Wednesday, 4 September 2019

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#14

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 14
(Don't copy without any permission)

دوسرے دن شزرا دیر تک سوتی رہی وہ بیدار ہوئی تو اس وقت دوپہر ہو رہی تھی پاس پڑا اس کا موبائل مسلسل وائبریٹ ہو رہا تھا اس نے کوفت سے موبائل اٹھایا اسکرین پہ برہان کا نام جگمگا رہا تھا اٹھائے یا نہ اٹھائے وہ اسی سوچ میں پڑ گئی۔
مگر وہاں برہان کی تعداد  مس کالز تھیں اس نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا تو دوسری جانب برہان کی آواز سنائی دی۔
"مجھے لگا تمہاری عقل ٹھکانے آگئی ہوگی لیکن پتہ نہیں تم کیا سوچ کے بیٹھی ہو" برہان کی غصے میں بھری آواز اسپیکر سے ابھری شزرا کا سر پہلے ہی چکرا رہا تھا اوپر سے برہان کی باتیں۔
"آپ کیا بولنا چاہ رہے ہیں" شزرا نے بیزاری سے پوچھا۔
"تمہارے گھر والوں نے رشتے سے انکار کردیا ہے" پتہ نہیں وہ اطلاع دے رہا تھا یا پوچھ رہا تھا مگر انداز سے برہمی صاف ظاہر تھی۔
"جی" شزرا نے یک لفظی جواب دیا۔
"ٹھیک ہے آزر کی شادی ہونے دو شاید اس کے بعد تمہاری عقل ٹھکانے آجائے" برہان جانے کیا سوچ کے بیٹھا تھا۔
"میں آزر کی شادی کے بعد دوبارہ اپنے پیرنٹس کو بھیجوں گا مجھے یقین ہے پھر تم انکار نہیں کرو گی" برہان نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی۔
اس دن کے بعد برہان کے ماں باپ نے اس گھر کی دہلیز شزرا کے رشتے کے لئے پار نہیں کی تھی اور نہ کوئی سوال کیا شزرا نہیں جانتی تھی کہ دلاور صاحب نے کیسے منع کیا مگر بہرحال اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ برہان نے دوبارہ اس موضوع کو چھیڑا۔
آج کل تو گھر میں آزر اور منال کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں اس گھر کی پہلی خوشی تھی تائی امی اور دادو کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے شہر کو دعوت نامے بھیج دیں۔
بازاروں کے روانہ چکر لگ رہے تھے اور پھر گھر پہ ایک محاز کھلا ہوتا کسی سوٹ کی فٹنگ کروانی ہے تو کسی دوپٹے پہ دادو کرن لگوانا چاہتیں۔
"اس سوٹ کے دوپٹے پہ کرن لگواو میںری منال پہن کے بہت خوبصورت لگے گی" دادو مختلف سوٹوں کے دوپٹے ہاتھ میں لے کہ کہتیں۔
تو دوسری طرف تائی امی خوب بھرے بھرے کامدار جوڑے منال کے لئے پسند کر رہی تھیں۔
"منال یہ تم بہت ہلکے ہلکے جوڑے کے رہی ہو بھائی زرا بھاری جوڑے دیکھائیں" پھر وہ خود ہی دکاندار سے مخاطب ہوتیں۔
منال کبھی مسکرا کے رہ جاتی تو کبھی اتنے بھاری بھاری جوڑے دیکھ کے پریشان ہو جاتی مگر اس سب سے بڑی سب کی محبت تھی جو وہ خوب سمیٹ رہی تھی۔
اس سب میں شزرا کی ذات کہیں کھو کے رہ گئی تھی مگر وہ خوش تھی منال کو خوش دیکھ کے۔
آزر یہاں نہیں تھے وہ کام کے سلسلے میں لاہور گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی سے دو دن پہلے پہنچ جائیں گے اس بات پہ شزرا نے سکھ کا سانس لیا تھا ورنہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اس کے لئے یہ سب بہت مشکل ہو جاتا۔یہ بات تو وہ بھی جانتی تھی کہ آزر یہاں سے جان بوجھ کے گئے ہیں مگر وہ جان کے بھی انجان بنی رہی۔

____________________________________________________

آج مایوں کی تقریب تھی اور آزر اب تک نہیں لوٹے تھے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دو دن پہلے لوٹ آئیں گے گھر میں سب ہی پریشان بیٹھے تھے۔
تایا ابو تو انہیں دو دن سے کال کر کے تھک چکے تھے مگر وہ کال اٹینڈ نہیں کر رہے تھے اب تو سب کو فکر ہونے لگی تھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ان سے رابطہ نہ ہو سکے۔
ابھی بھی دوپہر ہونے کو آئی تھی مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا باہر لان میں مایوں کے لئے اسٹیج سج رہا تھا کچھ ہی دیر میں منال کو بھی مایوں بٹھانا تھا مگر اس سارے منظر سے آزر غائب تھے۔
دلاور صاحب اور امین صاحب دونوں بیٹھے آزر کو فون ملا رہے تھے مگر بیل مسلسل جا رہی تھی کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔
لاہور ان کے آفس میں بلڈنگ میں ہر جگہ فون کر کے معلوم کیا جا چکا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھے۔
دادو جائے نماز بچھائے بیٹھی آزر کے صحیح سلامت آنے کی دعائیں مانگ رہیں تھیں۔
تائی امی کا مسلسل رونے سے کام تھا ان کی زبان پہ یہی الفاظ تھے" کہیں سے میرے آزر کو لادو" سب پریشان بیٹھے تھے۔
منال اپنے روم میں بند تھی اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔
اور شزرا تو اپنی نگاہیں دروازے پہ جمائے بیٹھی تھی اس کی نگاہیں صرف ایک بار آزر کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں۔
دوپہر کا آگ برساتا سورج ڈھلا تھا وہ سورج گرم تو نہیں تھا مگر اس گھر کے مکینوں کو تپتا ہوا سا لگا۔
اب شام کے سائے گہرے ہونے کو آئے تھے اور اس گھر میں شادی کا سماء اب خاموشی میں بدل چکا تھا۔
لیکن منال کو مایوں کا جوڑا پہنادیا گیا۔
شزرا لان میں آئی تو پورا لان نہایت خوبصورتی سے سجا تھا پیلے اور سفید پھول جا بجا اپنی بہار دکھلا رہے تھے اس کی آنکھیں صبح سے رو رو کے سوج چکی تھیں۔
مین گیٹ سے لان تک آنے والی راہداری کو پہلے اور سفید پھولوں سے ڈھک دیا گیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان پہ پھولوں کی چادر تنی ہو مگر سب ویران پڑا تھا۔
اس پھولوں سے ڈھکے گھر کے باسی اندر بیٹھے ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے۔
اور شزرا پھولوں سے ڈھکی راہداری میں دروازے پہ نظریں جمائے کھڑی تھی اسے پورا یقین تھا آزر اس کا مان کبھی نہیں توڑیں گے مگر آنسو ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا ماحول میں عجب سی پراسراریت پھیلی تھی پیلی اور نارنجی شعائیں آسمان سے زمین کی طرف آرہی تھیں۔
پیلے پھولوں اور نارنجی شعاؤں نے اس راہداری کو ایک الگ کہ رنگ بخش دیا تھا اور وہاں کھڑی وہ غم کا پیکر۔
اسے گیٹ سے کوئی اندر آرا دیکھائی دیا آنکھوں کے سامنے دھند بڑھتی گئی دل کی دھڑکن تھم سی گئی وہ دھندلا سا پیکر اس کے قریب آتے آتے واضح ہوگیا آنکھوں کے سامنے سے دھند چھٹ چکی تھی۔
وہ شاید آزر تھے۔
یقیناً آزر ہی تھے۔
وہ اب اس کے سامنے آکے ٹہر چکے تھے اور نا سمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے کو چھونا چاہا اگر یہ نظروں کا فریب تھا تو یہ فریب اس کی جان لے لے گا۔
اس کا ہاتھ آزر کے گال کو چھو گیا وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور تڑپ کے آزر کے گلے لگ گئی۔
وہ حیران و پریشان اسے دیکھنے لگے جو ان کے سینے سے لگی زار و قطار آنسو بہا رہی تھی کچھ دیر رونے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اپنی پوزیشن کا اسے احساس ہوا وہ جھجھک کے پیچھے ہٹی اور گالوں پہ پھیلے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کئے۔
"کیوں رو رہی ہو؟" انہوں نے حیران ہوتے ہوئے اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔
"آپ کہاں تھے؟ آپ نے کہا تھا آپ دو دن پہلے آجائیں گے اور آج صبح سے سب آپ کو کال کر رہے ہیں آپ کال بھی پک نہیں کر رہے"  بے ترتیب حلیہ، ہکلایا لہجہ اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ ان کے جینے کی وجہ ان سے سوال کر رہی تھی ان کے دل کو کچھ ہوا۔
"میں کام میں پھنس گیا تھا ورنہ دو دن پہلے ہی آجاتا میری آج صبح کی فلائٹ تھی لیکن فلائٹ لیٹ ہو گئی اور میرا فون شاید سائلنٹ پہ لگا رہ گیا" انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے اپنی جیبوں میں ہاتھ مات کر موبائل تلاش کیا اور موبائل نکال کر دیکھا تو وہ واقعی سائلنٹ پہ لگا تھا۔
"آپ اندر چلیں سب بہت پریشان ہیں" شزرا کو سب کی حالت یاد آئی تو انہیں اندر چلنے کو کہا۔
"شزرا اگر آج میں نہ آتا تو" شزرا کے اندر کی جانب بڑھتے قدم ان کا سوال سن کے رکے تھے راہداری میں تنی پھولوں کی چادر میں سے کچھ پھول ہوا کے ساتھ جھڑے تھے فضا میں پھیلی پیلی روشنی اب مزید گہری ہو گئی تھی۔
وہ بے ساختہ مڑی تھی اس نے اس ملگجی روشنی میں آزر کا چہرہ کا دیکھنے کی کوشش کی مگر وہاں کوئی تاثر نہیں تھا۔
"تو شاید میں زندہ نہیں ہوتی" اس نے اسی بے تاثر لہجے میں کہا اور اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
آزر اپنی جگہ سن سے ہوگئے۔
جانے کتنی بار ان کے دل میں آیا تھا کہ کاش وہ یہ شادی نہ کریں والا کراچی نہ جائیں مگر ہر بار انہوں نے دل کی اس بے سروپا خواہش پہ کان نہ دھرے۔
آزر اندر پہنچے تو سب والہانہ انداز میں ان کی طرف بڑھے تھے دادو تائی امی دلاور صاحب امین صاحب سب ان کے گرد جمع تھے وہ سب کو جواب دے دے کے تھک گئے تھے۔
منال کو آزر کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ بے اختیار ہی سجدے میں چلی گئی۔
اس گھر میں خوشیاں ایک بار پھر لوٹ آئی تھیں۔
مایوں کی تقریب میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے پورا لان برقی قمقموں سے روشن تھا ہر چہرہ مسکرا رہا تھا۔
شزرا تیار ہو کے اپنے روم سے باہر نکلی تو آزر بھی اسی وقت اپنے روم سے باہر نکلے تھے نگاہوں کا تصادم ہوا تھا۔
سفید شلوار قمیض میں وہ بہت نکھرے نکھرے سے لگ رہے تھے بڑھی ہوئی شیو اور سوجی آنکھیں ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔
شزرا گولڈن رنگ کاہنگا پہنے کوئی سنہری پری ہی لگ رہی تھی بالوں کی چٹیا بندھی ایک سائڈ پہ ڈلی جس میں سے کچھ آوازہ لٹیں نکل کر چہرے کے اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں۔
آزر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل نظریں پھیر لیں ان کا یوں نظریں پھیرنا شزرا کے دل کو گھائل کر گیا وہ اسے نظر انداز کئے وہاں سے جا چکے تھے۔
وہ خود کو سنبھالتی ہوئی آگے بڑھی اور منال کے روم کی طرف چلی گئی۔
وہ اندر داخل ہوئی تو منال تیار ہوئی آئینے کے سامنے بیٹھی تھی پہلے اور سبز رنگ کا لہنگا پہنے اس پہ روپ ٹوٹ کے برس رہا تھا۔
شزرا اس پل دل سے اس کے خوش رہنے کی دعا مانگی تھی۔
سویرا اور شزرا منال کو لے کے نیچے پہنچیں تو سب مہمان آچکے تھے لان مہمانوں سے بھرا تھا منال کو لے جا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا۔
شزرا منال کو آزر کے برابر میں بٹھا رہی تھی تو اس وقت آزر کی نظریں شزرا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں وہ چاہ کے بھی اپنی نظریں نہیں ہٹا پا رہے تھے شزرا آزر کہ نگاہیں خود پہ جمی محسوس کر سکتی تھی۔
وہ گھبراہٹ میں وہاں سے ہٹی اور تیزی سے اسٹیج سے اترنے لگی مگر اسی اثناء میں وہ کسی سے بری طرح سے ٹکرائی تھی مقابل نے اسے نرمی سے پکڑا تھا اس نے پلکیں اٹھا کے دیکھا تو برہان نے اسے گرنے سے بچایا ہوا تھا وہ فورا خود کو سنبھال کے سیدھی ہوئی۔
برہان کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی وہ اسے نظر انداز کر کے وہاں سے جانے لگی مگر وہ دوبارہ اس کے راستے میں آگیا۔
"پھر کیا سوچا تم نے؟" برہان نے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"کیا سوچنا ہے؟" شزرا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
"آزر کی شادی ہو رہی ہے" برہان نے بات کا رخ آزر کی طرف موڑا۔
"تو۔۔۔۔" شزرا نے اسی کے لہجے میں اسے جواب دیا جس پہ برہان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"تو یہ روئی روئی سی آنکھیں بلاوجہ تو نہیں" اس نے سنجیدگی سے شزرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"اگر کوئی ضروری بات نہیں کے تو مجھے بہت کام ہیں" شزرا نے اس وقت اسے نظر انداز کرنا ہے بہتر سمجھا اور وہاں سے چلی گئی۔
مایوں کی تقریب بخیر و عافیت نمٹ گئی تھی۔
کل بارات تھی اور صبح بہت کام تھے اب شزرا نے تمام سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا۔مگر سوچوں پہ کس کا بس ہے کسی نہ کسی روپ میں اس کے سامنے آ کھڑی ہوتیں بلاآخر رات تمام ہوئی تھی۔

___________________________________________________

وہ صبح اپنی ساتھ نئی ہنگامہ خیزیاں لے کہ آئی تھی آج سب کی زندگی بدلنے والی تھی شزرا اپنے حق سے دستبردار ہونے والی تھی جو ہر گز اس کے لئے آسان نہیں تھا مگر اب اسے اپنے دل کو پتھر کرنا آگیا تھا۔
آزر صبح سے ہی اپنے کمرے میں بند تھے انہوں نے باہر آکر کسی بھی کام کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی اس وقت شاید وہ صرف اپنی ادھوری محبت کا ماتم کرنا چاہتے تھے مگر ان کے دل میں اس محبت کی جگہ شاید نفرت لے رہی تھی۔
رات میں تائی امی نے ان کی شیروانی ان کے روم میں پہنچائی تو وہ خاموشی سے اٹھ کے تیار ہونے چلے گئے۔

شوخ گلابی رنگ کے لہنگے میں بانوں جو کرل کئے اس وقت شزرا کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔
شزرا منال کو لے کہ وینیو پہ پہنچی تو مہمان آنا شروع ہو چکے تھے شزرا منال کو لے کہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد نکاح کی رسم ہونا تھی۔
مولوی صاحب منال سے سائن کروانے آئے تو پل بھر کو شزرا کو اپنا وجود خالی ہوتا محسوس ہوا۔
نکاح کہ رسم کے بعد منال کو لا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا گیا سرخ رنگ کے شرارے ملبوس اس وقت اس پہ روپ برس رہا تھا شزرا اپنے لبوں پہ مسکان سجائے سب سے مل رہی تھی مگر بہت اندر کچھ ٹوٹ چکا تھا۔
برہان نے شزرا سے بات کرنی چاہی مگر شزرا اس وقت کسی قسم کی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس نے اسے نظر انداز کرنا پہتر سمجھا۔
رخصتی کی رسم عافیت سے نمٹ گئی تھی اب سب گھر آکے مختلف رسمیں کر رہے تھے رسموں سے فارغ کو کر منال کو آزر کے روم میں پہنچا دیا گیا۔
رات دبے پاؤں گزرتی جا رہی تھی مگر آزر اپنے روم میں نہیں گئے تھے پتہ نہیں وہ کہا تھے۔سب گھر والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے روم میں ہیں شزرا بھی یہی سمجھ رہی تھی۔
اس کا درد دل حد سے سوا ہوا تو وہ باہر لان میں ٹھنڈی ہوا میں آگئی اس نے اب تک کپڑے تبدیل نہیں کئے تھے وہ اب تک سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔ 
وہ گلابوں کی کیاری کے سامنے آکھڑی ہوئی آنسو خود بخود پلکوں کی باڑھ توڑ کر چہرے پہ بہنے لگے۔
"بہت خوش ہو نہ مجھے برباد کر کے۔۔۔۔۔۔!!!" عقب سے آنے والی آواز نے شزرا کا دل مٹھی میں جکڑ لیا وہ فوراً اپنے آنسو صاف کر کے پلٹی مگر کچھ نہ بولی وہ جانتی تھی اگر اس نے کچھ کہا تو شاید آنسو اس سے بغاوت کر جائیں۔آزر سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑے تھے آنکھیں لہو رنگ تھیں۔انہوں نے شزرا کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا وہ ان کے سینے سے آلگی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کے اس کی کلائی میں پیوست ہو گئیں مگر مقابل پہ آج کوئی اثر نہ ہوا درد کی شدت سے وہ کراہ اٹھی۔
ہاتھوں کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوگئے۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" شزرا نے انہیں وہاں موجود دیکھ کے پوچھا۔مگر ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
"مجھے اس وقت تم سے شدید نفرت محسوس ہو رہی ہے" انہوں نے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچتے ہوئے کہا آزر کی سخت انگلیاں اس کے گال میں گڑی جا رہی تھیں اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر مقابل کی گرفت حد درجہ مضبوط تھی۔
"چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے" اس نے روتے ہوئے کہا مگر آج اسکے کسی بھی آنسو کا آزر پہ اثر نہ ہوا۔
"اور جو اذیت تم نے مجھے دی ہے اسکا کیا" وہ دبی دبی آواز میں دھاڑے تھے اور اس کا دل سہم گیا۔
"آج کے بعد میں تم سے صرف اور صرف نفرت کروں گا میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تمہیں دیکھتا ہوں نہ تو مجھے اپنا وجود ایک مذاق لگتا ہے نفرت ہوتی ہے خود سے" وہ جنونی کیفیت میں بول رہے تھے اور وہ برستی آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
بہت مشکل ہوتا ہے جس کی نظروں میں آپ ہمیشہ خود کے لئے پیار دیکھتے آئے ہوں اسی کی نظروں میں خود کے لئے نفرت دیکھنا اور آج وہ نفرت اسے آزر کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی جیسے اندر تک پڑھ لینے کا ارادہ ہو مگر وہاں اب نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔
شزرا کا روم روم جل اٹھا۔
اس کا دل چاہا وہ چینخ چینخ کر سب کو بتائے اس نے بھی اپنی محبت کی قربانی دی ہے کسی کو اسکا زخم کیوں نہیں دیکھا کیوں آزر صرف اپنی ہی محبت لئے بیٹھے ہیں۔
"چلی جاؤ میری زندگی سے جب بھی تمہیں دیکھوں گا میں زندہ نہیں رہ سکوں گا پل پل مروں گا" آزر کا لہجہ بل گیا تھا اب ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی غصہ نہیں تھا ایک تحمل تھا درخواست تھی۔
وہ سر جھکائے ہونٹ کچل رہی تھی بے نیازی کا چولا اوڑھے وہ خاموش تھی۔
آزر جا چکے تھے اسے چھوڑ کے وہ نہیں جانتی تھی وہ اندر گئے ہیں یا باہر اب وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی ایک اندھیرا تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھا مگر اب سب واضح ہو گیا تھا۔
وہ اس کالی رات میں وہاں کھڑی ایک فیصلے پہ پہنچ چکی تھی ہاں اب اسے صرف اپنے بارے میں سوچنا تھا سب کو پیچھے چھوڑ کر صرف اب اپنا سوچنا تھا۔. 

To be continued…
Next tomorrow inshallah
اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔
کیا ہوگا شزرا کا فیصلہ؟
کل کی صبح کتنے ہنگامے اپنے ساتھ لائے گی؟

کیا آزر سنبھال پائیں گے خود کو؟

No comments:

Post a Comment