Saturday, 24 August 2019

Wehshat-e-Ishq By Ramsha Mehnaz ||Episode#8

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 8
(Don't copy without any permission)

ساری رات دونوں کی آنکھوں میں کٹی تھی دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش بیٹھے جاگ رہے تھے شزرا نے جو فیصلہ کیا تھا اب وہ اس سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں تھی چاہے وہ سسک سسک کے مر جائے مگر اپنی بہن کو خوشیاں دے کہ ہی رہے گی آج تک منال شزرا کے لئے اپنی چیزیں چھوڑتی آئی تھی مگر شزرا نے آزر کو چھوڑ کے سارا حساب برابر کردیا تھا وہ جانتی تھی یہ کانٹوں کا سفر ہے مگر پھر بھی وہ اسی پہ چلنا چاہتی تھی۔
آزر اپنے ٹوٹے بکھرے سے وجود کو سنبھالے کی کوششوں میں مصروف ہلکان ہو چکے تھے انہوں نے خود شزرا کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار دیکھا تو اب وہ کیسے بیگانگی دیکھا سکتی تھی وہ کیسے ان سے منہ موڑ سکتی تھی انہوں نے شزرا کے لئے اپنی آنا تک کو مار ڈا تھا وہ آزر جو ہمیشہ چپ چپ سے رہتے تھے اب بولنے لگے تھے محبت نے اک کی زندگی میں گلاب کھلادیئئے تھے مگر اب وہی گلاب ان کی زندگی سے نوچ کی پھینک دیئے گئے ان کی زندگی ویرانے میں بدل دی گئی اب ان کی آنا انہیں شزرا کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دے رہی تھی وہ واپس اپنے خول میں سمٹ چکے تھے ساری رات انہوں نے ٹوٹتے بکھرتے اور خود کو سمیٹتے ہی گزاری تھی اور صبح تک وہ خود کو مکمل طور پہ سمیٹ چکے تھے کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ رات ان پہ کیا قیامت گزری ہے وہ فریش موڈ کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے مگر شزرا وہاں موجود نہیں تھی وہ ابھی آزر کا سامنا نہیں کر سکتی تھی اسے وقت چاہیے تھا وہ اتنی مضبوط نہیں تھی۔
آج ناشتہ کرتے ہوئے آزر کے دل میں شزرا کو دیکھنے کی خواہش نہیں جاگی تھی ان کا دل خود کو ٹھکرائے جانے کے بعد شاید پتھر ہو چکا تھا۔
کئی دن ایسے ہی خاموشی کی نظر ہو گئے پھر ایک رات آزر تھکے ہارے گھر آئے تو سلمہ بیگم انہی کے انتظار میں جاگ رہی تھیں۔
"آزر کتنی بار بولا ہے گھر جلدی آیا کرو" آزر کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر انہوں نے انہیں ڈانٹا جنہوں نے اب گھر دیر سے آنا اپنا معمول بنا لیا تھا وہ اب بارہ بجے سے پہلے گھر نہیں آتے تھے صبح بھی منہ اندھیرے بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکل پڑتے اب وہ مکمل طور پہ اپنی ذات کے خول میں قید ہو کے رہ گئے تھے۔
"امی کام تھا اس لئے لیٹ ہو گیا ہوں" انہوں نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے تھکے ہوئے لہجے میں کہا اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
"تم چلو اپنے روم میں جلدی فریش ہو جاؤ میں کھانا لے کہ آتی ہوں" آزر اثبات میں سر ہلا کے اپنے روم میں چلے گئے۔
سلمہ بیگم کھانے کی ٹرے لے کہ ان کے روم میں گئیں تو وہ آئینے کے سامنے کھڑے تولیے سے گیلے بال پونچھ رہے تھے انہیں دیکھ کے آزر بیڈ پہ آکے بیٹھ گئے وہ خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے جب سلمہ بیگم نے بات کا آغاز کیا۔
"آزر اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے" سلمہ بیگم نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے رسان سے کہا آزر بنا کوئی جواب دیئے سپاٹ چہرے کے ساتھ کھانا کھاتے رہے۔
"تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتادو" سلمہ بیگم نے ان کا سپاٹ چہرہ دیکھ کے ٹھٹھک کے کہا.
"نہیں میری کوئی پسند نہیں ہے" آزر کے حلق میں نوالہ اٹکا تھا انہوں نے پانی کا گلاس اٹھا کے لبوں سے لگا لیا شزرا کا مٹا مٹا سا نقش ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا مگر اگلے ہی پل وہ خود کو سنبھال چکے تھے۔
"ٹھیک ہے اگر تمہاری کوئی پسند نہیں ہے تو تم ہماری پسند کی لڑکی سے شادی کر لو" سلمہ بیگم نے ان کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا آزر نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"منال بہت پیاری بچی ہے وہ تمہیں بہت خوش رکھے گی" سلمہ بیگم انہی ہی دھن میں بولے جا رہی تھیں جبکہ آزر منہ کھولے ان کی طرف دیکھ رہی تھے۔
"منال۔۔۔۔۔۔۔۔" انہوں نے حیرت سے پوچھا۔
"ہاں منال۔۔۔۔تمہیں کوئی اعتراض ہے کیا" سلمہ بیگم نے ان کا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کے سوال کیا۔
"لیکن امی منال کے بارے میں میں نے کبھی ایسا نہیں سوچا" آزر نے ہلکا سا احتجاج کیا۔
"بیٹا ہم سب چاہتے ہیں تمہاری شادی منال سے ہو" سلمہ بیگم نے پیار سے کہا آزر خاموش بیٹھے رہے۔
"ٹھیک ہے پھر آپ لوگوں کی مرضی ہے" آزر نے جواب دیا مگر دور کہیں ان کا دل ایک بار پھر ویران ہوگیا تھا۔

____________________________________________________

اگلی صبح اس گھر میں ڈھیر ساری خوشیاں کے کہ آئی تھی ہر چہرہ کھلا کھلا سا تھا آزر نے اس رشتے کے لئے حامی بھر کے ایک عرصے بعد اس گھر میں خوشیوں کے دیپ روشن کئے تھے۔
آج چھٹی کا دن تھا تو گھر میں سب لوگ موجود تھے شزرا نیچے آئی تو سب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے وہ ناسمجھی سے سب کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ آزر سپاٹ چہرے کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے وہ ناسمجھی سے سب کی طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھی۔
"آؤ شزرا یہ لو منہ میٹھا کرو" تائی امی نے شزرا کی طرف مٹھائی کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔
"کیوں ؟ کیا ہوا کے؟" شزرا نے مٹھائی اٹھاتے ہوئے پوچھا اور ایک نظر منال کی طرف دیکھا جو شرمائی لجائی سی بیٹھی تھی۔
"آزر اور منال کی اس ہفتے منگنی کی تاریخ رکھ دی گئی ہے" تائی امی نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا شزرا اپنی جگہ سن سی کھڑی رہ گئی اس پہ سر پہ دھماکہ ہوا تھا ابھی تو وہ خود کو مکمل طور پہ سنبھال بھی نہ پائی تھی اور ایک اور امتحان اس نے کرب سے آنکھیں میچیں  اس نے آزر کی طرف دیکھا ان کے چہرے پہ شاید استہزائیہ مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی تھی وہ خود کو سنبھال کے منال کی طرف بڑھی اور اسے گلے لگا کے مبارکباد دی۔
"ٹائم بہت کم ہے منال شزرا تم دونوں جلدی جلدی اپنی شاپنگ مکمل کرلو" تائی امی نے ان دونوں کو نصیحت کی۔
"آزر کل تم ان لوگوں کو شاپنگ پہ لے جانا" اس بار تائی امی نے آزر کو مخاطب کر کے کہا اور ہر چیز سے بے نیاز بیٹھے تھے۔
"جی امی" ان کا لہجہ ہر قسم کے تاثر سے خالی تھا۔

____________________________________________________

شام میں منال اپنے روم میں کھڑکی کے سامنے کھڑی دور افق پہ ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی تبھی دروازے پہ ہلکا سا ناک ہوا۔
"آجائیں" منال نے اجازت دی شزرا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اندر آئی۔
"تم کب سے دروازہ ناک کر کے آنے لگیں" منال نے اس کے مضحمل چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"میں نے سوچا اب سدھر جانا چاہیے بہت بچپنا ہوگیا" شزرا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
"مجھے تو شرارتی سی شزرا ہی اچھی لگتی ہے" منال نے محبت سے کہا۔
"آپی آپ خوش ہو نہ؟" شزرا نے اس چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں خوش ہوں" منال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"میری دعا ہے آپ ہمشہ خوش رہیں"شزرا نے منال کے گلے لگتے ہوئے کہا اور نم آنکھوں سے مسکرا دی۔

____________________________________________________

آزر اور منال کے رشتے کی بات سن کے آزر کے ماموں مامی ان لوگوں کو مبارکباد دینے ان کے گھر تشریف لائے تھے ساتھ برہان اور سویرا بھی تھے برہان تو ان لوگوں کو چھوڑ کر تھوڑی دیر میں آنے کا کہہ کر کسی ضرور کام سے چلا گیا تھا سب لوگ ہال میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے رات پہ کھانے کے لئے آزر اور برہان کا ہی انتظار ہو رہا تھا کچھ دیر بعد پورچ میں گاڑیوں کے رکنے کی آواز آئی۔
آزر اور برہان ایک وقت پہ گھر پہنچے تھے دونوں گاڑیوں سے اترے تو ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا۔
برہان آزر کی طرف بڑھا اور اس سے ہاتھ ملا کر اس کے رشتے کی مبارکباد دی۔
"بہت بہت مبارک ہو" برہان نے مسکراتے ہوئے کہا 
"بہت شکریہ" آزر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد قبول کی۔
"ویسے میں حیران ہوں تمہارا رشتہ منال سے ہونے پہ" برہان نے لہجے میں حیرت اور افسوس سموئے ہوئے کہا۔
"اس میں حیرانی کی کیا بات" آزر نے ٹھنڈے لہجے میں پوچھا تھا۔
"اس دن تم جس طرح شزرا کو پورے استحقاق کے ساتھ میرے سامنے سے لے کہ گئے تھے مجھے بہت کچھ سمجھنے پہ مجبور کر گئے تھے" برہان نے انہیں یاد دلایا آزر کے لبوں پہ ایک درد بھری مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی۔
"قسمت ہر ایک پہ تو مہربان نہیں ہوتی نہ" آزر نے تلخی سے کہا اور اندر جانے کے لئے قدم بڑھائے۔
"تو کیا میں یہ سمجھوں کہ قسمت مجھ پہ مہربان ہونے والی ہے" برہان نے آواز نے ان کے بڑھتے قدم روکے تھے ان کا دل کسی پرندے کی مانند لرزا ان کا چہرہ تاریک ہوا تھا انہوں نے پلٹ کے خونخوار نظروں سے برہان کی طرف دیکھا اور اگلے ہی پل ان کے ہاتھ اس کے گریبان تک پہنچ گئے۔
"شزرا کی طرف آنکھ اٹھا کے بھی نہیں دیکھنا وہ صرف میری ہے" انہوں نے برہان کا گریبان جھنجھوڑتے ہوئے چلا کے کہا۔
"شادی بڑی بہن سے کر رہے ہو اور نظریں چھوٹی بہن پہ" برہان نے ان کے ہاتھ سے اپنا کالر چھڑواتے ہوئے تلخی سے کہا اور لمبے لمبے ڈنگ بھرتے ہوئے اندر چلا گیا پیچھے آزر کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح کھڑے رہ گئے۔

No comments:

Post a Comment