ پہن لیتی اور بڑی عمر کی عورت لگنے کی اداکاری کرتی .یہ اس کے وہ دن تھے جب کوئی بھی بچی اپنی ماں جیسی بننے کی چاہ رکھتی ہے .گڈے گڈی کے کھیل میں یہ بچیاں ایسی کہانیاں اور کردار بنتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے .ان گڈے گڈیوں کا گھر بنانا شادیاں کرانا گھرداری کرانا ,کام کا سلیقہ یہ سب کھیل کھیل میں یونہی بچیاں بغیر ماں کی توجہ کے سیکھ جاتی ہیں .ماں جیسی لگنا ,ماں کا دوپٹہ پہننا اور اپنے آپ سے بڑی عورتوں جیسی باتیں کرنا روشنی کا معمول تھا .
شنو جب محفل سے فارغ ہوکر کمرے سے باہر نکلتی تو کبھی پیسے اس کے ہاتھ میں ہوتے اور روشنی اس کے کمرے کے دروازے پر ہی کھڑی ملتی جس پر شنو روشنی کو منع کرتی لیکن وہ یونہی اپنی ماں اور گاہک.کو تکتی رہتی .شنو گاہک کو رخصت کرنے کیلئے دروازہ کھولتی.
روشنی کب بڑی ہوئی اور اس نے کب اپنے رہنے کے گن سییکھ لئے ماں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا. وقت یونہی گزرتا رہا.
ایک دن یونہی خاموشی چھائی ہوئی تھی , شنو غسل خانے میں تھی جب وہ باہر نکلی تو اسے دوسرے کمرے سے کھسر پھسر کی آواز ائی.اسے جھٹکا سا لگا کہ روشنی اپنے کمرے میں کسی کیساتھ کانا پوسی کررہی ہے کھسرپھسر سے ٹھیک لگ رہا تھا کہ وہ کسی کیساتھ سوئی ہوئی ہے .ایک دوسرے کو چومنے کی ننگی آوازیں آرہی تھیں .ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں میلاپ کے انتہاء پر ہیں .شنو نے سوچا کون ہوگا روشنی کیساتھ , وہ لڑکا جو کمرے کا باڑہ لینے آتا ہے یا پھر وہ قلعی .ہوسکتا ہے وہ سبزی والا ہو جس کو شنو کئی دفعہ روشنی کیساتھ تکرارکرتے دیکھ چکی تھی .شنو کا ذہن برق رفتاری سے اپنی بیٹی کی آشنا کے بارے میں اندازہ لگا رہا تھا .آنا فانا کئی تصاویر اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں .اسے اپنی بیٹی کی چلن پر بڑا دکھ ہوا .
کیا ہوا کہ میں خود دھندہ کرتی ہوں لیکن میری بیٹی بھی اور میری اجازت کے بغیر . یہ ایک کوٹے والی ماں کےلئے بھی اذیت ناک لمحہ تھا .اس نے تیز قدم اٹھائے اور دروازے پر پہنچی .اس نے جب دروازے کے سوراخ سے جھانکا تو اسے عجب منظر نظر آیا .
روشنی برہنہ ہوکر بستر پر لیٹی تھی اپنی چھاتیاں خود دبارہی تھی اور لطف سے چور ہورہی تھی اور ساتھ میں اپنی ٹانگوں کو یوں اوپر اٹھا رہی تھی جیسا کہ اوپر لیٹے ہوئے کیساتھ لپٹ رہی ہو اور اس کے ساتھ باہم پیوست ہونا چاہتی ہواور بار بار اپنا سر سرور سے جھٹ رہی تھی اور جسم یوں ہلا رہی تھی جیسے اوپر والا زور زور سے حرکت کررہا ہواور یہ مسرت سے کراہ رہی تھی روشنی بکھرے بالوں کیساتھ کراتی ہوئی اوپر والے کیساتھ لذت اور مستی سے بھرپور اکھیوں سے دیکھتی جیسا کہ اوپر والے کو مزید مشتعل کررہی ہو اور اوپر والا سرکش گھوڑی کو قابو کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہا ہو.وہ مسرت سے نکلی ننگی آوازوں کو دبانے کی کوشش میں اپنے ہونٹوں کو بدندان دباتی رہی. شنو یوں اپنی بیٹی کو یہ سب کرتے دیکھتی رہی اس کے پائوں اندر جانے سے رک گئے تھے. اس کے چہرے پر غصہ اور حیرانگی بھی باقی نہیں رہی تھی .وہ محفل کو تخلیہ ہونے تک دیکھنا چاہتی تھی وہ اپنی بیٹی کا سڈول اورحسین جسم دیکھ رہی تھی. روشنی برہنگی میں قیامت ڈھا رہی تھی کہ عالم شباب کے زوروں پر روشنی کا چکنا جسم کسی مردے جسم میں بھی ارتعاش پیدا کردے . 
اب تیزی پیدا ہو چکی تھی روشنی نے اپنے جسم کو یوں تیز تیز جنبش دینا شروع کردیا جیسا کہ پیاسی زمین پر بارش کے قطرے گرنے لگے ہوں.اس کی آواز میں تیزی تھی . بالآخر روشنی سیرآب ہو چکی تھی.وہ سمٹ گئی اور پڑی چادر سے اپنا جسم ڈھانپنے کی کوشش کی اور کہا!
دیکھو بابو میں نے پوراانصاف کیا ,یہ میری پہلی کمائی ہے تم سے بھی اچھی شروعات چاہتی ہوں.
یہ کہہ کر روشنی نے ہاتھ بڑھایا اور یوں لگا جیسے اس نے پیسے لے کر سرہانے رکھ دیئے .
روشنی بکھرے بال سنورے اور کپڑے پہن کر اس نے اطمینان کا سانس لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی .
شنو دروازے سے پیچھے ہٹ چکی تھی .اسے اطمینان ہوا تھا کہ اس کی بیٹی کیساتھ کوئی دوسرا نہیں.تھا بلکہ اس کی بیٹی اس کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اپنے آپ کو میری جگہ لینے کےلئے تیار کررہی تھی .

مجھے پہلی دفعہ گاہک کیساتھ کمرے میں بھیجتے ہوئے میری ماں رو پڑی تھی کہ میں انجان تھی لیکن روشنی دروازے سے جھانکتے ہوئے مجھے دیکھتی رہی اور خود کو پہلے ہی تیار کر گئی شاہد مجھے اسے پہلے گاہک کیساتھ کمرے میں بھیجتے ہوئے درد کم محسوس ہو. یہ سوچتے ہوئے آنسو شنو کے گالوں کی جھریوں سے بہنے لگے .

No comments:

Post a Comment