Friday, 16 August 2019

Tum sy hai Bahar Zindagi Mai By Aleena ||Episode#4

#تم_سے_ہے_بہار_زندگی_میں
#از_قلم_علینہ
#قسط_نمبر_٤
💕💕حصہ اول💕💕
"امی عرینا نہیں آئی....؟"فراز نے فریش ہو کر آ کر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھتے پوچھا۔
"نہیں فراز بیٹا میں نے بلایا کہتی میرا کھانا میرے کمرے میں ہی بھجوا دیں۔"چھوٹی امی نے اسے بتایا۔
"ٹھیک چھوٹی امی آپ اس کے اور میرے لیے......"
"امی کھانا لگ گیا....."فراز کی بات ابھی پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ عرینا اور عریشہ دونوں آ گئیں۔
"تم تو کہہ رہی تھی......"
"جی امی میں نے سوچا سب کے ساتھ ڈنر کرنا چاہیے اس لیے آ گئی۔"اب اس نے یہ تو سننا تھا ناں کہ فراز کا پہلا دن کیسا گزرا۔بھلے ہی ابھی تک موڈ اوف تھا مگر تجسس تو برقرار تھا۔
سب بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔
"فراز بھائی آپ کا پہلا دن کیسا گزرا آفس میں.....؟"جو سوال عرینا کو کرنا چاہیے تھا وہ عریشہ کر رہی تھی۔
فراز نے عرینا کی طرف مسکراتے دیکھ عریشہ کو جواب دیا۔
"بہت اچھا گزرا ہے۔"
"عریشہ بچے ابھی آپ کے بھائی پر کام کا اتنا بوجھ نہیں پڑا ناں اس لیے اچھا گزر گیا ہے۔نہیں تو ہماری طرح اس کا بھی برا حال ہوا کرے گا۔"
"بڑے پاپا یہ سراسر غلط بات ہے.....آپ نے تو مجھے آج بھی نہیں معاف کیا۔چھوٹی امی آپ کو پتہ بڑے پاپا آج لنچ اوور کے بعد میرے پاس اور کہنے لگے۔"
"فراز بیٹا یہ فائل چیک کر لو اور یہ کچھ نقشے ہیں ان کو بھی دیکھ لو ٹھیک بنے ہیں کہ نہیں۔اگر کسی امینیمنٹ کی ضرورت ہے تو کر دینا۔ٹھیک دو گھنٹے بعد ڈیلی گیشن کے ساتھ تمہاری میٹننگ ہے جس میں تم پریزینٹیشن کرو گے۔بھائی صاحب نہیں ہے نہیں تو یہ کام ان کا ہوتا ہے۔پر آج سے ان کا بیٹا ان کی جگہ پریزنٹیشن پیش کرے گا۔"
"پر بڑے پاپا اتنی جلدی میں تیاری.....آئی مین میں....."
"میں نے کوئی ایکسکیوز نہیں سننا۔چلو تیاری کرو شاباش۔اینڈ ناؤ ایٹس اپ ٹو یو کہ آپ ہمیں یہ پروجیکٹ ایکچیو کر کے دیتے ہو یا نہیں۔"بڑے پاپا اس کا کندھا تھپک کر چلے گئے۔
اب بڑے پاپا نے اس پر اتنی بڑی ذمہ داری ڈالی تھی جس پر اس نے اپنی پوری دلجوئی سے کام کیا۔
فراز کے اندازِ بیاں کی تعریف تو اس کے سٹوڈنٹس فرینڈذ اور کولیگز بھی کرتے تھے۔اس کے سٹوڈنٹس کہتے۔
"سر آپ کی آواز میں اتنا ٹھہراؤ ہے اتنے اچھے سے آپ لیکچر ڈلیور کرتے ہو کہ ہمیں فوراََ یاد ہو جاتا ہے۔"
جبکہ اس کے ساتھ پڑھانے والے ٹیچرز کہتے۔
"سر فراز آپ روز ایک لیکچر ہمیں بھی دیا کرو کہ کس طرح ہمیں پڑھانا چاہیے آپ کی طرح۔"فراز آگے سے مسکرا دیتا کہ اب وہ ان کو کیسے سیکھائے یہ تو خود ہی آتا ہے کسی کے سکھانے سے تھوڑی آتا ہے۔
"ہمیں بھی بتائيں آپ نے کہاں سے سیکھا ہے.....؟"
ان کے اصرار پر فراز کا جواب ہوتا۔
"میں نے کہیں سے نہیں سیکھا یہ سب میرے اللہ کی طرف سے مجھے دیا گیا ایک حسین تحفہ ہے جس کے لیے میں جتنا اس پروردگار کا تشکر بنوں اتنا کم ہے۔"فراز سعادتمندی سے کہتا۔
سعادت مندی تو اس میں کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔
"فراز بھائی پھر آپ نے پریزنٹیشن دی؟"
"عریشہ بیٹا بہت زبردست پریزنٹیشن دی اس نے۔شکر اللہ پاک کا اس سال کا پروجیکٹ بھی ہمارا ہی ہوا ہے۔"
"تو بڑے پاپا اس خوشی میں ہماری ٹریٹ تو بنتی ہے ناں۔"
"عریشہ بچے کھانا کھا تو رہی ہو اب کیسی ٹریٹ۔"
"اچھا بڑے پاپا بھائی کو بولیں آئس کریم کھلانے ہی لے چلیں۔"
"جی یہ ہو سکتا ہے۔فراز بیٹا آپ ان دونوں کو آئس کریم کھلانے لے چلو۔"
"جی بڑے پاپا۔"فراز کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ عریشہ کے ساتھ عرینا بھی خوش ہو گئی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
کھانا کھانے کے بعد وہ تینوں آئس کریم کھانے چلے گئے۔
عریشہ نے اسٹابری فلیور منگوایا۔عرینا اور فراز نے چاکلیٹ اور ونیلا فلیور۔یہاں بھی دونوں کی پسند ایک جیسی تھی۔
جب بھی یہ دونوں آئس کریم کھانے جاتے فراز اسے تنگ کرنے کے لیے کہتا۔
"لڑکیوں کو اسٹابری فلیور اچھا لگتا ہے۔اور تم ہو کہ میری چیٹننگ کر کے ونیلا فلیور منگواتی ہو۔"
"میں نہیں تمہاری چیٹننگ کر رہی۔مجھے اسٹابری فلیور نہیں اچھا لگتا۔"
"نہیں تم چیٹر کوپ ہو۔"
"فراز میں نے آئس کریم تمہارے منہ پر مار دینی ہے۔یہ مت سوچنا کہ ہم باہر ہیں تو میں تمہارا لحاظ کر جاؤنگی۔"
"لڑاکا لڑکیوں کا کام کیا ہوتا ہے سوائے لڑنے کے۔"
"فراز......"عرینا آئس کریم کپ ہاتھ میں پکڑ لیتی۔
"اچھا اچھا کچھ نہیں کہتا میں تم آئس کریم کھاؤ۔میرے حق حلال کے پیسے نا ضائع کر دینا۔"
"موڈ خراب کرنا تو کوئی تم سے سیکھے۔ایک منٹ میں بندے کا موڈ اوف کر کے رکھ دیتے ہو۔"
"تو کلاسسز لے لیا کرو مجھ سے۔"
"نہیں میں جو پہلے کلاسسز لیتی ہوں وہی بہت ہیں۔مذید کی گنجائش نہیں ہے میرے پاس۔"
"سوچ لو تمہارے ہی فائدے کی بات ہے۔"
"اب اس میں میرا فائدہ کیسے.....؟"
"بھئی دیکھو جب تمہاری شادی ہو جائے گی تو جب تمہیں تمہارے شوہر کا موڈ مشکوک لگے تب تم اس کا موڈ اوف کر دیا کرنا۔"
"موڈ مشکوک کیسے لگتا بھلا.....؟"
"دیکھو جیسے وہ بیٹھے بیٹھے کسی کے خیالوں میں کھو جائے۔خود ہی ہنسنے مسکرانے لگے۔تمہاری باتوں پر دھیان نہ دے تو....."
"فراز ستیاناس ہو تمہارے مشورے کا۔"فراز اس کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر ہنسنے لگتا۔
اب بھی فراز کو یہ بات یاد آئی تو وہ ہنسنے لگا۔
"فراز خبردار جو تم نے کچھ کہا تو....."عرینا اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے بولی۔
"عریشہ بچے میں نے کچھ کہا کیا....؟"
"نہیں فراز بھائی آپ نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔"
"تمہارے نایاب خیالات سے آگاہی ہے مجھے۔"
"ارے واہ......اتنا جانتی ہو مجھے۔"
"فراز میں تمہیں تم سے بھی زیادہ جانتی ہوں۔"
"تم یہ دعوی نہیں کر سکتی۔"
"کیوں نہیں کر سکتی....؟"
"بس نہیں کر سکتی....چھوڑو اس بات کو۔"
"فراز بھائی میں پلے ایریا میں چلی جاؤں۔"
"ہاں جی ضرور.....پر سامنے ہی رہنا۔"
"جی فراز بھائی۔"
عریشہ کھیلنے چلے گئی۔
"فراز تمہاری پے کتنی ہو گی....؟"
"پتہ نہیں....ابھی تو مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتہ۔"
"پھر بھی تمہارے حساب سے کتنی ہو گی...؟"
"مجھے تو 30.35 ہزار بھی بہت ہے میرا کونسا اتنا خرچہ ہوتا ہے۔"
"ہممممم......تو اکیڈمی کی جاب کا کیا کرو گے؟"
"چھوڑ دونگا اور کیا۔میں نے کیا کرنے ہیں اتنے پیسے۔"
"بابا جانی سے کہتی ہوں لڑکا برسرِروزگار ہو گیا ہے اس کی شادی کی فکر کریں۔"
"ہو......اپنے منہ سے اپنی شادی کی بات کرتی اچھی لگو گی۔"
"ہوں.......ہیں.......آہا......35ہزار پے کیا لگی تم تو عرینا کے خواب دیکھنے لگے۔"
"بھئی تمہاری خوشیاں مسکراہٹیں بتا رہی ہیں کہ تم اتنے میں گزارا کر لو گی۔اور میں تو تب سے تمہارے خواب دیکھ رہا ہوں جب میں صرف پڑھتا تھا۔"عرینا کی آنکھوں کے بدلتے رنگ دیکھ کر بولا۔
"اللہ پناہ بڑے ڈراؤنے خواب تھے توبہ توبہ۔"
"ہیں فراز۔"عرینا نے گھورا;"ویسے سچی بتاؤ کوئی لڑکی ہے نظر میں۔"
عرینا نے گال پر ہاتھ رکھے پوچھا تو فراز دھیمی سی مسکان سجا کر گال پر ہاتھ رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔
"دیکھ لو کوئی نظر آتی ہے میری نظر میں۔"
عرینا غور سے دیکھنے لگی تو فراز کی ہنسی نکل گئی کہ عرینا اپنا چہرہ دیکھ کر گھورنے لگی تھی۔
"نہایت بدتمیز ہو تم اچھا۔چلو اب بہت ٹائم ہو گیا ہے گھر چلتے ہیں۔"
"ہاں چلو۔"
پھر وہ دونوں عریشہ کو ساتھ لے کر گھر کے لیے چلے۔
"فراز بھائی آپ مجھے ایک جھیل کی پینٹنگ بنا دو گے۔"
رستے میں عریشہ نے فراز سے فرمائش کی۔
"وہ کس لیے....؟"
"فراز بھائی ہمارے سکول میں بیسٹ پینٹنگ کمپیٹیشن ہو رہا ہے۔تو میں نے وہاں لے کر جانی ہے۔"
"کب تک چاہیے...."
"ہفتے کو لے کر جانی ہے۔"
"ٹھیک ہے میں بنا دونگا۔"
"یس....تھینک یو فراز بھائی.....آپ بہت اچھے ہو۔"
"مائی پلیر مائی لِٹل سِسٹر۔"
اس کے بعد وہ تینوں گھر آ گئے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
جیسے ہی صبح کا سورج طلوع ہوا وقفے وقفے سے ربیعہ کے گھر مہمانوں کا تانتا بندھنا شروع ہو گیا۔جو بھی آ رہا تھا وہ خوش کم اور دکھی زیادہ تھا۔
کسی کو تو سچ میں ابا میاں کی بیماری کا سن کر دکھ ہوا تھا پر زیادہ تر باتیں بھگارنے والوں میں سے تھے۔
"ہائے.....یہ بھائی صاحب کے ساتھ کیا ہو گیا۔بہن اب تم کیسے گزر بسر کرو گی۔بیٹا بھی کوئی نہیں تمہارا۔بیٹیوں کو ویسے نوکری نہیں کرنے دی کبھی تم نے اور بھائی صاحب نے۔اب سر کا سائیں بھی چند دنوں کا مہمان ہے۔ایسے میں تمہارا کیا ہو گا۔"
"جس خدا نے پیدا کیا ہے۔اس نے ہر انسان کو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے۔وہ بھی تو زندہ ہی رہتے ہیں جن کا کوئی نہیں ہوتا۔ہم بھی زندہ رہ لیں گے۔"
"دیکھو بہن ہم تمہیں غلط مشورہ نہیں دیں گے۔تم ابھی اپنی دونوں بڑی بیٹیوں کی شادی کرو اور چھوٹی کو کسی چھوٹی موٹی نوکری پہ لگا دو۔اس طرح تم دونوں ماں بیٹی کا گزر بسر اچھے سے ہو جائے گا۔"
"میں تو اپنے اللہ سائیں سے دعا گو ہوں کہ میرے سر کے سائیں کو لمبی حیاتی دے۔ہم پہ ایسی نوبت ہی نا آئے۔"
"حقیقت سے منہ بھی تو نہیں موڑا جا سکتا ناں۔"
"بس کر دو خدا کا واسطہ ہے۔آپ سب میری بیٹیوں کی شادی میں شرکت کے لیے آئی ہو یا میرے زخموں پہ نمک چھڑکنے۔اور آپ سب بے فکر ہو جاؤ میں کبھی بھی آپ لوگوں کے گھر ہاتھ پھیلانے نہیں آؤنگی۔آج تک حق حلال کی روٹی کھائی ہے آگے بھی کھا ہی لیں گے۔نہیں تو زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا۔مر جائیں گے۔تو خیر ہے۔کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے تو میں موت کی آغوش میں سونا پسند کرونگی۔"
اماں روتے ہوئے تخت سے اٹھ کر اندر کی طرف چلے گئیں۔
ربیعہ یہ ساری باتیں سن رہی تھی۔اس کی گال پہ بھی آنسوؤں کی لڑیاں بنی تھیں۔
ربیعہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا کچن میں بڑی آپا اور چھوٹی آپی خاموشی سے اپنے آنسو صاف کرتیں مہمانوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کر رہی تھیں۔ 
ربیعہ یہ دیکھ کر مذید رونے لگی۔وہ سوچنے لگی کچھ عرصہ پہلے اس گھر میں خوشیوں کا بسیرا تھا۔اب سوائے سناٹے کے یہاں کچھ نہیں۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛



💕💕حصہ دوم💕💕
بڑی آپا پہلوٹھی کی اولاد تھیں۔خاصی خوش شکل۔درمیانے قد کے ساتھ جسم سڈول تھا۔مزاج میں ٹھہراؤ بلکہ بہت حد تک کم سخن کہی جا سکتی تھیں۔بس ایک دھیمی مسکان جو ہر دم ان کے ہونٹوں پہ سجی رہتی۔دو سال پہلے انہوں نے بی۔اے کیا تھا۔اس کے بعد گھر داری میں مصروف تھیں۔گو کہ ان کے لیے پیغام تو اسی وقت ہی آنا شورع ہو گئے تھے۔جب وہ بی۔اے میں پڑھ رہی تھیں۔
کیونکہ کوئی اماں کے معیار پر پورا نہیں اترا تھا اس لیے پہلے ان کی پڑھائی کا بہانہ کر کے ٹالتی رہیں پھر جب یہ عذر بھی نہیں رہا تو سہولت سے منع کرتی رہیں مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہیں رہا یعنی اماں کو بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔گزشتہ سال پھوپھو کا بڑا بیٹا عاصم بینک میں مینیجر لگا تو پھوپھو کلثوم کا ہاتھ عاصم کے لیے مانگنے آگئیں تو ابا میاں نے اماں سے مشورہ کر کے ان دونوں کا رشتہ طے کر دیا۔عاصم کا کنبہ بھی بہت زیادہ بڑا نہیں تھا بس ایک ماں اور چھوٹا بھائی۔گھر بھی ذاتی تھا۔اور زندگی کی مذید سہولتیں بھی دستیاب تھیں۔
اماں ابا نے سوچا اس سے زیادہ ان کو کیا چاہیے بس سال بعد شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔گو کہ پھوپھو نے سامان وغیرہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔مگر اماں ابا چاہتے تھے کہ بیٹی کو کچھ نہ کچھ تو دے کر ہی رخصت کریں۔
اس کے علاوہ ایک اور وجہ تھی وہ یہ کہ وہ چاہتے تھے کہ ہما آپی کی بھی شادی ساتھ ہی کر دیں۔
ہما آپی کی شکل و صورت بھی ٹھیک تھی۔اور رنگت کلثوم سے زیادہ صاف تھی۔اس پر گھنے لمبے سیاہ بالوں کی چوٹی ان کی کمر پر ناگن کی طرح لہراتی۔قد بھی اونچا تھا۔
چھوٹی آپی غیر معمولی ذہین تھیں۔پڑھائی میں سب سے آگے۔ہمیشہ ہر کلاس میں اول آتی رہیں اور میٹرک سے تو باقاعدہ ان کی پوزیشن چلی آ رہی تھی۔پچھلے سال انہوں نے بی۔ایس۔سی کیا تھا۔وہ آگے بھی پڑھنا چاہتی تھیں۔اور ان کی ذہانت اور قابليت کو دیکھتے ہوئے ابا میاں کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ آگے پڑھ لیں لیکن ایک تو حالات اجازت نہیں دیتے تھے۔دوسرے اماں بھی راضی نہیں ہوئیں۔اور اماں سے اختلاف تو اس گھر کا کوئی فرد بھی نہیں کرتا تھا۔یوں چھوٹی آپا بھی گھرداری میں لگ گئیں۔
کلثوم آپا کے رشتے کے بعد ابا میاں نے ہما آپی کا رشتہ اپنے بڑے بھائی کے سب سے چھوٹے بیٹے سے طے کر دیا۔
جس کی مارکیٹ میں اپنی موبائل شاپ تھی۔ان کا کنبہ بھی بڑا نہیں تھا۔
دو بڑے بھائی اور ایک بہن تھی۔بڑے تینوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہو چکی تھیں۔اس کے بعد لیاقت بھائی تھے۔جن کا رشتہ ہما آپی کے ساتھ طے ہوا تھا۔دونوں کی شادیاں اس سال طے پائی تھیں۔مگر اس طرح نہیں جس طرح اب ہونے والی تھیں۔
اس کے بعد تھی ربیعہ تیسرے نمبر پر۔گو کہ شکل و صورت اور عادات واطوار میں باقی دونوں بہنوں سے مختلف نہ تھی۔بس کہیں کہیں تھوڑا فرق نظر آتا تھا۔اور یہی فرق اسے باقی دونوں سے ممتاز کرتا تھا۔سر و قد اور سرخی مائل گندمی رنگت میں ایک خاص کشش تھی۔چہرے پر نرمی تھی اور آنکھوں میں سنجیدگی اور شاید اس کے علاوہ کوئی اور بات ضرور تھی جو اسے پہلی غیرارای نظر کے بعد ارادی نظر کا حقدار ٹھہراتی تھی۔چونکہ تینوں بہنیں سال دو سال کے فرق سے تعلیمی میدان میں تھیں۔بڑی آپا بی۔اے کر کے فارغ ہوئیں تو چھوٹی آپی بی۔ایس۔سی میں پہنچ گئیں وہ بی۔ایس۔سی سے فارغ ہوئیں تو ربیعہ بی۔اے میں چلی گئی۔اس وقت ربیعہ لاسٹ ائیر میں تھی۔ 
ربیعہ ان بچوں میں شامل تھی جو پورا سال پڑھائی پر اتنی توجہ نہیں دیتے مگر جب امتحان سر پر ہوتے تو جی جان سے محنت کرتی اور فرسٹ ڈویژن لے آتی۔
اس کی ایک الگ تھلگ سی عادت یہ تھی کہ وہ اکثر بیٹھے بٹھائے کھو جایا کرتی تھی۔کہیں تتلی دیکھی تب,کہیں پھول کِھلا تب,کبھی کوئی بچہ پیارا لگا تب۔غرض جو چیز اسے اچھی لگتی یا متاثر کرتی تھی اسے دیکھتے ہی کھو جایا کرتی تھی۔نظریں اس چیز پر مرکوز کیے(پتہ نہیں ذہن ساتھ دیتا تھا یا نہیں)وہ جیسے اپنے آپ میں نہیں رہتی تھی۔کچھ تنہائی پسند بھی تھی اور تنہائیوں میں سوچنا اچھا لگتا تھا۔اور گزشتہ سال تک اس کی سوچیں گھر کے افراد تک ہی محدود تھیں۔نرم دلی کے باعث گھر کے مسائل کو سمجھتی اور ان پر کڑھتی بھی تھی۔خاص طور پر ابا میاں کی بیماری نے اسے بہت دکھ پہنچایا تھا۔کیونکہ گھر میں وہ ہی ابا میاں کے سب سے زیادہ قریب تھی۔اب ان کی ابدی جدائی کو پتہ نہیں کیسے برداشت کر پائے گی۔گزشتہ سال تک اس کی سوچیں بس یہی تک محدود تھیں۔
پھر اچانک ان میں ایک اور رنگ شامل ہو گیا۔کچھ شوخ سا رنگ پہلے دل کے دروازوں پر دستک دی اور پھر ایوانوں میں جا بسا۔وہ حیران تھی اور پریشان بھی کہ اس کے ساتھ یہ حادثہ کیونکر ہوا۔ابامیاں,اماں یا کسی اور کو پتہ چلا تو سب کیا سوچیں گے کہ اس گھر میں وہ کوئی نرالی تو بڑی نہیں ہوئی,اس سے پہلے دو لڑکیاں اور بھی اس عمر کو پہنچ چکی ہیں اور ان کے ساتھ تو کبھی کوئی بات منسوب نہیں ہوئی۔
اور وہ اپنے بارے میں سوچ کر ڈرنے لگتی کہ اگر جو کبھی کسی نے اس کی آنکھوں میں اس رنگ کو پا لیا تو کیا ہو گا؟وہ ایک چہرہ جو اسے پہلی نظر میں اچھا لگا تھا۔اور اپنے عادت کے مطابق وہ اسے دیکھ کر اس میں کھو سی گئی تھی کہ گردوپیش کا ہوش نہ رہا تھا۔
یہ پچھلے سال کی بات ہے جب وہ ایک دن کالج گئی۔اس کے کالج میں ایک لڑکا لیکچر دینے آیا تھا۔وہ دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا۔سرخ و سپید رنگت اس پر اس کی بلا کی رعب دار پرسنیلٹی۔وہ بس اسے دیکھ کر دیکھتی ہی رہ گئی۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ اپنا لیکچر ختم کر کے چلا گیا۔اس کے بعد اس نے اس لڑکے کو دوبارہ کالج میں نہیں دیکھا۔
بس وہ اس کی ایک جھلک دیکھ کر ہی اس پہ فدا ہو گئی۔اس کے بارے میں وہ آج تک کچھ نہیں جان پائی۔جانتی تھی تو صرف اتنا کہ وہ اسے اپنا دل دے بیٹھی ہے۔اور اکثر و بیشتر وہ اس چہرے کو تصور میں سوچتے مسکرانے لگتی۔
کل کلثوم آپا اور ہما آپی کی رسمِ نکاح ہونی تھی۔چند مہمانوں کے ساتھ دو بول پڑھا کر رخصت کر دیا جانا تھا دونوں کو۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"ارے او فریدہ......کتنی دیر لگانی ہے تیار ہونے میں.....صبح کی لگی ہوئی ہے ابھی تک تیاری ہی نہیں مکمل ہوئی تمہاری۔"
فضیلت بیگم صبح سے ان کو تیار ہونے کا کہہ رہی تھیں مگر فریدہ نے تو جیسے سارا آج ہی تیار ہو جانا تھا۔ابھی تک اس کی تیاری مکمل ہی نہیں ہوئی تھی۔اس میں اس بیچاری کا بھی کوئی قصور نہیں تھا اسے میک اپ کرنا نہیں آتا تھا بھائی کے موبائل سے دیکھ دیکھ کے میک اپ کر رہی تھی تو دیر تو لگنی ہی تھی۔
"اماں میں اس کے بعد آ کے تیار ہو گیا ہوں یہ ابھی تک نہیں تیار ہوئی۔گیارہ بج گئے ہیں دیر ہو رہی ہے۔ اسے کہیں جلدی آئے۔"
"اتنا وقت اگر یہ اپنی پڑھائی پہ دے ناں تو یہ ٹاپ کرے۔پر نہیں رو دھو کے آٹھویں جماعت میں ہوئی ہے۔سارا سارا دن یا تو ٹی۔وی کے آگے بیٹھی رہتی ہے یا چھت پہ جا کے ساتھ والوں کے بچوں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہے......فریدہ اب اگر تو باہر نہیں نکلی ناں تو میں نے جوتی پکڑ کر تیری چھترول کر دینی ہے۔"
"کیا ہے اماں خود تو کچھ کرنا نہیں ہوتا۔بس مجھے ہی بولتی رہا کرو۔"
"کیا کیا ہے تو نے صبح کا یہ کلموہا میک اپ ہی کر رہی ہے صبح کا۔"
"اماں جھوٹ تو نا بولو۔پہلے صبح اٹھتے ہی گھر کے کام پہ لگا دیا مجھے۔وہ کیے ہیں چیزیں سمیٹی ہیں پھر ہی تیار ہونے لگی تھی۔اس پہ بھی تیری باتیں نہیں ختم ہوتیں۔"فریدہ تیار ہو کر اپنا ہینڈ بیگ پکڑ کر باہر آ گئی۔
"دیکھ زبان کیسے چلتی ہے تیری۔اگر وہاں جا کے بھی تو نے ایسے ہی زبان چلائی ناں تو تیری زبان کاٹ دینی ہے میں نے۔"
"اماں تم دونوں بیگ پکڑ کر باہر کھڑی ہو میں تالے لگا کر آتا ہوں۔"
"ہاں ٹھیک سے چیک کر کے سارے دروازے کھڑکیاں بند کر دے۔چابی تیرا باپ لے گیا ہے خود ہی آ کے کھول لے گا دروازے۔"
"اماں ابا کیوں نہیں جا رہے ہمارے ساتھ؟"شکیل نے پوچھا۔
"پتہ نہیں ایسا کونسا ضروری کام ہے جو نہیں جا رہے میں نے تو بڑا کہا پر کہتے ہیں بڑے صاحب ادھر نہیں ہیں ان کے بیٹے کو میری ضرورت ہے میں چھٹی نہیں کر سکتا۔میں نے تو کہا اس وقت آپ کے صاحب کے بیٹے سے زیادہ میرے بہنوئی کو آپ کی ضرورت ہے۔پر کہتے نہیں ان کی طرف میں پھر کسی دن چلا جاؤنگا۔جن کا نمک کھاتا ہوں اس وقت ان کے کام نہ آ کر میں نمک حرامی نہیں کر سکتا۔میں نے بھی کہہ دیا چلے جاؤ چلے جائیں گے ہم خود ہی۔میرا بیٹا ہے میرے ساتھ۔"
"پتہ نہیں اماں ان لوگوں نے ابا کو کیا گھول کے پلا دیا ہے بس ہر وقت اپنے مالکوں کے ہی گن گاتے رہتے ہیں۔میں تو کہتا ہوں چھوڑ دیں یہ نوکری۔"
"نوکری چھوڑ دے تو تم لوگ کھاؤ گے کدھر سے۔خود تو کچھ کماتا نہیں۔باپ کو بھی نوکری چھڑوا دے گا تو فاقے پڑ جائیں گے گھر میں۔چل تالے لگا کر جلدی باہر آ۔"
اس کے یہ تینوں گاؤں جانے کے لیے چل پڑے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
"بھائی صاحب دو دن ہو گئے ہیں پر یہ مسئلہ نہیں ختم ہو رہا۔میں تو کہتا ہوں ہم میں سے کسی کو مسلسل ادھر رہنا چاہیے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔"
محسن صاحب نے حسان صاحب کو مشورہ دیا۔دونوں اس وقت سانگلہ ہل کی فیکٹری کے آفس میں بیٹھے مزدوروں کی تنخواہ بڑھانے کے مطالبے کو ڈسکس کر رہے تھے۔
"کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔وہاں بھی حسیب اکیلا سب کچھ سنبھال رہا ہے۔فراز تو ابھی بزنس کے پیچ و خم سے واقف بھی نہیں ہے۔"
"لیکن اس کے باوجود بھی جو اس نے اتنا بڑا پروجیکٹ حاصل کر کے جو کمال کر دکھایا ہے۔مجھے وہ سن کر بڑی خوشی ہوئی۔اس نے آپ کا بیٹا ہونے کا ثبوت پیش کر دیا ہے۔آپ دیکھنا ایک دن وہ آپ کی ہی طرح ایک کامياب بزنس مین بنے گا۔"
"میں بھی یہی چاہتا ہوں وہ ایک اعلی پائے کا بزنس مین بنے۔جسے دیکھ کر سب عش عش کر اٹھیں۔"

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛ 

No comments:

Post a Comment