Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena ||Episode#5

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_٥ 
💕💕حصہ اول💕💕
"لیکن اس سب کے لیے ابھی اس کو بہت وقت چاہیے۔اور سب سے امپورٹینٹ چیز ہمارا ساتھ چاہیے اسے۔"
"جی بھائی صاحب یہ تو آپ نے بجا فرمایا۔ہر انسان جیسے جیسے سیکھتا جاتا ہے اس میں بہتری آتی رہتی ہے۔"
"کامياب انسان وہی ہوتا ہے جو وقت کے تقاضوں کے مطابق خود کو محنت کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے ایک نئے سانچے میں نا ڈھال لے۔"
"جی بھائی صاحب کامیابی ایسے ہی انسانوں کا مقدر بنتی ہے۔"
"مگر اس مقدر کو چمکانے کے لیے انسان کو راکھ ہونا پڑتا ہے۔اپنی عمر کا اتنا بڑا حصہ تیاق کرنا پڑتا ہے۔دعا ہے میری کہ میرا فراز ثابت قدمی سے چلتا رہے۔"
"بھائی صاحب اس معاملے میں وہ بالکل آپ پہ گیا ہے اپنے ارادوں میں اٹل۔آج سے پہلے اس نے جتنے بھی فیصلے کیے ہیں وہ ان پہ ثابت قدم رہا ہے تو اس فیصلے سے بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔"
"پر یہ بزنس ایسی دلدل ہے جس سے بڑے بڑے اپنی رسی چھڑا کر بھاگ جاتے ہیں۔"
"آپ نہیں بھاگے ناں تو وہ بھی نہیں بھاگے گا۔"
"اللہ کرے ایسا ہی ہو۔"
"جی بھائی صاحب ایسا ہی ہو گا۔آپ فکر مت کریں۔بھائی صاحب آپ پھر چلے جائيں میں یہاں سب مینیج کر لونگا۔"
"نہیں تم چلے جاؤ۔مجھے دو چار اور بھی کام ہیں میں نے وہ بھی کرنے ہیں۔"
"کیسے کام بھائی صاحب...؟"
"اس فیکٹری کا ایک پرانا ورکر تھا شفیق۔جس کو بلڈ کینسر کے باعث کام سے فارغ کر دیا گیا ہے۔"
"جی بھائی صاحب میں نے ہی اس کے علاج کے لیے رقم مختص کی تھی تاکہ ان کو کوئی مشکل یا پریشانی نا ہو۔اور ان کے بقایاجات بھی میں نے ہی کلئیر کیے تھے......کیا ہوا اس کو...؟"
"ہوا تو کچھ نہیں کل آیا تھا فیکٹری مجھ سے ملنے کے لیے۔مجھ سے درخواست کی کہ میری بیٹیوں کی نکاح کی رسم میں شمولیت اختيار کریں۔بیٹیوں کے معاملے میں مجھ سے انکار نہیں ہوتا۔میں نے ہامی بھر دی۔"
"یہ تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے میں بھی جا سکتا ہوں۔"
"جا تو سکتے ہو۔مگر اس کے علاوہ میں نے گجرات اور پنڈی بھی جانا ہے۔میں سوچ رہا ہوں اب گھر سے باہر نکلا ہوں تو سارے کام ایک ساتھ نبٹا کے ہی واپس جاتا ہوں۔"
"گجرات اور پنڈی کس لیے جانا ہے آپ نے...؟"
"گجرات صفیہ آپا کی طرف جانا ہے۔"
"خیریت سے....؟"
"ہاں.....وہ صفیہ آپا چاہتی ہیں کہ میں اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک کے لیے اس کی سب سے چھوٹی بیٹی آیت فاطمہ کا رشتہ طے کر دوں۔اپنی دونوں بڑی بیٹیوں کے وقت سے وہ کہہ رہی ہیں میرا جانا نہیں ہوا تو اس نے اپنی بڑی بیٹیوں کی شادیاں کر دیں بس یہ سب سے چھوٹی والی بیٹی رہ گئی ہے۔اب کی بار مجھے سختی سے آرڈر ملا ہے کہ بھائی صاحب اب اگر آپ نہیں آئے تو میں نے آپ سے رشتے داری ختم کر دینی ہے۔اس لیے مجبورا جانا پڑے گا۔"صفیہ فراز کی بڑی خالہ تھیں۔جن کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔اپنے بڑے بچوں کا وہ فرض ادا کر چکی تھیں اب ایک بیٹا اور ایک بیٹی رہتی تھی جن کی شادی بھی وہ جلد کرنا چاہتی تھیں۔
"بھائی صاحب کس کے ساتھ رشتہ طے کرو گے آپ۔"
"ابھی رشتہ تو طے نہیں کرنا بس جانا ہے۔رشتہ تو تم دونوں بھائیوں کو ساتھ لے جا کر طے کرونگا۔دیکھو شیراز یا نواز میں سے جس کے ساتھ اس کی جوڑی اچھی لگی اس کے ساتھ ہی۔"
"فراز کا نام نہیں لیا آپ نے....؟"
"اس کے لیے میں لڑکی پسند کر چکا ہوں۔اس لیے فراز کے لیے مجھے لڑکی ڈھونڈنے کی فکر نہیں ہے۔"بابا جان کو عرینا اور فراز ایک ساتھ بہت اچھے لگتے تھے اور ان کی دلی خواہش تھی کہ فراز کی شادی وہ عرینا سے ہی کریں۔مگر وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ عرینا کے والدین اس کے لیے کچھ اور ہی سوچ کر بیٹھے ہیں۔
"کس کو پسند کیا آپ نے فراز کے لیے...؟"
"ابھی وقت آنے دو سب سے پہلے تمہیں ہی بتاؤنگا۔کیونکہ تمہاری اجازت کے بناء کچھ نہیں ہو پائے گا۔"
"میں سمجھا نہیں بھائی صاحب۔"
"سمجھ جاؤ گے جب میں نے سمجھایا۔" 
"ٹھیک بھائی صاحب جیسے آپ مناسب سمجھیں......پنڈی کس لیے جانا ہے؟"
"پنڈی بھی اسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔فراز کی چھوٹی خالہ روبینہ بھی اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے کہہ رہی ہے بس اسی سلسلے میں جانا ہے ادھر بھی۔"روبینہ خالہ کے دو ہی بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔
چونکہ ان تینوں بھائیوں کی کوئی بہن نہیں تھی اس لیے سب اپنے بچوں کی شادیاں بچوں کی خالاؤں کی طرف کر رہے تھے۔
"تو اس کا مطلب اب کا آپ کا یہ ٹور رشتے طے کرنے میں ہی گزرے گا۔"
"ہاں تم ایسا کہہ سکتے ہو.....اچھا اب تم چلے جاؤ....میں ہفتے تک واپس آ جاؤنگا۔"
"ٹھیک ہے بھائی صاحب اپنا خیال رکھیے گا۔اگر میری ضرورت پڑی تو مجھے بلا لیجیے گا میں آ جاؤنگا۔"
"ٹھیک ہے۔في أمان اللهْ۔"
"في أمان اللهْ بھائی صاحب۔"
اس کے بعد محسن صاحب ان سے مل کر گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔
انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔اب حسان صاحب نے جو سوچا تھا کون جانتا تھا کہ ویسا بالکل نہیں ہونے والا۔ان کے تینوں بیٹوں کی تقدیر جانے کیا رنگ لانے والی ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"زندگی ایک پیاس ہوتی ہے
حرصِ خالی گلاس ہوتی ہے
جس خوشی نے تباہ کرنا ہو
کس قدر خوش لباس ہوتی ہے 
عقل کیا دل کو مت سیکھائے گی
وہ تو خود بد حواس ہوتی ہے
ایک ہی عیب ہے صداقت میں 
مصلحت ناشناس ہوتی ہے"
ناجانے کیوں فراز کو اک بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی آج اس کا دل اتنا بوجھل کیوں ہو رہا ہے۔صبح صبح وہ آفس جانے کے لیے تیار ہو کر اپنی ڈائری پکڑ کر بیٹھ گیا۔اور یہ نظم لکھی۔
فراز بھائی آپ نے میری پینٹنگ بنا دی....؟"فراز رائٹننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا جب عریشہ اس کے کمرے میں آئی۔
"جی چھوٹی میڈم میں نے بنا دی ہے۔"
"تو پھر دے دیں میں نے آج لے کر جانی ہے۔"
"اوکے میں لے کر آتا ہوں۔"
"فراز بھائی میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔"عریشہ کو اپنی پینٹننگ دیکھنے کی جلدی تھی سو وہ ساتھ ہی چل پڑی۔
"ضرور آ جاؤ۔"
فراز کو آفس جاتے آج ہفتہ ہو گیا تھا اس دوران وہ بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا کے ساتھ آفس جاتا رہا۔بابا جان ابھی تک گھر واپس نہیں آئے تھے۔
عریشہ نے ہفتے کو جو پینٹنگ لے کر جانی تھی فراز کو رات کو جتنا وقت ملتا وہ پینٹنگ بنانے میں گزار دیتا۔
"جی تو دیکھو کیسی بنی ہے...؟"فراز نے پینٹنگ کے اوپر سے کپڑا ہٹاتے پوچھا۔
"فراز بھائی یہ تو بہہہہہہہہہت پیاری ہے۔کمال کی پینٹنگ بنائی ہے آپ نے......آپ دیکھنا فراز بھائی فرسٹ پرائز تو مجھے ہی ملے گا۔اور جب مجھے فرسٹ پرائز ملے گا تو میں آپ کو آئس کریم کھلاؤنگی۔"
"اچھا جی.....چلو اب سکول سے دیر ہو رہی ہے تمہیں۔"
"جی فراز بھائی چلیں۔"
عریشہ نے پینٹنگ اٹھائی تو دونوں نیچے آئے۔عریشہ کی سکول ویگن آ گئی تو وہ اپنا بیگ پکڑ کر چلے گئی۔
"عرینا....."فراز عرینا کو آواز دینے لگا۔
"آ رہی ہوں ایک منٹ۔"
فراز عرینا کو کالج چھوڑ کر پھر آفس جاتا تھا۔اس کو کالج سے گھر لے جانے کے لیے وہ اپنے ڈرائيور کو بھیج دیتا تھا۔
عرینا اپنا بیگ پکڑ کر جلدی سے چادر ٹھیک کرتی باہر آئی۔
"کتنی دیر لگاتی ہو تم تیار ہونے میں۔کبھی جلدی بھی تیار ہو جایا کرو۔اب جلدی چلو نہیں تو مجھے دیر ہو جائے گی۔"
"فراز وہ......"
"اب کیا رہ گیا....؟"
"فراز میں نے ناشتہ نہیں کیا۔"ناشتہ فراز کی کمزوری تھی بغیر وہ(ناشتے کے) عرینا کو کالج نہیں جانے دیتا تھا۔
"تو پھر ابھی بیٹھ کے ناشتہ کرو۔چلی جانا جس کے ساتھ جانا ہوا۔میں جا رہا ہوں۔"
"کدھر کی جلدی ہے فراز۔"
"تم نے میرے ساتھ چلنا ہے تو چلو نہیں تو اور کسی کے ساتھ چلی جانا۔"
"ٹھیک ہے چلو میں کالج کی کینٹین سے کچھ کھا لونگی۔"
پھر دونوں کار میں بیٹھ کر کالج کے لیے روانہ ہوئے۔
"فراز.....کیا بات ہے...آج تمہیں کیا ہوا ہے؟"عرینا نے رستے میں فراز سے پوچھا۔
"پتہ نہیں عرینا میری تو خود کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے مجھ سے میری کوئی قیمتی شے کھونے والی ہے۔"
"یہ سب تمہارا وہم ہے فراز ایسا کچھ نہیں ہو گا۔"
"اللہ کرے کچھ نہ ہی ہو۔پر میرے دل کو بڑی بے چینی لگی ہوئی ہے۔کچھ سمجھ نہیں آ رہا سب ٹھیک ہے پھر بھی کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا ہے مجھے۔"
"فراز تم ٹینشن نہ لو۔کچھ نہیں ہو گا۔"فراز نے کالج کے گیٹ کے پاس کار کھڑی کرتے کہا۔
"اوکے تم جاؤ۔في أمان اللهْ۔"
"في أمان اللهْ۔"عرینا بھی پریشان سی اتر کر چلے گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"کون....؟"رات ساڑھے بارہ بجے وہ اپنے بستر میں لیٹی تھی کہ دروازہ بجا۔دستک فراز کے ہاتھ کی تھی سو اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
"تم سو رہی تھی.....کچھ کہا تھا ناں میں نے تم سے.....آؤ اب میرے ساتھ۔"
فراز نے رات کو اپنے کمرے میں جانے سے پہلے عرینا کو رات نا سونے کا کہا تھا مگر وہ سو گئی تھی۔وہ آدھا گھنٹہ اس کا انتظار کر کے خود ہی اسے لینے آ گیا۔
"فراز مجھے نیند آئی ہے میں سونے لگی ہوں۔"عرینا دروازہ بند کرنے لگی تو فراز نے اس کی ایک نہ سنی اور ہاتھ پکڑ کر اوپر کے سیکنڈری سٹور میں لے آیا۔
یہ نام عرینا نے رکھا تھا کہ یہاں کچھ کام کی چیزیں ہوا کرتی تھیں۔مگر اب یہ 8×6 کا کمرہ فراز کے استعمال میں تھا جہاں وہ اپنی پینٹینگز رکھا کرتا تھا۔فراز نے کمرے کی لائٹ جلائی۔کمرے کے عین درميان میں زمين پر دسترخواں بچھا تھا جس پر ڈبہ پڑا تھا۔عرینا آگے اندر آ گئی۔
"ہیپی برتھ ڈے عرینا۔"
فراز دھیرے سے بولا۔عرینا پلٹی۔وہ کچھ سوچ رہی تھی گویا اسے خود نا یاد ہو پھر ایک دم چمکی۔
"اللہ اللہ آج تو میری برتھ ہے اور دیکھو مجھے ہی یاد نہیں۔"
"تمہیں نہیں یاد پر مجھے تو ہے ناں۔"عرینا نے سر اوپر نیچے ہلایا۔
"آؤ۔"دونوں آمنے سامنے زمین پر بیٹھے۔بھرپور طریقے سے سالگرہ منائی عرینا بہت خوش تھی۔
"اب تمہارے گفٹس۔"فراز نے چھوٹا سا گولڈن ڈبہ ریڈ ربن والا اس کے ہاتھ میں تھمایا۔عرینا نے ایکسائیٹمنٹ سے ربن کا نوٹ کھولا۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛


💕💕حصہ دوم💕💕
ڈبے کے چاروں اطراف خود ہی کھل گئے۔اب اس کے ہاتھ میں سفید جالی میں لپٹا گلوب رہ گیا۔بہت پیارا سا سلور گلوب تھا۔
جس میں برف باری کا منظر تھا کہ عرینا کو سردی تو بہت لگتی تھی مگر برف باری بھی بہت پسند تھی۔اور درمیان میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی کھڑے تھے۔
"تھینک یو۔"
"اسے! غور سے دیکھا ہے۔"
"جی۔"
"پھر دیکھو۔"
"اوکے۔"
عرینا ان دونوں کو غور سے دیکھنے لگی۔لڑکی کی گولڈن آنکھیں,گولڈن بال,گلابی رنگت ایک پل کو لگا کسی نے عرینا کو اٹھا کر وہاں کھڑا کر دیا ہے۔اس نے فراز کو دیکھا۔
"فراز یہ تو میں ہوں ناں۔"
"نہیں تمہارے جیسا کوئی نہیں۔یہ تو بس تمہارا عکس,تمہاری ایک شبہہ ہے۔"
"پر یہ کیسے....؟"اسے اب تک یقین نہ تھا۔
"یہ تمہارے اس اوٹ پٹانگ بنانے والے نے بنائی ہے۔"
"ارے......فراز یہ دیکھو اس لڑکے کی آنکھیں یہ تو....."
"یہ تو کیا.....؟"
"تمہارے جیسی ہیں......اب تم یہاں بھی میرے ساتھ پینچ گئے ہو۔"
"میں نہیں محترمہ تم پہنچی ہو میرے پیچھے پیچھے۔"
"جی نہیں میں نہیں پہنچی۔تم پہنچے ہو۔"
"اچھا اب منہ نہ بنا لینا.....ایک اور اوٹ پٹانگی دیکھاؤں۔"
"جی دکھاؤ۔"
"اسے ہٹاؤ۔"فراز اسے سرخ مخمل سے ڈھکے ایزل کے پاس لایا۔عرینا نے وہ پردہ ہٹایا تو پھر جو دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی۔
ٹھوڑی پر اپنی مخملی سی انگلی رکھے وہ گولڈن آنکھوں والی لڑکی دھیما سا مسکرا رہی تھی۔شبہہ آلود لٹ اس کی گلابی گال کو گدگدا رہی تھی۔وہ ہنسی وہ آنکھیں وہ عرینا ہی تو تھی۔
"کیسا لگا.....؟"فراز نے پوچھا تو وہ مذید مسکرا دی۔
"فراز مجھے نہیں پتہ تھا میری سمائل اتنی پیاری ہے۔"
"اب تو پتہ چل گیا ناں تم ساری ہی بہت پیاری ہو۔"
"تمہاری نظر سے دیکھوں تو ساری دنیا ہی پیاری لگتی ہے....تھینک یو سو مچ فراز۔"
"مائے پلیئیر۔"دونوں تھوڑی دیر مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔پھر فراز بولا۔
"چلو اب اپنے کمرے میں باقی کل پارٹی کریں گے۔اوکے۔"
"فراز تم کل پارٹی دو گے۔"
"ہاں جی۔اب میں اتنا کنجوس بھی نہیں ہوں۔"
"یہ تو کل ثابت ہو گا۔"
"اچھا چلو کل دیکھ لینا۔اب چلو رات بہت ہو گئی ہے۔کسی نے دیکھ لیا تو ڈانٹ پڑ جانی ہے۔"
"جی۔"عرینا بغل میں کینوس اور ہاتھ میں گلوب لے کر اپنے کمرے میں آئی۔
عرینا اپنے بستر میں لیٹ کر فراز کی بے پناہ چاہت کو اپنے دل میں اترتے محسوس کرتی رہی۔وہ آج اک نئے جزبے سے روشناس ہوئی تھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس جزبے کو کیا نام دے۔پر جو بھی تھا آج پیار کی اک ننھی کلی نے اس کے دل کے میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔
اک عجب سی سرشاری اک عجب سا نشہ تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔کبھی کینوس کو دیکھتی کبھی گلوب کو دیکھتی ناجانے وہ فراز کے سپنے دیکھتے دیکھتے کب سو گئی۔
فراز اپنے کمرے میں آ کر سونے کے لیے لیٹا مگر اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔آج اس نے عرینا کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت کی کلی کو پنپتے ہوئے دیکھا تھا۔پھر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ اسے نیند آ جاتی۔آج اسے لگ رہا تھا کہ اس کی محبت نے اپنا آپ منوا ہی لیا ہے۔کافی دیر تک عرینا کے سپنے سجاتا کروٹیں بدلتا رہا۔جب اسے لگا کہ آج اسے نیند نہیں آنے والی تو اٹھ کر رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
اپنی ڈائری کھولی اور اس پر لکھنے لگا۔
🌹💕💕 میری جان کے لیے💕💕🌹
"زندگانی کا کوئی حاصل نہیں تیرے بغیر
کس طرح کہہ دوں کوئی مشکل نہیں تیرے بغیر
یاد ہی تیری چراغ راہ بن کر ساتھ دے
ورنہ پھر اپنی کوئی منزل نہیں تیرے بغیر
خار بھی پھولوں کی صورت کھل اٹھے تھے تیرے ساتھ
اور پھولوں سے بھی کچھ حاصل نہیں تیرے بغیر
گل بدست اب کون اترے گا میرے دالان میں
دل میرا اب تو کسی قابل نہیں تیرے بغیر
کس قدر حیران ہوں پھول آ کے ساحل پہ کھلا
پاکے منزل بھی کوئی منزل نہیں تیرے بغیر "
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
فراز تقریبا ساری رات جاگتا رہا تھا۔صبح کو نماز پڑھ کر سو گیا۔جب اٹھا تو دوپہر ہو گئی تھی۔ابھی وہ نیچے آیا ہی تھا کہ عرینا کچن سے باہر آئی اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ اور چمچ تھا۔ناجانے اس میں کیا تھا۔
"فراز یہ چکھو میں نے نئی ڈش بنائی ہے۔"
"توبہ......تمہیں اپنے ہر تجربے کے لیے میں ہی ملتا ہوں۔"
"فراز چکھ کے تو دیکھو کیسی بنی ہے۔"
"نہ میں نہیں چکھ رہا۔تمہارے پچھلے تجربے ابھی تک بھولے نہیں ہیں مجھے۔کبھی کسی میں مرچیں زیادہ تو کبھی نمک زیادہ۔کبھی سبزی یا گوشت کچا تو کبھی اندر سے مصالحہ جلا ہوا۔توبہ توبہ میری بیچاری زبان کو ناجانے کتنے دکھ جھیلنے پڑے ہیں۔میری زبان توبہ کر گئی ہے پر تم سے کھانا نہیں ٹھیک سے بنا آج تک۔سوائے اس کے جو بڑی امی یا چھوٹی نے تمہارے ساتھ لگ کے بنایا ہو۔"
"جو بھی ہے ہر بار کی طرح آج بھی تم ہی چکھ کے بتاؤ گے کہ کیسی بنی ہے۔"
"نا میں نہیں چکھ رہا۔لو شیروان کو کھلاؤ مجھے معاف کرو۔"
فراز اس کے آگے لگ کر بھاگ رہا تھا کہ برآمدے میں شیروان آگے آ گیا۔کافی عرصے بعد اس نے حسان ویلا میں چکر لگایا تھا اور آتے ہی اس کی نظر ان دونوں پر پڑی جو ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگ رہے تھے۔اب اسے بھی دھر لیا گیا۔
"السلام علیکم شیروان بھائی۔"عرینا نے سلام کیا۔شیروان نے جواب کیا دینا تھا وہ تو بس ٹکر ٹکر ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
"شکر خدا کا یار تم آ گئے۔جان بچ گئی میری۔ورنہ اس چڑیل نے تو......"
"تم نے مجھے چڑیل کہا۔"
"ہاں جی۔"فراز شیروان کی اوٹ سے نکلا اور باہر لان کی طرف بھاگ گیا۔عرینا بھی اس کے پیچھے ہی بھاگی۔
"فراز کے بچے۔"
"وہ تو تم ہاں کرو گی تو ہوں گے۔"
"فراز تم مرو گے میرے ہاتھ سے۔"عرینا اب اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔
"تمہارا ہی نقصان ہے۔"
"دفع ہو جاؤ۔"عرینا جھنجھلا کر رک گئی۔
"عرینا بھائیوں کو ایسے نہیں کہتے چندا۔"رخسانہ بیگم باہر آئیں تو اسے سمجھایا۔
"بھائی۔"عرینا نے مزے لے کر کہا۔"فراز بھائی۔"
"چھوٹی امی آپ ہمیں ہی لڑنے دیں۔ایویں ہی بس۔"فراز اب کے بسور کے بولا۔
"فراز عرینا بچے کوئی آیا گیا تو دیکھ لیا کرو۔ہر کسی کے سامنے لگے ہوتے ہو۔اب تم لوگ بچے تو نہیں رہے۔اسے دیکھو فائنل ائیر میں ہو گئی ہے اور اس کی مستیاں ہی نہیں جاتیں۔"انہوں نے عرینا کا کان کھینچا تو وہ چلا اٹھی۔فراز نے بڑھ کر اس کا کان چھڑایا اور اسے ملنے لگا۔
"اور یہ سب تمہارے لاڈ کا نتیجہ ہے۔"وہ پیار سے فراز کے درپے ہو گئیں۔
"چھوٹی امی کیا ہے۔ایک اتوار تو ہوتا ہے ورنہ تو ہر کوئی کسی نہ کسی کونے میں گھسا ہوتا ہے اور پھر اس سے ہی تو گھر میں رونق ہے ورنہ سارا دن گھر میں پتا نہیں بولتا۔"
فراز اب عرینا کی حمایت کرنے لگا۔رخسانہ بیگم ان کا جھگڑا چھڑوا کر شیروان کی طرف متوجہ ہوئیں جو بے حس انداز میں ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد شیروان سے مذید یہاں ٹھہرا نہیں گیا وہ جلدی سے بس چائے پی کر چلا گیا۔
"خالہ مجھے کسی کام سے جانا ہے اس لیے رک نہیں سکتا۔"
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"السلام علیکم......"فراز,عرینا,عریشہ,نواز,بڑی امی,چھوٹی امی,عاطر,عامر,عاکف ,بڑے پاپا اور چھوٹے پاپا سب اس وقت ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے جب بابا جان نے آ کر سب سے سلام لیا۔آج اتوار تھا تو سب اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
شیراز اس وقت گھر پر نہیں تھا۔اس کا دوست آ گیا تو وہ اس کے ساتھ باہر چلا گیا تھا۔
سب بابا جان کی آواز سن کر خوش ہو گئے مگر جب ان کے ساتھ ایک لڑکی کو بھی دیکھا تو سب حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔پھر سب اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر بابا جان کے پاس آ گئے۔
"آ جاؤ بیٹا جی گھبراؤ نہیں۔اسے اپنا گھر ہی سمجھو۔"بابا جان نے دروازے کے پاس کھڑی لڑکی کو اندر آنے کا کہا۔
"بابا جانی یہ کون ہے.....؟"عرینا نے چادر میں لپٹی لڑکی کو دیکھ کر پوچھا۔
"بتاتا ہوں سب۔پہلے عرینا بچے آپ اسے گیسٹ روم لے کر جاؤ تاکہ یہ فریش ہو جائے پھر سب کھانے کھاتے باتیں کرتے ہیں۔"
"جی بابا جانی.....آپ آئے میرے ساتھ۔"عرینا اس لڑکی کو اپنے ساتھ گیسٹ روم کی طرف لے گئی۔
بابا جان اور باقی سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
"بھائی صاحب یہ لڑکی کون ہے...؟"چھوٹے پاپا نے بابا جان سے پوچھا۔
"یہ شفیق کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے ربیعہ۔"
"شفیق کی بیٹی.....مگر بھائی صاحب آپ اسے اپنے ساتھ کیوں لے کر آئے ہیں۔"چھوٹے پاپا نے پوچھا۔
"کون شفیق.....یہ کس کی بات کر رہے ہیں آپ.....ہمیں بھی کچھ بتائیں۔"چھوٹی امی نے پوچھا۔
"آپ نے تو گجرات اور پنڈی جانا تھا ناں۔آپ ادھر بھی نہیں گئے۔اور یہ کس کو اپنے ساتھ لے کر آ گئے ہیں۔؟"بڑی امی نے بابا جان سے پوچھا۔
"گجرات اور پنڈی بھی جانا تھا میں نے پر اک مسئلہ بن گیا جس کی وجہ سے نہیں جا پایا۔"
"بھائی صاحب جو بھی بات ہے آپ کھل کے بتائيں ہمیں۔"بڑے پاپا نے کہا۔
"ٹھیک ہے تو پھر سنو.......
شفیق ہماری سانگلہ ہل والی فیکٹری میں کام کرنے والا ایک نہایت ہی شریف اور ایماندار بندہ تھا۔کچھ عرصہ پہلے اس کی طبیعت تھوڑی تھوڑی خراب ہونے لگی۔اس نے اپنی بیماری کی زیادہ پرواہ نا کی۔کبھی زیادہ طبیعت خراب ہوتی تو دوا لے لیتا نہیں تو لاپرواہی کرتا رہا۔کیونکہ اس کے کندھوں پر تین جوان بیٹیوں کا بوجھ تھا۔جسے اس نے اتارنا تھا۔اس کو بس یہی خیال ہوتا کہ جو پیسے اس نے خود پہ لگانے ہیں بیٹیوں کے لیے کچھ جوڑ لوں۔ 
مگر اس کی لاپرواہی کے باعث اس کا مرض بڑھتا چلا گیا۔آج سے کوئی دو ہفتے پہلے اس کی فیکٹری میں ہی طبیعت بگڑ گئی۔جس کے باعث اسے ہسپتال لے جایا گیا۔وہاں سے پتہ چلا کہ وہ بلڈ کینسر کے لاسٹ سٹیج پر ہے۔
فیکٹری مینیجر نے محسن(چھوٹے پاپا) کو فون کر کے بتایا تو اس نے اس کے علاج کے لیے کچھ رقم اسے دینے کا کہا اور ساتھ ہی اس کے بقایاجات بھی اسے دے دیے گئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

No comments:

Post a Comment