Thursday, 4 July 2019

Ashiyana meri Muhabbat ka By Sana khan tanoli

Ashiyana meri Muhabbat ka By Sana khan tanoli


آشیانہ میری محبت کا

ثناء خان تنولی
       جیا اب بس بھی کر دو یار اور کتنا کھاؤ گی، 

زرا دیکھو تو خود کو کتنی موٹی ہوتی جا رہی ہو... 

دوسری طرف سے زبردست قہقے کی آواز آئی، 

ہاں تو میں موٹی ہو رہی ہوں نا تم کیوں جل رہی ہو کولیسٹرول تمھارا تو نہیں بڑھتا نا میرے زیادہ کھانے سے... 

(جیا نے ایک عدد اور سموسہ پلیٹ سے اُٹھاتے ہوئے نینا کو گھورا) ۔

نینا..... ہاں'ہاں کھاؤ کھاؤ، تمھارا پیٹ ھے مجھے کیا ڈالتی جاؤ ( نینا نے منہ بناتے ھوئے جیا سے ناراضگی کا اظہار کیا) ۔

یونیورسٹی کی کینٹین کے سموسے کھاتے کھاتے جیا واقعی دن بدن موٹی ھوتی جا رہی تھی، 

(وہ معمولی سی شکل و صورت کی تھی، رنگ میں سانولی جبکہ قد بھی زیادہ اُونچا نہ تھا)۔

    جبکہ نینا بہت ہی دلکش خوبصورت اور معصوم، 

جیا کی منگنی اُس کے خالہ زاد جاوید سے ہوئی تھی جبکہ وہ دونوں کی ایکدوسرے کو قطعاً پسند نہیں کرتے تھے، 

جاوید شکل و صورت میں بھی اچھا دکھتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عدد گاڑی اور اچھے کاروبار کا بھی مالک تھا، باہر کے ملکوں میں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا، جہاں بے حد خوبصورت لڑکیاں 24 گھنٹے آس پاس منڈلاتی ھوں وہاں بھلا کوئی سانولی من کو کیسے بھا سکتی ھے ۔ 

اور دوسری طرف جیا بھی اس کے مزاج سے بخوبی واقف تھیں، کبھی کبھار جیا کو یونیورسٹی چھوڑنے کیلئے جاوید کی امی زبردستی دھکیل بھیجتی، تو وہ اُسے تکلفی طور پر بس سلام ہی کرتا تمام سفر خاموشی میں گزرتا.... 

کچھ دیر بعد جاوید کے موبائل پر کسی کا نوٹیفیکیشن آتا جسے دیکھ کر وہ ھونٹ دانتوں میں دبائے مسکرا دیتا اور یہ منظر جیا چپ چاپ تکتی رہتی، 

   گاڑی یونیورسٹی کے سامنے رکتے ھی وہ فوراً گاڑی سے اُتر کھڑی ھوتی اور بغیر سی آف کئے ھی وہ گاڑی واپس گھما لیتا ۔ 

     ایک روز یونیورسٹی میں بسنت میلہ سے لوٹتے وقت جیا کافی لیٹ ھو گئی تھی، اس کی سہیلی نینا بھی اُس کے ساتھ ھی تھی، جیا نے گھر فون کیا مگر بھائی موٹر سائیکل لے کر کسی کام کیلئے نکل چکا تھا،  تمام صورتحال کو دیکھتے خالہ  (جیا کی امی)  نےجاوید کو فون گھمایا گیا، جو کہ آفس سے گھر لوٹ رہا تھا جیا کو بھی پک کرنے کا کہا، 

جیا کےساتھ نینا بھی تھی دونوں یونیورسٹی کے باہر کھڑیں اسکا انتظار کر رہیں تھیں، گاڑی جونہی یونیورسٹی کے سامنے رُکی جیا بھی نینا کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی، 

جاوید کی نگاہیں تمام سفر کے دوران نینا پر ہی ٹکی رھیں ،اُس نے فرنٹ پر لگے شیشے کا رُخ نینا کی طرف موڑ لیا تھا ،جبکہ جیا تمام دن تھکاوٹ کے بعد نیند میں نڈھال سر ٹیک کر پیچھے لیٹ گئی.

اُس کے بعد تمام سفر کے دوران جاوید کا دھیان نینا کی طرف ھی تھا، جبکہ نینا بھی وقفے وقفے سے اپنی جھکی گردن اُٹھاکر اُس کی طرف دیکھ کر عارضی سی مسکراہٹ دیتی ۔ 

راستے میں نینا کو گھر ڈراپ کرنے کے بعد جاوید کچھ دیر کیلئے جیا کے گھر رُکا تھا چائے کیلئے، 

اگلے روز جاوید نے جیا کو واقعی حیرت میں مبتلا کر دیا تھا، یونیورسٹی آف ہونے کے بعد وہ دونوں (جیا،نینا)جُونہی یونیورسٹی سے باھر نکلیں سامنے جاوید گاڑی لئے کھڑا تھا،

جاوید کی موجودگی سے بھی زیادہ حیرانگی والی بات یہ ھوئی نینا جھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولتے ھوئے فرنٹ سیٹ پر جا بیٹھی، جس کا حق جیا صرف کا تھا، مگر جیا نے خاموشی سےپیچھے بیٹھنے میں ھی عقلمندی جانی۔

اسی طرح دن گزرتے گئے، آئے دن جاوید میاں سوٹ بوٹ پہنے گاڑی میں بیٹھے یونیورسٹی کے باھر گاڑی کھڑی کرتے اور نینا سجی سنوری اسکے ساتھ آگلی سیٹ پر بیٹھ جاتی، نینا جو کہ یونیورسٹی میں بھی برقعہ اوڑھ کر رکھتی تھی گاڑی کی چمک دیکھ کر وہ دوپٹے پر آ گئی، جو کہ سر سر سرک پر گلے میں آ چکا تھا ان دنوں میں جیا نے اس میں ایک عجیب سی بے باکی پائی تھی، گویا یہ وہ نینا نہیں کوئی اور ہی لڑکی ھو ۔ 

کچھ ھی دنوں میں خالہ تشریف لائیں اُتری اُتری سی رنگت، چائے کے ساتھ مختلف لوازمات ٹرے میں ھی پڑے رہے انہوں نے انہیں ھاتھ تک نہ لگایا، کافی دیر خاموشی کے بعد نطریں جھکاءے امی سے مخاطب ھوئیں، " (خالہ)": نصرت، مجھے سمجھ نہیں آ رہا کیا بات کروں اور کہاں سے شروع کروں، 

امی کے اسرار اور حوصلہ بندھنے پر بولیں:

جاوید نے رشتے سے انکار کر دیا ھے، ایک مہینے سے ضد لگائے بیٹھا ھے میں سنبھلتی رہی کہ شاید بات سنبھل جائے مگر اب وہ مرنے مرانے پر تُلا بیٹھا ھے، میں بہت شرمندہ ھوں ۔

جیا بلکل میری سگی اولاد کی طرح ہی ھے نصرت، 

تمھیں تو پتا ھے نہ میں نے منگنی کے بعد سے اسے ہمیشہ بیٹی ھی مانا ھے، مگر اس وقت تماھرے آگے ایک مجبور ماں بیٹھی ھے ۔

جاوید کے ابا تو پہلے سے ہی اس رشتے سے زیادہ خوش نہیں تھے، اور جاوید بھی اب صاف انکاری ھوا بیٹھا ھے، بھلا ایسے میں مَیں کسی کی بیٹی کو کیا جھوٹی امیدیں دلاتی پھروں اور آخر کب تک... میں بھی بیٹی والی ھوں سمجھ سکتی ھوں تمھارے دُکھ کو مگر میرے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ بھی تو نہیں ۔ 

(انہوں نے اپنی لاچاری کا اظہار کیا )۔

اُدھر دروازے میں جیا آنسوؤں کی قطار باندھے کھڑی یہ سب سُن رہی تھی، اب وہحقیقت کو سمجھ بھی چکی تھی کہ پچلے چند روز سے جو کچھ کیا جا رہا وہ مہربانیاں وہ رحم و کرم اس کیلئے نہیں بلکہ وجہ کچھ اور تھی. 

ھائے!!  آپا تم نے اچھا نہیں کیا میری ایکلوتی بیٹی میں نے تنھیں سونپی تھی، پچھلے پانچ برس سے تمھارے بیٹے کے انتظار میں بٹھا رکھی ھے اور تمھیں اب خیال آیا ۔ 

کچھ منٹوں تک وہ اماں کی بھڑاس سنتی رہیں اور پھر دروازے میں کھڑی جیا کے سر پر شفقت سے ھاتھ پھیرتے ھوئے بیگ اُٹھا کر دروازے سے نکل گئیں ۔

Download Pdf Here


No comments:

Post a Comment