Thursday, 4 July 2019

Khuwab Khuwab hi raha By Ayesha Islahi Ayesha

Khuwab Khuwab hi raha By Ayesha Islahi Ayesha



" خواب، خواب ہی رہا " 
از قلم عائشہ اصلاحئ عائشہ
" یہاں آو ، " ایم بی بی ایس " کا رزلٹ نکل گیا " میں نے دھیمی آواز میں بھائی سے کہا۔مینے اُس کے ہاتھ میں فون تھما دیا اور ڈرتے ہوئے لہجے میں رزلٹ چیک کرنے کو کہا۔ رزلٹ چیک کرنے میں ظاہر ہے وقت تو لگتا ہی ہے۔میری بے چینی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔ رزلٹ کا انتظار کرتے کرتے میں خیالوں کی دنیا میں پہنچ گئی ، اب میرے ذہن کے پردے پہ ایک فلم چلنے لگی جیسے میں ڈاکٹروں کا سفید کوٹ پہنے ہوں ، اسٹیتھسکوپ میری بازو سے لٹک رہا ہے اور میں خوشی سے جھوم رہی ہوں ، ابھی میں خیالوں میں خوشیاں منا ہی رہی تھی کہ اتنے میں جیسے کسی نے میرے جسم سے میری روح الگ کر دی ، میرے کانوں تک جب یہ الفاظ پہنچے کہ " آپی آپ کی سلیکشن نہیں ہوئی  ایم بی بی ایس میں " ۔ جب میں نے یہ سنا تو میرا دل چاہنے لگا کہ میں اپنے کانوں میں ہمیشہ کے لیے روئی بھر دوں اور کسی گھپا میں جا کر چھپ جاوں ۔ میں نے شرمنرگی سے اپنی نظریں  اُٹھائی اور بھائی کی طرف دیکھا میں ایسا محسوس کر رہی تھی جیسے میں ان سب کی مجرم ہوں ۔ جیسے مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا ہو جس کا ازالہ نا ممکن ہے ۔ بھائی میری طرف بڑھا اور مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ، " جو ہونا تھا وہ ہو گیا ، زنرگی میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ، اب خدا کے لئے رونا مت " ۔ کچھ ہی دیر میں امی بھی کمرے میں داخل ہوئی یہ کہتے ہوئے ، " میں نے سنا رزلٹ نکلا " ۔ " جی امی آپ نے ٹھیک سنا ، لیکن امی!  آپی کی سلیکشن نہیں ہوئی " ، بھا ئی نے بہت ہمت رکھ کے امی سے یہ سب کہا۔ امی مجھے دیکھتی رہ گئی ایسا لگ رہا تھا جیسے امی کو کسی عزیز کی موت کی خبر سنائی گئی ہو ۔لیکن یہ بھی سچ ہے یہ خبر کسی موت کی خبر سے کم نہ تھی حقیقتًا ایک خواب مر چکا تھا جسے میں نے اور پھر میری وجہ سے میرے گھر والوں نے بھی چودہ پندرہ سالوں سے آنکھوں میں سجا کر زندہ رکھا تھا ۔ لیکن اب وہ خواب تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر چکا تھا ۔ میں امی سے ایک لفظ بھی نہ کہہ سکھی میری زباں پہ تو جیسے کسی نے مہر لگا دی تھی۔امی اُلٹے پاوں کمرے سے چلی گئی ۔ بھا ئی بھی کچھ دیر بعد اُٹھ کے چلا گیا ۔ اب میں اپنے کمرے میں اکیلے رہ گئی اور نہ جانے کون کون سے خیال میرے ذہن میں آ اور جا رہے تھے ۔ میں خدا سے اب صرف صبر مانگ رہی تھی ۔ میں غور سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی اور دل کو سمجھا رہی تھی شاید یہ میرے نصیب میں کبھی تھا ہی نہیں جسے پانے کی میں نے ہر ممکن کوشش کی ۔ ابھی میں اپنے دل سے ہم کلام ہو ہی رہی تھی کہ میرے کانوں میں زور زور سے یہ الفاظ گونجنے لگے ، کوئی چلا چلا کے کہہ رہا تھا ،  " تم ہار گئی ، تم ہار گئی ، تم ہار گئی " ۔ جب میں نے اپنی نگاہیں یہ جاننے کے لیے اُٹھائی کہ آخر یہ آواز  کہاں سے آ رہی ہے ۔ نگہائیں اُٹھانے پہ مجھے یہ محسوس ہوا جیسے  میرے کمرے کی ہر اینٹ زور زور سے یہ الفاظ دھرا رہی تھی کہ تم ہار گئی ، تم ہار گئی ۔ میں نے اپنے کانوں پہ زور سے ہاتھ رکھ دیئے ۔مجھے آج پہلی بار یہ محسوس ہوا کہ پیروں تلے زمین کا نکل جانا کیسا ہوتا ہے ۔ میں نظریں جکھا کے بیٹھی تھی کیونکہ مجھ میں ہمت باقی ہی نہ رہی تھی کہ میں خد کے وجود کے ساتھ بھی نظریں ملا پاوں ۔ اچانک میری نگہائیں اٹھی تو دیکھتی ہوں امی ابو دونوں میرے کمرے میں داخل ہو رہے تھے ۔ اُن کے چہرے بلکل بے رونق تھے ۔ جیسے اُن کے کانوں نے کوئی ایسی خبر سنی ہو جو اُنہوں نے کبھی غلطی سے بھی نہ سوچی ہو ۔ دونوں میرے پاس آ کر بیٹھ گئے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجھے حوصلہ دینے آئے ہو اپنی ٹوٹی کمروں کو بانرھ کر ۔ اب امی نے میرے سامنے حروف تسلّی رکھ دینے شروع کر دیے ، میں بلکل خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی ۔ جونہی مجھے محسوس ہوا کہ یہ حروف محض حروف ہیں ان میں ہمت کا نام و نشان تک نہیں میری زبان بول پڑی میں نے ان کے سامنے ہمت سے بھرے ایسے ایسے الفاظ رکھ دیے کہ یہ دونوں مجھے بس دیکھتے رہ گئے ۔ سچ پوچھو تو حقیقت میں مجھے خد معلوم نہیں میرے پاس اتنے با ہمت الفاظ آخر آئے کہاں سے ۔ اِن دونوں کی آنکھوں میں اک سوال صاف صاف دکھائی دے رہا تھا کہ جو لڑکی کانٹا  چبھنے پہ پورا گھر سر پہ اُٹھاتی تھی آج کیسے اتنا سب برداشت کر رہی ہے ۔ کیو نکہ وہ اس بات سے با خوبی واقف تھے کہ مجھ پہ کون سی مصیبت آن پڑی ہے ۔ میری ہمت دیکھ کے وہ حیران بھی ہوئے اور اُنہیں اطمینان بھی ہوا کہ میں ٹھیک ہوں اور وہ کمرے سے چلے گئے ۔ خدا نے جیسے مجھ پہ مصیبت ڈالنے سے پہلے ہی میرا دامن صبر جیسی عظیم نعمت سے لبریز کر دیا تھا ۔ میں خد حیران تھی کہ مجھ میں اتنی ہمت آئی کہاں سے ؟؟ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے آذان کی آواز سنائی دی ، میں ایک دم سے اُٹھی کیونکہ میری عادت ہے کچھ بھی ہو نماز نہیں چھوڑی جاتی مجھ سے ۔ میں وضو کرکے آئی نماز کے لیے کھڑی ہوئی ۔ جب سلام پھیر کے نماز مکمل کی تو حسبِ معمول دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ۔ دعا کرتے کرتے بے ساختہ میری زبان سے وہ ہی الفاظ نکلے جو میں چودہ پندرہ سال سے دہرایا کرتی تھی ، " یا اللہ میرے مقدر چمکا ، میری سلیکشن کروا دے " ، ابھی یہ جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ میری آنکھ سے کچھ ٹپک کر گِر گیا ، شاید آنسو تھا جسے میں نے بہت جلد صاف کر لیا ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے ہاتھوں سے ضبط کا دامن چھوٹ جائے اور یہ ایک آنسو میرے صبر کی توہین کر جائے ۔
 میں اُٹھ کے ایک کونے میں بیٹھ گئی ۔ وقت گزر رہا تھا اور رات اپنی سیاہ چادر میں مسلسل ہمیں اُوڑھے جا رہی تھی ۔ بے شمار فون کالز بھی آ رہی تھیں سب کی اُمیریں مجھ سے وابستہ تھیں جو اب ٹوٹ چکی تھیں ۔ سب مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن میں یہ کہہ کر منع کر رہی تھی کہ میرے پاس اب کچھ کہنے سننے کو بچا ہی نہیں ہیں ۔ جو واقعی میرے اپنے تھے وہ میری کیفیت سمجھ گیے اور جو فقط نام کے اپنے تھے وہ خفا ہو گئے ۔ لیکن مجھے زرا بھی فرق نہ پڑھ رہا تھا کہ اب کون مجھ سے راضی ہے اور کون خفا ۔ میری تو خد کی دنیا اُجڑ چکی تھی ، میرے تو  سبھی خواب ریزہ ریزہ ہو چکے تھے ، جیسے میری ساری خواہششیں دم توڑ چکی تھیں ، جیسے جینے کی وجہ بھی کوئی چھین چکا تھا اور ساتھ میں جینے کی قسم بھی کوئی دے گیا تھا ۔ میرا وجود ایک زندہ لاش کے سوا کچھ اور نہ تھا ۔
کچھ ہی دیر بعد ابو میرے پاس آئے ۔ زندگی میں پہلی دفعہ ابو کی آنکھیں میں نے اس قدر سرخ دیکھی ایسا لگ رہا تھا جیسے آنسووں کا سمندر ابو نے اپنی آنکھوں میں چھپائیں رکھا تھا ۔ ابو نے بہت ہی صفائی سے ایک آنسو بہایا لیکن میری نظر سے وہ نہ بچ سکھا ۔مگر میں ایسا ڈرامہ کر رہی تھی جیسے مجھے کچھ محسوس ہی نہ ہو رہا ہو ۔ میں ابو سے نظریں ملانے سے گریز کر رہی تھی ۔ جونہی وہ میرے سر پہ دستِ شفقت رکھنے آتے میں جھٹک سے سر کو ہلاتے ہوئے کہتی ابو میں بلکل ٹھیک ہوں مجھے کوئی دکھ نہیں ، اللہ کی مرضی ایسی ہی تھی اس میں ضرور کوئی مصلحت ہوگی ۔ ابو نے جب میرے یہ الفاظ سنے تو میرے شانوں پہ اپنے ہاتھ رکھ کے یہ الفاظ کہے ، " میری بہادر بیٹی ہو تم " ۔ لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی ۔حقیقت بہت ہی تلخ اور دل کو چیر دینے والی تھی ۔ حقیقت میں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کوئی زنرہ لاش ہوں جس کے پاس نہ روح ہے نہ طاقت فقط ایک جسم ہے جسے زبردستی
زندہ رہنے کو کہا جا رہا ہے۔ اصل میں  یہ ساری باہمت باتیں میں اپنے دل پہ پتھر رکھ کے کہہ رہی تھی ۔ کیونکہ میں کرتی بھی تو کیا کرتی ۔مجھے معلوم تھا کہ اگر میرے گھر والوں کو زرا بھی یہ محسوس ہوا کہ ہماری بیٹی صرف ڈرامہ کر رہی ہے ، درحقیقت یہ بکھر چکی ہے تو وہ بھی ہمت ہار جاتے اور اُن کو تکلیف میں دیکھنا میرے لیے کسی اذیت سے کم نہ ہوتا ، میں نہیں چاہتی تھی کہ اُن کی آنکھ میری وجہ سے نم ہو ۔ اِس لیے ناچاہتے ہوئے بھی مجھے یہ صبر کا جام پینا پڑا ۔
 لیکن یہ بات سچ ہے حقیقت سامنے آ ہی جاتی ہے۔  لاکھ چھپانے سے بھی نہیں چھپتی ۔ دو دن گزر گیے تو مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب میرا یہ ڈرامہ ذیادہ دیر تک نہیں چل پائیں گا ۔ ناٹک چند لمحوں تک ہی کامیاب رہتے ہیں ، حقیقت آخر سامنے آ ہی جاتی ہے ۔ اب بڑھتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل پہ عجیب سا دباو پڑ رہا تھا مجھے خد پہ ایسا بوجھ محسوس ہو رہا تھا جیسے دنیا بھر کے غذاب ، دکھ درد میرے دامن میں آ کے بیٹھے ہو ۔میری پلکیں ان پوشیدہ آنسووں سے بھاری ہو چکیں تھیں جن کو میں چاہتے ہوئے بھی بہا نہ سکتی تھی ۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ چنر لمحوں تک اور چلتا رہا تو میرے جسم سے روح جدا ہو جائے گی ۔ اب میں اِن تمام پوشیدہ اذیتوں سے خد کو آزاد کرنا چاہتی تھی ۔ ضبط کا دامن جو میرے کمزور ہاتھوں نے مضبوطی سے تھامے رکھا تھا اب میں اُسے چھوٹتا ہوا محسوس کر رہی تھی ۔ کیونکہ میں مذید برداشت کرنے کی تمام تر صلاحیتیں آہستہ آہستہ کھو رہی تھی ۔ جیسے آنسووں کے سمندر کی طاقت ور لہریں میرے وجود کے اندر عروج پہ تھیں اور اُنہیں سنبھالنے کی تمام کوششیں ناکام ہو رہیں تھیں ۔ مجھے اس بات کا با خوبی علم تھا کہ اگر  میری آنکھ سے ایک بھی آنسو نکلا ، تو قیامت برپا ہوگی ۔ اس لیے میں خد کو سنمبھالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی ،  مگر افسوس ہر بار ناکام ہو رہی تھی ۔آخر وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا ۔ اس حادثہ کی دوسری رات تھی کہ اچانک نہ جانے مجھے کیا ہو گیا جیسے مجھے کسی نے آسمان سے اُٹھا کے زمین پہ پھینک دیا ، جیسے کسی نے مجھ سے میرا ضبط چھین لیا اور زور زور سے میرے کانوں میں یہ آواز گو نجھ رہی تھی ، " جا آزاد کر دیا میں نے تجھے تیری ہوشیدہ اذیتوں کے وزن سے " ۔ میں زار و قطار رونے لگی ، میرے رخسار سے آنسووں کے نالے بہنے شروع ہو گئے ۔ میری دبی ہوئی آواز کو بھی سامنے آنے کا موقع ملا ، میں زور زور سے چلائی ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا کی ہر خوشی نے مجھ سے منہ موڑ لیا ہو ۔ سب میرے آس پاس موجود تھے مگر میں پھر بھی خد کو تنہا اور بے سہارا محسوس کر رہی تھی ۔ سب میرے ارد گرد بیٹھے مجھے دیکھ کر چپکے چپکے آنسو بہا رہے تھے ۔ آخر کون تھا ایسا جس کے پاس مجھے چُپ کرانے کی ہمت ہوتی؟؟  میں روتی نہیں ، ماتم نہیں مناتی تو اور کیا کرتی ، آخر میرا خواب جو مر گیا تھا جسے چودہ  پندرہ سالوں سے میں نے اپنی آنکھوں میں زندہ رکھا تھا اور ہمیشہ خدا سے یہی مانگا تھا کہ مجھ سے بھی زیادہ تو میرے خواب کی حفاظت کرنا ۔ لیکن میری ہر دعا جیسے بد دعا بن گئی تھی ۔ میری تو کسی ایک گھڑی کی دعا بھی قبول نہ ہوئی۔ آخر میرا خواب مر چکا تھا جسے زندہ رکھنے کی میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ میں اتنا روتی کہ میری آنکھیں ریگستان کی زمین جیسی بن جاتی جس میں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہوتا ، لباس آنسووں سے بھیگ جاتا ، وجود ٹوٹا ہوا سا معلوم ہوتا ۔ کوئی حرفِ تسلی سامنے رکھتا تو مجھے وہ تسلی کسی اذیت سے کم نہ لگتی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اک خواب کے ساتھ سارے خواب کرچی کرچی ہو گئے ۔تب ہی  میری نظر ساتھ پڑے ہوئے آیئنے پہ پڑی میں نے آئینہ اُٹھا کے اپنی آنکھوں میں جھانکا تو اُن آنکھوں میں کوئی آرزو کوئی خواہش نظر نہ آ رہی تھی صرف تکلیف ہی تکلیف تھی ۔
اِس حادثے کو گزرے کئی روز گزر گئے مگر ابھی بھی میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام منظر رقص کرتے ہیں ، ابھی بھی میرے کانوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں ، ابھی بھی میں اُن درد بھرے لمحوں کی لمس کو محسوس کرتی ہوں ، آج بھی میں اپنے خواب کے مزار پہ ہر روز پھول چڑھاتی ہوں ، آج بھی میرے خواب میں وہ خواب آتا ہے ، آج بھی اُسے سوچ کر میرا کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔
اور یقینً اس صدمے سے باہر آنا میرے لیے کسی نئ  زندگی میں قدم رکھنا کے برابر ہوگا ۔
کبھی کبھی انسان کے ساتھ ایسا معملہ پیش آتا ہے جو اُس نے کبھی غلطی سے بھی نہ سوچا ہو ۔ بعض اوقات اللہ ہمیں وہ نہیں دیتا جو ہمیں اچھا لگتا ہے بلکہ وہ دیتا ہے جو ہمارے لیے اچھا ہوتا ہے۔ بس انسان بہت جلد ہمت ہار جاتا ہے ۔ ایسے معملے میں ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہیے بلکہ صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے ۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے !!!
ختم شد
Download Pdf Here

2 comments:

  1. اچھا سبق سوچ بھی ایک پختہ اور جامد مگر اغلاط نے سارے پر پانی پھیر دیا۔۔۔
    نیک خواہشات

    ReplyDelete
    Replies
    1. Zara bataiye kya galti hai...galti to bataiye..??
      Main b dekhu galti

      Delete