#دل_پہ_لگے_وہ_زخم_پیا
#از_قلم_ثمرین_شاہد
#پہلی_قسط
”میں کچھ پوچھ رہا ہوں ، کہاں گئی تھی تم ۔۔۔؟”
ڈری سہمی زارا کے ہاتھوں کو اپنے گرفت میں لیئے وہ اس سے پوچھ رہا تھا اسکی سخت گرفت اُسے اذیت دے رہی تھی ۔
چھوڑیں مجھے ۔۔۔درد ہورہا ہے ۔۔”
وہ اپنا بازو چھڑواتے ہوئے درد بھرے لہجے میں بولی آنسوؤں کے قطرے موتیوں کی شکل میں اسکی آنکھوں سے نکل کر رخسار پر بہنے لگے
”جب تک تم یہ نہیں بتادیتی کہ کہاں سے آرہی ہو ، تمہیں یونہی اذیت ملے گی ۔۔۔
اس نے اپنے ناخنوں کو اسکے بازو میں پیوست کردیا اور اپنی گرفت اور بھی مضبوط کرتے ہوئے آنکھوں میں بے پناہ غصّہ اور حقارت لیئے ہنکارہ تھا۔
زارا کی حلق سے ایک دل خراش چینخ نکلی اس نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ کر بامشکل مزید چیخ کو باہر آنے سے روکا۔
زبیر نے ایک جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑ دیا اور ڈک بھرتا کمرے سے نکل گیا جبکہ زارا وہیں ڈھ سی گئی یہ
روز روز کی اذیت اُسے موت کی طرف ڈھکیل رہی تھی اور وہ اس تکلیف کو سہتی رہتی ۔زبیر احمد سے اسکی شادی کو چھ ماہ ہی ہوئے تھے ، شروع کے دونوں سے ہی وہ اس پر شک کرتا، اسے مارتا پیٹتا ، کسی سے بات کرتا دیکھ اس سے طرح طرح کے سوال کرتا اور وہ سوائے معافی مانگنے کے کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی، یہی اسکا واحد سہارا تھا لیکن کب تک وہ اسکے دیئے زخموں کو خود پر برداشت کرسکتی تھی ، کبھی تو اسکے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا تھا۔
زارا ، عباس مرزا کی اکلوتی بیٹی تھی اسکی ماں رقیہ عباس اسکی پیدائش کے وقت ہی چل بسی تھیں ، اسکی پرورش عباس مرزا سے بڑی انوکھے انداز میں کی اسے ایک کانٹا بھی چھبنے نہیں دیا مگر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ بھی کچھ برس بعد اس دُنیا سے رُخصت ہوگئے اور زارا بے چاری اس مطلبی دُنیا میں اکیلے رہ گئی ، اسکی پھوپھو جان نے پہلے تو اسکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا مگر بہت جلد ہی انھوں نے بھی اپنی اصلیت دیکھا دی اپنے بھائی کی ساری دولت خود سمیٹ کر اس بے چاری سے نوکروں کی طرح گھر کا سارا کام کرواتیں ،رات دن طعنہ الگ دیتیں، محلے والوں کی باتیں سُن سُن کر ایک دن اسے زبیر احمد کے ساتھ نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جو اس سے عمر میں کافی بڑا تھا۔اس طرح انھیں اس بوجھ سے بھی چھٹکارہ مل گیا ۔
_____*___*___*_____
عباس صاحب مرزا خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے جبکہ ان سے بڑی دو بہنیں تھیں حلیمہ عباس اور ندا عباس ۔ شادی کے دس سال بعد اللہ نے انھیں بیٹے سے نوازہ تھا جس کی پیدائش پر مرزا خان اور انکی اہلیہ کلثوم شکر کرتے نہیں تھکتے تھے . عباس مرزا کو بہترین اسکول و کالج میں پڑھایا انھیں دُنیا کی ہر آسائش سے نوازہ اور جب وہ اس قابل ہوئے کہ اپنا اور اپنی فیملی کی کفالت کرسکیں تو انھوں نے ان کی شادی رقیہ نسیم سے کروادی جو انکی خالہ زاد تھیں لیکن شادی کے چند سال بعد مرزا خان اور انکی اہلیہ ایک کار ایکسیڈینٹ میں اس دُنیا سے کوچ کرگئے انھیں عباس مرزا کی اولاد بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا ۔ عباس مرزا کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ کچھ ماہ بعد انکی زوجہ رقیہ بھی چل بسیں .
___*__*___*___
حلیمہ مرزا کی شادی ایک بڑے گھرانے میں کردی گئی ملک نواز کا کاروبار بہت وسیع تھا اسی سلسلے میں وہ ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے اور وہاں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرنے لگے جبکہ ندا نے اپنی پسند سے شادی کی تھی اس بار بھی بیٹی کی پسند کو اہمیت دیتے ہوئے مرزا صاحب بھی خوش تھے لیکن کچھ دن بعد وہ اپنی معاشی حالت کو رونا رونے لگیں البتہ عباس مرزا نے اپنے ماں باپ کی مرضی سے ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔
____*___*___*____
کچھ دیر رونے کا شوغل پورا کرنے کے بعد وہ اُٹھ کر رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگی ، بازوؤں پر ناخن لگنے کے باعث اس جگہ سے خون رس کر جم چکا تھا اُسے اپنے اس زندگی سے بہت سے شکوے تھے مگر وہ زبیر کے ساتھ رہنے کےعلاوہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتی تھی پہلے ہی اسکی چھوٹی پھو پھو جان نے زندگی اس پر تنگ کردی تھی اور وہ یہاں سے جاتی بھی تو کہاں جاتی ، باقی جو بچے رشتے دار تھے وہ اسکے اس حال سے ناواقف بیرون ملک اپنی دُنیا میں گُم تھے وہ ان کے چہرے باپ کی حیات میں ہی دیکھ پائی تھی یتیمی نے اسکے سارے رشتے ختم کردیئے تھے جب ماں باپ میں سے کوئی بھی نہ رہے تو انسان کا اس دنیا میں کوئی نہیں بچتا اور زارا بھی تنہائی کا شکار ہوئی تھی ۔
وہ کھانا بناکر ٹیبل میں لگا چکی تھی اور زبیر کا انتظار کرنے لگی وہ جہاں بھی رہتا لیکن رات کے وقت لوٹ آتا تھا بہت کم ہی دن ایسا گزرتا جب وہ اس پر غصّہ نہیں کرتا لیکن زیادہ تر وہ اسکے غصّے اور وحشیانہ تشدد کے نذر ہوجاتی تھی۔
صبح پروش میں چاچی صاعقہ کی طبعیت خراب تھی انکا پوتا اسے بلانے آیا تو وہ بناء سوچے سمجھے اُس کے ساتھ چل دی لیکن کسی بیمار کی مدد اس پر اتنی بھاری پڑگئی کہ زبیر پھر سے اسے مارنے پیٹنے لگا اور وہ بے چاری یہ تک نہ کہہ پائی کہ وہ کسی کی عیادت کے لئے گئی تھی ، دروازے پر دستک اسے سوچوں کی دُنیا سے باہر لے آئی بناء تاخیر کیئے وہ دروازے کی طرف بڑھی یہ سُوچ کر کہ اگر زبیر ہوا تو اتنی دیر لگانے پر پھر سے طعنے کسے گا ۔
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے وہ ہی تھا ایک ہاتھ میں جیکٹ لیئے وہ لڑکھڑاتے ہوئے اسے سامنے سے ہٹاتے اندر داخل ہوا ۔
زارا نے بے بسی سے لب کانٹے پھر دروازہ بند کرتی اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی ،آج پھر وہ نشہ کرکے آیا تھا ، وہ بچپن سے سُنتی آئی تھی کہ نشہ مسلمانوں کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے قبل از اسلام قریش اس میں بُری طرح مبتلا تھے لیکن اسلام نے تمام باطل اور بُرائی کی طرف راغب کرنے والی اشیاء مسلمانوں پر حرام کردی وہ جس سے بہکنے کا اندیشہ ہو لیکن اسے ایک ایسا ہمسفر ملا تھا جو آئے روز نشہ میں دُھت رہتا تھا ۔ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک ایسا ہمسفر ملے جو اسکے لئے دُنیا سے لڑ جائے اسکا مجازی خدا اسکا محافظ ، اسکی خوشی کیلئے ہر جتن کرے مگر اسکی قسمت میں شاید یہی لکھا تھا اور وہ اسی طرح زندگی گزار رہی تھی اپنے رب کی ناشکری وہ کیسے کرتی اللہ کی آزمائش سمجھ کر ہر ظلم و ستم کو سہنا اس نے وقت کے ساتھ سیکھ لیا تھا۔
____*____*___*____
آج بھی وہ پورا دن کام کرکے تھک گئی تھی دُھلے کپڑوں کو سمیٹ کر تہہ کرنے لگی ۔ بہار کا موسم تھا ہر طرف ہریالی اور پھول ہی پھول کھلے تھے ، ٹھنڈی ہوا ہر آنے جانے والوں کو مسرت بخشتی مگر وہ اداسی کی مورت بنی کمرے میں پڑی رہتی باہر کا موسم خوشگوار ہونے کے باوجود بھی اسکے اندرکا غم اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کررہا تھا جب دل اندر سے زخمی ہو اور اندر کا موسم خار سے بھرا ہو تو باہر کی رنگینیاں بھی انسان کے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں پیدا کرتی اور اس نے تو کئی دُکھ جھیلے تھے ۔
دو دن کے لئے زبیر شہر سے باہر گیا تھا اس چار کمرے کے گھر میں جہاں آسائش کے تمام شئے موجود تھیں
زارا کو کسی آسیپ کی طرح دن رات ڈراتی رہتی اور وہ اپنے اس خوف کو ختم کرنے کےلئے کوئی ملازمہ بھی نہیں رکھ سکتی تھی ۔ زبیر کو اسکا کسی سے بات کرنا بلکل بھی پسند نہیں تھا چاہے وہ کوئی لڑکی ہی کیوں نہ ہو ۔
اس نے کپڑے تہہ کرکے الماری میں رکھا اور کھانا کھا کر لیٹ گئی لیکن نیند اس کے آنکھوں سے کوسوں دور کسی انجان وادی میں جیسے کُھو سی گئی تھی ، پوری رات وہ بس یونہی کروٹ بدلتے گزار دی جب زبیر ہوتا تھا تو کم از کم وہ سو تو جاتی تھی اسکی موجودگی اسے اکیلے گھر میں رہنے کے خوف سے نجات دلاتا تھا مگر اب وہ باقی اذیتوں کے ساتھ نیند نہ آنے جیسے مسئلے سے بھی دوچار رہی ۔۔
فجر کے وقت نماز پڑھنے کے بعد وہ کام سے جلدی فارغ ہوکر کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی نیند نہ آنے کی وجہ سے اسکی آنکھیں لال ہورہی تھیں اس نے صبح لاکھ سونے کی کوشش کی مگر نیند کی دیوی اس پر بامشکل ایک گھنٹے ہی مہربان رہی پھر سے وہ چونک کر اُٹھی جیسے کوئی اسے پُکار رہا ہو مگر پورا گھر خالی پڑا تھا ۔
وہ باہر کھیلتے بچّوں کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر کسی لڑکے پر پڑی جو بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے جلدی سے اپنی نظریں جُھکالی جب مسلسل خود پر اس کی نظروں کی تپش محسوس کیا تو وہ وہاں سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
”پتہ نہیں وہ مجھے کیوں گھور رہا تھا ،اگر زبیر دیکھ لیتے تو پھر سے ایک نیا تماشہ لگ جاتا ۔۔“
یہ سوچتے ہوئے اس نے جھرجُھری لی ۔
آج وہ آجائیں گے پھر ۔۔۔
اگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی البتہ وہ ہر اُس سوچ سے کنارہ کشی چاہتی تھی جو اسکے زخم پر نمک کا کام کرے۔
رات میں زبیر نے کال کر کے بتایا کہ وہ مزید کچھ دن نہیں آسکے گا اسکی غیر موجودگی میں وہ کسی سے بات نہ کرے ۔
اُسے اپنی ناقدری پر رہ رہ کر رونا آتا وہ اکثر یہی سوچتی کہ جس طرح بچپن میں بچے رو دھو کر اپنی بات منوالیتے ہیں کاش وہ بھی رو کر زبیر کو اپنی اہمیت کا احساس دلا سکے لیکن اسکے بے شمار آنسو بھی اس پتھر صف آدمی کے دل کو موم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے ورنہ وہ اُس پر یوں ظلم نہیں کرتا ،اس نے تو خود کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا تھا لیکن آج تک وہ یہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ آخر اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کیا جارہا ہے ۔
وہ ہر لحاظ سے خوبصورت تھی ایک سلیقہ شعار لڑکی ، شادابی رنگت اور بُھورے لمبے بال ، بڑی اور خوبصورت آنکھیں ،بناء میک اپ بھی وہ بلا کی حسین تھی لیکن اگر کوئی اس کی روح تک رسائی حاصل کرتا تو اسکے دل میں چُھپے دکھوں کا یہ محل دیکھ کر ایک بار ضرور اشک بار ہوتا ۔
____*____*____*___
وہ کچن میں کھڑی جلدی جلدی پین کیک بنا رہی تھی جب دروازے پر بیل ہوئی ۔
” اس وقت کون ہوگا؟۔۔“
ایک پر پھر بیل کی آواز اسکے سماعت سے ٹکرائی ۔
اس نے جلدی سے کیک کو اوون میں ڈالا ٹائم سیٹ کرکے وہ قدم قدم چل کر دروازے تک آئی ۔
"کون ہے؟ "
لیکن جواب ندادر ،آنے والا جیسے گونگا ہو ۔
اس بار وہ ڈرتے ڈرتے پوچھی تھی
”کون ہے بولتا کیوں نہیں ۔۔؟“
"کھولیں ،آپکا ہمسایہ !"
ایک مردانہ آواز سُنائی دی ۔
"دیکھیں ، آپ جو بھی ہیں مہربانی کرکے یہاں سے چلے جائیں۔۔۔"
وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی ،وہ کسی انجان آدمی کے ساتھ نرمی برتنا نہیں چاہتی تھی ۔
اس لئے اس نے رعب دار اور کھردرے لہجے میں کہا
”ارے آپ کیسی بے مروت ہیں ، میری بات سُنے بغیر ہی مجھے یہاں سے چلتا کررہی ہیں ،آپ جب تک میری بات نہیں سُن لیتی ہیں میں یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔“
اٹل لہجے میں کہا گیا ۔
”عجیب مصیبت ہے اگر زبیر آگئے اور اسے گھر کے باہر دیکھ لیا تو مجھ پر ہی شک کرینگے ۔۔“
یہ سوچ ہی اسے ڈرا گئی۔
„دیکھیں مسٹر ۔۔۔ میں اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں ایسے ہی کسی سے بات نہیں کرسکتی اس لئے اچھا ہوگا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں ۔“
وہ دو ٹوک انداز میں بولی ۔
میں خود بھی آپ کو تنگ نہیں کرتا محترمہ!! لیکن میں چائے بنانے لگا تھا اور دودھ ختم ہوگیا ہے ،میں دو دن پہلے ہی یہاں رہنے آیا ہوں ؟ مجھے اس جگے کا زیادہ علم نہیں تو سوچا آپ سے ادھار لے لوں، سچ میں آپ کو واپس کردونگا ۔۔۔
اس نے بولنا شروع کیا توبناء بریک کے بولتا چلا گیا ۔
وہ پوری کہانی سُننے میں زرا بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھی وہ دروازے کو کھول کر اپنا آدھ چہرہ باہر نکال کر اسکا جائزہ لینے لگی جو رف سی ٹی شرٹ اور بیلو جینز میں تھا جو گھنٹوں تک آتے تھے یہ وہی آدمی تھا جسے وہ کل دیکھ چکی تھی ۔
معذرت چاہتی ہوں لیکن میرے پاس بھی نہیں ہے کہتی دروازہ بند کرنے لگی مگر اچانک سے سامنے کھڑا نوجوان نے اپنا بازو دروازے کے درمیان حائل کرکے دروازہ بند ہونے سے روکا ۔
"آپ اسطرح منع نہیں کرسکتی ،میں کہہ تو رہا ہوں لوٹا دوں گا۔۔"
وہ برہم ہوکر بولا جیسے وہ رکھتے ہوئے جھوٹ بول رہی ہو۔
وہ بہت ڈھیٹ ثابت ہوا تھا وہاں سے ہلنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور زارا اندر ہی اندر ڈر کے مارے کپکپارہی تھی وہ جتنا چاہتی تھی کہ اسے جلدی سے فارغ کرے اتنا وہ یہاں ڈٹ کر بحث کرنے پر تُلا تھا۔
اس نے سامنے کھڑے شخص کو گُھوری سے نوازہ پھر وہ اندر چلی گئی ۔
"عجیب لڑکی ہے ایک زرا سا دودھ کیا مانگ لیا لڑنے ہی لگ گئی لیکن ہائے یہ چائے کی طلب ۔۔۔"
اس نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنے سینے پر ٹوکا دیا اور اسکے آنے کا انتظار کرنے لگا
کچھ دیر بعد جب لوٹی تو اسکے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا ،باہر کھڑے آدمی کو تھما کر زور سے دروازہ بند کردی "،اب مت آنا ۔۔"
وہ دانت پیستے ہوئے اسے باور کراگئی تھی
”شیرنی نہ ہوتو۔۔۔ اونہہ۔“
ایک زرا سی چائے کی تو مانگ تھی ورنہ میں اسکے منہ ہی نہ لگتا ، کیسے لوگ بستے ہیں یہاں ہمارے گھر کوئی آئے تو اسے چائے تو چائے کھانا کھلاکر بھیجا جاتا ہے۔۔۔ وہ اپنی تزلیل پر بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔
جبکہ زارا کی جان میں جان آئی تھی ۔
___*___*___*____
No comments:
Post a Comment