Monday, 26 August 2019

Dohry Qatal Par Dohri Khamoshi Zarak Mir

دوہرے قتل پر دوہری خاموشی 
بلوچستان میں گمنام قبروں کی ایک انوکھی قسم
زرک میر 
جس دن اس دیس کے مغرب میں اقتصادی راہداری کااعلان کیاگیا‘جس دن چینی وفد یہاں آیا تھا جس دن شمال میں مغربی روٹ کا افتتاح ہورہاتھا‘جس دن دیس کانیا وزیراعلیٰ حلف اٹھارہا تھا جس دن پرانا وزیر اعلیٰ الوداعی خطاب کررہاتھا جس دن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 13نکات پیش کئے جارہے تھے جس دن اس دیس کے وسط جنوب اورمغرب میں بلوچ کلچر ڈے منایاجارہاتھا جس دن خواتین کا عالمی دن منایاجارہاتھا جس دن شال میں سموراج تحریک کی حلف برداری تھی ‘جس دن جنوب وڈھ میں میڈیکل کیمپ کا افتتاح کیاجارہاتھا تب تب ہراس دن اس دیس کے مشرق میں دو دو قتل ہوتے رہے‘ ایک عورت اور مرد کا ‘ یہ قاتل غیر نہیں ‘یہ قاتل ترقی اورتہذیب سکھانے والے پیشہ ور قاتل نہیں ‘‘یہ قاتل مخالف قبائلی قاتل بھی نہیں ‘یہ قاتل غنڈہ موالی چورڈاکو اور سمگلر بھی نہیں ‘ اور یہ قاتل پولیس والے بھی نہیں ‘یہ قاتل کوئی عاشق بھی نہیں جو رشتہ نہ ملنے پر قتل سے بھی دریغ نہیں کرتا ‘ یہ قاتل وہ بھی نہیں جو مذہب کے نام پر قتل کرتا ہے فرقہ واریت کے نام پر قتل کرتا ہے ‘یہ قاتل باہر سے نہیں آتا یہ قاتل لسانی بھی نہیں جبکہ یہ قاتل کہیں باپ ہے تو کہیں بھائی ہے تو کبھی شوہر ہے اور کبھی بیٹا ہے جو ایک ساتھ دوقتل کرتاآرہاہے اور یہ شاہد دنیا کا واحد قتل ہے جواپنے ساتھ دوسرے قتل کیساتھ مشروط ہے یعنی قتل کی منفرد اوردلچسپ قسم ہے جواپنے جواز کے لئے دوہرے قتل کیساتھ مشروط ہے یعنی ایک قتل کیساتھ دوسرا قتل لازمی ہے جب یہ قتل دو قتل بنتے ہیں تو اس کے لئے سماج میں معافی کا تصور ہے اگر قتل ایک ہے تو ناقابل معافی ہے اگر دو ہیں تو قابل معافی ہیں اور یہ قتل اگر دو ہوں تب یہ غیرت کے پیمانے پر آتے ہیں یعنی سیاہ کاری کے قتل میں دو قتل لازمی ہیں ۔بلوچستان کا مشرق مسلسل مقتل گاہ بنا ہے ‘ روزانہ کی بنیاد پر قتل ہورہا ہے ‘ یہ وہ مخفی سلسلہ قتل ہے جو قانون کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا اور یہ قتل قتل نہیں بلکہ تہذیب کا انمٹ حصہ ہے اب پتہ نہیں مہر گڑھ والوں میں یہ چیز تھی کہ نہیں، تہذیب کا یہ تقاضہ قتل دریائے نیل کے بھی تقاضہ قربانی سے بڑھ کرہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں عورت قتل ہوتی ہے لیکن ایک مرد کیساتھ ، اس دوہرے قتل میں مرنے والوں کو شہید بھی نہیں کہاجاسکتا بلکہ متقول بھی نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مردار قتل ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جو بطور قتل بھی یاد نہیں کیاجاتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جس کا جنازہ بھی نہیں اور شاہد قبر بھی نہیں (گمنام قبریں) یہ وہ قتل ہے جو معاشرے کی تاریخ کا حصہ بھی نہیں بنتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جو اپنے اندر لرزہ خیزی بھی نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میونسپلٹی کے کتامارمہم کی پبلسٹی سے لے کراس میں کتوں کی موت تک حساب کتاب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج دس کتے ماردیئے گئے کل پچاس اورمارنے کا ہدف ہے ۔۔۔۔۔ شہری اپنے پالتو کتے اور کتیہ باندھ کررکھیں ،وارنگ دی جاتی ہے ، کتوں میں تخصیص لازمی ہوتی ہے یہ تخصیص قانون کراتا ہے اور سچ ہے کہ قانون انسانوں کے لئے انسانوں کے ذریعے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن انسانوں کا یہ طبقہ کتوں اور کتیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہ پالتو نہیں بلکہ آوارہ اور باغی انسان ہوتے ہیں جو سماج کے بندھوں کے باغی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن باغی انسان تو اچھے ہوتے ہیں کم ازکم انقلابیوں مارکس وادیوں اور قوم پرست لبرلوں (کینیڈین لبرلز) سموراجوں پروفیسروں اورصوفیوں کے لئے توان باغیوں کی بڑی مانگ ہے قدر ہے لیکن یہاں اس دیس کے انقلابی مارکسی وادیوں قوم پرستوں چے گویروں کینیڈین لبرلوں اورسموراجوں کے لئے ان باغیوں کی کوئی قیمت ہی نہیں ، جو مررہے ہیں سباش چندر بوس کے بقول انقلاب کے لئے جو خون چاہیئے ہوتا ہے اس سے کئی زیادہ خون بہایاجارہاہے ان کا نہ تو کوئی فرنٹ بنا نہ کوئی مارکسی بنیادوں پر پارٹی بنی نہ کینیڈین چارٹر بنا نہ سموراج بنا نہ کوئی مست توکلی راج موومنٹ بلکہ یہ محبت کے منشور کے تحت بغیر کسی پارٹی کے قربانی پر قربانی دے رہے ہیں نہ تو اقوام متحدہ سے اپیلیں ہیں نہ کسی عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن کا انتطار ہے نہ کوئی نکات پیش ہورہے ہیں اور نہ ہی کوئی اے پی سی ہورہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے میں نہ تو سرمایہ دار ملوث ہے نہ سمگلر ملوث ہے نہ استعماری ریاست ملوث ہے نہ ہی کمب کے میلے میں بچھڑے ہوئے اتحادی ملوث ہیں نہ ہی کوئی سیاسی گروہ ملوث ہے تب اس معاملے سے ان جوڑوں کے دہرے قتل سے فرنٹوں کا کیا کام کیا تعلق؟وہ تو کچھ بڑھیا کرنا چاہتے ہیں مارکس وادی تو ہر شہ کو ذرائع پیدوار کی آنکھ سے دیکھتے ہیں انہیں تو اس معاملے میں براہ راست ذرائع پیداواراورسرمایہ دار نظرنہیں آتا(البتہ ایک نقطہ نظر کے تحت یہ مسئلہ معیشت سے جڑا ہوا بھی ہوسکتا ہے ) تب ہی ان دہرے قتل پرکسی کی نظر نہیں پڑتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹی کے پروفیسرصاحبان کی نظروں سے بھی یہ دہرہ قتل اوجھل ہے جہاں نہ کو ئی سیمینار ہے نا کوئی غزل ہے نا کوئی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پروفیسربھی کمال کرتے ہیں بلوچستان جل بھن گیا ان کی طرف سے کوئی سمینار منعقد نہیں ہوا،ان سے تو لاہور کے پروفیسر تیمور الرحمان صاحب اور سبین محمود مستعد نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے کہ سیاہ کاری پر لکھنے کو اپنا شان نہ سمجھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے بھی کہا پھرکہونگا کہ عبدالحمید تگہ نے پنجاب کے نصاب میں کچھ غلط نہیں لکھا ،کیونکہ اپنی قومی حماقتوں پربلوچ خود نہیں لکھیں گے تو کوئی دوسرا ان کوضرور طشت ازبام کریگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی تاریخ بھی مستند نہیں ، مہر گڑھ پر بھی فرانسیسی تحقیق کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کون لکھے گا ؟ مہر گڑھ کون جائے گا ؟نصیروجعفرآبادیوں میں کون جاکرتحقیق کرکے حقائق سامنے لائے گا ؟کوئی عبدالحمید تگہ جاکر کچھ لکھے گا تو پھر بلوچ غیرت اورعزت کا سبق ازبرکرنے والے سینہ تھان کرکھوستے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سموراج والے تو اپنی شہری لیبارٹریوں سے کہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش شہر میں قائم ان لیبارٹریوں میں نصیر آباد جعفرآباد جیکب آباد شکارپور اور ڈھاڈر کے ان مردارقتل پانے والوں کا کبھی فرانزک جانچ پڑتال ہوتی تب بھی خوشی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی توٹیسٹ اورتحقیق سامنے آتی کہ ان دوہرے قتلوں کی وجہ کیا ہے ؟ اب آسودہ حالی کا حال یہ ہے کہ پروفیسرصاحبان ڈاکٹر صاحبان مترجم بن کر پھولے نہیں سماتے لیکن ساتھ لاہوریوں سے کچھ ایسے حوالے سن کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مطمین ہوجاتے ہیں کہ بلوچ پڑھنے میں ملک میں سب سے آگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہدایت دے ڈآکٹر مبارک علی ارشد محمود اور نیازمانہ والوں کو جنہوں نے یہ کہہ کربلوچ کو افین کھلادیا کہ بلوچ سب سے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب باہر کی کتابوں پر کتابیں یہاں چھاپی جارہی ہیں ترجمے پر ترجمے ہو رہے ہیں مارکسی لٹیریچر روسی ادب ویتام کی جنگ چے گویرا کے محبت بھرے خطوط چیئرمین مائو کے حالات ، نیلسن منڈیلا کا سوانح عمری ، چیخوف کے افسانے اسپارٹیکس مارکیٹیں بھری پڑی ہیں لیکن کوہلو میں سمو کیسے رہتی ہے ؟ جھالاوان میں جیجا کوکیا مسائل ہیں مکران میں بزگ گہار کو کن کن سختیوں کو جھیلناپڑتا ہے ؟ رخشان میں نیاڑی کون کون سے مصائب جھیل رہی ہے ؟ بلوچ کا چیخوف کون ہے ؟مہرگڑھ والے کون تھے ؟ قلات مکران لسبیلہ اورخاران کی تاریخ کیا ہے؟ لیکن بلوچ کی اپنی منفرد تحقیق کی حامل کوئی کتاب موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈھاڈر نصیر آباد جعفرآباد جیکب آباد اور شکارپورمیں غیرت کا پیمانہ مکران میں بلوچ کے غیرت کے پیمانے سے کیوں مختلف ہے؟ قلات میں قدرے صلح رحمی کا کیا جواز ہے ؟ رخشان میں قدرے پردہ پوشی میں کون سی حکمت عملی پنہاں ہے ؟جھالاوان میں غیرت کا یہ گرم لوہا کیوں قدرے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے؟ لسبیلہ والوں کو کونسا استثنیٰ حاصل ہے؟ ڈیرہ غازی خان میں کون سی ایسی بات ہے جہاں عورت قتل ہوتی ہے ایک مرد کیساتھ اور بلوچ کوڈ اورقومی اقداراسے جواز دیتے ہیں ؟ مجھے پورے بلوچ سرزمین پر سیاہ کاری کے دہرے قتل میں دہرے بلکہ تہرے معیارکیوں نظرآتے ہیں؟ مارکس وادیوں قوم پرستوں (کینیڈین لبرلز) فرنٹوں سالویشنوں اکیڈمیوں اور پروفیسروں کے پاس اس کا کیا جواز ہے ؟ان تمام قومی اسٹیک ہولڈروں کے پاس اس روزانہ کی بنیاد پر گمنام قبرستان والے متقولوں کے غیر شہید اور غیر قومی قتل سے چشم پوشی کا کوئی جواز ہے ؟ نیشنل پارٹی ییپاٹائٹس کو بلوچ قومی بیماری قراردیتی ہے ۔۔۔۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ دہرے قتل کیوں ہورہے ہیں؟ اس کے پس منظر میں ان بلوچوں میں باقی بلوچوں کی نسبت غیرت کے پیمانے میں اونچ نیچ کا فرق کیوں ہے؟یا یہ عشقیہ باغی پن رویہ کے باعث ہے ؟اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ باقی بلوچستان میں عشقیہ باغی پن قدرے کم ہے ؟کیا ان بلوچوں کاانداز رہن سہن مخلوط طرز پر ہے جہاں باہمی ملاپ کے مواقع قدرے زیادہ ہیں تب یہ تعلقات رونما ہوتے ہیں اور پھر دہرے قتل کے منطقی انجام سے دوچارہوتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ۔ یہ علاقے اس قدر پسماندہ بھی نہیں کہ چاردیواری کا تصورتک نہ ہو البتہ کھیتوں میں ساتھ کام کرنے کی بابت میل ملاپ کے مواقع زیادہ میسر ہوسکتے ہیں تاہم اگر ایسا ہے تو پھر یہ عام رجحان ہونا چاہیئے یعنی اس حمام میں سب ننگے ہیں تو اس قدر غیرت کیوں؟ اور اس قدر غیرت کہ دہرے قتل پر موقوف ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پسند کی شادی کا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن یہ پورے بلوچستان کے تناظر میں یکساں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائیدادوں میں حصہ نہ دینے کی پاداش میں اس قتل کا جواز بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے جو این جی اوز کی طرف سے اچھالاگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ان قتلوں میں اکثریت کا تعلق ان غریب خاندانوں سے ہے جو اس قدر جائیداد نہیں رکھتے کہ اس کے لئے بیوی بہن ماں اور بیٹی کو قتل کیاجاسکے اورپھر اس کے لئے تمام عورتوں اور پھر عورتوں کو ہی کیوں مردوں کو بھی قتل ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک چیز اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ یہ رسم بلوچ قدرے کم اور سندھیوں میں زیادہ ہے تاہم یہ دونوں اقوام کی میراث ہے اور یہ دوسرے بلوچستان کی نسبت مشرقی بلوچستان میں قدرے زیادہ انداز میں سرگرم عمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ناسور کو قومی روایات کا حصہ کہاجاسکتا ہے کیونکہ کم وبیش یہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں ہوتاآیاہے اور مشرقی بلوچستان میں یہ عروج پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سندھی دوست سے اس حوالے سے رائے پوچھی اگر رائے آگئی تواس کو بھی شامل کرینگے)

یہ وہ رسم ہے جس پر شاہد مذہب کی طرف سے ابھارکم اور قومی روایات کی ترشی زیادہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب اس پر بلوچ کی پارٹیاں اکیڈمیاں اور پروفیسر کیا رائے رکھتے ہیں اس سے آگاہی ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عورتوں کی تحریک کو چاہیئے کہ اس دوہرے قتل (جس میں مرکزی کردارعورت کی ہے ) کی وجوہات کو جاننا اور اس کے روک تھام کے لئے کردار ادا کرنے کو منشور بنایاجانا چاہیئے کیونکہ حاصل معلومات کے تحت تاحال یہ تحریک منشور سے عاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس سموراج میں شامل خواتین اپنے گھروں میں اس قدر اختیارحاصل کرچکی ہیں کہ انہیں اکیڈمی تک ان کے شوہر حضرات ہی ڈراپ کرتے ہونگے چنانچہ اصل مسئلہ اس قتل کا ہے جو نہ تو شہید کہلاتا ہے نہ مقتول کا درجہ حاصل کرتا ہے جس کا بدلہ لازم ہوتا ہے (شہید کا بدلہ جنت ہے اور متقول ومتقولہ کا بدلہ اس دنیا میں ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دوہرا قتل ازخود اپنے اندر معافی کا قومی جواز رکھتا ہے اس قومی جواز کو چیلنج کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment