بازار کا اتار چڑھا ئو
زرک میر
جمعہ کو بازار کے اس کونے میں بھیڑ جمع ہوجاتی ۔ہتھ گھڑی ‘پرانے موبائل ٹیپ ریکارڈر ‘چھوٹے بڑے پنجروں میں بند مرغا مرغی کبوترباڑو (بٹیر) بیچنے والوں کی دنیا امڈ آتی ۔گردونواح کے دیہات کے لوگ جمعہ کو شہر کا رخ کرتے ۔
آج بھی جمعہ کا دن تھا بازار کے اس کونے میں بھیڑ لگی تھی۔ بازار میں اکثریت ہندﺅں کی دکانوں کی ہے ،کریانہ اسٹورز ، منیاری اور جنرل اسٹورز ۔کچھ سبزی فروش قصاب نائی دھوبیوں کی چند دکانیں۔ تین چار ویڈیو اور آڈیو کیسٹ کی دکانیں۔ دوتین کلینک اور میڈیکل سٹورز۔ ہوٹلوں کی تعداد ان دکانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تپتی دھوپ ہو یا سرد ہوائیں بارش ہو یا خزاں ہوٹل قریب قریب بھرے رہتے ہیں یہ ہوٹل کم سینما زیادہ لگتے ہیں انڈین فلمیں لگا کر گاہکوں کو گھنٹوں تک بٹھائے رکھنے کا حربہ خوب آزمایاجاتا ہے کہیں کہیں تاش پتہ جوئے کا ٹاٹ بچھا ہوا ہوتاہے ۔جمعہ کو ان ہوٹلوں کی زیادہ چاندی ہوجاتی ہے ۔اس دن تمام دکانوں پر رش لگارہتا ہے کریانہ اسٹورز سے بھی گاڑیاں راشن سے بھر کر پہاڑی علاقوں کو جاتی ہیں ۔لوگ جمعہ کا نماز پڑھنے کیلئے خوب چمک دمک سے اس چھوٹے سے شہر آتے ہیں۔اسی دن چھوٹی موٹی چیزیں بیچ کرخرید کر راشن بھی لیتے ہیں اورہوٹلوں میں چائے پی کر اورفلمیں دیکھ کر سیروتفریح بھی کرتے ہیں ۔
بازار کے اس کونے پر آج بھی اردگرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہے ۔دیہات کے لوگ امڈ آئے ہیں ۔
گھڑی والا گھڑی والا ،کوئی آواز لگا رہا ہے تو کوئی کسی کے کان میں کسر پسر کررہا ہے کوئی کسی کو موبائل کی خصوصیات بتا رہا ہے کسی نے ہاتھ میں ٹیپ ریکارڈر اٹھایاہوا ہے جس پر کشیدہ کی گئی چادر ڈالی ہوئی ہے جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کررہی ہے۔
ایک جوان آدمی بھی گھس آتا ہے اس بھیڑ میں ۔
جی یہ کونسا ٹیپ ریکارڈر ہے ؟
یہ نیشنل کا ہے ڈبل کیسٹ والا ۔
یار بندہ ایک وقت میں ایک ہی کیسٹ سن سکتا ہے دوسرے کو کیا کرنا ؟
نہیں بھائی اس سے آپ ایک کیسٹ سے دوسرے کیسٹ پر ریکارڈ کرسکتے ہو۔
اچھا اچھا ۔
کیا قیمت ہے اس کی
پندرہ سو روپے
کیا ؟ پندرہ سو روپے زیادہ نہیں ؟
کہا ں زیادہ ہے یہ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر ہے آج کل ملتا کہاں ہے یہ ۔
اچھا بھائی دیکھتے ہیں
جوان آدمی آگے بڑھا
یہ کون سی گھڑی ہے ؟
یہ سیکو پانچ ہے ۔
سیکو پانچ۔۔۔۔ اچھا اچھا سیکو فائیو
جی جی ۔
کتنے کا ہے ؟
ہتھیلی پر چار گھڑیاں سجائے ٹوپی والا شخص کندھے پر پٹو سیدھا کرتے ہوئے
1000
یار اتنا کیوں ؟
آج کل تو موبائل آیا ہے گھڑی کا رواج گیا ۔
تو پھر موبائل کی خرید لو ۔
یہ پیکا جواب سن کر مسکراتے ہوئے آگے بڑھا ۔
یہ کونسا موبائل ہے ؟
نوکیا
کیا کیا ہے اس میں ؟
کیمرہ بھی ہے۔میموری بھی لگتا ہے
اچھا ،دکھاﺅ
میموری کارڈ ہے اس میں کوئی گانا چلاﺅ آواز چیک کرنا ہے
یہ لو
" اینو ننے دے دیگرے پگہ نوا واراس برے" (اخترچنال کا براہوئی گانا بجتا ہے )
امم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آواز اچھی ہے
کیا قیمت ہے اس کی ؟
1800روپے
یار یہ تو بہت زیاد ہے ۔
کوئٹہ میں جا کر پوچھو اس سے زیادہ استعمال شدہ موبائل 2500سے کم نہیں ملے گا
اچھا بھائی اچھا ،آگے دیکھتا ہوں
چلو دیکھو
یہ موبائل والے سے بھی آگے بڑھا ۔
اسی بازار میں ہرجمعے کو ایک 45سالہ شخص بھی تواتر سے آتا رہا ہے ، بال سفید آدھی سفید درمیانی داڑھی ایک پٹو کندھے پر رکھا ہوا اورایک تھیلا ساتھ میں ہوتا ہے بظاہر تو اس کے پاس موٹے تگڑے مرغے ہوتے ہیں بالکل لڑنے والے۔ایک باڑو (بٹیر)بھی اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے ہروقت اس کے پنجوں کو ہتھیلی پررگڑتارہتا ہے ، بعض لوگ خاموشی سے اس کے پاس آتے ہیں ،اس سے کسر پسر کرتے ہیں اور ہاتھ ملاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ،ایک آدھ پولیس کا سپاہی بھی ہاتھ ملا کر آگے بڑھتا ہے ۔یہ ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے سگریٹ کے کاش لیتا رہتا ہے ، کسی کو سمجھ آتا ہے تو وہ اس شخص کی پراسراریت کو نظرانداز کردیتا ہے اور اگر کسی کو سمجھ نہیں آتا تو وہ اسے دیکھتارہتاہے ،زیادہ گورنے پر وہ اپنی سرخ آنکھیں دکھا کر کسی کو بھی نظریں ہٹانے پر مجبورکردیتا ہے ۔
قیمت پوچھنے والا اب اسی کے پاس آتا ہے
یہ مرغا کتنے کا ہے ماما ؟
45سالہ شخص نے رومال سے پسینا پونچھتے ہوئے کہا
400روپے
اف مرغا اور اتنا مہنگا ؟
یہ دیسی مرغا ہے
مجھے اس کی یخنی بنانی ہے لڑنا نہیں ہے آخری کیا قیمت لگاﺅگے اس کی ؟
یہ تمہیں یخنی والا مرغا دکھتا ہے؟ یہ لڑنے والا مرغا ہے ۔یخنی والے مرغے وہ دکان میں لٹکے ہوئے ہیں سفید چمڑی والے فارمی مرغے ۔ وہاں جا یہاں کیا کررہا ہے ؟ماما نے سگریٹ پکڑے ہاتھ سے سامنے والی دکان دکھاتے ہوئے کہا
اچھا ،ماما ناراض مت ہو،میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ مرغے سے زیادہ تم لڑنے پر تیار ہوگئے ۔
اچھی طرح جانتا ہوں تمہیں ۔یہ منہ اور مرغ کی یخنی ۔ ٹائم پاس مت کر،آگے جا ۔ماما نے مرغ کو سہلاتے ہوئے اسے ٹھوکااور سگریٹ کو انگلیوں کے درمیان مزید دبا کر لمبا سے کش لیا
یہ مرغ والے سے بھی صرف قیمت پوچھ کر ہی آگے بڑھا ۔
یہ سائیکل بیچنی ہے ؟
جی ہاں ۔
کیا قیمت رکھی ہے ؟
3000 روپے
ایک 17سال کا لڑکا سائیکل لئے کھڑا کسی گاہک کا انتظار کررہاتھا،وضع قطع سے ہی غریب لگ رہاتھا ،بڑھتے قد کی وجہ سے کپڑے جسم پر تنگ پڑ گئے تھے ،نہایت ادب سے کھڑا تھا جیسے سارا بھیڑ اسے دیکھ رہاہو۔
جی جی،وہ سائیکل کا ہینڈل چھوڑ کر بولا
یہ کونسی سائیکل ہے بھائی ۔یہ پوچھتے ہی اس نے سائیکل کی گھنٹی بجائی ۔ ٹڑنگ۔۔۔۔۔ ٹڑنگ
امبر
ا مبر؟یہ تو سہراب لگ رہی ہے
نہیں امبر ہے
امبر؟ اس کو بہت چلایاہے ختم ہوگئی ہے سہراب لگ رہی ہے
میرے والدبنجارہ تھے اس پر دیہات جاکر پرانی چیزیں خرید لیتا تھا۔اس کو دھویا نہیں ہے اس لئے ایسا لگ رہا ہے ‘ سائیکل پرانی نہیں ہے
ابھی کیوں بیچ رہے ہو ؟
والد کی کمرجھک گئی ہے۔سائیکل پر بیٹھا نہیں جاتا ان سے ۔اب گھر گھر جاکر یہ کام نہیں کرسکتاوہ ۔ میں بھی وہ کام نہیں کرسکتا ‘سکول بھی نہیں پڑھ سکا میں اسے بیچ کر اپنے لئے ایک ریڑھی خرید کر سبزی بیچوں گا۔میں اپنے گھر میں ابھی واحد کمانے والا ہوں ۔لڑکا اپنی غربت کی کہانی سنائے جارہاتھا کہ کہیں اچھی قیمت مل جائے۔
ہوں ہوں اچھا اچھا
خریدارلڑکے کی باتوں پر کم سائیکل پر زیادہ توجہ دے رہا تھا ۔پیڈل خاک دان ہینڈل اور سیٹ چیک کئے جارہاتھا
لڑکا باربار اپنی مجبوریوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی جملہ بتارہاتھا ۔وہ خریدار کے دل میں رحم دلی پیدا کرکے سائیکل کا سودا کرنا چاہ رہاتھا
اچھا میں اس کو چلا کر چیک کرسکتا ہوں پھر لینے دینے کی بات کرتے ہیں ۔
ہاں ہاں ، چلا کر دیکھو بے شک ،پیچھے ہاتھ باندھے لڑکے نے فورا آگے بڑھ کر سائیکل اسٹینڈ سے اتار کر اس کے حوالے کردیا
یا اللہ خیر ،یہ کہتے ہوئے وہ اس پر بیٹھ گیا اور بازار سے اوپر کی طرف رخ کرکے تیز تیز پیڈل مارنے لگا ۔ سائیکل بھی دوڑنے لگی ۔ لڑکا بڑے فخر سے اپنی سائیکل کی جانب دیکھ رہاتھا جو تیزی سے سڑک پر دوڑنے لگی تھی ۔اس نے دیکھا وہ شخص جس تیزی سے پیڈل گھمارہاتھا سائیکل اسی تیزی سے جارہی تھی ۔اسے یقین ہوگیا ہے کہ سائیکل تو اب بھک ہی گئی ۔یہ سوچنے لگا اگر اس نے پیسے کم بتائے تو وہ کیاکرے کتنی قیمت پر سائیکل بیچ دے ۔نہیں نہیں سائیکل کس تیزی سے دوڑ رہی ہے وہ بھلا کیوں قیمت کم کریگا ۔یہ سوچتے ہوئے اس کی نظر سامنے کھڑی پالک سے لدی ریڑھی پر پڑی جس پر لوگوں کاہجوم ایسے اکٹھا ہوگیاتھا جیسے یہ مفت میں پالک بھانٹ رہاہو ۔یہ سوچ رہاتھا کہ سائیکل کی قیمت ملتے ہی یہ ماما رحیمو سے اس کا ریڑھی لے لے گا جو اس کے بڑھاپے کی وجہ سے اس کے گھر میں کھڑی تھی ۔ اس رقم سے ریڑھی اورباقی پیسوں سے سبزی ڈال کر کل سے ہی کام شروع کرسکتا ہوں ۔یہ سوچتے سوچتے اس کی نظریں سائیکل کیلئے سڑک پر گھڑ گئیں ،وہ شخص نظروں سے اوجھل ہوگیاتھا۔
سائیکل دوڑ رہی ہوگی اور وہ پیڈل پر پیڈل لگائے جارہاہوگا ۔یہ سوچ کرلڑکاسڑک پر نظریں جمائے تھڑے پر بیٹھ گیا ۔
دھوپ اب سرہانے آگیاتھا ،تپش بڑھ چکی تھی گاہک ایک ایک کرکے جاچکے تھے ۔ٹیپ ریکارڈر والا بھی جانے لگا تھا اس کا سودہ 12سو میں ہوگیاتھا ۔موبائل والا بھی پیسے گن رہاتھا ،گھڑی والے کے پاس ہتھیلی پر ایک گھڑی بچی تھی جسے وہ کلائی پر باندھی اور ٹائم دیکھ کرمسجد کی جانب جانے لگا ۔گاہگ بھی بازار میں میں لوگوں کے ہجوم میں غائب ہوگئے تھے ۔ مرغے والا ماما بھی دھوپ سے بچنے کیلئے تھڑے پر آگیاتھا جہاں سائیہ تھا اب بھی اکا دکا شخص اس کے پاس آتا کسرپسر کرتا اور ہاتھ ملا کرآگے بڑھتا۔
وہ سگریٹ پر سگریٹ پیئے جارہاتھا اور مرغوں کو سہلائے جارہاتھا کہ اس کی نظر لڑکے پر پڑی جس کا چہرہ اب زرد پڑ چکا تھا
تمہارے پاس سائیکل تھی ۔کیا ہوا بیچ دیا کیا ؟
ج ۔۔۔۔ج جی گاہک ٹرائی لینے گیا ہے
تو ابھی تک آیا کیوں نہیں
آئے گا شاہد دور گیا ہو
حج پر گیا ہے کیا ؟
کہیں وہ بڑی بڑی آنکھوں اور موٹے ہونٹ والا لڑکا تو نہیں لے گیا تمہاری سائیکل ؟
جی جی وہی
واہ اڑے واہ ۔ تم نے سائیکل اسے کیوں دی۔تمہیں کیسا ٹھگا وہ ۔سب کو تول رہاتھا تمہیں آسانی سے بوتل میں بند کردیا ۔شروع سے ہی ہرجگہ منہ ماررہاتھا ۔میں نے تو اپنے پاس سے ہی بھگا د یااس حرامی کو۔ماما نے ٹھگ کو موٹی گالی دے کر لڑکے سے ہمدردی جتائی۔
لڑکے کا رنگ پہلے ہی اڑگیاتھا ماما کی باتوں سے تو اس کا چہرہ لال ہوگیا۔ ہونٹ سوکھ گئے اس کے۔ اب اسے یقین ہوگیاکہ سائیکل اس سے ہتھیا لی گئی ہے ،اسے لگا کہ اس نے ایک ہی غلطی سے باپ کی ساری جائیداد جو ایک عدد امبر سائیکل تھی وہ گنوادی تھی ، نا جوئے سے نا نشہ سے بلکہ اپنی چھوٹی سی نادانی سے ۔اسے جلدی پڑی تھی کہ وہ جلدی جلدی مامارحیمو سے اس کا ریڑھی خریدلے اور کام شروع کرے ،حالانکہ ماں نے گھر سے نکلتے کہا تھا کہ تمہارا باپ مولوی کے دم درود کی وجہ سے ”رکھ “میں ہے ایک دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا تو بیچ آئے گا سائیکل اور پیسے تمہیں دے گا لیکن نہیں مجھ پر تو کاروبار کا بھوت سوار تھا اب کیا کرونگا۔باپ نے تو سائیکل ناکارہ کی ہوئی تھی لیکن میرے لئے تو یہ کاروبار کا آخری سہارہ تھا اورخالی ہاتھ گھر جاﺅنگا تو ماں طوفان کھڑا کردے گی وہ تو جس دن باپ خالی ہاتھ گھر لوٹتے تو اس پر سانس لینا حرام کردیتی میرا کیاحال کرےگی ۔اورپھر اس نے تو مجھے اکیلے یہاں آنے سے منع بھی کیاتھا۔ماں زندگی بھر مجھے کوستی رہے گی ۔عمر کیساتھ ساتھ ویسے بھی چڑھ چڑھی ہوگئی ہے ۔ کاش میں شکور کو اپنے ساتھ لاتا تو ٹھگ مجھے آسانی سے نہیں ٹھگا سکتا ،لیکن وہ تو فٹبال میچ کھیلنے گیاتھا ۔پولیس کے پاس جاﺅں لیکن بتاﺅں گا کیا ؟ پولیس میرا یقین کیسے کریگی ؟ الٹا مجھے کوئی چور نہ سمجھے ۔سائیکل مل جائے یا اس کے پیسے ، کہیں سے بھی اور کسی بھی طریقے سے ورنہ ۔۔۔۔۔لڑکے کے اندر ایک عدالت سی لگ گئی تھی جہاں الزامات اقبال جرم اور انکار جرم کا ایک لگاتار سلسلہ شروع ہوچکا تھا وہ اپنی نادانی تسلیم کرچکاتھا جس پر وہ غصے میں لال پیلا ہورہاتھا،اس کا سارہ خون چہرے پر آکر جم چکاتھا وہ سرخ پڑ چکاتھا ۔
ماما کی نظریں لڑکے کے چہرے پر مرکوز تھیں ،اب وہ مضطرب ہوگیاتھاشاہد وہ چور کو ڈھونڈنے کیلئے کوئی طریقہ سوچ رہاتھا
اب وہ حرامی کہیں نہیں دکھائی دے گا،وہ تو رنگ بدل کر پھر سے کسی کو ٹھگ لے گا اس کا کا م یہی ہے ،جب کبھی ملے گا توقسمیں کھائے گا آہ وزاری کریگا ،منت سماجت کریگا روئے گا پیٹے گا ماں باپ کی قسم کھائے گا سالہ عادی مجرم کہیں کا ۔ گینڈے کی چمڑی ہے اس کی۔ پولیس بھی چھتر مارمار کر تھک گئی ہے۔ ایسے لوگ جب پھنس جاتے ہیں تو پولیس کو دگنا دے کر چھوٹ جاتے ہیں ۔چھوٹا سا تو شہر ہے ہمارا۔ بلا یہ کل ہی کسی گلی میں ہانپتا کانپتا ملے گا کہیں سے کچھ اٹھا کر بھاگتا ہوا ۔لیکن تم کیا بگاڑوگے اس کا ۔
ماما نے لڑکے کو مایوسی کا پورا لیکچر دے ڈالا۔ لڑکا سنتا جارہاتھا کہ کہیں کوئی پر امید بات بھی ماما کی منہ سے نکلے لیکن ماما جیسے اس معاملے میں اپنی پوری تفتیش لڑکے سامنے رکھ رہاتھا جس میں امید کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دے رہا تھاسوائے اس کے کہ لڑکا اب سائیکل کی تلاش چھوڑ دے ۔سائیکل کو تلاش کروں بھی تو کیسے ؟کسی کو یہ ماجرا بتاﺅں تو کیسے ؟ ماں سے کون بچائے گا مجھے ؟ باپ تو بستر مرگ پر یہ خبر سن کر ہی رخصت ہوجائے گا ۔
لڑکے نے ماما کو چھپ ہوتے دیکھ کر پوچھا
اب میں کیا کروں میری سائیکل کہاں سے ملے گی ؟
سائیکل تو نہیں مل سکتی وہ اسے اونے پونے بیچ کر اپنا نشہ پانی برابرکریگا
لڑکا اور مایوس ہوگیا اور ہاتھ ملنے لگا ۔پھربھی اب میں کیا کروں ۔یہ کہتے کہتے اس کی آواز روہانسی ہوگئی
سائیکل کتنے کی لی تھی تم نے ۔ماما نے پوچھا
لڑکے نے پوری کہانی سنادی اور یہ کہا کہ اب اس کے پاس سائیکل یا سائیکل کی قیمت کے بغیر گھر جانا ناممکن ہے ،وہ خوفزدہ ہوچکاتھا ۔
یہ سن کر ماما نے کہا
اگر تم چاہوتوتمہیں سائیکل کی رقم مل جائے گی ۔ماما نے بڑے اعتماد سے کہا
لڑکا چھونک اٹھا ،وہ کیسے کہاں سے ؟
یہ سن کر لڑکے کے جامد جسم کو جیسے ایک حرارت سی مل گئی،وہ خوشگوار حیرت سے ماما کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا،اس بار اسے ماما کی طرف سے اعتماد ملا تھا
سائیکل کی قیمت سے بھی زیادہ ۔اس خبیث ٹھگ نے تمہارے ڈر اور خوف کا فائدہ اٹھایا ہے اس نے تم دیکھ کر ٹھگ لیا ۔زندگی بھر یونہی کمزور اور لاچاررہوگے تو ٹھگتے جاﺅگے ۔ ایسے لوگوں سے بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان کو اپنے سامنے جھکادو ۔
ماما کی باتوں نے لڑکے میں ایک الگ کیفیت بنالی تھی ۔یہ باتیں لڑکے کاڈر اور خوف ختم کرنے لگیں
لڑکے کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔جلدی سے پوچھا ، وہ کیسے ؟
بتاتاہوں ،ماما نے امید بھرے لہجے میں کہا
ماما نے اسے مرغے تھماتے ہوئے کہا چلو میرے ساتھ ۔
بازار کے اتارچڑھائو سے بے خبر وہ اب ماما کے پیچھے چل دیا تھا ۔ یہ سوچے بغیر کہ وہ کیوں جارہا ہے ؟ کیا کرنے جارہا ہے ۔ اس کے لئے یہ سوچنا کافی تھا کہ وہ اپنا نقصان پورا کرنے جارہا ہے۔
اب لڑکا ہرجمعے کونئی موٹرسائیکل پر اس بھیڑ میں ماما کی جگہ آکربیٹھنے لگا تھا
لوگ اس کے پاس بھی آتے کسر پسر کرتے اور ہاتھ ملاتے ہوئے رقم دیتے اور یہ ان کو ”پڑیا“ دیتا ۔
سپاہی بھی اس کے سامنے جھک کر ہاتھ ملاتا تو یہ اس کی ہتھیلی پر بڑے اعتماد سے” رقم“ رکھ دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment