Baap sy hai Maika Salamat By Ayesha Islahi Ayesha
تحریر" باپ سے ہے میکہ سلامت "
از قلم " عائشہ اصلاحئ عائشہ"
" مجھے اور کچھ نہیں چاہیے صرف ایک چھت دے دو جس کے تلے میں خود کو چھپا سکھوں " ، بہن نے مجبور ہو کے بھائی سے التجا کی ۔" آخر اُس نے کس وجہ سے تمہیں طلاق دی ؟ میری بہن میں آخر کون سی کمی نظر آئی اُس کمبخت کو " ، بھائی چلاتے ہوئے بولا اور گلے لگا کر بہن کو گھر کے اندر لے گیا ۔شروع شروع میں تو بہن کی آنکھ پہ مکھی بھی نہ بیٹھنے دیتا ، بہت خدمت کرتا مگر پھر بڑھتے وقت کے ساتھ ساتھ بہن اب بھائی کو بوجھ محسوس ہونے لگی ۔ مختصر یہ کہ اب وہ اس کو اپنے گھر میں مذید دیکھنا نہیں چاہتا تھا ۔ ایک صبح بہن ابھی سو ہی رہی تھی کہ بھائی نے چیخنا شروع کر دیا ، " چلو چلو اُٹھو اب مجھ سے اور برداشت نہیں ہو سکتا " یہ کہتے ہوئے بہن کے کمرے میں داخل ہوا ۔ بہن نیندیں لئے آنکھوں میں حیرانی سے دیکھنے لگی ۔کیا ہو گیا صبح صبح شور کیوں مچایا ہوا ہے؟؟ میں نے کہا نا۔۔۔۔۔ چلو اٹھو میں بتاتا ہوں تمہیں ۔ ہر چیز کی حد ہوتی ہے مجھے لگتا تھا کہ یہ چند دنوں کی بات ہے تم یہاں رہو گی پھر اپنے رہنے کا انتظام کرو گی مگر نہیں اب تو تم میرے سر پہ آ کے ہی بیٹھ گئی ۔ بھائی تمام محبتوں کی ، وفاوں کی باتیں بھلا کر بہن کو یہ سب کہہ رہا تھا ۔ " م۔۔۔۔۔م م م۔۔۔۔۔می۔۔۔میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی بھائی " ، بہن نے گبھراتے ہوئے اور آنکھوں میں ہزاروں سوال لیے بھا ئی سے پوچھا ۔ نہیں نہیں یہ خواب نہیں ہے حقیقت ہے۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔۔۔فوراً میرے گھر سے خود چلی جاو ، مجھے مجبور مت کرو کہ میں کوئی اور ترکیب سوچو ۔۔۔۔۔۔مگر میں جاوں گی کہاں ؟؟ تمہارے سوا میرا اس جہاں میں اور کوئی بھی تو نہیں۔۔ابا جان نے اس جہاں فانی سے رخصت ہونے سے پہلے مجھے آپ کے حوالے کیا تھا ۔ بہن کے لہجے میں صرف التجا تھی ۔ وہ صرف بھائی سے سر چھپانے کیلئے چھت کی بھیک مانگ رہی تھی ، مگر بھائی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا ۔ وہ اک دم سے اُٹھا اور بہن کو کلائی سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا ۔ " چھوڑو مجھے رحم کرو مجھ لاچار ، مجبور بندی پہ ۔ خدا کے لئے مجھے بے گھر مت کرو " ، بہن چیخ چیخ کے التجا کر رہی تھی ۔ آخر اُس نے بہن کو دروازے کی دہلیز تک پہنچا دیا ۔ بہن کی سمجھ میں جب کچھ نہ آیا تو اُس نے ایک دم سے بھائی کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا ۔ " میرے بھا ئی میں تجھ سے التجا کرتی ہوں ، مجھے اپنی بیٹی سمجھ کے میری جولی میں رحم کی بھیک ڈال دے" ۔مگر بھائی کو تو اُس کی کوئی بات جیسے سمجھ ہی نہ آ رہی ہو ۔ آخر کار اس نے بہن کو آخری سہارے سے بھی محروم کر ہی ڈالا اور اسے یہ کہہ کے گھر سے باہر نکال دیا ، " اگر تم اتنی عظیم اور پاک ہوتی تو تمہیں ہرگز طلاق نہ ملی ہوتی ، تمہارا اپنا گھر تو اُجڑ ہی چکا ہے مگر میں تمہاری وجہ سے اپنا گھر برباد ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔۔اور زور سے دروازہ بند کر دیا ۔ اب یہ بیچاری اپنی قسمتوں کو رو رہی تھی ۔ اس کے لئے تو جیسے خوشیوں کے سارے دروازے بند ہو چکے تھے ۔ اس کے سر سے آخری سایہ بھی اُٹھ چکا تھا اب وہ خود کو ایک سوکھا پتہ جیسا محسوس کر رہی تھی جسے ہوا جدھر چاہے اپنے ساتھ اُڑا کے لے جائے ۔ اب اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گردش کرنے لگے جب اُس سے اُسکے بابا کہا کرتے تھے ، " میں دنیا کہ تمام خوشیاں اپنی لاڈلی بیٹی کے قدموں میں لا کے رکھ دوں گا " ۔ لکین اب تو دنیا بھر کے غموں کے خزانے اُس کے دامن میں تھے۔ وہ روتی گئی ، چلاتی گئی۔۔۔۔ " میرے بابا۔۔۔۔۔۔ اووو میرے بابا۔۔۔۔۔۔سنو نا بابا۔۔۔۔۔اگر تم آج زندہ ہوتے تو مجھے یہ دن کبھی نہ دیکھنا پڑتا !! یا تو میرا کوئی چارہ کرو بابا۔۔۔۔ یا اپنے پاس بلا لو بابا۔۔۔۔تمہاری اس بیٹی کو آج اپنے خون نے بے گھر کیا ہے ۔ میرے بابا۔۔۔۔اوووو میرے بابا۔۔۔۔۔تم سنتے کیوں نہیں بابا۔۔۔۔مجھے اپنے پاس بلا لو بابا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!یہ جملہ ابھی مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ اُس کا لاچار بدن اک دم سے زمین پہ گِر گیا ۔ اُس کی زبان سے فقط یہ الفاظ سننے کو مل رہے تھے میرے بابا۔۔۔۔میرے بابا !!! کچھ منٹوں تک وہ ایسے ہی ترستی رہی اور بابا کو پکارتی رہی۔۔۔۔پھر اچانک اُس کا چیخنا چلانا بند ہو گیا ۔بلکل خاموشی سی چھا گئی ۔ آخر کار اُسے تمام دکھوں سے نجات مل ہی گئی ۔وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئی اور اپنے بابا کی بانہوں میں سکون سے جاکے ہمیشہ کے لئے سو گئی۔۔!!!
ختم شد
Download Pdf Here
No comments:
Post a Comment