Saturday, 24 August 2019

Wehshat-e-Ishq By Ramsha Mehnaz ||Episode#7

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 7
(Don't copy without any permission)

آج وہ پورے دو دن بعد آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی آنکھیں اندر کو دھنسی تھیں آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے واضح تھے گلاب سی رنگت پیلی پڑ گئی تھی الجھے بال اور بکھرے حلیئے کے ساتھ وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔
عشق بھی انسان جو کیسے کیسے ناچ نچاتا ہے جو ناچنا نہ چاہیں ان کے کانوں میں پیار کے دو لفظ پھونک کر ان کے پیروں کو تھرکنے پہ مجبور کردیتا ہے۔
وہ مطمئن تھی اس کے چہرے پہ کسی قسم کی پریشانی ڈر یا خوف نہیں تھا وہ جیسے ہر ڈر ہر خوف کو اپنے ندر سے نکال پھینک آئی تھی سب سے بڑی بات وہ اب رو نہیں رہی تھی۔
وہ شاور لینے چلی گئی شاور لے کہ باہر آئی تو اسے اپنا وجود آج ہلکا پھلکا محسوس ہوا اس نے بیڈ پہ پڑا دوپٹہ اٹھا کے کندھے پہ ڈالا گیلے بال پشت پہ بکھرے تھے۔وہ بالکونی کا دروازہ کھول کر وہاں جا کے کھڑی ہو گئی اس کا ذہن ہر قسم کی سوچ سے خالی تھا۔اس دو منزلہ سفید گھر میں دن معمول کے مطابق نکل آیا تھا سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے گیٹ پہ چوکیدار اونگھتے ہوئے پہرہ دے رہا تھا اس کے برابر میں بندھا جرمن شیفرڈ وہ بھی شاید اونگھ رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اسے آزر جاگنگ سے واپس آتے دیکھائی دیئے بلیک ٹراؤزر پہ وائٹ رف سی شرٹ پہنے جس میں ان کا کسرتی بدن نمایاں تھا گھنے بال ماتھے پہ بے ترتیبی سے بکھرے تھے۔
 اب وہ جرمن شیفرڈ ان کے قدموں میں لوٹ رہا تھا اور وہ پیار سے اس کی کمر پہ ہاتھ پھیر رہے تھے پھر شاید وہ کسی بات پہ مسکرائے تھے ان کی آنکھوں کی چمک واضح تھی اسے اپنا دل تیزی سے دھڑکتا محسوس ہوا وہ اس لمحے کے سحر میں جکڑ گئی تھی اس کا چاہا کہ وقت یہیں رک جائے اور وہ ایسے ہی کھڑے انہیں دیکھتی رہے۔
نظروں کی تپش محسوس کر کے آزر نے سر اٹھا کر شزرا کے روم کی طرف دیکھا انہیں شزرا بالکونی میں ہی کھڑی نظر آئی وہ بے خودی کے عالم میں انہیں تک رہی تھی ارد گرد سے بے نیاز شاید اس کی نظروں میں ہر منظر دھندلا گیا تھا صرف آزر ہی ہر منظر پہ چھائے تھے دیکھتے ہی دیکھتے آنسو اس کا گال بھگو گئے تھے مگر وہ ہر چیز سے بے پرواہ انہیں اپنی نظروں میں اتار رہی تھی۔
آزر نے اسے دیکھ کے ہاتھ ہلایا شزرا بھی خیالوں کی رو سے باہر آئی اور چونک کے ادھر اُدھر دیکھا آزر سر اٹھائے کھڑے مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہے تھے اس نے بھی مسکرا کے ہاتھ ہلادیا۔فاصلے کی وجہ سے آزر اس کے آنسو نہ دیکھ سکے اور سر جھکا کے پیچھے ہٹ گئی آزر بھی مسکراتے ہوئے اندر چلے گئے۔

____________________________________________________

جھلساتا سورج اپنی پوری شان سے آسمان پہ روشن تھا چرند پرند سب اپنے اپنے آشیانوں میں دبکے بیٹھے تھے ہر طرف ایک ہو کا سا عالم تھا ایسے میں شزرا لان میں لگے ایک سایہ دار درخت کے نیچے سر جھکائے بیٹھی کسی گہری سوچ میں غرق تھی ایک ہاتھ گھٹنوں کے گرد بندھا تھا تو دوسرے ہاتھ سے گھاس نوچ نوچ کے پھینک رہی تھی اسی اثناء میں کسی نے اسے پکارا تھا اس نے سر اٹھا کے دیکھا تو منال ہاتھ باندھے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
"میں یہاں بیٹھ جاؤں؟" وہ کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔
"جی" شزرا نے سنبھل کے اسے جواب دیا وہ کل صبح اپنی کی گئی بدتمیزی کے بعد اب منال کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پہ زرا بھی ناراضگی کا شائبہ نہیں تھا بلکہ دھیمی سی مسکان تھی شزرا اسے دیکھ کے دوبارہ سر جھکا گئی۔
کافی دیر دونوں کے بیچ خاموشی حائل رہی۔
"ہماری دوستی ہو سکتی ہے کیا دوبارہ؟" منال نے اس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے پوچھا شزرا نے حیرت سے سر اٹھا کے اسے دیکھا جو اپنا ہاتھ آگے کئے اس کے سامنے بیٹھی تھی شزرا بے اختیار اس کے گلے لگ گئی اور بے رو پڑی۔
"گڑیا رو کیوں رہی ہو مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے" منال نے اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"آئی ایم سوری" وہ روتے ہوئے بول رہی تھی۔
"کوئی بات نہیں بیٹا" منال نے اسے خود سے الگ کر کے اس کے آنسو پونچھے۔
"میں تم سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتی" اس نے شزرا کی تھوڑی اوپر کرتے ہوئے مسکرا کے کہا۔
"تم نے کچھ نہیں کھایا صبح سے یہ بتاؤ بھوک لگی ہے" منال نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"جی" شزرا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"میں کچھ بنادیتی ہوں تمہاری پسند کا" منال نے مسکرا کے کہا اور اندر چلی گئی شزرا خالی خالی نگاہوں سے اسے جاتا دیکھتی رہی۔

____________________________________________________

وہ شام میں لان میں کھڑی آزر کا انتطار کر رہی تھی کچھ دیر بعد ہی اسے آزر آفس سے آتے دیکھائی دیئے بلیک شرٹ پہنے اور فولڈ کی ہوئی آستینیں جس میں ان کے مضبوط ہاتھ کچھ اور مضبوط لگ رہے تھے وہ سیدھے چلتے ہوئے اسی کی طرف آئے۔
"کیا ہو رہا ہے؟" وہ اس کے سامنے کھڑے خوشگوار موڈ میں اس سے پوچھ رہے تھے۔
"آپ کا انتظار کر رہی تھی" شزرا نے سر جھکائے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔
"کیوں؟" آزر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
"وہ آپ کے سوال کا جواب دینا ہے" وہ انگلیاں مروڑتے ہوئے گھبرانے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی۔
"کیا" آزر خوشی کے مارے اچھلے تھے جبکہ وہ ان سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی۔
"وہ میں۔۔۔۔۔۔"شزرا نے کچھ بولنا چاہا۔
" رکو رکو۔۔۔۔۔۔" آزر نے اپنی خوشی ضبط کرتے ہوئے اسے روکا شزرا نے نا سمجھی سے ان کی طرف دیکھا۔
"یہاں نہیں" انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سرگوشی کی۔
"جہاں محبت کا اظہار ہوا تھا وہیں اقرار ہوگا" انہوں نے اس کی گہری جھیل سی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے شرارت سے کہا۔
"آپ میری بات۔۔۔۔۔۔۔" شزرا نے کچھ بولنا چایا مگر آزر نے اسے روک دیا۔
"اب جو بات ہوگی وہ وہیں جا کے ہوگی" آزر کا دل خوشی سے جھوم اٹھا وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے روم کی طرف گئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کے پیچھے ہو لی روم میں جا کر انہوں نے اس کا ہاتھ چھوڑا۔
"تم یہیں کھڑے رہو میں پانچ منٹ میں آتا ہوں" وہ اسے وہیں چھوڑ کر تیزی سے اس نے روم سے نکل گئے وہ ناسمجھی کے عالم میں وہیں کھڑی رہی چند منٹ بعد وہ واپس اس کے روم میں آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔
"یہ پہن کے تیار ہو جاؤ" انہوں نے وہ بیگ اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
"کیا ہے اس میں؟" شزرا نے ان کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا جہاں ایک انوکھی ہی خوشی پھیلی تھی۔
"اس میں ڈریس ہے پلیز جلدی سے تیار ہو جاؤ بس تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں" انہوں نے جلدی میں کہا۔
"آپ میری بات تو سنیں" شزرا نے ایک بات پھر کچھ کہنا چاہا مگر وہ اس کی بات ان سنی کر گئے۔
"میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں جلدی آؤ" وہ بولتے ہوئے باہر کی طرف چلے گئے۔
شزرا نے شاپنگ بیگ سے ڈریس نکالا وہ سیاہ رنگ کا ڈریس تھا اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کے اس ڈریس کی طرف دیکھا اور تیار ہونے چلی گئی۔
وہ تیار ہو کہ نیچے آئی تو گھر میں کوئی نہیں تھا سب لوگ کسی رشتہ دار کی طرف گئے تھے وہ اپنی خراب طبیعت کی وجہ سے نہ جا سکی تھی وہ گھر سے باہر آئی تو آزر گاڑی میں بیٹھے اس کا ویٹ کر رہے تھے وہ انہیں سامنے سے آتی دیکھائی دی۔
سیاہ لباس میں اس کا ملکوتی حسن دمک رہا تھا لمبے سلکی بال کھلے ہوئے پشت پہ بکھرے پڑے تھے وہ چاہ کے بھی اس سے نظریں نہ ہٹا پائے وہ اب گاڑی کا دروازہ کھول کے ان کے برابر میں بیٹھ چکی تھی شزرا نے ان کی طرف دیکھا تو وہ اس کی ذات میں مکمل طور پہ کھوئے ہوئے تھے۔
"آپ پلیز پہلے میری بات سن لیں" شزرا نے التجائیہ لہجے میں کہا۔
"میں نے کہا نہ جو بات ہوگی وہیں جا کے ہوگی" آزر نے اس کے چہرے پہ آئی لٹوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا وہ جھجھک کے پیچھے ہٹی وہ مسکرا کے سیدھے ہو گئے اور کار اسٹارٹ کردی کار تیزی سے منزل کی جانب رواں دواں تھی جبکہ شزرا خاموشی سے بیٹھی شیشے کے پار بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی شاید یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی یا کسی کی زندگی میں خوشیاں لانے والی تھی۔
گاڑی ساحل کے کنارے رکی تو دونوں نیچے اتر آئے شزرا کا دل ڈوب ڈوب کے ابھر رہا تھا آزر اس نے اس کا نازک سا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا اور اسے لے کہ آگے بڑھے اب اس میں اتنی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ وہ اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ چھڑا پاتی وہ ان کے پیچھے ان کے قدموں کے نشانوں پہ چلتی چلی گئی اب لہریں ان کے پیروں کو چھو کے جا رہی تھی آزر نے اس کا چھوڑا اور اس کے سامنے کھڑے ہو گئے وہ بند لبوں پہ مٹھی جمائے کھوجتی نگاہوں سے اس کا پریشان چہرہ دیکھ رہے تھے جو اپنی نظریں اٹھانے کی بھی ہمت نہیں کر پارہی تھی۔
"ادھر دیکھو میری طرف" آزر نے دو انگلیوں سے تھوڑی اٹھاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اس نے نظریں اٹھا کے دیکھا آنکھوں میں ایک اور سمندر موجزن تھا۔
آزر دم بخود سے اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ رہے تھے۔
"یار محبت کا اقرار ہی تو کرنا ہے اور تم تو ایسے رونے دھونے بیٹھ گئیں جیسے پتہ نہیں کرنا مشکل کام ہے" آزر نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کے کہا۔
"مجھے آج لگ رہا ہے مجھے تم سے صرف محبت نہیں رہی بلکہ عشق ہو چکا ہے" وہ اس کا ہاتھ پکڑے اپنی ہی دھن میں بولے جا رہے تھے اور وہ بھیگتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
"آج مجھے لگ رہا ہے میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں میں نے جسے چاہا وہ مجھے مل گیا" انہوں نے آسمان پہ روشن پورے چاند کو نظروں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا جس کی چاندنی ان دونوں کے اردگرد پھیلی تھی۔
"میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی" شزرا نے سر جھکائے دھیمی آواز میں کہا آزر ساکت ہوئے تھے انہوں نے نے چاند سے نظریں ہٹا کر شزرا کے چہرے کی طرف پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا انہیں اپنی سماعت پہ شک گزرا انہیں ایک پل کے لئے لگا ان کی دھڑکنیں ساکت ہوئی ہیں کائنات کی ہر شے جیسے تھم سی گئی تھی چاند اپنی چاندنی لے کہ بدلیوں کے پیچھے جا چھپا تھا اب ہر طرف اندھیرا تھا شور مچاتی بے ہنگم لہریں جیسے سکوت کے عالم میں چلی گئیں تھیں سمندر ایک دم پرسکون ہوگیا۔
"کیا کہا۔۔۔۔؟"آزر نے بمشکل خود کو سنبھال کے پوچھا انہیں اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
ایک انجانی سی آواز۔۔۔۔۔۔۔!!!
"آپ نے مجھ سے میرا جواب مانگا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا اور میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" وہ انہیں اپنا جواب سنا کر ان کو انہی کے کہے گئے الفاظ کی زنجیر میں باندھ چکی تھی۔
وہ شاید کچھ بولنے کا قابل نہیں رہے تھے بس خالی خالی نگاہوں سے اس حسن کے مجسمے کو دیکھ رہے تھے جو بیدردی سے ان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی اور وہ اپنا درد بھی نہیں دیکھا پا رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا وہ چینخیں چلائیں روئیں یا کیا کریں ان کے سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں سلب ہو چکی تھیں سانسیں بھی سینے میں اٹک رہی تھیں۔
"تم مجھ سے پیار کرتی ہو" وہ اسے بتا نہیں رہے تھے خود کو یقین دلا رہے تھے۔
"میں آپ سے پیار نہیں کرتی" شزرا نے ہنوز نظریں جھکائے سرد لہجے میں کہا آزر پہ جیسے جنونیت سوار ہوئی تھی انہوں نے شزرا کے بازو پکڑ کر اسے جھنجھوڑا گرفت اتنی سخت تھی کہ انگلیاں اس کے بازو میں گھسی جا رہی تھیں۔
"تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔۔۔۔" وہ جیسے اپنے آپے میں نہیں رہے تھے۔
"تمہاری آنکھوں میں،میں اپنے لئے محبت صاف دیکھ سکتا ہوں تم جھوٹ بول سکتی ہو لیکن تمہاری آنکھیں نہیں" انہوں نے اس کی نظروں میں نظریں جمائے غرا کے کہا۔
"میں نہیں کرتی آپ سے پیار اب کیا زبردستی کریں گے میرے ساتھ" شزرا نے ان کی بانہوں کی قید سے خود کو آزاد کرواتے ہوئے تلخی سے کہا۔
"مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے مجھے بتاؤ میں معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں" آزر ٹوٹے بکھرے سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے تھے مگر اس کا دل جیسے پتھر کا ہو گیا تھا۔
"مجھے گھر جانا ہے" شزرا نے نظریں پھیرتے ہوئے کہا اور جانے کے لئے پلٹی۔
"یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟" شزرا کے بڑھتے قدموں کو آزر کی آواز نے جکڑ لیا وہ ایک انچ بھی نہیں ہل سکی اس کی پتھرائی آنکھیں بھیگی تھیں
اس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے اور پلٹ کے آزر کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لئے اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"ہاں" اس نے اثبات میں سر ہلا دیا اس کا چہرہ خواب ہوا تھا
"کیوں نہیں کرنا چاہتی مجھ سے شادی" وہ کی طرف دیکھ کے آس سے پوچھ رہے تھے ان کی آواز میں ریت تھی جو شاید دونوں کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی۔
"میں آپ سے پیار نہیں کرتی" اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی مگر خود کو مضبوط ظاہر کئے وہ کھڑی رہی آزر کے دل کے کئی ٹکڑے ہوئے۔
"کیا کبھی پیار نہیں ہو سکتا؟ میں ساری زندگی انتظار کرنے کو تیار ہوں" ٹوٹتی بکھری حالت میں ایک آخری امید کے سہارے وہ اس سے سوال پوچھ رہے تھے۔
"نہیں۔۔۔۔کبھی نہیں ہو سکتا" اس نے اٹل لہجے میں کہا مگر اس کا لہجہ توڑ پھوڑ کا شکار تھا چند لمحے آزر حسرت و یاس کی تصویر بنے اسے دیکھتے رہے۔
"ٹھیک ہے۔۔۔میں نے وعدہ کیا تھا نہ اگر تمہارا جواب انکار میں ہوگا تو میں کبھی تمہاری مرضی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا  تو آج کے بعد تم مجھے اپنے کسی بھی راستے میں کھڑا نہیں پاؤ گی" آزر نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گئے اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی شزرا بت بنی وہیں کھڑی رہ گئی وہ انہیں جاتا دیکھتی رہی اس کی سانسیں دہک اٹھ تھیں اس کا دل کیا وہ بھاگ کے جا کے آزر کے سینے سے لگ جائے اور اپنے دل پہ لگا ایک ایک زخم انہیں دیکھا دے مگر اب۔۔۔۔۔۔!!!!
 دل کا ہر زخم چھپانا تھا
 دل چھلنی ہو تو بھی مسکرانا تھا 
وہ اپنے مضحمل قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھی اور دروازہ کھول بیٹھ گئی اس کی بیٹھتے ہی گاڑی ایک جھٹکے سے اسٹارٹ ہوئی کار کی اسپیڈ خطرناک حد تک تیز تھی آزر اسے اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہے تھے بالآخر گاڑی گھر کے پورچ میں جا کے رکی آزر گاڑی سے اتر کر اس کی طرف دیکھے بغیر اندر چلے گئے۔

No comments:

Post a Comment