Thursday, 4 July 2019

Anokha Rakhwala By Fatima Bukhari

Anokha Rakhwala Written by Fatima Bukhari


انوکھارکھوالا
 از فاطمہ بخاری
”27 ویں سحری ہے اور یہ ابھی تک سو رہا ہے,پتا نہیں روزہ بھی رکھنا ہے کہ نہیں...
رضوانہ بیگم سحری میں اپنے بیٹے کو کئ بار اٹھا چکی ,جو ٹس سے مس نہ ہوا اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی, جب بیٹا اٹھ بیٹھا اور ماں کے گلے میں بازو کا حلقہ بنا کر دونوں گال چوم کر کہا:”امی جی! اٹھ گیا ہوں, آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں ,میں روزہ کسی حال میں نہیں چھوڑوں گا
ماں مطمئن ہوتی, دہی کے پیسے دیتی باورچی خانے کی طرف بڑھ گئ, جہاں بڑی بیٹی پہلے سے موجود تھی کام کرتے کے ساتھ انھیں دیکھ کر بولی:”آپ نہ کہا کرو کچھ اسے, چار ماہ بعد تو آتا ہے گھر, عمر ہی کیا ہے اس کی, چھوٹی سی عمر میں اتنی بڑی ذمہ داریاں اس کے کندھوں پہ آن پڑی ہیں , پردیس میں رہنا آسان نہیں ہوتا ,کئ لوگوں کی ڈانٹ سننی, پھر گھاٹ گھاٹ پھرنا, انسان چڑ چڑا ہو جاتا ہے, آپ بس کچھ نہ کہا کرو میرے فوجی کو....
”فوجی کم اور موجی زیادہ لگتا ہے مجھے,
چار ماہ بعد آیا , بجاۓ گھر بیٹھ آرام کرے, گھر والوں کو وقت دے سارا دن سونا, رات دوست یاروں کے ساتھ, یہ کوئی بات ہے بھلا, دل پہ پتھر رکھ کر اسے پردیس بھیجا اللہ پاک نے دل کو فوج میں جانے پہ صبر اور سکون عطا کر رکھا ہے, ورنہ کون ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو دور بھیجتی ہے بھلا, میرے دل سے پوچھو, خون کے آنسو روتا ہے اپنے لال کو یوں کمزور دیکھ کر, جتاتی نہیں کہ کہیں وہ دل چھوٹا نہ کر جاۓ, پر کیا کروں ماں ہوں نہ...
رضوانہ سحری کا سامان دستر خوان پر لگاتے آنکھوں کی نمی صاف کرتی بیٹی سے کہہ رہی تھی..
پردیس میں رہنے والا تو اکیلا تنہائی جھیلتا ہے, مگر اپنے پیچھے ایک پورا گھر چھوڑ آتا ہے, جو ایک فرد کی جدائی میں جلتے ہیں, آنسو بھی چھپ چھپ کے بہاتے ہیں کہ پردیسی کا حوصلہ نہ ٹوٹ جاۓ وہ گھبرا نا جاۓ..
یہی حال شان کے گھر والوں کا تھا, روز فون پہ بات کرنے کے باوجود گھر کے پانچوں افراد ایک ایک لمحہ گن کر اس کے انتظار میں رہتے ہیں, اس کی آواز سن جی اٹھتے ہیں, چھوٹی سے چھوٹی بات ایک دوسرے کو بتانی دور رہ کر بھی ایک دوسرے سے یہ جڑے رہتے ہیں,اس گھر کے مکینوں کی ایک بات نرالی تھی کسی کی کوئی بات بری لگتی تو یہی دھمکی دی جاتی,
"شان! کو بتاؤں گی/گا وہی پوچھے گا"اور اس سے شکایات بھی کی جاتی, وہ بھی اپنے گھر والوں کی ان پیار بھری شکایتیں سن کر پردیس میں خوش ہوجاتا...
                   ---------------------
شان کو گھر آۓ آج تیسرا دن تھا پر گھر آۓ اس کی روٹین ہی بدل گئی تھی, وہ جو ڈیوٹی پہ رہتے ہوۓ 3 بجے صبح اٹھنے کا عادی تھا 10 بجے تک سوتا رہتا, شاید گھر کی محفوظ چار دیواری کا اثر تھا... وہ جو رات دیر تک ملک کی حفاظت کے لیۓ کوشاں رہنے والا, گھر سے ساری رات باہر رہتا تھا, یہی بات اس کی ماں کو اچھی نہ لگی تھی,وہ بار بار اسے کہتی...
 "شان! میرے لال نہ رہا کر اتنی دیر باہر, جوان بہنیں ہیں تیرے گھر اور دیر رات تک دروازہ کھلا رہتا ہے, آجکل کوئی اعتبار ہے زمانے کا, کیسے رکھوالے ہو ملک کے, کہ تمہارے ہوتے ہوۓ تمہارا گھر محفوظ نہیں"" امی جی! اتنے عرصے بعد دوستوں سے ملتا ہوں وقت کا خود پتا نہیں چلتا میں کوشش کروں گا اب رات گھر پہ رہوں"وہ روز ماں کو بہلا لیتا اور پھر وہی عادت...
           --------------------------------
 آج چاند رات ہے اور آج بھی شان گھر سے باہر تھا, ساری رات دوستوں کے ساتھ مل کر انھیں خریداری کروائی اور وہ رات 2 بجے گھر آیا, آتے ہی دیکھا بڑی بہن انتظار میں جاگ رہی تھی, کیونکہ وہ ہر بار چھوٹے بھائی کا لیا ہوا جوتا ہی پہنا کرتی تھی جو شاید اس بار بھائی کو لانا یاد نہ رہا, لیکن اسے ایک مان تھا اپنے بھائی پر کہ وہ اسے ننگے پاؤں نہیں رہنے دے گا..
 لیکن بھائی اس بار بھول گیا, بہن کو جاگتا دیکھ اسے فوراً یاد آیا تو اسی لمحے واپس بازار کو دوڑا اور بہن کے لیے جوتا لے آیا...
پردیس میں رہ کر وہ جیسا بھی ہوگیا تھا پر اپنی ذمہ داریاں نہیں بھولا تھا,لیکن اسے یہ بات سمجھنے میں ابھی وقت تھا کہ یہ ضرورت کی چیزیں تو وقتی خوشی دیتی ہیں, اصل تو آپکا وقت آپکے اپنوں کےلیے ضروری ہوتا ہے...شان بہن کے گلے میں باہیں ڈالے , بہت پیار سے بولا
"آپی! آج کے لیے معزرت میں آئیندہ خیال رکھوں گا پھر اور گھر سے باہر بھی کم رہوں گا, آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا؟
 بہن بھائی کے منانے کے اس انداز پہ خوش ہوتی ہے اور اسے کھانا دیتے کہنے لگی... " میں جانتی ہوں تم دوستوں سے چھے مہینے بعد ملتے ہو, لیکن ایک بات ذہن میں رکھنا, پہلے تم پر صرف خود کی ذمہ داری تھی, اب ملک کی بھی ہے تم پاک فوج کے ایک قابل فخر فوجی ہو,لیکن ایک بات ذہن نشین کر لو میرے بھائی یہ جو ہمارے امی ابو اور یہ چھوٹے بہن بھائی ہیں انکا بھی مان تم ہو, یہ بھی اتنا تڑپتے ہیں جتنا تم دور رہ کر تڑپتے ہو, تم پہ ملک کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں ہیں یہ نہیں کہ بس من موجی بن کے زندگی گزارو, تم میں پچھلے 2 سال جب سے تم نے آرمی جوائن کی بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں تمہیں غصہ بھی جلدی آتا ہے کیونکہ کئ باتیں تمہارے مزاج کے مطابق نہیں ہوتی, تم بہادر بھی ہوگئے ہو
 وہی ہو نا تم جو رات کو بجلی جانے پہ ڈر کر اٹھ بیٹھتا تھا مگر وہی کئ کئ رات ملک کی حفاظت کے لیۓ تاریکیوں میں گزارتے ہو, اگر تم ملک کے لیے اتنا کرتے ہو تو گھر کے لیۓ بھی وقت دو, صرف ملک کی خدمت تمہیں حقوق العباد سے تمہارے فرائض سے آزاد نہیں کر سکتی اس کی پوچھ گچھ ضرور ہوگی,
 بات لمبی کر تمہیں بور نہیں کروں گی, پر میرے بھائی کچھ خیال کرو سب باتوں کا... ”نہیں آپی! آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں واقعی لاپرا ہوگیا ہوں پر میں اب سمجھ گیا کوشش کروں گا ایسا پھر کبھی نہ ہو....
" تمہیں یاد ہے بچپن میں ایک سبق پڑھا کرتے تھے "بہن نے اسکی بات سن اور ارادے کی پختگی دیکھ کہا...
”کونسا سبق ؟ آپی!
"بھائی فوجی بن
موجی نہ بن
موجی!ہاہاہا امی جی کہتی ہیں مجھے
صبح کے 3 بج  رہے تھے جب شان کا بہن کی بات پہ قہقہہ گونجا...”بات تو سچ ہے,اب تم ہو ہی موجی,اس ملک اور ہمارے انوکھے رکھوالے.....
”میں انوکھا رکھوالا ضرور ہوں پر آج میں وعدہ کرتا ہوں,اپنے گھر کی حفاظت بھی ملک کی طرح کروں گا, میرے جیسے نو عمر فوجی ایسے ہی ہو جاتے ہیں, پر میں سب کے لیۓ مثال بنوں گا اور سارے فرض پورے کروں گا
شان نے بہن کا ہاتھ تھامے عہد کیا اور اس کے ارادے کی مضبوطی اسکی باتوں سے ظاہر تھی
”آمین!چل میرے فوجی! اب سو جاؤ, صبح عید کی نماز میں آنکھ نہیں کھلے گی
شان نئے عزم اور عید کی خوشیوں کے ساتھ کل عید کی نئی صبح کے انتظار میں سو گیا...
آج اس کی بہن بھی پرسکون تھی کہ آخرکار انکے انوکھے فوجی کو بات سمجھ آگئ تھی

Download Pdf Here


No comments:

Post a Comment