#جدائی
#رائٹر_شہناز_اعوان
چاند کی روشنی اور ستاروں سے آسمان جگمگا رہا تھا. بادلوں نے آسمان پر ڈیرا ڈالا ہوا تھا. ایسا لگ رہا تھا چاند ستارے بادل آنکھ مچولی کھیل رہے ہو. ادیرا دیوار سے ٹیک لگائے اعیرہ کا انتظار کر رہی تھی. اعیرہ ادیرا کی ماموزاد بہن ہے دونوں کی دوستی کے قصے پورے خاندان میں مشہور تھے. گھر ساتھ ہونے کی وجہ سے دونوں رات تک کھلے آسمان تلے بیٹھ کر باتیں کرتی ادیرا کو پورے چاند کی رات بہت پسند تھی. اف اللہ مجال ہے کبھی یہ لڑکی جلدی آئے چاند کو دیکھتے ہوئے ادیرا نے خود سے کہا. یقین مجھے ہی کوسا جارہا ہو گا میں نے ٹھیک کہا نہ ادیرا اعیرہ ادیرا کے پاس بیٹھتی ہوئی بولی جی جی بلکل ٹھیک کہا آپ نے میم اعیرہ ادیرا جل کر بولی. کہا تھی ویسے آپ اور اتنی دیر سے کیوں آئی؟ اعیرہ کو مسکراتے دیکھ ادیرا نے پوچھا. کچھ نہیں پھپھوسے باتیں کررہی تھی پھر سوچا کہ کیوں نہ آج پورے چاند کی رات میں چائے پیتے ہوئے صبح کی شوپنگ کی پیلینگ کر لی جائے, تو کیسا لگا میرا آڈیا چائے کا کپ ادیرا کو دیتے ہوئے اعیرہ نے آبرو اوپر کرتے ہوئے ادیرا سے پوچھا....
میرےساتھ رہ رہ کر کافی اچھا سوچنے لگی ہے میم اعیرہ آپ چائے کا کپ لیتے ہوئے ادیرا نے کہا. سردیوں کا موسم اچھا تھا کتنا مزہ آتا تھا رات کو بستر میں سب سے چھپ کر موم پہلی کھاتے تھے اب تو سردیوں کا انتظار کرنا پڑے گا. لگتا ہے میرے نصیب میں انتظار کرنا ہی لکھا ہے اعیرہ نے ڈرامہ کرتے ہوئے کہا. واہ واہ کیا اٹینگ کرتی ہے آپ مان نے اس کی آنکھوں پر ہاتھوں رکھتے ہوئے کہا.
تم سے تو اچھی کر لیتی ہو اعیرہ مان کا ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی. کیا منصوبہ بندی ہو ری ہے سب سے چھپ کر مان اعیرہ کے پاس بیٹھتا ہوا بولا. کچھ نہیں آپ کو قتل کرنے کی پیلینگ کر رے ہے ہم اعیرہ نے جواب دیتے ہوئے کہا. کبھی تو سیدا جواب دے دیاکرو اعیرہ ادیرا کہتی ہوئی کھڑی ہوئی.
کہا جاری ہو ادیرا کو کھڑے ہوتے دیکھ اعیرہ نے پوچھا سوچا تمھارے لئیے مچھر پکر لو شکریہ آپ کا آپ ہی بسم اللہ کرے. اعیرہ تم نے اپنی پسیندہ ڈش کے لئے منع کر دیا مان اعیرہ کو تنگ کرتے ہوئے بولا. او نو میں تو بھول ہی گیا میں تم لوگوں کو بلانے آیا تھا نانا جی بلا رے ہے.....
اسلام علیکم کیسے ہے آپ تینوں اسلام کرتے کمرے میں داخل ہوئے. واعلیکم اسلام جیتو رہو میرے بچو... سب کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرتے نانا جی نے کہا. نانا جی آپ بھی جائے گئے نہ ہمارے ساتھ اعیرہ نانا جی کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی ہاں ہاں دادا جی بھی ہمارے ساتھ جائے گئے ادیرا نے اعیرہ کی ہاں میں ہاں ملائ.
جانا کہا ہے یہ تو بتاؤں نانا جی نے پیار کرتے ہوئے پوچھا.
ہم پہلے پکنک پر جائے گے پھر شوپنگ کے لیے اعیرہ نانا جی کے گلے لگتے ہوئے بولی. اعیرہ تم کب بڑی ہو گی آج بھی تم ویسی ہی ہو جیسے بچپن میں تھی شراتی نانا جی میں تو معصوم سی ننھی منی سی گڑیا ہو مجھے تو پتا بھی نہیں شرات کیسے کہتے ہیں. اعیرہ نانا جی کی بات سن کر مسکراتے ہوئے بولی. معصوم ننھی منی گڑیا وہ بھی تم کہی میں خواب تو نہیں دیکھ رہا. تم شیطان کی خالہ ہو مان نے ادیرا کو آنکھ مارتے ہوئے کہا. جی جی ٹھیک کہا بھائی آپ نے. تم دونوں تو جلتے رہنا بس. جلتی ہماری جوتی ہے میم ادیرا نے اعیرہ کی چوٹیا کھچنتے ہوئے کہا. اچھا اچھا اب بس کرو لڑنا نانا جی نے تینوں بچوں کو پیار کرتے ہوئے کہا میں تم تینوں سے بہت پیار کرتا ہوں بچوں کو گلے لگاتے ہوئے نانا جی نے کہا.
امی مجھے آواز دیتی میں آجاتی دودھ لینے کچن میں ادیرا نے امی کو کمرے میں آتے دیکھ لیا. چلو اب آپ تینوں اپنے کمرے میں جائے ابو جی آرام کرے گئے اب شاہین نے ابو جی کو دودھ دیتے ہوئے کہا.( شاہین ادیرا کی امی) شاہین جب سے شادی کر کے اس گھر میں آئی تھیں (عبداللہ صاحب شاہین کے سُسر) عبداللہ صاحب نے ہمیشہ باپ کی طرح پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے اس لیے شاہین عبد اللہ صاحب کو ابو جی کہتی تھیں. شب خیر صبح ملتے ہے کہتے ہوئے مان اعیرہ ادیرا اپنے اپنے کمرے میں گئے. اف اللہ یہ رات کب گزرے گی یہ رات پنکھے کو دیکھتے ہوئے اعیرہ منہ میں ممنائی.. اب سو جاؤں اعیرہ اور مجھے بھی سونے دو ادیرا نے کڑوٹ بدلتے ہوئے اعیرہ سے کہا.
انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے اس بات سے اعیرہ بھی انجان تھی قدرت نے کل کے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا.. کل جس دن کو وہ یاد گار بنانا چاہتے تھے وہ دن ان کے لیے درداور دکھ لے کر آرہا ہے....
شکیل اٹھے دیکھیں ابو جی کو کیا ہوا ہے کب سے آواز دے رہی ہو ابو اٹھ نہیں رے شاہین کمرے میں داخل ہوتے ہوئے
پریشانی سے شکیل کو کہا. (شکیل عبد اللہ صاحب کے بیٹے ادیرا مان کے والد) کیا ہوا ابو کو شکیل عبداللہ صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولے. ابو ابو شکیل صاحب نے دو بار عبد اللہ صاحب کو ابو ابو کہہ کر پکارا. لکن جواب میں صرف خاموشی ملی. شاہین جاؤں مان کو بولو ڈاکٹر کو بلائے جلدی, مان مان اٹھو بیٹا جلدی.. امی آج تو سونے دے آج تو چھٹی ہے مان نے امی کی آواز سنتے کڑوٹ بدلتے ہوئے کہا. مان دادا ابو جی کچھ بول نہیں رے اٹھو منیب انکل کو بلا کے لاؤں.( منیب آغا خان ہسپتال میں ڈاکٹر ہے) جی آچھا امی... اعیرہ ادیرا اٹھو بیٹا جلدی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے. کیا ہوا نانا جی کو اٹھتے ہی اعیرہ نے ممانی سے پوچھا پتہ نہیں بیٹا ابو کچھ بول نہیں نہ آنکھیں کھول رہے ہیں.
دادا جی پلیز آنکھیں کھولیں نہ ادیرا دادا جی کو آواز دیتے ہوئے بولی. اعیرہ دیکھوں نہ دادا جی کچھ بول نہیں رے نانا جی دیکھے آپ کی اعیرہ آپ کو بولا ری ہے پلیز بولے نہ آپ ہمیشہ کہتے ہے نہ اعیرہ آپ کی لاڈلی بیٹی ہے نہ پلیز نانا جی آنکھیں کھولیں نہ پلیز نانا جی.
امی منیب انکل آگئے ہٹو بیٹا مجھے دیکھ نے دو. منیب انکل دادا جی ٹھیک ہو جائے گئے نہ ادیرا نے روتے ہوئے پوچھا. ڈاکٹر منیب نے ہاتھ کی نبض چیک کرتے ہوئے کہا سوری عبداللہ صاحب اب ہم میں نہیں رہے. نہیں ایسا نہیں ہو سکتا نانا جی ہمیں ایسے چھوڑ کر نہیں جا سکتے صبر کروں بیٹا اللہ کی یہ مرضی ہوگی ڈاکٹر منیب اعیرہ اور ادیرا کو تسلی ہوئے بولے. اعیرہ اور ادیرا کو یقین نہیں
No comments:
Post a Comment